پس منظر بھی ہوتا ہے ہر منظر کا
اشعار کی کہانی، شعرا ء کی زبانی
قائدِملت نواب بہادر یار جنگ کی سوانح تحریر کرتے ہوئے نذیر الدین احمد لکھتے ہیں، نواب بہادر یار جنگ نہ صرف اعلٰی شعری ذوق کے حامل تھے بلکہ گاہے گاہے خود بھی معیاری اشعار کہا کرتے تھے۔ شاعری میں وہ اپنا تخلص ''خلقؔ'' اختیار کرتے تھے۔
نواب صاحب کو سیاست کے میدان سے علیحدہ رکھنے کے لیے والیٔ ریاست حیدرآباد نے حکم جاری کیا کہ جاگیردار طبقے کا کوئی فرد سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا۔ اس فرمان کا حقیقی مقصد بالخصوص نواب صاحب کو اور بالعموم دیگر احباب کو عملی سیاست سے باز رکھنا تھا۔ لہٰذا حکم شاہی کی غرض و غایت کو سمجھتے ہوئے قائدِملت نے اپنی جاگیر اور خطاب والیٔ ریاست کو لوٹا دیا۔ ہم دردوں نے جب وجہ دریافت کی تو آپ نے یہ منظوم جواب پیش کیا:
؎آگئے تھے برق کی زد میں تمام اہلِ چمن
ہم نے اپنے آشیانے کو مقابل کر دیا
جگر ؔبریلوی اپنی آپ بیتی ''حدیثِ خودی'' میں رقم طراز ہیں کہ دورانِ ملازمت مجھے بدایوں میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ میری رہائش گاہ کے صدر دروازے کے کواڑ کی چول میں لال بھڑوں نے چھتا بنا رکھا تھا۔ میں نے حفاظتی نقطہ نظر سے وہ چھتا اتار دیا اور متعلقہ جگہ پر گیلی مٹی تھوپ دی۔ باہر سے بھڑیں آتی تھیں اور چھتے کی جگہ سے سر ٹکرا کر چلی جاتی تھیں۔ اسی اثناء میں ایک بھڑ اڑتے اڑتے چکر لگا کر زمیں پر بیٹھی اور قریب بکھری ہوئی گیلی مٹی کا ایک ننھا سا دھیلا اٹھا کر چھتے کی طرف بڑھی، گویا وہ پھر سے اپنے چھتے کی تعمیر نو کرنا چاہ رہی ہو۔ میں جو بغور یہ سارا عمل دیکھ ر ہا تھا، میرا دماغ فوراً تخیلاتی طور پر متحرک ہوا اور میں نے درج ذیل شعر موزوں کیا:
؎پھر عندلیب ِ زار نے تنکے اٹھا لیے
شاید چمن اجڑنے کی اس کو خبر نہیں
نزول شعر کے ایک اور پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے جگرؔ بریلوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالتی کارروائی کے اجلاس میں شامل ہوا۔ کانگریسی جانثاروں کے مقدمات پیش ہوئے، جن پر نمک بنانے کا الزام تھا۔ گاندھی جی کی قیادت میں نمک سازی کی تحریک ان دنوں زوروں پر تھی۔ مجسٹریٹ کے روبرو ملزم آتے، صفائی دینے سے انکار کرتے ہوئے اقبالِ جرم کرتے، سزا کا حکم سنتے اور خوشی خوشی سر جھکائے عدالت سے باہر چلے جاتے۔ اس وقت کے منظرنامے سے متاثر ہوکر میں نے یہ شعر قلم بند کیا:
جس پہ رنگینیٔ عالم کی بنا قائم ہے
غور سے کی جو نظر خونِ شہیداں نکلا
علامہ واقفؔ عظیم آبادی کی حیات و خدمات پر مرتب کردہ کتاب میں ڈاکٹر نسیم اختر لکھتے ہیں کہ واقف ؔعظیم آبادی جب پٹنہ میں آئے تو سنگم میں پناہ لی۔ جاڑے کی ایک صبح نمازِفجر کے لیے مسجد پہنچے تو دیکھا کہ امامِِ مسجد ایک سوتی چادر اوڑھے سردی سے کانپ رہے تھے جب کہ مقتدی حضرات سویٹر، شیروانی اور موٹی اونی شالیں اوڑھے ہوئے پُرسکون تھے۔ مجھے بہت تاسف ہوا، اور گھر آ کر میں نے اپنے جذبات کو اس طرح شعر میں ڈھالا:
؎وہ نشہ ہے تیری نماز میں، وہ خمارِناز حرام ہے
فقط ایک سجدۂ سہو ہے، جو تیرا غریب امام ہے
