دہشت گردوں کے مذموم مقاصد
افواج پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف عمل ہیں
شانگلہ بشام میں چینی باشندوں کی گاڑی پر کیے گئے خود کش حملے میں پانچ چینی انجینئرز سمیت چھ افراد ہلاک ہوگئے۔ خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری اپنی گاڑی چینی انجینئرز کی گاڑی سے ٹکرا دی، چینی انجینئرز داسو کوہستان کے مقام پر ایک بڑے ڈیم کی تعمیر کر رہے ہیں۔ دریں اثنا ایک اور کارروائی میں سیکیورٹی فورسز نے تربت میں پاک بحریہ کے ایئربیس پی این صدیق پر دہشت گردوں کے حملے کو ناکام بنا دیا۔ جوابی کارروائی کے دوران چار دہشت گرد مارے گئے، جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں ایک سپاہی نے جام شہادت نوش کیا۔
درحقیقت چینی باشندوں پر حملوں کے واقعات، چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) منصوبوں پر عمل درآمد میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے کیے جا رہے ہیں کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط تجارتی، سیاسی، دفاعی اور معاشی تعلقات سمیت ایک دوسرے کے قریب آنے کی ایک وجہ چین کا بی آر آئی یعنی ' بیلٹ روڈ انیشی ایٹو' بھی ہے جس کے تحت سی پیک منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات، خاص طور پر گوادر، تربت اور بشام میں بزدلانہ کارروائیوں کا مقصد داخلی سلامتی کی صورتحال کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ پاکستان میں اپنے شہریوں پر حملوں اور دہشت گردی کے واقعات میں ہلاکتوں پر چین کے تحفظات تو ضرور موجود ہیں لیکن یہ کہنا کہ درست نہیں ہوگا کہ ان واقعات سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر بہت گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔
چین کو بھی معلوم ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی پر قابو پانے میں کس قسم کی مشکلات کا سامنا ہے، ایسے میں وہ پاکستانی حکومت سے سیکیورٹی بہتر بنانے پر زور تو دے سکتا ہے لیکن ان واقعات سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی بڑی دراڑ پڑنے کا امکان نہیں۔
افواج پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف عمل ہیں۔ سب پر یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ لہر کو افغانستان کی مکمل حمایت و مدد حاصل ہے۔ افغان طالبان کی مدد اور جدید اسلحے کی فراہمی سے دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
پاکستان میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے واضح شواہد موجود ہیں۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات ،دہشت گردوں کی جانب سے حملے کے دوران قیمتی جانوں کے نقصان کے تانے بانے بھی افغانستان میں پناہ لیے دہشت گردوں سے جا ملتے ہیں۔
یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت نہ صرف دہشت گردوں کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔درحقیقت آج کی دنیا میں کمزور معیشت قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ گردانی جاتی ہے اور پاکستان میں سیکیورٹی اسٹیٹ کے لیے یہ خطرہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے۔
اس دگرگوں اقتصادیات کی وجہ سے ہی گزشتہ برس 2023 میں ہم بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے سامنے بے بس نظر آئے۔ اسی طرح دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر نے بھی ملک میں خوف و ہراس کی ایک فضا پیدا کیے رکھی۔ پاکستان میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ رپبلکن آرمی (بی آر اے)، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، (ایل ای جے) اور داعش سے واضح خطرات موجود ہیں۔ مخالف گروپوں کے ساتھ مذاکرات غیر موثر ثابت ہوئے ہیں اور خوش کرنے کی پالیسیاں بار بار ناکام رہی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے باقی ماندہ سرحدی علاقوں پر باڑ لگائیں۔
جرائم اور اسمگلنگ جو دہشت گردی کی مالی مدد کا جانا پہچانا ذریعہ ہیں، کے خلاف قانون کے دائرے میں رہ کر جارحانہ انداز میں کارروائی کی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوئی بھی ڈھیل قانون کے احترام اور انصاف کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے، جس کا نتیجہ بالآخر جبر میں اضافے اور برے قوانین کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ فوجداری انصاف کے نظام میں اصلاحات نئے سال کا وہ تحفہ ہے جس کا یہ ملک مستحق ہے۔
