ایک علمی دیوانہ
ایسی بہت ساری باتوں کی طرح آج کل کتاب اور کتاب کلچر کے خاتمے کی بات بھی پھیلی ہوئی ہے
علامہ عبدالستار عاصم ایک دیوانے کا نام ہے۔یہ ان دیوانوں میں ایک ہیں کہ ہوتے تو دیوانے ہیں لیکن بکازخویش، ہوشیار ہوتے ہیں۔اور جب فرزانوں میں سے ایسا کوئی دیوانہ پیدا ہوتا ہے تو وہ وہ کارنامے کردکھاتے ہیں جو فرزانے کبھی نہیں کرپاتے۔کیونکہ یہ عشق کے پرستار ہوتے ہیں اور عشق ؎
بے خطر کھود پڑا آتش نمردو میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اگر اس دنیا میں دیوانے نہ ہوتے تو شاید یہ دنیائے آب وگل کبھی کی بھک سے اڑ چکی ہوتی کہ عقل مند صرف دنیا کو بھک سے اڑانے والی چیزیں بناسکتے ہیں بلکہ ہمارے خیال میں تو اب بات اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ لوگوں کو ایک مہم چلانا چاہیے کہ''دنیا کو عقلمندوں سے بچایے'' کیونکہ غالب نے عقل ہی کے بارے میں کہا ہے کہ ؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے اس کا دشمن آسماں کیوں ہو
کیونکہ تمہارا دوست وہ نہیں جو تمہارے ہاتھ میں بندوق دے بلکہ وہ ہے جو تمہارے ہاتھ سے بندوق لے لے۔اور عقل مند یہی کرتے ہیں کہ دوستوں کے ہاتھوں میں بندوق دیتے رہتے ہیں، وہ اسی منزل میں تھے، ہیں اور رہیں گے ؎
شوق کی دیوانگی طے کرگئی کتنے مقام
عقل جس منزل میں تھی اب تک اسی منزل میں ہے
یہ دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے کہ لوگ نہ جانے کیا کیا کرکے کیا کیا بن گئے اور عبدالستار عاصم کتابیں چھاپ رہا ہے۔ ہمارے گاؤں کے ایک شخص کا بیٹا کالج میں لیکچرار ہوگیا تو اس کا باپ ہر کسی کے آگے دکھڑا روتا تھا کہ لوگوں کو دیکھو پٹواری بن رہے ہیں تھانیدار بن رہے ہیں اور یہ کم بخت صرف بچوں کو پڑھانے والا استاد بن گیا ہے۔علامہ عبدالستار عاصم کی سب سے بڑی دیوانگی تو یہ ہے کہ ایسے وقت میں اہل کتاب بن رہا ہے جب لوگوں کے خیال میں معاشرے سے کتاب کو نکال باہر کیا جارہا ہے، ایک بات جب چل ہڑتی ہے تو چل پڑتی ہے ۔ کسی نے کہا بھی ہے کہ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی ؎
ذکر جب چھیڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک
ایسی بہت ساری باتوں کی طرح آج کل کتاب اور کتاب کلچر کے خاتمے کی بات بھی پھیلی ہوئی ہے، جسے دیکھیے یہی رونا لیے بیٹھا ہے کہ کتاب کلچر کا خاتمہ ہوگیا ۔کسی حد تک تو یہ درست ہے کہ فرق پڑا ہے، واقعی انٹرنیٹ نے دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔لیکن یہ بات جتنی صحیح ہے اتنی ہی یہ بات غلط ہے کہ کتاب کلچر ختم ہوگیا ہے کیونکہ سیلاب،سیلاب ہوتا ہے اور دریا دریا ہوتا ہے۔
کتاب کی مثال کھانے کی ہے اور انٹرنیٹ ''فاسٹ فوڈ''ہے اور فاسٹ فوڈ کبھی بھی کھانے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ایک ثبوت ہمارے سامنے ہے۔ٹی وی آنے پر ریڈیو کی اہمیت کم ہوگئی تھی لیکن ایک جھٹکے کے بعد آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریڈیو مقبول ہونے لگا ہے۔جس پر دلیل بے شمار ریڈیو چینل ہیں جو دھڑا دھڑ کھل رہے ہیں۔کتاب پڑھنے والے بھی موجود ہیں لیکن فرق اتنا پڑا ہے کہ ہر کتاب کے پڑھنے والے نہیں رہے یا کم ہوگئے ہیں۔