شعراء و ادباء کے مراسلاتی انٹرویوز پر مشتمل کتاب ''ادبی انٹرویوز'' میں ضیاء ؔفتح پوری اپنی نزول شعر کی کیفیات سے آگاہ کرے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک روز فکرشعروسخن میں محو سڑک پر جا رہا تھا کہ سامنے سے ایک کم سن لڑکی اپنی دھن میں مست اٹھکیلیاں کرتی آرہی تھی۔ اس کے چہرے کے بھولپن اور اس کی شرارت آمیز مستی سے بھرپور چال دیکھ کر بے ساختہ درج ذیل شعر کی آمد ہوئی:
ابھی سے چال میں اٹکھیلیاں جب اتنی ہیں
خرامِ ناز جوانی میں کیا سے کیا ہوگا
فیضؔ صاحب کی شاعری کے ایک وقیع حصے کا پس منظر بیان کرتی کتاب ''ہم جیتے جی مصروف رہے'' کے مصنف آغا ناصر کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ فیضؔ صاحب اپنے گردوپیش کے حالات و واقعات کا بغور مشاہدہ کرنے والے ایک صاحب احساس شاعر تھے۔ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑ ے سے بڑا ہر وہ واقعہ، جو انہیں خوش یا غم زدہ کرتا، وہ اسے شعری انداز میں قلم بند کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حتٰی کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنے آبائی گاؤں کالا قادر (ضلع نارووال) گئے اور وہاں کی اس مسجد میں باجماعت نماز ادا کی، جہاں انہوں نے اپنے بچپن کے زمانے میں قرآن کے ابتدائی دس پارے حفظ کیے تھے۔ اپنے اسی گاؤں تک پختہ سڑک بننے کی ان کی خواہش پوری ہوئی تو انہوں نے اس معمولی خوش گوار واقعے کو بھی اپنے مخصوص شاعرانہ رنگ میں اس طرح بیان کیا:
؎نہ جانے کتنے زمانوں سے اس کا ہر رستہ
مثالِ خانۂ بے خانماں تھا در بستہ
خوشا کہ آج بہ فضلِ خدا وہ دن آیا۰۰۰!!
کہ دستِ غیب نے اس گھر کی در کشائی کی
چُنے گئے ہیں سبھی خار اس کی راہوں کے
سُنی گئی ہے بالآ خر برہنہ پائی کی
اسی کتاب میں درج ہے کہ حیدرآباد جیل میں قید کے دوران ہر چوتھے، پانچویں روز پولیس کا کوئی بڑا افسر آتا اور فیض ؔصاحب سے تفتیش کے ضمن میں ان سے ذاتی کوائف، املاک، جائیداد، بینک بیلنس وغیرہ کے بارے میں پوچھ گچھ کرتا، جو فیضؔ صاحب کے طبیعت پر بہت گراں گزرتا تھا۔ سوالات کا یہ سلسلہ جب مستقل صورت اختیار کرگیا اور فیضؔ صاحب اس طریقۂ کار سے بہت عاجز آ گئے تو انہوں نے اس قطعے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا جو بعد ازآں زبانِ زدِخاص و عام ہوگیا:
؎ہم خستہ تنوں سے محتسبوں!! کیا مال منال کا پوچھتے ہو؟
جو عمر سے ہم نے بھر پایا وہ سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مُشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خون حسرت مئے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام لنڈھائے دیتے ہیں
عرشی سلطانی کی کتاب ''محسن ؔبھوپالی، ایک مطالعہ'' میں شامل ایک تحریری انٹرویو میں محسن ؔبھوپالی بتاتے ہیں کہ قائداعظم کی وفات کے بعد یہ طے ہوا کہ نواب آف بھوپال کو گورنر جنرل بنایا جائے گا، مگر خواجہ ناظم الدین کو بطور گورنر جنرل تعینات کیا گیا۔ لیکن پھر لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین کو وزیراعظم کے عہدے پر مقرر کر کے ایک بیوروکریٹ غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا گیا، جن کا سرے سے کوئی سیاسی پس منظر تھا ہی نہیں۔ آئے روز کے اس سیاسی تماشوں کو دیکھ دیکھ کر ہم جیسے محب وطن نوجوانوں کا پیمانہ صبر چھلک اٹھا اور میں نے درج ذیل شعر کہا:
؎نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل اسے ملی جو شریک سفر نہ تھا