بیتے برس میں ہم نے جو تکلیف اٹھائی ہے، اسے ہمیں بدلنا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ آنے والے برسوں میں بھی ہم اس تکلیف سے گزریں۔ دہشت گردی کی یہ جنگ لڑتے ہوئے اب ہمیں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے اور پاک افواج نے اس مشکل ترین جنگ میں لازوال قربانیاں دے کر شاندار کامیابیاں حاصل کیں جس پر دنیا بھی حیران ہے۔
اس وقت اندرون ملک چھپے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں میں باہمی رابطے مضبوط معلوم ہوتے ہیں۔ دہشت گردوں کو سب سے زیادہ طاقت اندرونی سہولت کاروں سے حاصل ہے۔ دہشت گردی کے ہر بڑے واقعے کے پیچھے ان سہولت کاروں کا بہت بڑا کردار ہے جس کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اصل میں اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ دہشت گردوں میں کارروائی کرنے کی صلاحیت موجود ہے اوراس صورتحال میں دہشت گردوں کے حملہ کرنے کی صلاحیت کا دوبارہ جائزہ لے کر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے اندر سیاسی عدم رواداری کے باعث صوبوں کے مابین نیشنل ایکشن پلان اور دیگر سیکیورٹی کے معاملات میں بھی مفاہمت کا فقدان پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے بھی دہشت گردوں کو براہ راست فائدہ پہنچ رہا ہے۔یہ ملک کی سلامتی اور بقا کی جنگ ہے اس لیے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاست کے تمام اداروں کو مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی ۔
مختلف اداروں میں چھپے وہ سہولت کار جو پاکستان کے دشمنوں کا ساتھ دے رہے ہیں، ان کی کھوج ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ہم صرف بیانات دیکر بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ پاکستان میں ان گنت سافٹ پوائنٹ ہیں، ہمیں اپنی سرحدوں کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے اندرونی اسٹرکچر کو مضبوط بنانا ہوگا۔
مودی سرکار اور علیحدگی پسند بلوچ قوم پرست جماعت، بلوچستان میں دہشت گردی میں جو کردار ادا کر رہے ہیں، اس کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے لیے باہمی اختلافات، کرپشن، اقربا پروری سے ہی فرصت نہیں ہے۔ جب قوم کے لیڈر اقتدار کے لیے قوم کے مفاد کے بجائے قوم کے خلاف کام کرنے لگے تو ہمیں بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔
دراصل سی پیک منصوبے پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اسلام آباد مستقبل میں بڑے پیمانے پر بہتر معیشت کے لیے انھی منصوبوں پر انحصار کرے گا، اگر اس منصوبے سے پاکستان فائدہ اٹھانے میں ناکام رہتا ہے تو یقیناً پاکستان کا ہی معاشی نقصان ہوگا۔
اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ چینی سرمایہ کاروں اور حکومت کو اس جانب راغب کیا جائے کہ وہ دیگر ایشیائی ممالک کے بجائے اپنی صنعتیں چین سے پاکستان منتقل کریں اور اس کے لیے انھیں سیکیورٹی سمیت ہر قسم کی سہولت فراہم کی جانی چاہیے تاکہ پاکستان کی برآمدات کو بڑھایا جاسکے۔ چینی باشندوں کی سیکیورٹی میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔
بدلتے ہوئے حالات اور جدید ہتھیاروں کی موجودگی میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا۔جاسوسی کے جدید آلات اور سیٹلائٹ سسٹم کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور ان کی نقل وحرکت پر نظر رکھنا ہو گی اور سسٹم کو اس قدر جدید بنانا ہو گا کہ دہشت گردی کی کارروائی سے قبل ہی دہشت گردوں کو قابو کر لیا جائے۔ آج ہمارا ملک ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، ایک راستہ ہمیشہ کی تباہی، نہ مٹنے والے انتشار و اختلاف اور نہ ختم ہو نے والے زوال کی طرف جاتا ہے، اور ایک راستہ ہمیشہ کے امن و امان، اتحاد و یکجہتی، آپسی الفت و محبت اور خیر کی طرف جاتا ہے اور یہی کامیابی کا راستہ ہے۔
بابائے قوم بانی پاکستان کا اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط پر زور صرف ایک نعرہ نہیں تھا بلکہ متنوع نسلی اور مذہبی پس منظر سے ایک ہم آہنگ قوم کی تشکیل کے لیے رہنما اصول تھے۔ کوئی بھی جمہوری ملک آئین اور قانون کی بالادستی کے بغیر منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتا اور نہ ترقی کرسکتا ہے۔ اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ کوئی بھی حکومت چاہے کتنی بھی مضبوط کیوں نہ ہو ان حالات کا مقابلہ اکیلے نہیں کرسکتی۔ اس طرح کے سنگین حالات کا مقابلہ صرف اتحاد و یکجہتی سے ہی کیا جاسکتا ہے اور ان پر آشوب حالات میں قوم کی صحیح تعمیر اور باہمی اعتماد و محبت کی فضاء پیدا کرنے کے لیے ہم کو ایک سر فروشانہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔
سی پیک منصوبے کے خلاف صرف بھارت نہیں ہے، امریکا بھی سی پیک منصوبے کے خلاف ہے، یہ ممالک اس منصوبے کی تکمیل نہیں چاہتے، امریکا اور بھارت کی مخالفت کی وجہ سے سی پیک منصوبے کی تکمیل میں بہت سی دشواریاں آئیں گی، پاکستان کو ان مشکلات سے نمٹنا ہو گا، حکومت کو چاہیے کہ وہ سی پیک کے بقیہ منصوبوں پر توجہ دے کر ان کو فوری مکمل کرے۔
درحقیقت چینی باشندوں پر حملوں کے واقعات، چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) منصوبوں پر عمل درآمد میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے کیے جا رہے ہیں کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط تجارتی، سیاسی، دفاعی اور معاشی تعلقات سمیت ایک دوسرے کے قریب آنے کی ایک وجہ چین کا بی آر آئی یعنی ' بیلٹ روڈ انیشی ایٹو' بھی ہے جس کے تحت سی پیک منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات، خاص طور پر گوادر، تربت اور بشام میں بزدلانہ کارروائیوں کا مقصد داخلی سلامتی کی صورتحال کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ پاکستان میں اپنے شہریوں پر حملوں اور دہشت گردی کے واقعات میں ہلاکتوں پر چین کے تحفظات تو ضرور موجود ہیں لیکن یہ کہنا کہ درست نہیں ہوگا کہ ان واقعات سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر بہت گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔
چین کو بھی معلوم ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی پر قابو پانے میں کس قسم کی مشکلات کا سامنا ہے، ایسے میں وہ پاکستانی حکومت سے سیکیورٹی بہتر بنانے پر زور تو دے سکتا ہے لیکن ان واقعات سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی بڑی دراڑ پڑنے کا امکان نہیں۔
افواج پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف عمل ہیں۔ سب پر یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ لہر کو افغانستان کی مکمل حمایت و مدد حاصل ہے۔ افغان طالبان کی مدد اور جدید اسلحے کی فراہمی سے دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
پاکستان میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے واضح شواہد موجود ہیں۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات ،دہشت گردوں کی جانب سے حملے کے دوران قیمتی جانوں کے نقصان کے تانے بانے بھی افغانستان میں پناہ لیے دہشت گردوں سے جا ملتے ہیں۔
یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت نہ صرف دہشت گردوں کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔درحقیقت آج کی دنیا میں کمزور معیشت قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ گردانی جاتی ہے اور پاکستان میں سیکیورٹی اسٹیٹ کے لیے یہ خطرہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے۔
اس دگرگوں اقتصادیات کی وجہ سے ہی گزشتہ برس 2023 میں ہم بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے سامنے بے بس نظر آئے۔ اسی طرح دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر نے بھی ملک میں خوف و ہراس کی ایک فضا پیدا کیے رکھی۔ پاکستان میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ رپبلکن آرمی (بی آر اے)، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، (ایل ای جے) اور داعش سے واضح خطرات موجود ہیں۔ مخالف گروپوں کے ساتھ مذاکرات غیر موثر ثابت ہوئے ہیں اور خوش کرنے کی پالیسیاں بار بار ناکام رہی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے باقی ماندہ سرحدی علاقوں پر باڑ لگائیں۔
جرائم اور اسمگلنگ جو دہشت گردی کی مالی مدد کا جانا پہچانا ذریعہ ہیں، کے خلاف قانون کے دائرے میں رہ کر جارحانہ انداز میں کارروائی کی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوئی بھی ڈھیل قانون کے احترام اور انصاف کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے، جس کا نتیجہ بالآخر جبر میں اضافے اور برے قوانین کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ فوجداری انصاف کے نظام میں اصلاحات نئے سال کا وہ تحفہ ہے جس کا یہ ملک مستحق ہے۔
بیتے برس میں ہم نے جو تکلیف اٹھائی ہے، اسے ہمیں بدلنا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ آنے والے برسوں میں بھی ہم اس تکلیف سے گزریں۔ دہشت گردی کی یہ جنگ لڑتے ہوئے اب ہمیں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے اور پاک افواج نے اس مشکل ترین جنگ میں لازوال قربانیاں دے کر شاندار کامیابیاں حاصل کیں جس پر دنیا بھی حیران ہے۔
