قومی ایوارڈز ہیں یا ریوڑیاں

حکمرانوں نے اپنے چہیتوں کو نوازنا ہو تو انھیں اپنی جیب سے کیش دے دیں، مگر قومی ایوارڈز کو بے توقیر نہ کریں


[email protected]

قومی اعزازات کی تقسیم پر تقریباً ہر شخص تنقید کررہا ہے۔ کرپشن صرف پیسے لینے کا نام نہیں، کوئی عہدہ یا اعزاز غیر مستحق افراد میں بانٹ دینا بھی بددیانتی ہے۔

خالقِ کائنات کا واضح حکم ہے کہ امانتیں انھیں سونپو جو اس کے حقدار ہیں، یہاں امانتوں سے مراد حکومتی عہدہ یا ذمے داری یا کوئی اعزاز بھی ہے۔

سب سے زیادہ تنقید بیوروکریٹوں اور انتظامی عہدیداروں کو ایوارڈ دینے پر ہورہی ہے، پڑھے لکھے افراد اور دانشور بجا طور پر سوال کررہے ہیں کہ ہر سرکاری محکمہ زوال پذیر ہوا ہے تو پھر انھی محکموں کے سربراہوں کو کونسی ''اعلیٰ کارکردگی'' پرسب سے بڑے ایوارڈ دیے گئے ہیں؟ اسے اقرباء پروری اور بری گورننس کی مثال ہی کہا جاسکتا ہے۔ ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوسکتا ہے۔

اسی سوچ اور طرزِ عمل نے ہمارے ملک کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک بار مجھے بھی ایوارڈ ملا تھا۔ وہ بھی سن لیجیے۔ 2008 میں موجودہ وزیراعظم شہبازشریف صاحب پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو انھوں نے مجھے گوجرانوالہ تعینات کردیا۔

میں اپنے ہوم ڈسٹرکٹ میں تعینات نہیں ہونا چاہتا تھا مگر انھوں نے کہا کہ وہاں امن وامان کے حالات بہت خراب ہیں، اس لیے آپ کو وہاں بھیجا جارہا ہے۔ جو کچھ سنا تھا، آکر دیکھا تو حالات اس سے زیادہ ابتر تھے، اغواء برائے تاوان کراچی کی طرح ایک انڈسٹری بن چکا تھا، ہر کھاتے پیتے شخص کو بھتے کی پرچی موصول ہوتی، اگر وہ بھتہ دینے میں تاخیر کرتا تو اس کے گھر پر فائرنگ ہوتی۔ ہر شخص خوفزدہ تھا۔ نہ بچے محفوظ تھے نہ طالبات اور نہ ٹیچرز۔ صنعتکار، بڑے دکاندار اور ڈاکٹر ہر روز اغواء ہوتے تھے۔ بہت سے صنعتکار اپنی ملیں بیچ کر باہر چلے گئے تھے اور کچھ جارہے تھے۔ پورے علاقے پر خطرناک ترین ڈاکوؤں اور اغواکاروں کے منظم گروہوں کی حکمرانی تھی۔

ان حالات میں مجھے پولیس کی کمان سونپی گئی۔ بہرحال میں نے رزقِ حلال کھانے والے جراتمند افسروں پر مشتمل ٹیم تیار کی، پھر اس ٹیم پر واضح کیا کہ اس ملک کا ایک بھی شہری عدمِ تحفظ کی وجہ سے ملک چھوڑ کر چلا گیا تو اس کے ذمے دار ہم ہوں گے اور ہمیں قومی مجرم کے طور پر یاد کیا جائے گا۔

تمام افسران ایک قومی جذبے کے تحت میدان میں اترے اور انھوں نے چار بانچ مہینوں میں سنگین جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور گوجرانوالہ ڈویژن کو امن کا گہوارہ بنادیا۔ عام لوگ خود آکر بتانے لگے کہ گلی محلوں کے غنڈے بھی غائب ہوگئے ہیں، اسکول یا کالج جانے والی طالبات اور ٹیچرز پر کوئی آوازے کسنے کی جرأت نہیں کرتا، اب کسی کا بچہ اغواء نہیں ہوتا اور کسی کو بھتے کی چٹ نہیں آتی، حتٰی کہ دیہاتوں میں چارے کی چوری ختم ہوگئی ہے۔

صنعتکاروں کے وفود میرے دفتر آکر بتانے لگے کہ کئی سالوں سے ہم جس خوف میں زندگی گزاررہے تھے، اس کا خاتمہ ہوا ہے اور ہم نے سکھ کا سانس لیا ہے، جو لوگ ملیں بیچ کر باہر چلے گئے تھے، وہ بھی واپس آرہے ہیں۔