بعد میں محسن بھوپالی نے دوسرا مصرعہ بدل کر ''منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے'' کردیا۔
نظیر صدیقی اپنی کتاب ''ڈاکٹر عندلیب ؔشادانی، ایک مطالعہ'' میں لکھتے ہیں کہ عندلیب شاؔدانی نے ایک مرتبہ عزیز احمد کا لکھا ناول ''شبنم ''پڑھا، جس کا مرکزی خیال ان کے نزدیک یہ تھا کہ جس طرح محبت مستقل وصال میں زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مسلسل فراق میں بھی زندہ نہیں رہتی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وصال میں محبت جلد فنا ہوجاتی ہے اور فراق میں اس کا خاتمہ بتدریج ہوتا ہے۔ اس خیال کو عندلیب ؔنے کچھ یوں شعری انداز میں بیان کیا:
؎وصال، مرگِ محبت ہے، اور فراق میں بھی
سسک سسک کے محبت کا دم نکلتا ہے
اسی طرح ایک مرتبہ انہوں نے جدید فرانسیسی ماہرِنفسیات آندرے تری دون کی کتاب ''phsyco analysis and love '' میں پڑھا کہ بھوک کی مانند محبت بالکل غیرارادی خواہش ہے۔ ہم کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں لیکن اپنے آپ کو محبت کرنے سے باز نہیں رکھ سکتے۔ اسی طرح کسی سے بالارادہ محبت کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس نظریے کو شادانیؔ صاحب نے اس طرح شاعرانہ رنگ میں سپردِ قلم کیا:
؎دل جدھر جُھکا، جُھکا اور جہاں رُکا، رُکا
کوئی بے وفا نہیں، کوئی باوفا نہیں
معروف ادیب، شاعر اور اپنے دور کے بے باک صحافی مرتضی احمد خان میکشؔ حالات حاضرہ پر اپنے بے لاگ تبصروں کے سبب خاصے مشہور تھے۔ آزادی ہند سے قبل، متحدہ ہندوستان میںجن دنوں وہ ''روزنامہ شہباز'' میں بطور مدیر اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے، ان دنوں، برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین پر مشتمل انگریزوں کا ایک وفد ہندوستان کی سیاسی قیادت سے ہندوستان کی آزادی کے موضوع پر گفتگو کرنے لاہور آیا۔ وفد کے طرزعمل سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ سردست ہندوستان کو آزاد نہیں کرنا چاہتے۔ اس صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے میکش ؔنے اپنے اخبار کا اداریہ لکھا، جس کا آغاز اپنے درج ذیل شعر سے کیا:
؎پوچھنے آتے ہیں ہر روز اسیروں کے مزاج
یہ نہیں کہتے کہ جاؤ!! تمہیں آزاد کیا
اردو زبان و ادب کے ماہر، معتبرشاعر اور نثرنگار پروفیسر ذوالفقار حسین اپنی ادبی یادداشتوں پر مبنی ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ میرا شمار شکیل عادل زادہ کے زیرادارت شائع ہونے والے ''سب رنگ'' کے مستقل قارئین میں تھا۔ معیاری کہانیوں کے علاوہ رسالے میں شائع ہونے والی تصاویر بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ ایک روز دورانِ مطالعہ میری نظر ایک تصویر پر پڑی جس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک خوبرو خاتون چمن میں موجود پھولوں کے ایک پودے کے پاس کھڑی گلاب کے پھول کو بغور دیکھ رہی ہے، جب کہ ایک تتلی اس کے چہرے کے بالمقابل محوپرواز ہے۔ اس تصویر نے مجھ پر ایسا اثر کیا کہ میں نے فوراً درج ذیل دو اشعار تحریر کیے:
؎نظریں ہیں جھکی جیسے گنہگار کی گردن
پلکیں کسی عابد کی طرح ہاتھ اٹھائے
گلشن میں اِدھر تُو ہے اُدھر پھول کھلے ہیں
تتلی ہے پریشان کہ جائے تو کدھر جائے؟
