پاک بھارت تجارت کی باتیں
ہندوستان کے ساتھ تجارتی روابط استوار کرنے سے پہلے ہمیں ماضی کو بھی دیکھ لینا چاہیے
ہمارے نئے نویلے وزیر خزانہ جو بنیادی طور پر ایک بینکار ہیں اور اعدادو شمار سے گہری شناسائی رکھتے ہیں، وہ حساب کتاب لگا کر ہمیں یہ تو بتا سکتے ہیں کہ ہر پاکستانی اس وقت کتنے لاکھ کا مقروض ہے لیکن ان کے پاس اس قرض کی ادائیگی کا کوئی فارمولا یا حل نہیں ہے ۔
ہم ایک مقروض قوم ہیں۔ ہمیں کہیں سے اتنی آمدنی متوقع نہیں کہ کسی قرض خواہ سے کہہ سکیں کہ صبر کریں ہم قرض ادا کر دیں گے،ادھر حکمرانوں کے رہن سہن، ان کی شب و روز کی کار گزاریوںاور رویوں سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ملک قرضوں کے اس قدر بھاری بوجھ تلے دبے ہوا ہے۔
ان کے پیداواری منصوبے بیرونی قرضوں تک محدود ہیں اور قرض دینے والے یعنی آئی ایم ایف والے برملا کہتے ہیں کہ قرض کی واپسی کے لیے پاکستان یہ کرے اور وہ نہ کرے۔ اس عالمی ساہوکار کی ہر بات ہم مانتے جارہے ہیں کیونکہ قرض در قرض کے چکر میں پھنس چکے ہیں اور ان سے نکلنے کی صرف ایک ہی صورت دکھائی دیتی ہے کہ مزید قرض لیتے رہیں اور ان کا بوجھ عوام پر منتقل کرتے رہیں۔ جن لوگوں نے ہمیں اس چکر سے نکالنے کی کوئی سبیل کرنی ہے وہ اس گھر میں ایک مالک نہیں بلکہ ایک کرایہ داربن کر رہتے ہیں اور کرایہ دار گھر کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے، وہ ہم سب کے علم میں ہے۔
ہم وہ قوم ہیں جو اپنے دشمن کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں جس دشمن کا سب سے بڑا مقصد ہمیں نیست و نابود کرنا ہے اور نہ تو یہ دشمنی کوئی راز ہے اور نہ ہی دشمن کے ارادے کوئی خفیہ ہیں جن کا ہمیں علم نہ ہو۔ وہ ہم سے ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا لیکن ہم نادان اسی کے ساتھ دوستی اور کاروبار کے منصوبے بناتے رہتے ہیں اور بنا رہے ہیں ۔
ہمارے سابقہ وزیر خزانہ اور موجودہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے نہ جانے کس تناظر میں بھارت سے تجارت کی بات کہی ہے، ان کی اس بات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ ہمسائے تبدیل نہیں ہو سکتے، پڑوسیوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے لیکن اپنے پڑوسیوں کی حکمت عملی کا تجزیہ کرنا بھی ضرور ہے ، میاں نواز شریف بھی بھارت سے اچھے تعلقات قائم کرنے کے حامی ہیں، انھوں نے 2013 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد کہا تھا ان کو بھارت سے اچھے تعلقات قائم کرنے لیے ووٹ ملا ہے۔
موجودہ الیکشن مہم میں بھی میاں نواز شریف نے اشاروں کناروں میں بھارت کے ساتھ تجارت کی بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں خصوصاً لاہور، اسلام آباد وغیرہ میں سبزیاں مہنگی ہیں، موسمی سبزی کے بارے میں کہا تھا ا، کی قیمت دس روپے فی کلوگرام ہونی چاہئیں۔
میرے جیسے پاکستانی سمجھتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ سرحد کھولنے کی بات کرنا، درحقیقت نظریاتی سرحد کی لکیر مٹانے کی بات ہے، وہ سرحد جو ہماری نسلوں نے خون دے کر کھڑی کی تھی اور جن کو ہم نے اپنے دین اور ثقافت کا تقاضا قرار دیا تھا۔
سرحدوں کے ساتھ ہی کوئی ملک اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتا ہے اور اگر ہمیں بھارت کے ساتھ گھل مل کر ہی رہنا ہے اور پندار کے صنم کدوں کو اپنے ہاتھوں یوں ہی مسمار کرنا ہے تو پھر 1947 میں یہ الگ ملک بنایا ہی کیوں تھا۔ یہ سب کچھ تو پہلے بھی چل رہا تھا، اس کے لیے اتنی بھاری قربانیاں دینے کی ضرورت ہی کیا تھی، اس سوچ و فکر کی وجہ سے مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے کیوں مرے جارہے ہیں اور اس دشمن کی جانب سے کوئی پرجوش جواب بھی نہیں مل رہا، وہ تو اپنے کھلاڑی تک پاکستان بھیجنے پر رضا مند نہیں ہے ۔
