گلوبل وارمنگ ہم چین کی بانسری بجا رہے ہیں

بلاشبہ ماحولیاتی سائنس اور اَرضیات کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے اس کرہ اَرض کو درپیش سنگین مسائل سے بخوبی واقف ہیں

بلاشبہ ماحولیاتی سائنس اور اَرضیات کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے اس کرہ اَرض کو درپیش سنگین مسائل سے بخوبی واقف ہیں۔ فوٹو: فائل

سائنسدانوں اور یورپی مرکزی بینک کی نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ گلوبل وارمنگ اور گرمی کی لہروں سے مستقبل میں دنیا بھر میں خوراک کی قیمتوں اور مجموعی افراط زر میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مقالے میں کہا گیا ہے کہ اس کے اثرات مختلف ہوں گے لیکن ہر جگہ محسوس کیے جائیں گے خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں۔ موسم میں بڑھتی ہوئی گرمائش کے سبب ہیٹ ویو، خشک سالی اور سیلاب جیسے شدید موسموں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس سے معیشت کے اہم شعبوں بہ شمول کاشت کاری اور خوراک کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔

بلاشبہ ماحولیاتی سائنس اور اَرضیات کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے اس کرہ اَرض کو درپیش سنگین مسائل سے بخوبی واقف ہیں کہ فی زمانہ ہماری زمین، اس پر آباد تمام جانداروں کو قدرتی ماحول کے سنگین مسائل سے کن خدشات اور خطرات کا سامنا ہے۔ امریکی صدر جان ایف کنیڈی نے کہا تھا کہ ہمارے زیادہ مسائل اور مصائب کا خود انسان ذمے دار ہے۔ ان مسائل کو انسان ہی کو حل کرنا ہوگا۔

گلوبل وارمنگ کے خطرناک اثرات پر مبنی نکات نے پوری دنیا کو حیران کردیا تھا لیکن پاکستان نے اس بابت کوئی توجہ نہیں دی، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی حالت تو انتہائی افسوس ناک ہے۔ گزشتہ برسوں میں سیلاب سے ہونے والی تباہی تک ہماری حکومت کی آنکھوں سے اوجھل رہی، لاکھوں افراد جو بے گھر ہوئے انھیں سماجی اداروں نے سنبھالا، کیا اس پر ریاست کو توجہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، موسمیاتی تبدیلیوں نے جہاں دنیا کو چکرا کر رکھا ہے، وہیں پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا ہے۔

دنیا اس پر توجہ دے رہی ہے، اپنی غلطیوں کو سدھارنے میں مصروف ہے لیکن ہم اس پر توجہ نہیں دے رہے۔ ہم درختوں کی اہمیت سے ہی ابھی تک درست انداز میں آگاہ نہیں ہوسکے، ہم کارخانے بنانے میں لگے ہیں مگر ہم انھیں یہ نہیں بتاتے کہ اس کے کچھ حفاظتی اقدامات بھی ہیں جن کی ضمانت لازمی ہونی چاہیے، فیکٹریاں اپنا زہریلا فضلہ آج بھی برساتی اور سیوریج نالوں کی نذر کر رہی ہیں جس سے وہ زہریلا مواد بغیر ری سائیکلنگ کے سیدھا سمندر میں جا رہا ہے اور اس سے سمندری حیات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، ہم سمندری صفائی تک کا خیال نہیں رکھ پا رہے، ہمارے محلوں اور گلیوں میں کوڑا کرکٹ جابجا بکھرا پڑا ہے جب کہ دنیا اس کی ری سائیکلنگ سے کروڑوں کما رہی ہے۔