ادیب و دانشور پروفیسر شوکت واسطی اپنی خودنوشت ''کہتا ہوں سچ'' میں لکھتے ہیں کہ ایبٹ آباد میں قیام کے دوران، بنگالی طلباء کا ایک وفد مرکزی وزیرتعلیم فضل الرحمان کی معیت میں بغرض سیاحت ایبٹ آباد آیا۔ اس وفد کے اعزاز میں ڈاکٹر احسان اللہ نے پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا جس میں خواتین کالج کی چند لیکچرار بھی مدعو تھیں۔ دوران تقریب ڈاکٹر صاحب کے اصرار پر میں نے ترنم سے غزل سنائی، جس کے اختتام پر کسی جانب سے ایک اور غزل کی فرمائش کی گئی جس کی بجا آوری کے نتیجے میں تقریب کے اگلے دن شکریہ کے ساتھ پُرخلوص سلام موصول ہوا جو خواتین کالج کی تاریخ کی اس لیکچرار کی جانب سے تھا، جنہوں نے دوسری غزل کی فرمائش کی تھی۔ سلام دعا کا یہ واسطہ جلد ہی بے تکلف ملاقاتوں میں بدل گیا۔ اس حورشمائل کو دیکھا تو بے اختیار یہ شعر وارد ہوا:
؎رخسار و لب کا عالم ِ گُل آفریں نہ پوچھ
قائل نہیں رہے سحر ِ گلستاں کے لوگ
مزاج کی مطابقت، ذوق کی ہم آہنگی، اور تکمیلِ ذات بذریعہ عشق کرنے کی پیہم خواہش کے باوجود جلد ہی اس پروان چڑھتی راہ و رسم کا سلسلہ، معاشرے کی سخت گیر، محبت کُش روایات کی بھینٹ چڑھ گیا کہ میری ازدواجی زندگی میں اولاد جیسی نعمت آچکی تھی، اور اب میں اپنی اس آسودہ زندگی کو عدم اعتماد کی تلخیوں کی نذر نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ میں نے ان دم توڑتے جذبات کو زبان دی تو احساس کچھ اسطرح شعری پیمانے میں ڈھلا کہ:
؎ہر بات زندگی میں بڑی دیر سے ہوئی
منزل پہ آگئے تو ہمیں ہم سفر ملا!!
ادیب اور شاعر پروفیسر نکہت شاہجہاں پوری اپنی کتاب ''مجاز و حقیقت'' میں لکھتے ہیں کہ میرا ایک دوست کسی اداکارہ کے عشق میں بری طرح مبتلا ہوگیا۔ دل پھینکا، روپیہ پھونکا، مگر دل کی مراد بر نہ آئی۔ ایک دن جب اس کے دفتر پہنچا تو دیکھا کہ وہ اداکارہ کی جانب سے آئے ایک خط کو میز پر اپنے سامنے پھیلائے رو رہا تھا۔ میں نے ڈھارس بندھائی تو کہنے لگا کہ جواب الجواب کے طور پر چند ایسے اشعار تحریر کرو کہ وہ سنگ دل پسیج جائے اور گلۂ تغافل کام کرجائے۔ ان آنسوؤں کا اثر کہیے یا جذبہ ہم دردی کہ میں نے قلم اٹھایا اور برجستہ چارا شعار لکھ کر اپنے دوست کے حوالے کر دیے:
؎کسی کے خرمنِ اُمید پہ بجلی گرا دینا
کسی بے کس کی دنیا کو بنا کر یوں مٹا دینا
کسی بے کس کو تڑپانا وفاداری کے پردے میں
دلِ پُر شوق کو رہ رہ کے جھوٹا آسرا دینا
کبھی جذبات ِ رنگیں سے سرورِ زندگی بننا
کبھی بڑھتی ہوئی پینگیں محبت کی بڑھا دینا
بتاؤ تو کہ یہ انداز تم نے کس سے سیکھے ہیں
مسیحا بن کے بیماروں کو پیغامِ قضادینا
نزولِ اشعار کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ مزید لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب طویل عرصے تک میری طبیعت نا ساز رہی اور ہر چیز سے دل بے زار رہنے لگا، تو ایک شام میں ٹہلتا ہوا گھر سے باہر قریب کے کرکٹ گراؤنڈجا پہنچا۔ ایک گوشے میں سبزہ زار پر بیٹھ کر گردونواح کا جائزہ لینے لگا، تو دیکھا کہ تاحدِنظر کھلا ہوا نیلا آسمان، شام کی رُوپہلی سنہری دھوپ، فضا میں سربلند پیڑ، امنگوں سے بھرپور نوجوان، مزاج پر خوشگوار اثر ڈالنے لگے۔ دھیرے دھیرے ذہن متحرک ہونے لگا اور محسوسات لفظوں کی شکل اختیار کرنے لگے، زمین و آسمان کے مالک سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
؎تمہیں سے جس کا جینا ہو تمہیں سے جس کا مرنا ہو
