پاکستان کھپے

حکومتوں پر حکومتیں آرہی ہیں لیکن وہ حکومت ابھی آنا باقی ہے جو ملک کو بھنور سے نکال کر ترقی کی راہ پرگامزن کرسکے

S_afarooqi@yahoo.com

وطن عزیز پاکستان طویل مدت سے مختلف قسم کے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مسائل میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کو اہل اور مخلص قیادت میسر نہیں آرہی۔

حکومتوں پر حکومتیں آرہی ہیں لیکن وہ حکومت ابھی آنا باقی ہے جو ملک کو بھنور سے نکال کر ترقی کی راہ پرگامزن کرسکے۔ اس میں وہ حکومت بھی شامل ہے جس کا نعرہ تھا تبدیلی۔پاکستان کے عوام کو اس سے امید تھی کہ ان کی قسمت بدلے گی اور مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے لیکن ملک و قوم کی حالت سدھرنے کے بجائے مزید بگڑتی چلی گئی۔

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا

ایک خیال یہ بھی تھا کہ 2024 کے عام انتخابات کے بعد ایک نئی سحر طلوع ہوگی اور حالات میں بہت بہتری آئے گی۔ یہ انتخابات بھی ہوگئے اور جیسے بھی ہوئے وہ سب کے سامنے ہے۔نئی حکومت آئی ہے دیکھیے وہ کیا کارکردگی دکھاتی ہے۔ مگر ان انتخابات نے بہت سی گتھیوں کو نہیں سلجھایا بلکہ وہ مزید الجھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔

سیاسی قوتیں پہلے سے بھی زیادہ رسہ کشی کر رہی ہیں اور ملک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی بھی سنجیدہ نظر نہیں آرہا۔ گستاخی معاف ہر کوئی اپنا الو سیدھا کرنے میں مصروف ہے۔ جسے بھی دیکھئیے وہ جمہوریت کے حسن کا راگ الاپ رہا ہے لیکن جمہوری اقدار کا کسی کو بھی احساس نہیں ہے۔

ملک و قوم کا وسیع تر مفاد محض زبانی جمع خرچ کی حد تک سب کو عزیز ہے لیکن عمل کی توفیق کسی کو بھی نہیں ہے۔نظریاتی اختلاف جمہوریت کا اصل جوہر ہے لیکن ہمارے سیاستدان اسے ذاتی اختلافات سمجھ کر باہم دست و گریباں ہیں۔


جب تک یہ انداز فکر تبدیل نہیں ہوگا تب تک صورتحال تبدیل نہیں ہوگی۔ اس لیے جتنا جلد ہوسکے اس سوچ کو تبدیل کرنا چاہیے۔ ذرا بھارت کے مسلمانوں کی حالت زار ملاحظہ فرمائیں اور پھر پاکستان کی قدر و قیمت پر فخر کریں کہ ہم کتنے آرام و چین سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم پر نہ کوئی زور اور دباؤ ہے اور ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔

ہماری سیاسی جماعتوں کا عام وطیرہ یہ رہا ہے کہ مخالفت برائے مخالفت کرتے رہیں خواہ اس سے ملک و قوم کا نقصان کتنا بھی ہو۔ اقتدار کے نشہ نے انھیں اندھا کر رکھا ہے۔ یہ کسی مخصوص پارٹی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک عام رویہ ہے۔

اس لامتناہی سلسلہ نے ملک کی ترقی کو بریک لگا رکھی ہے۔ ہم پہلے جہاں تھے اب بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہوئے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں جن میں معاشی پیش رفت کا نہ ہونا سب سے اہم اور قابل غور ہے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آج کے دور میں معاشی استحکام کی کلیدی اہمیت ہے۔ جس طرح معاشرے میں غریب آدمی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اسی طرح اقوام عالم میں کسی ملک و قوم کی بھی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم ایک بھکاری کی طرح کشکول اٹھائے ہوئے در در مارے پھرتے ہیں۔ ہم نے اپنی قومی حمیت اور خود داری کو گروی رکھ دیا ہے۔

ملک اس وقت ایک معاشی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور حالت یہ ہے کہ جون 2024 تک اسے 24 بلین ڈالر کا بھاری قرض ادا کرنا ہوگا اور اگلے 3 سال کے دوران اسے مزید 79 بلین ڈالر کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ یکے بعد دیگرے برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے قرضے لے لے کر ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے۔

یہ بات بھی انتہائی تشویشناک ہے کہ خسارے میں چلنے والے اداروں نے ملک کی معیشت کو کھوکھلا کردیا ہے جس میں پاکستان اسٹیل ملز اور قومی فضائی کمپنی بھی شامل ہے۔ ان دونوں اداروں کے اخراجات کو مسلسل برداشت کرنے سے ملکی معیشت کا کچومر نکل گیا ہے۔

اگر ان اداروں کو بدانتظامی سے بچا کر فعال طریقہ سے چلایا جاتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔اگر ملک سے باہر بھیجی ہوئی یہ دولت کسی طور ملک میں واپس آجائے تو دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اور کس طرح یہ ممکن ہوسکتا ہے۔

حب الوطنی کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ لوگ رضاکارانہ طور پر یہ لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائیں تاکہ ملک کی ڈوبتی ہوئی نیّا کو بچایا جاسکے لیکن ایسا ہونا محال اور خواب و خیال ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو ملک و قوم کی یہ حالت کبھی نہ ہوتی۔ یہ بھی غنیمت ہوگا کہ اگر خوف خدا اور حب الوطنی کی وجہ سے یہ سلسلہ جہاں کا تہاں رک جائے۔
Load Next Story