عمران خان پر مقدمہ کی تاریخ تک سات اور لوگوں نے بھی سائفر واپس نہیں کیا تھا، وکیل کا انکشاف

ویب ڈیسک  بدھ 27 مارچ 2024
فوٹو:فائل

فوٹو:فائل

 اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ سائفر کیس میں سازش سے کیا مراد ہے؟ پہلی پریس ریلیز میں تو سازش کا ذکر ہی نہیں تھا، عمران خان کے وکیل نے سلمان صفدر نے انکشاف کیا ہے کہ جس تاریخ کو سائفر واپس نہ کرنے کا مقدمہ درج ہوا اس دن تک دیگر سات لوگوں نے بھی سائفر واپس نہیں کیا مگر مقدمہ صرف عمران خان اور شاہ محمود پر درج ہوا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں سزا کے خلاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیل پر سماعت ہوئی۔ سماعت چیف جسٹس ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے روبرو ہوئی۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر  اور ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ یہ کیس بے بنیاد ہے اس میں آرٹیکل ٹین اے کے فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے انہیں ٹوک دیا اور کہا کہ سلمان صفدر صاحب! آپ اپنے قانونی دلائل دیں۔ سلمان صفدر نے کہا کہ کنفیوژن تھی! میرا صرف یہ کہنا ہے کہ میرٹ پر کیس سن کر فیصلہ کیا جائے، یہ سات دنوں سے اپیل سنی جارہی ہے بارہ گھنٹے اپیل سنی گئی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم گواہوں کے بیانات اسی لیے پڑھا رہے ہیں اور کیس میرٹ پر ہی سن رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ سائفر کیس کی سماعت کیا عدالتی وقت کے بعد بھی ہوتی رہی ہے؟ کیا عدالتی وقت کے بعد کی کارروائی کو عدالتی آرڈرز پر لکھا گیا؟ کیا عدالتی وقت کے بعد کی کارروائی بھی آپ کی اپیل کا ایک گراؤنڈ ہے؟

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ فی الحال میں اس طرف نہیں جا رہا، کیس وزارت خارجہ کا تھا مگر وزارت داخلہ نے ہائی جیک کرلیا ان کا کہنا ہے کہ سائفر پانچ لوگوں کو بھیجا گیا آپ کہتے ہیں پانچ لوگوں کو سائفر کی کاپی گئی اور ایک کاپی واپس نہیں آئی میں تو اس کو سائفر نہیں کہوں گا یہ ایک کاپی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ٹرائل کورٹ کی کارروائی عدالتی اوقات کار کے بعد بھی چلتی رہی ہے؟ سلمان صفدر نے کہا جی بالکل۔

چیف جسٹس نے پوچھا میڈیا رپورٹس میں تو یہ سب آتا رہا ہے لیکن کیا ریکارڈ پر بھی ایسا کچھ موجود ہے؟

سلمان صفدر نے کہا کہ ہم متعدد بار یہ کہتے رہے ہیں کہ عدالتی اوقات کار ختم ہوچکے ہیں اور کیس کی مزید سماعت نہیں کریں گے لیکن عدالت نے آرڈر شیٹ میں ایسا کچھ درج نہیں کیا، پھر گواہوں کے بیان پر جرح کے دوران ہم سوال کرکے وقت لکھواتے رہے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ ایک طرف بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی پر سائفر کا متن بتانے کا الزام ہے، اگر انہوں نے متن بتا دیا ہے تو پھر اس متن کو صفحہ مثل پر لے آتے ہم سائفر پڑھیں گے تو متن کا موازنہ کرسکیں گے۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ وزیر اعظم کی سائفر کاپی واپس نہ کرنے پر 17 ماہ بعد 15 اگست کو ایف آئی آر ہوئی،  استغاثہ کہہ رہی ہے سائفر 5 لوگوں کو گیا ہے، 27 ستمبر 2023ء کی دستاویز بتا رہی ہے کہ سائفر نو لوگوں کو گیا، باقی سب کی سائفر دستاویزات ایف آئی آر کے اندراج کے بعد واپس آئیں، 17 ماہ بعد باقیوں سے سائفر واپس آیا یہ بتا دیں کیا باقیوں کے خلاف انکوائری ہوئی؟