نہ اس بیمارِغم کا آسرا دیتے تو کیا ہوتا
یہ کیا کم ہے تمہاری یاد سے دل کو تسلی ہے
اگر یہ شمعِ اُلفت بھی بجھا دیتے تو کیا ہوتا؟
نواب صاحب کو سیاست کے میدان سے علیحدہ رکھنے کے لیے والیٔ ریاست حیدرآباد نے حکم جاری کیا کہ جاگیردار طبقے کا کوئی فرد سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا۔ اس فرمان کا حقیقی مقصد بالخصوص نواب صاحب کو اور بالعموم دیگر احباب کو عملی سیاست سے باز رکھنا تھا۔ لہٰذا حکم شاہی کی غرض و غایت کو سمجھتے ہوئے قائدِملت نے اپنی جاگیر اور خطاب والیٔ ریاست کو لوٹا دیا۔ ہم دردوں نے جب وجہ دریافت کی تو آپ نے یہ منظوم جواب پیش کیا:
؎آگئے تھے برق کی زد میں تمام اہلِ چمن
ہم نے اپنے آشیانے کو مقابل کر دیا
جگر ؔبریلوی اپنی آپ بیتی ''حدیثِ خودی'' میں رقم طراز ہیں کہ دورانِ ملازمت مجھے بدایوں میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ میری رہائش گاہ کے صدر دروازے کے کواڑ کی چول میں لال بھڑوں نے چھتا بنا رکھا تھا۔ میں نے حفاظتی نقطہ نظر سے وہ چھتا اتار دیا اور متعلقہ جگہ پر گیلی مٹی تھوپ دی۔ باہر سے بھڑیں آتی تھیں اور چھتے کی جگہ سے سر ٹکرا کر چلی جاتی تھیں۔ اسی اثناء میں ایک بھڑ اڑتے اڑتے چکر لگا کر زمیں پر بیٹھی اور قریب بکھری ہوئی گیلی مٹی کا ایک ننھا سا دھیلا اٹھا کر چھتے کی طرف بڑھی، گویا وہ پھر سے اپنے چھتے کی تعمیر نو کرنا چاہ رہی ہو۔ میں جو بغور یہ سارا عمل دیکھ ر ہا تھا، میرا دماغ فوراً تخیلاتی طور پر متحرک ہوا اور میں نے درج ذیل شعر موزوں کیا:
؎پھر عندلیب ِ زار نے تنکے اٹھا لیے
شاید چمن اجڑنے کی اس کو خبر نہیں
نزول شعر کے ایک اور پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے جگرؔ بریلوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالتی کارروائی کے اجلاس میں شامل ہوا۔ کانگریسی جانثاروں کے مقدمات پیش ہوئے، جن پر نمک بنانے کا الزام تھا۔ گاندھی جی کی قیادت میں نمک سازی کی تحریک ان دنوں زوروں پر تھی۔ مجسٹریٹ کے روبرو ملزم آتے، صفائی دینے سے انکار کرتے ہوئے اقبالِ جرم کرتے، سزا کا حکم سنتے اور خوشی خوشی سر جھکائے عدالت سے باہر چلے جاتے۔ اس وقت کے منظرنامے سے متاثر ہوکر میں نے یہ شعر قلم بند کیا:
جس پہ رنگینیٔ عالم کی بنا قائم ہے
غور سے کی جو نظر خونِ شہیداں نکلا
علامہ واقفؔ عظیم آبادی کی حیات و خدمات پر مرتب کردہ کتاب میں ڈاکٹر نسیم اختر لکھتے ہیں کہ واقف ؔعظیم آبادی جب پٹنہ میں آئے تو سنگم میں پناہ لی۔ جاڑے کی ایک صبح نمازِفجر کے لیے مسجد پہنچے تو دیکھا کہ امامِِ مسجد ایک سوتی چادر اوڑھے سردی سے کانپ رہے تھے جب کہ مقتدی حضرات سویٹر، شیروانی اور موٹی اونی شالیں اوڑھے ہوئے پُرسکون تھے۔ مجھے بہت تاسف ہوا، اور گھر آ کر میں نے اپنے جذبات کو اس طرح شعر میں ڈھالا:
؎وہ نشہ ہے تیری نماز میں، وہ خمارِناز حرام ہے
فقط ایک سجدۂ سہو ہے، جو تیرا غریب امام ہے
شعراء و ادباء کے مراسلاتی انٹرویوز پر مشتمل کتاب ''ادبی انٹرویوز'' میں ضیاء ؔفتح پوری اپنی نزول شعر کی کیفیات سے آگاہ کرے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک روز فکرشعروسخن میں محو سڑک پر جا رہا تھا کہ سامنے سے ایک کم سن لڑکی اپنی دھن میں مست اٹھکیلیاں کرتی آرہی تھی۔ اس کے چہرے کے بھولپن اور اس کی شرارت آمیز مستی سے بھرپور چال دیکھ کر بے ساختہ درج ذیل شعر کی آمد ہوئی:
ابھی سے چال میں اٹکھیلیاں جب اتنی ہیں
خرامِ ناز جوانی میں کیا سے کیا ہوگا
فیضؔ صاحب کی شاعری کے ایک وقیع حصے کا پس منظر بیان کرتی کتاب ''ہم جیتے جی مصروف رہے'' کے مصنف آغا ناصر کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ فیضؔ صاحب اپنے گردوپیش کے حالات و واقعات کا بغور مشاہدہ کرنے والے ایک صاحب احساس شاعر تھے۔ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑ ے سے بڑا ہر وہ واقعہ، جو انہیں خوش یا غم زدہ کرتا، وہ اسے شعری انداز میں قلم بند کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حتٰی کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنے آبائی گاؤں کالا قادر (ضلع نارووال) گئے اور وہاں کی اس مسجد میں باجماعت نماز ادا کی، جہاں انہوں نے اپنے بچپن کے زمانے میں قرآن کے ابتدائی دس پارے حفظ کیے تھے۔ اپنے اسی گاؤں تک پختہ سڑک بننے کی ان کی خواہش پوری ہوئی تو انہوں نے اس معمولی خوش گوار واقعے کو بھی اپنے مخصوص شاعرانہ رنگ میں اس طرح بیان کیا:
؎نہ جانے کتنے زمانوں سے اس کا ہر رستہ
مثالِ خانۂ بے خانماں تھا در بستہ
خوشا کہ آج بہ فضلِ خدا وہ دن آیا۰۰۰!!
کہ دستِ غیب نے اس گھر کی در کشائی کی
چُنے گئے ہیں سبھی خار اس کی راہوں کے
سُنی گئی ہے بالآ خر برہنہ پائی کی
اسی کتاب میں درج ہے کہ حیدرآباد جیل میں قید کے دوران ہر چوتھے، پانچویں روز پولیس کا کوئی بڑا افسر آتا اور فیض ؔصاحب سے تفتیش کے ضمن میں ان سے ذاتی کوائف، املاک، جائیداد، بینک بیلنس وغیرہ کے بارے میں پوچھ گچھ کرتا، جو فیضؔ صاحب کے طبیعت پر بہت گراں گزرتا تھا۔ سوالات کا یہ سلسلہ جب مستقل صورت اختیار کرگیا اور فیضؔ صاحب اس طریقۂ کار سے بہت عاجز آ گئے تو انہوں نے اس قطعے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا جو بعد ازآں زبانِ زدِخاص و عام ہوگیا:
؎ہم خستہ تنوں سے محتسبوں!! کیا مال منال کا پوچھتے ہو؟
جو عمر سے ہم نے بھر پایا وہ سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مُشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خون حسرت مئے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام لنڈھائے دیتے ہیں
عرشی سلطانی کی کتاب ''محسن ؔبھوپالی، ایک مطالعہ'' میں شامل ایک تحریری انٹرویو میں محسن ؔبھوپالی بتاتے ہیں کہ قائداعظم کی وفات کے بعد یہ طے ہوا کہ نواب آف بھوپال کو گورنر جنرل بنایا جائے گا، مگر خواجہ ناظم الدین کو بطور گورنر جنرل تعینات کیا گیا۔ لیکن پھر لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین کو وزیراعظم کے عہدے پر مقرر کر کے ایک بیوروکریٹ غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا گیا، جن کا سرے سے کوئی سیاسی پس منظر تھا ہی نہیں۔ آئے روز کے اس سیاسی تماشوں کو دیکھ دیکھ کر ہم جیسے محب وطن نوجوانوں کا پیمانہ صبر چھلک اٹھا اور میں نے درج ذیل شعر کہا:
؎نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل اسے ملی جو شریک سفر نہ تھا
بعد میں محسن بھوپالی نے دوسرا مصرعہ بدل کر ''منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے'' کردیا۔