بیشتر ماہرین کے مطابق پاکستان اس وقت دنیا کا ڈسٹ بن بنا ہوا ہے جہاں دنیا بھرکا گند لا کر پھینکنے کا عمل تیزی سے جاری ہے اور اس میں ہمارے سرکاری ادارے انتہائی محنت سے کام کررہے ہیں جو بغیر جانچ پڑتال اور ماحولیاتی اداروں کی اجازت کے بغیر ہی اسے گھر میں لانے میں مصروف عمل ہیں۔ اس سے جہاں ہمارے ماحول کو تو نقصان پہنچ ہی رہا ہے، وہیں یہ ہمارے ماحول کو بھی مزید آلودہ کر رہا ہے، لیکن کسی کو پرواہ نہیں، کراچی میں کچھ عرصہ قبل جب لنڈے کے کپڑوں سے بھرے کنٹینر کو اسپرے کیا گیا تو اس سے اطراف کی آبادی میں خطرناک نتائج برآمد ہوئے، اس پر مقدمہ بھی درج ہوا لیکن معاملات جوں کے توں ہیں۔

مثال کے طور پر سڑکوں کی استرکاری کے فوراً بعد ہی اسے دوبارہ اکھاڑ دیا جاتا ہے، جس سے فضائی آلودگی میں تو اضافہ ہوتا ہی ہے، دوسری طرف انسانی جانوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے، درخت لگانے کا عمل تو آج تک بہتر انداز میں شروع نہیں کیا گیا لیکن کٹائی کا عمل ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا، اس وقت ہم آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہیں کہ خطرہ ہمارے سروں سے ٹل چکا ہے مگر ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کینسر سے بھی زیادہ خطرناک حد تک پھیلے گی، جسے روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔

جس کی مثال ڈبلیو ایچ او نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی بیماریوں کی دی ہے جہاں دست، اسہال، ملیریا، ڈینگی جیسی وبائیں اب عام ہوچکی ہیں، پانی کی قلت پر ہمارے اپنوں نے بھی الارم بجا دیا ہے مگر ہم اس پر بھی کوئی توجہ دینے کے بجائے سکون سے بیٹھ کر بانسری بجا رہے ہیں، آلودگی کے باعث سورج کی شعاعیں زمین پر براہ راست نہیں پہنچ رہیں، ہمیں اس پر بھی کوئی فکر نہیں۔

زراعت پاکستان کی معیشت کا ایک اہم شعبہ ہے، جو آبادی کے ایک اہم حصے کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ گلوبل وارمنگ درجہ حرارت، بارش کے انداز اور پانی کی دستیابی میں تبدیلیوں کے ذریعے زراعت کے لیے چیلنجز پیدا کرتی ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت فصل کی پیداوارکو متاثرکر رہا ہے، یہ کیڑوں اور بیماریوں کے پھیلاؤ کو بڑھا سکتا ہے اور پودے لگانے اور کٹائی کے موسموں کے وقت کو تبدیل کرسکتا ہے۔


ملک میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے مختلف فصلوں کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں آم کی پیداوار میں ہر سال کمی اور کپاس جیسی فصلوں کی پیداوار میں مسلسل کمی بھی نمایاں ہیں۔ پاکستان کئی گلیشیئرز کا گھر ہے، جن میں قراقرم اور کوہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے بھی شامل ہیں۔ گلوبل وارمنگ سے ان گلیشیئرز کے پگھلنے میں تیزی آئی ہے، جس کے نتیجے میں قلیل مدت میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوا ہے، لیکن گلیشیئرز کے سکڑنے کے ساتھ طویل مدت میں پانی کی قلت کا امکان ہے۔ یہ میٹھے پانی کے وسائل کی دستیابی کو متاثر کرتا ہے، کیونکہ یہ گلیشیئر دریاؤں اور آبپاشی کے نظام کے لیے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔

پاکستان کو پہلے ہی پانی کی کمی کے مسائل کا سامنا ہے اور گلوبل وارمنگ اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے بارش کے پیٹرن میں تبدیلی اور بخارات کی بڑھتی ہوئی شرح زراعت، صنعت اور گھریلو استعمال کے لیے پانی کی دستیابی کو کم کرنے میں معاون ہے۔ یہ پانی کے وسائل پر تنازعات کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر ملک کے اندر مختلف علاقوں اور شعبوں کے درمیان اور انڈیا کے ساتھ آبی تنازعات الگ سے ہیں، کیونکہ وہ تو ہمیشہ سے ہی ہمیں نقصان پہنچانے کی آڑ میں ہوتا ہے۔