میری تعیناتی کے ایک سال بعد وزیرِاعلیٰ شہبازشریف گوجرانوالہ آئے تو وہاں ممبرانِ اسمبلی کے علاوہ بزنس انڈسٹری کے نمایندوں، وکلاء، خواتین اور نوجوانوں کے وفود سے علیحدہ علیحدہ ملے، ہر طبقۂ فکر کے لوگ تحفظ اور انصاف ملنے کی وجہ سے اتنے خوش تھے کہ وزیرِاعلیٰ کے منہ سے جونہی پولیس کا نام نکلتا تو لوگ تالیاں بجانا شروع کردیتے۔

آخر میں چیف منسٹر نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ''میں یہاں حیرت انگیز انقلاب دیکھ رہا ہوں کہ پولیس کے لیے گالیوں کی جگہ تالیوں نے لی ہے۔'' وہ ایک ایسی تبدیلی تھی جس سے ملک کی سب سے بڑی ڈویژن کے لاکھوں گھرانے (بلوچستان یا کے پی کی پوری آبادی سے زیادہ افراد) مستفیض ہوئے۔

وزیراعلیٰ کے دورے کا آخری پروگرام چیمبر آف کامرس کے آڈیٹوریم میں پولیس افسروں سے خطاب تھا۔ اُس وقت کے آئی جی شوکت جاوید صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم نے اس قابلِ فخر کارنامے پر ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ کو ستارۂ امتیاز دینے کی سفارش کی ہے۔

وزیراعلیٰ نے فوراً اسے endore کیا۔ چند روز بعد تحریری طور پر بھی یہ سفارش کیبنٹ ڈویژن کو بھیج دی گئی۔ ایوارڈ کمیٹی کے تمام ممبران نے پنجاب حکومت کی اس سفارش کو بخوشی منظور کیا۔ مگر وہاں سروس گروپ کے ایک افسر نے پولیس سے بغض کی وجہ سے اسے ڈاؤن گریڈ کرکے ستارۂ امتیاز کے بجائے تمغۂ امتیاز کردیا۔

بہرحال وہ ایوارڈ لینے کے لیے میں خود نہیں گیا۔ یعنی جس achievement سے لاکھوں گھرانے فیضیاب ہوئے، اُس پر تمغۂ امتیاز دیا گیا۔ کل ایک صاحب کو ریٹائرمنٹ کے کئی برسوں کے بعد ایوارڈ ملا، اب پتہ نہیں، وہ کون سے کارنامے ہیں جن سے عوام کئی سالوں تک بے خبر رہے۔ بہرحال مدت بعد یہ کارنامے ''دریافت'' ہوئے ہیں، لہٰذا دریافت کنندہ ان ایوارڈز کا زیادہ مستحق لگتا ہے۔

مختلف حکمرانوں نے کئی بار راقم کو بلا کر مشکل ترین ٹاسک دیے اور الحمداللہ ہر بار اللہ تعالیٰ نے سرخرو کیا۔ 2012میں ضلع شیخوپورہ کو وزیرستان کہا جانے لگا تھا۔ وہاں بھی خطرناک ترین مجرموں کی حکمرانی قائم تھی۔ لوگ دن کے وقت اغواء کرلیے جاتے یا ان کی گاڑیاں چھین لی جاتیں۔ انھوں نے سڑک پر بورڈ لگا رکھے تھے ''پولیس کا داخلہ منع ہے'' ان حالات میں وزیرِاعلیٰ نے اصرار کرکے مجھے شیخوپورہ کی کمان دی۔

اﷲ کے فضل وکرم سے دو مہینوں میں ہی شیخوپورہ کا امن بحال ہوا اور لوگ بے خوف ہو کر سفر اور کاروبار کرنے لگے اور خواتین اپنے بچوں سمیت رات کو بھی پارکوں میں سیر کے لیے جانے لگیں۔ راقم کسی بازار، گاؤں یا قصبے میں جاتا تو لوگ جمع ہوجاتے اور زندہ باد کے نعرے لگانے لگتے۔

وزیراعلیٰ نے خوش ہوکر اپنے گھر کھانے پر بلایا اور رخصت کرتے وقت کار میں بٹھا کر سیلیوٹ کیا۔ انھی دنوں ایک روز سابق گورنر غلام مصطفٰے کھر صاحب کا فون آیا، کہنے لگے ''چیمہ صاحب! آپ نے امن بحال کرنے اور اسلحے پر پابندی لگانے کا جو حیرت انگیز کام کردیا ہے وہ ساٹھ سالوں میں نہیں ہوسکا۔