سلمان صفدر نے کہا کہ احتساب سب کا ایک جیسا ہونا چاہیے استغاثہ کا کیس اس دستاویز پر ختم ہو جاتا ہے سائفر کی نو کاپیاں ہیں بلکہ چیف جسٹس پاکستان کو بھی بھیجی گئی، چیف جسٹس کے رجسٹرار نے کاپی واپس کردی، بانی پی ٹی آئی کے خلاف پرچہ ہوا تو سب نے کاپیاں واپس کردیں ، ایف آئی آر سے پہلے صرف صدر مملکت کی کاپی واپس آئی تھی۔

انہوں ںے کہا کہ کوئی ٹائم فریم نہیں ہوتا مگر ایک سال کے اندر یہ کاپی واپس آ جاتی ہے، بانی پی ٹی آئی پر سائفر سیکیورٹی سسٹم کمپرومائز کرنے کا الزام لگایا گیا حقیقت یہ ہے کہ سائفر سیکیورٹی سسٹم تو محفوظ ہے ہی نہیں، اب انہوں نے خود پراسیکیوشن شروع کی ہے تو انہیں سننا پڑے گا، پراسیکیوشن کے گواہ کے دستاویز کے مطابق سائفر کی کاپی 5 نہیں 9 لوگوں کو بھیجی گئی، یہ ہے ان کا سائفر سیکیورٹی سسٹم۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ نے پوچھا کہ باقیوں کو چھوڑ کر ایک کو کیوں پراسیکیوٹ کیا گیا تھا؟ اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ ایسا نہیں پوچھا، تفتیشی افسر نے بھی اوریجنل ڈاکومنٹ نہیں دیکھا پھر تفتیش کیسے کی؟ تفتیشی افسر کو بھی مانگنے کے باوجود سائفر کا ڈاکیومنٹ سیکرٹ کہہ کر نہیں دیا گیا، یہ کہیں نہیں لکھا کہ سیکرٹ ڈاکیومنٹ کیس کے تفتیشی افسر کو بھی نہیں دکھانا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر تفتیشی افسر کوئی ڈاکیومنٹ مانگے اور وہ نہ ملے تو اسے کیا اختیار ہوتا ہے؟ اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ ہر کرمنل کیس میں مقامی مجسٹریٹ اس معاملے کو دیکھتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر تفتیشی افسر کو کوئی چیز نہیں دی جاتی تو وہ مجسٹریٹ کے پاس جاسکتا ہے؟ اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ تفتیشی افسر کہہ سکتا ہے کہ مجھے ڈاکیومنٹ نہیں دیا تو چالان مرتب نہیں کرسکتا۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اکتیس مارچ 2022ء کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم کی سربراہی میں ہوا، کمیٹی نے کہا کہ سائفر پیغام اندرونی معاملات میں مداخلت اور ناقابل قبول ہے، یا تو سرکار کا کیس ہوتا کہ بانی پی ٹی آئی کا یہ اکیلے کا فیصلہ ہوتا،  بائیس دن کے بعد نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہوئی، اس کمیٹی نے بھی گزشتہ کمیٹی کی میٹنگ کی توثیق کی، اس میں صرف یہ فرق تھا کہ کہا گیا کہ اس میں کوئی بیرونی سازش نہیں تھی۔

سائفر کیس میں سازش سے کیا مراد ہے؟

جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ سائفر کیس میں سازش سے کیا مراد ہے؟ پہلی پریس ریلیز میں تو سازش کا ذکر ہی نہیں تھا؟ یہ وہی سازش ہے جس کا ذکر ملزم نے عوامی اجتماع میں کیا تھا؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کہاں ہیں؟ انہیں جواب ملا کہ وہ کراچی گئے ہیں، جواب پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شدید برہم ہوگئے اور کہا کہ یہ خوف ناک ہے انہوں نے جہاں جانا ہے جائیں لیکن عدالت میں بندہ تو بٹھائیں، کیا ہم حکومت کو لکھیں کہ ایڈووکیٹ جنرل ہماری ٹھیک سے معاونت نہیں کر رہا، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو اسٹیٹ کونسلز کی سی ویز پیش کرنے کا کہا تھا۔

بعدازاں سائفر کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، سلمان صفدر کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