ہماری کاشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، ہمیں اس کی بھی فکر نہیں، ہم صرف معاہدوں پر دستخط کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا کام پورا کردیا مگر ان معاہدوں کی روشنی میں اس پر عمل کرنے سے بالکل قاصر ہیں، اب بھی اگر موسمیاتی تبدیلیوں پر کام شروع نہ کیا تو 2050 تو بہت دور ہے 2030 میں ہی ہم انتہائی سنگین صورتحال کا شکار ہونگے۔

پاکستان گلوبل وارمنگ کی وجہ سے اپنے آب و ہوا کے نمونوں میں تبدیلیوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ان تبدیلیوں میں درجہ حرارت میں اضافہ، بارش کے بدلے ہوئے نمونے اور شدید موسمی واقعات جیسے ہیٹ ویو، خشک سالی اور شدید بارشیں شامل ہیں۔ یہ تبدیلیاں زراعت، پانی کی دستیابی اور انسانی صحت پر نہایت منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں، جس کی مثال ملک میں ہونے والے موسمیاتی تغیر کے باعث نقصانات ہیں۔ ملک میں گرم مہینوں میں بھی سخت سردی دیکھی گئی، وہیں پاکستان میں ہیٹ ویو کی ایک شدید لہر بھی ہم سب کے سامنے ہے۔

اسی طرح ملک میں بارشوں کا سلسلہ دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے، مون سون کی بارشوں کا آغاز ہونے والا ہے، اس سلسلے میں حکومت کی تیاریاں کہاں تک ہیں، اس کا تو وہ خود ہی بہتر جواب دے سکتی ہے لیکن گزشتہ برسوں ہونے والی تباہی کے پیش نظر یہ بارشیں بھی ملک کے لیے انتہائی سخت حالات لیے کھڑی ہیں۔

گلوبل وارمنگ پاکستان میں قدرتی آفات جیسے سیلاب، طوفان اور لینڈ سلائیڈنگ کی تعداد اور شدت میں اضافہ کر رہی ہے۔ یہ واقعات بنیادی ڈھانچے، زراعت اور انسانی بستیوں کو نمایاں نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں، جس کے نتیجے میں جانوں کا ضیاع اورکمیونیٹیزکی نقل مکانی بھی ایک چیلنج کی صورت میں پاکستان کے سامنے کھڑی ہے۔

پاکستان جو پہلے سے ہی معاشی و سیاسی عدم استحکام سے نمٹ رہا ہے، جس کے باعث پورے ملک کی توجہ صرف ملک کے سیاسی و معاشی معاملات پر مرکوز ہے، جو کہ اچھی بات ہے لیکن اس ساری صورت حال میں گلوبل وارمنگ جیسے اہم مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس مسئلے کا تعلق براہ راست ملکی معیشت سمیت اس آبادی سے ہے، جو کہ پہلے سے ہی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ریاست پاکستان کو اس اہم قومی مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔گلوبل وارمنگ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے، پاکستان کو موافقت اور تخفیف کی حکمت عملیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، پائیدار زراعت کے طریقوں کو فروغ دینا، پانی کے انتظام کو بہتر بنانا اور صاف ستھرے اور قابل تجدید توانائی کے ذرایع کی طرف منتقلی، یہ سب اقدامات نہ صرف وقت کی اہم ضرورت ہیں بلکہ پاکستان جیسے ملک کے لیے نہایت ضروری بھی ہیں۔

اسی طرح گلوبل وارمنگ جیسے اہم مسئلے سے نکلنے کے لیے پاکستان کو بین الاقوامی برادری کا مکمل تعاون بھی درکار ہے کیونکہ ہم شروع سے ہی اس سارے معاملے میں انھی ممالک کے رویوں کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں اور پاکستان جو اس وقت معاشی مسائل کا شکار ہے، اس کے لیے اس بڑے اور اہم مسئلے سے بذات خود نکلنا ممکن نہیں ہے۔
Load Next Story