دراصل ہم میں بہت سے لوگ ماضی سے بالکل بے خبر ہیں اور نظریاتی ماضی تو شاید ان کے ہاں کوئی وقعت ہی نہیں رکھتا، ان کو اپنی تجارت عزیز ہے۔ بی جے پی کی قیادت خصوصا مودی ،وہ پاکستان اور مسلمانوں کا نام ہی سن کر بپھر جاتے ہیں، پاکستان کے وجود کو انھوں نے دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا ہے، ہندوستان ہندوؤں کا تھا، ہم مسلمان تو ان پر قابض رہے ہیں اس لیے ان کی یہ شدید خواہش رہی ہے کہ پاکستان بطور ایک الگ ریاست چل نہ سکے۔ کشمیر اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ ان کا جو متعصبانہ رویہ ہے وہ دنیا سے چھپا ہوا ہر گز نہیں ہے، وہ ہمیں مدغم کرنے کے لیے ہر سازش کرتے ہیں۔
ہم نے آزادی کے ان برسوں میں عدم سے وجود میں آنے کا کارنامہ سر انجام دیا ہے، اس سفر میں ہم نے گنوایا بھی بہت سہی لیکن پایا اور بنایا بھی بہت ہے۔ آج ہم دنیا کی ایٹمی طاقت ہیں جو ان کو بہت کھٹکتی ہے اور اس کا دکھ کوئی ان سے جا کر پوچھے جو پاکستان کو روند دینا چاہتے تھے۔ بھارت ہو یا کوئی اور ہمسایہ دشمن، وہ ہمارے ہاں صرف خفیہ تخریب کاری پر مجبور ہے کیونکہ وہ کسی کھلی جنگ کی ہمت نہیں پاتا۔ ہندوستان کے ساتھ تجارتی روابط استوار کرنے سے پہلے ہمیں ماضی کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔
پاکستان میں رہنے والے بھارت نوازوں کی یہ ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ واہگہ کی سرحد کا نام و نشان مٹا دیا جائے لیکن یہ ہمارے بزرگوں کے خون سے کھینچی گئی سرحدی لکیر ہے جس کی حفاظت ہماری ذمے داری ہے ۔ بھارت کے ساتھ دوستی کا موضوع ایک طویل بحث ہے لیکن اس وقت آلو پیاز سے آگے سوچنے کی ضرورت ہے۔
ہم ایک مقروض قوم ہیں۔ ہمیں کہیں سے اتنی آمدنی متوقع نہیں کہ کسی قرض خواہ سے کہہ سکیں کہ صبر کریں ہم قرض ادا کر دیں گے،ادھر حکمرانوں کے رہن سہن، ان کی شب و روز کی کار گزاریوںاور رویوں سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ملک قرضوں کے اس قدر بھاری بوجھ تلے دبے ہوا ہے۔
ان کے پیداواری منصوبے بیرونی قرضوں تک محدود ہیں اور قرض دینے والے یعنی آئی ایم ایف والے برملا کہتے ہیں کہ قرض کی واپسی کے لیے پاکستان یہ کرے اور وہ نہ کرے۔ اس عالمی ساہوکار کی ہر بات ہم مانتے جارہے ہیں کیونکہ قرض در قرض کے چکر میں پھنس چکے ہیں اور ان سے نکلنے کی صرف ایک ہی صورت دکھائی دیتی ہے کہ مزید قرض لیتے رہیں اور ان کا بوجھ عوام پر منتقل کرتے رہیں۔ جن لوگوں نے ہمیں اس چکر سے نکالنے کی کوئی سبیل کرنی ہے وہ اس گھر میں ایک مالک نہیں بلکہ ایک کرایہ داربن کر رہتے ہیں اور کرایہ دار گھر کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے، وہ ہم سب کے علم میں ہے۔
ہم وہ قوم ہیں جو اپنے دشمن کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں جس دشمن کا سب سے بڑا مقصد ہمیں نیست و نابود کرنا ہے اور نہ تو یہ دشمنی کوئی راز ہے اور نہ ہی دشمن کے ارادے کوئی خفیہ ہیں جن کا ہمیں علم نہ ہو۔ وہ ہم سے ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا لیکن ہم نادان اسی کے ساتھ دوستی اور کاروبار کے منصوبے بناتے رہتے ہیں اور بنا رہے ہیں ۔