ہمارے علاقے نارنگ میں، میں نے اس ہفتے میں دو شادیاں اٹینڈ کی ہیں، جہاں لوگ سیکڑوں کلاشنکوفیں اٹھائے پھرتے تھے وہاں کسی کے پاس ایک معمولی پستول بھی نظر نہیں آیا، آپ اس علاقے کے محسن ہیں اور آپ کے اس کارنامے کو لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔''

ہر انسان کی بنیادی ضرورت جان، مال اور عزت کا تحفظ ہے۔ شیخوپورہ ڈویژن کے لاکھوں شہریوں کو امن کا نایاب تحفہ ملا مگر میں نے تو کسی حکمران سے نہ ہلالِ امتیاز مانگا نہ اس کی ضرورت محسوس کی۔ کیا کل ایوارڈ وصول کرنے والے اس طرح کی کوئی کامیابی بتاسکتے ہیں جس پر ہر شہر، گاؤں اور بستی کے عام لوگ بھی انھیں دعائیں دے رہے ہوں۔

اس کے فوراً بعد ملک کا ایک اہم اور حساس محکمہ امیگریشن ایند پاسپورٹ شدید بحران کا شکار ہوگیا۔ آٹھ لاکھ درخواست گزار چھ سے آٹھ مہینوں سے مارے مارے پھر رہے تھے مگر انھیں پاسپورٹ نہیں مل رہے تھے، اوورسیز پاکستانیوں نے کئی جگہوں پر پاکستانی سفارتخانوں کا گھیراؤ کیا اور توڑ پھوڑ کی۔ عالمی میڈیا کی منفی رپورٹنگ سے ملک کی ساکھ اور امیج بری طرح مجروح ہورہے تھے۔

اس سنگین قومی بحران کو حل کرنے کے لیے 2013میں قائم ہونے والی نگران حکومت نے مجھے بلا کر پاسپورٹ کے محکمے کا سربراہ مقرر کردیا۔ اﷲ کی خاص مدد سے اور محکمے کے نوجوان ورکروں کی دن رات مشنری جذبے کے تحت کی گئی محنت کے نتیجے پر صرف تین مہینوں میں اس بحران پر قابو پالیا گیا، جس سے ملک کے لاکھوں گھرانے متاثر ہورہے تھے اور جو ملکی اور عالمی میڈیا کا ایک اہم موضوع تھا۔

اس بحران پر قابو پانے پر ہر طرف سے تعریف وتحسین کی گئی مگر ہمارے لیے یہی بات انتہائی خوشی اور فخر کا موجب تھی کہ ہمارے ہاتھوں ایک قومی بحران پر قابو پالیا گیا اور ایک ڈوبا ہوا اہم قومی ادارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا ہے۔

کیا کوئی سابق یا موجودہ بیوروکریٹ اس نوعیت کی قومی سطح کی کوئی achievement قوم سے شیئر کرسکتا ہے؟ اس سے اگلے سال ایوارڈ کمیٹی میں پاسپورٹ بحران حل کرنے والا کیس بھی پیش ہوا۔ ممبران کی اکثریت نے بیک زبان کہا کہ It is a great success story and the DG deserves highest civil Award. بہرحال شیخوپورہ اور پاسپورٹ کی کامیابیاں ملا کر مجھے ستارۂ امتیاز دیا گیا، ایوانِ صدر میں پہنچا تو وہاں اُس وقت کے کیبنٹ سیکریٹری بھی شیروانی پہنے ہوئے نظر آئے ، میں نے کہا آپ کدھر؟ اس پر وہ تھوڑا سا جھینپے مگر چونکہ اچھے اور صاف گو انسان تھے۔

اس لیے کہنے لگے ''مجھے تو آپ کی وجہ سے ایوارڈ مل گیا ہے۔ میرے کولیگز نے کہا کہ اگر ایک پولیس افسر کو مل رہا ہے تو ایک ڈی ایم جی افسر کو بھی ضرور ملنا چاہیے۔'' مجید نظامی صحافت کا سب سے معتبر نام تھا، نظامی صاحب کو شعبۂ صحافت میں اور ملکۂ ترنم نورجہاں کو شعبۂ موسیقی میں ستارۂ امتیاز دیا گیا تھا۔

کیا پرسوں ہلالِ امتیاز کی ریوڑیاں اچکنے والے بیوروکریٹوں کا اپنے اپنے شعبے میں وہی مقام ہے جو صحافت میں مجید نظامی اور موسیقی میں نورجہاں کا تھا؟ حکمرانوں نے اپنے چہیتوں کو نوازنا ہو تو انھیں اپنی جیب سے کیش دے دیں، مگر قومی ایوارڈز کو بے توقیر نہ کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