اس وقت اندرون ملک چھپے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں میں باہمی رابطے مضبوط معلوم ہوتے ہیں۔ دہشت گردوں کو سب سے زیادہ طاقت اندرونی سہولت کاروں سے حاصل ہے۔ دہشت گردی کے ہر بڑے واقعے کے پیچھے ان سہولت کاروں کا بہت بڑا کردار ہے جس کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اصل میں اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ دہشت گردوں میں کارروائی کرنے کی صلاحیت موجود ہے اوراس صورتحال میں دہشت گردوں کے حملہ کرنے کی صلاحیت کا دوبارہ جائزہ لے کر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے اندر سیاسی عدم رواداری کے باعث صوبوں کے مابین نیشنل ایکشن پلان اور دیگر سیکیورٹی کے معاملات میں بھی مفاہمت کا فقدان پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے بھی دہشت گردوں کو براہ راست فائدہ پہنچ رہا ہے۔یہ ملک کی سلامتی اور بقا کی جنگ ہے اس لیے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاست کے تمام اداروں کو مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی ۔
مختلف اداروں میں چھپے وہ سہولت کار جو پاکستان کے دشمنوں کا ساتھ دے رہے ہیں، ان کی کھوج ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ہم صرف بیانات دیکر بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ پاکستان میں ان گنت سافٹ پوائنٹ ہیں، ہمیں اپنی سرحدوں کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے اندرونی اسٹرکچر کو مضبوط بنانا ہوگا۔
مودی سرکار اور علیحدگی پسند بلوچ قوم پرست جماعت، بلوچستان میں دہشت گردی میں جو کردار ادا کر رہے ہیں، اس کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے لیے باہمی اختلافات، کرپشن، اقربا پروری سے ہی فرصت نہیں ہے۔ جب قوم کے لیڈر اقتدار کے لیے قوم کے مفاد کے بجائے قوم کے خلاف کام کرنے لگے تو ہمیں بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔
دراصل سی پیک منصوبے پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اسلام آباد مستقبل میں بڑے پیمانے پر بہتر معیشت کے لیے انھی منصوبوں پر انحصار کرے گا، اگر اس منصوبے سے پاکستان فائدہ اٹھانے میں ناکام رہتا ہے تو یقیناً پاکستان کا ہی معاشی نقصان ہوگا۔
اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ چینی سرمایہ کاروں اور حکومت کو اس جانب راغب کیا جائے کہ وہ دیگر ایشیائی ممالک کے بجائے اپنی صنعتیں چین سے پاکستان منتقل کریں اور اس کے لیے انھیں سیکیورٹی سمیت ہر قسم کی سہولت فراہم کی جانی چاہیے تاکہ پاکستان کی برآمدات کو بڑھایا جاسکے۔ چینی باشندوں کی سیکیورٹی میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔
بدلتے ہوئے حالات اور جدید ہتھیاروں کی موجودگی میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا۔جاسوسی کے جدید آلات اور سیٹلائٹ سسٹم کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور ان کی نقل وحرکت پر نظر رکھنا ہو گی اور سسٹم کو اس قدر جدید بنانا ہو گا کہ دہشت گردی کی کارروائی سے قبل ہی دہشت گردوں کو قابو کر لیا جائے۔ آج ہمارا ملک ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، ایک راستہ ہمیشہ کی تباہی، نہ مٹنے والے انتشار و اختلاف اور نہ ختم ہو نے والے زوال کی طرف جاتا ہے، اور ایک راستہ ہمیشہ کے امن و امان، اتحاد و یکجہتی، آپسی الفت و محبت اور خیر کی طرف جاتا ہے اور یہی کامیابی کا راستہ ہے۔
بابائے قوم بانی پاکستان کا اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط پر زور صرف ایک نعرہ نہیں تھا بلکہ متنوع نسلی اور مذہبی پس منظر سے ایک ہم آہنگ قوم کی تشکیل کے لیے رہنما اصول تھے۔ کوئی بھی جمہوری ملک آئین اور قانون کی بالادستی کے بغیر منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتا اور نہ ترقی کرسکتا ہے۔ اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ کوئی بھی حکومت چاہے کتنی بھی مضبوط کیوں نہ ہو ان حالات کا مقابلہ اکیلے نہیں کرسکتی۔ اس طرح کے سنگین حالات کا مقابلہ صرف اتحاد و یکجہتی سے ہی کیا جاسکتا ہے اور ان پر آشوب حالات میں قوم کی صحیح تعمیر اور باہمی اعتماد و محبت کی فضاء پیدا کرنے کے لیے ہم کو ایک سر فروشانہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔
سی پیک منصوبے کے خلاف صرف بھارت نہیں ہے، امریکا بھی سی پیک منصوبے کے خلاف ہے، یہ ممالک اس منصوبے کی تکمیل نہیں چاہتے، امریکا اور بھارت کی مخالفت کی وجہ سے سی پیک منصوبے کی تکمیل میں بہت سی دشواریاں آئیں گی، پاکستان کو ان مشکلات سے نمٹنا ہو گا، حکومت کو چاہیے کہ وہ سی پیک کے بقیہ منصوبوں پر توجہ دے کر ان کو فوری مکمل کرے۔