نظیر صدیقی اپنی کتاب ''ڈاکٹر عندلیب ؔشادانی، ایک مطالعہ'' میں لکھتے ہیں کہ عندلیب شاؔدانی نے ایک مرتبہ عزیز احمد کا لکھا ناول ''شبنم ''پڑھا، جس کا مرکزی خیال ان کے نزدیک یہ تھا کہ جس طرح محبت مستقل وصال میں زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مسلسل فراق میں بھی زندہ نہیں رہتی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وصال میں محبت جلد فنا ہوجاتی ہے اور فراق میں اس کا خاتمہ بتدریج ہوتا ہے۔ اس خیال کو عندلیب ؔنے کچھ یوں شعری انداز میں بیان کیا:
؎وصال، مرگِ محبت ہے، اور فراق میں بھی
سسک سسک کے محبت کا دم نکلتا ہے
اسی طرح ایک مرتبہ انہوں نے جدید فرانسیسی ماہرِنفسیات آندرے تری دون کی کتاب ''phsyco analysis and love '' میں پڑھا کہ بھوک کی مانند محبت بالکل غیرارادی خواہش ہے۔ ہم کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں لیکن اپنے آپ کو محبت کرنے سے باز نہیں رکھ سکتے۔ اسی طرح کسی سے بالارادہ محبت کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس نظریے کو شادانیؔ صاحب نے اس طرح شاعرانہ رنگ میں سپردِ قلم کیا:
؎دل جدھر جُھکا، جُھکا اور جہاں رُکا، رُکا
کوئی بے وفا نہیں، کوئی باوفا نہیں
معروف ادیب، شاعر اور اپنے دور کے بے باک صحافی مرتضی احمد خان میکشؔ حالات حاضرہ پر اپنے بے لاگ تبصروں کے سبب خاصے مشہور تھے۔ آزادی ہند سے قبل، متحدہ ہندوستان میںجن دنوں وہ ''روزنامہ شہباز'' میں بطور مدیر اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے، ان دنوں، برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین پر مشتمل انگریزوں کا ایک وفد ہندوستان کی سیاسی قیادت سے ہندوستان کی آزادی کے موضوع پر گفتگو کرنے لاہور آیا۔ وفد کے طرزعمل سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ سردست ہندوستان کو آزاد نہیں کرنا چاہتے۔ اس صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے میکش ؔنے اپنے اخبار کا اداریہ لکھا، جس کا آغاز اپنے درج ذیل شعر سے کیا:
؎پوچھنے آتے ہیں ہر روز اسیروں کے مزاج
یہ نہیں کہتے کہ جاؤ!! تمہیں آزاد کیا
اردو زبان و ادب کے ماہر، معتبرشاعر اور نثرنگار پروفیسر ذوالفقار حسین اپنی ادبی یادداشتوں پر مبنی ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ میرا شمار شکیل عادل زادہ کے زیرادارت شائع ہونے والے ''سب رنگ'' کے مستقل قارئین میں تھا۔ معیاری کہانیوں کے علاوہ رسالے میں شائع ہونے والی تصاویر بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ ایک روز دورانِ مطالعہ میری نظر ایک تصویر پر پڑی جس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک خوبرو خاتون چمن میں موجود پھولوں کے ایک پودے کے پاس کھڑی گلاب کے پھول کو بغور دیکھ رہی ہے، جب کہ ایک تتلی اس کے چہرے کے بالمقابل محوپرواز ہے۔ اس تصویر نے مجھ پر ایسا اثر کیا کہ میں نے فوراً درج ذیل دو اشعار تحریر کیے:
؎نظریں ہیں جھکی جیسے گنہگار کی گردن
پلکیں کسی عابد کی طرح ہاتھ اٹھائے
گلشن میں اِدھر تُو ہے اُدھر پھول کھلے ہیں
تتلی ہے پریشان کہ جائے تو کدھر جائے؟