ہمارے سابقہ وزیر خزانہ اور موجودہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے نہ جانے کس تناظر میں بھارت سے تجارت کی بات کہی ہے، ان کی اس بات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ ہمسائے تبدیل نہیں ہو سکتے، پڑوسیوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے لیکن اپنے پڑوسیوں کی حکمت عملی کا تجزیہ کرنا بھی ضرور ہے ، میاں نواز شریف بھی بھارت سے اچھے تعلقات قائم کرنے کے حامی ہیں، انھوں نے 2013 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد کہا تھا ان کو بھارت سے اچھے تعلقات قائم کرنے لیے ووٹ ملا ہے۔
موجودہ الیکشن مہم میں بھی میاں نواز شریف نے اشاروں کناروں میں بھارت کے ساتھ تجارت کی بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں خصوصاً لاہور، اسلام آباد وغیرہ میں سبزیاں مہنگی ہیں، موسمی سبزی کے بارے میں کہا تھا ا، کی قیمت دس روپے فی کلوگرام ہونی چاہئیں۔
میرے جیسے پاکستانی سمجھتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ سرحد کھولنے کی بات کرنا، درحقیقت نظریاتی سرحد کی لکیر مٹانے کی بات ہے، وہ سرحد جو ہماری نسلوں نے خون دے کر کھڑی کی تھی اور جن کو ہم نے اپنے دین اور ثقافت کا تقاضا قرار دیا تھا۔
سرحدوں کے ساتھ ہی کوئی ملک اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتا ہے اور اگر ہمیں بھارت کے ساتھ گھل مل کر ہی رہنا ہے اور پندار کے صنم کدوں کو اپنے ہاتھوں یوں ہی مسمار کرنا ہے تو پھر 1947 میں یہ الگ ملک بنایا ہی کیوں تھا۔ یہ سب کچھ تو پہلے بھی چل رہا تھا، اس کے لیے اتنی بھاری قربانیاں دینے کی ضرورت ہی کیا تھی، اس سوچ و فکر کی وجہ سے مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے کیوں مرے جارہے ہیں اور اس دشمن کی جانب سے کوئی پرجوش جواب بھی نہیں مل رہا، وہ تو اپنے کھلاڑی تک پاکستان بھیجنے پر رضا مند نہیں ہے ۔
دراصل ہم میں بہت سے لوگ ماضی سے بالکل بے خبر ہیں اور نظریاتی ماضی تو شاید ان کے ہاں کوئی وقعت ہی نہیں رکھتا، ان کو اپنی تجارت عزیز ہے۔ بی جے پی کی قیادت خصوصا مودی ،وہ پاکستان اور مسلمانوں کا نام ہی سن کر بپھر جاتے ہیں، پاکستان کے وجود کو انھوں نے دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا ہے، ہندوستان ہندوؤں کا تھا، ہم مسلمان تو ان پر قابض رہے ہیں اس لیے ان کی یہ شدید خواہش رہی ہے کہ پاکستان بطور ایک الگ ریاست چل نہ سکے۔ کشمیر اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ ان کا جو متعصبانہ رویہ ہے وہ دنیا سے چھپا ہوا ہر گز نہیں ہے، وہ ہمیں مدغم کرنے کے لیے ہر سازش کرتے ہیں۔
ہم نے آزادی کے ان برسوں میں عدم سے وجود میں آنے کا کارنامہ سر انجام دیا ہے، اس سفر میں ہم نے گنوایا بھی بہت سہی لیکن پایا اور بنایا بھی بہت ہے۔ آج ہم دنیا کی ایٹمی طاقت ہیں جو ان کو بہت کھٹکتی ہے اور اس کا دکھ کوئی ان سے جا کر پوچھے جو پاکستان کو روند دینا چاہتے تھے۔ بھارت ہو یا کوئی اور ہمسایہ دشمن، وہ ہمارے ہاں صرف خفیہ تخریب کاری پر مجبور ہے کیونکہ وہ کسی کھلی جنگ کی ہمت نہیں پاتا۔ ہندوستان کے ساتھ تجارتی روابط استوار کرنے سے پہلے ہمیں ماضی کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔
پاکستان میں رہنے والے بھارت نوازوں کی یہ ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ واہگہ کی سرحد کا نام و نشان مٹا دیا جائے لیکن یہ ہمارے بزرگوں کے خون سے کھینچی گئی سرحدی لکیر ہے جس کی حفاظت ہماری ذمے داری ہے ۔ بھارت کے ساتھ دوستی کا موضوع ایک طویل بحث ہے لیکن اس وقت آلو پیاز سے آگے سوچنے کی ضرورت ہے۔