ادیب و دانشور پروفیسر شوکت واسطی اپنی خودنوشت ''کہتا ہوں سچ'' میں لکھتے ہیں کہ ایبٹ آباد میں قیام کے دوران، بنگالی طلباء کا ایک وفد مرکزی وزیرتعلیم فضل الرحمان کی معیت میں بغرض سیاحت ایبٹ آباد آیا۔ اس وفد کے اعزاز میں ڈاکٹر احسان اللہ نے پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا جس میں خواتین کالج کی چند لیکچرار بھی مدعو تھیں۔ دوران تقریب ڈاکٹر صاحب کے اصرار پر میں نے ترنم سے غزل سنائی، جس کے اختتام پر کسی جانب سے ایک اور غزل کی فرمائش کی گئی جس کی بجا آوری کے نتیجے میں تقریب کے اگلے دن شکریہ کے ساتھ پُرخلوص سلام موصول ہوا جو خواتین کالج کی تاریخ کی اس لیکچرار کی جانب سے تھا، جنہوں نے دوسری غزل کی فرمائش کی تھی۔ سلام دعا کا یہ واسطہ جلد ہی بے تکلف ملاقاتوں میں بدل گیا۔ اس حورشمائل کو دیکھا تو بے اختیار یہ شعر وارد ہوا:
؎رخسار و لب کا عالم ِ گُل آفریں نہ پوچھ
قائل نہیں رہے سحر ِ گلستاں کے لوگ
مزاج کی مطابقت، ذوق کی ہم آہنگی، اور تکمیلِ ذات بذریعہ عشق کرنے کی پیہم خواہش کے باوجود جلد ہی اس پروان چڑھتی راہ و رسم کا سلسلہ، معاشرے کی سخت گیر، محبت کُش روایات کی بھینٹ چڑھ گیا کہ میری ازدواجی زندگی میں اولاد جیسی نعمت آچکی تھی، اور اب میں اپنی اس آسودہ زندگی کو عدم اعتماد کی تلخیوں کی نذر نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ میں نے ان دم توڑتے جذبات کو زبان دی تو احساس کچھ اسطرح شعری پیمانے میں ڈھلا کہ:
؎ہر بات زندگی میں بڑی دیر سے ہوئی
منزل پہ آگئے تو ہمیں ہم سفر ملا!!
ادیب اور شاعر پروفیسر نکہت شاہجہاں پوری اپنی کتاب ''مجاز و حقیقت'' میں لکھتے ہیں کہ میرا ایک دوست کسی اداکارہ کے عشق میں بری طرح مبتلا ہوگیا۔ دل پھینکا، روپیہ پھونکا، مگر دل کی مراد بر نہ آئی۔ ایک دن جب اس کے دفتر پہنچا تو دیکھا کہ وہ اداکارہ کی جانب سے آئے ایک خط کو میز پر اپنے سامنے پھیلائے رو رہا تھا۔ میں نے ڈھارس بندھائی تو کہنے لگا کہ جواب الجواب کے طور پر چند ایسے اشعار تحریر کرو کہ وہ سنگ دل پسیج جائے اور گلۂ تغافل کام کرجائے۔ ان آنسوؤں کا اثر کہیے یا جذبہ ہم دردی کہ میں نے قلم اٹھایا اور برجستہ چارا شعار لکھ کر اپنے دوست کے حوالے کر دیے:
؎کسی کے خرمنِ اُمید پہ بجلی گرا دینا
کسی بے کس کی دنیا کو بنا کر یوں مٹا دینا
کسی بے کس کو تڑپانا وفاداری کے پردے میں
دلِ پُر شوق کو رہ رہ کے جھوٹا آسرا دینا
کبھی جذبات ِ رنگیں سے سرورِ زندگی بننا
کبھی بڑھتی ہوئی پینگیں محبت کی بڑھا دینا
بتاؤ تو کہ یہ انداز تم نے کس سے سیکھے ہیں
مسیحا بن کے بیماروں کو پیغامِ قضادینا
نزولِ اشعار کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ مزید لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب طویل عرصے تک میری طبیعت نا ساز رہی اور ہر چیز سے دل بے زار رہنے لگا، تو ایک شام میں ٹہلتا ہوا گھر سے باہر قریب کے کرکٹ گراؤنڈجا پہنچا۔ ایک گوشے میں سبزہ زار پر بیٹھ کر گردونواح کا جائزہ لینے لگا، تو دیکھا کہ تاحدِنظر کھلا ہوا نیلا آسمان، شام کی رُوپہلی سنہری دھوپ، فضا میں سربلند پیڑ، امنگوں سے بھرپور نوجوان، مزاج پر خوشگوار اثر ڈالنے لگے۔ دھیرے دھیرے ذہن متحرک ہونے لگا اور محسوسات لفظوں کی شکل اختیار کرنے لگے، زمین و آسمان کے مالک سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
؎تمہیں سے جس کا جینا ہو تمہیں سے جس کا مرنا ہو
نہ اس بیمارِغم کا آسرا دیتے تو کیا ہوتا
یہ کیا کم ہے تمہاری یاد سے دل کو تسلی ہے
اگر یہ شمعِ اُلفت بھی بجھا دیتے تو کیا ہوتا؟