کتاب اگر کتاب ہو تو اب بھی اس کے پڑھنے والے موجود ہیں بلکہ یہ ایک طرح سے اچھا ہوگیا ایسی فضول کتابوں کے چھپنے میں کمی آگئی ہے جو پڑھنے کی لائق نہیں ہوتی تھیں۔اگر کتاب واقعی کتاب ہو اور اس میں اتنی صلاحیت ہو کہ پڑھنے والے سے خودکو ''پڑھوا سکے''تو ایسی کتابوں کا کلچر نہ کبھی ختم ہوا تھا نہ ختم ہوا ہے اور نہ کبھی ختم ہوگا بلکہ ہمارے خیال میں تو یہ ایک طرح سے اچھا ہوگیا کم سے کم کسی حد تک ان رطب یابس کتابوں سے تو جان چھوٹی، جو کتاب نہیں بلکہ کتاب کی توہین ہوتی تھی۔ ہر کوئی فضول قسم کے اپنے خیالات نظم و نثر میں اکٹھے کرتا اور اس پر کاغذ اور دوسرے اخراجات کرکے پڑھنے والوں کے متھے مار دیتا تھا۔
ایک دفعہ ایک کتابوں والے سے تنگ آکر ہم نے اپنے حلقہ احباب و حلقہ کتاب میں اعلان کردیا کہ اگر کوئی ہمیں کتاب دیتا ہے تو اسے ہمیں فی صفحہ کے حساب سے مزدوری دینا ہوگی جیسے کاتبوں، کمپوزروں، مترجموں یا پروف ریڈروں کو دی جاتی ہے۔
ایک مرتبہ ہم نے ایک پروف ریڈر سے پوچھا کہ تم آخر پروف ریڈنگ کیسے کرلیتے ہو۔بولا میں جانتا ہوں کوئی پڑھے گا تو میری غلطی پکڑی جائے گی۔اور یہ جو ہمارے علامہ عبدالستار عاصم وہ دیوانے ہیں جو بکارخویش ہوشیار ہوتے ہیں، کتابیں ایسی چھاپتے ہیں کہ ان میں خود کو پڑھوانے کی صلاحیت ہوتی ہے اوپر سے ان کا ادارہ قلم فاونڈیشن کتابیں اتنی خوبصورت چھاپتا ہے کہ نظر کو کھینچ لیتی ہیں اور جب نظر کھینچ لیتی ہیں تو پھر کتاب کسی سے بھی خود پڑھوائے بغیر نہیں رہتی۔اور ہمارے ہاں ایسی بھی کتابیں چھپتی تھیں جن کے صرف تین پڑھنے والے ہوتے تھے ایک خود لکھنے والا دوسرا کاتب اور تیسرا پڑھنے والا۔اور ان تینوں کو پتہ ہوتا تھا کہ کوئی کتاب پڑھے گا تو ان کی غلطی کا پتہ لگے گا تو خواہ مخواہ تکلیف اٹھانے سے کیا فائدہ۔ایک ایسی کتابیں بھی ہوتی ہیں جیسے چارلس ڈارون کی کتاب''اصل انواع'' جب شایع ہوئی تو پہلا ایڈیشن اسی روز شام تک ختم ہوگیا تھا اور اس کے بعد ابھی تک وہ بے شمار زبانوں میں مسلسل چھپ رہی اور بک بھی رہی ہے۔
ایسی اور بھی کئی کتابیں ہیں جنھیں لوگ ڈھونڈتے رہتے ہیں وہ یا ان کے مصنف لوگوں کو نہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ علامہ عبدالستار عاصم کی کتابوں میں جو بات ہم نے دیکھی وہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے کسی نہ کسی پہلو کو اجاگر کرتی یا پاکستان کی نامور شخصیات کا احاطہ کرتی ہیں یا ان گوشوں کو منور کرتی ہیں جو منظرعام پر نہیں آئے۔دیوانے ہیں لیکن کام وہ کرتے ہیں جو فرزانوں سے نہیں ہوپاتے انھوں نے شاید یہ دعا مانگی ہو۔جو پوری ہوگئی ہے کہ ؎
درد سے میرا دامن بھر دے یا اللہ
پھر چاہے دیوانہ کردے یا اللہ
بے خطر کھود پڑا آتش نمردو میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اگر اس دنیا میں دیوانے نہ ہوتے تو شاید یہ دنیائے آب وگل کبھی کی بھک سے اڑ چکی ہوتی کہ عقل مند صرف دنیا کو بھک سے اڑانے والی چیزیں بناسکتے ہیں بلکہ ہمارے خیال میں تو اب بات اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ لوگوں کو ایک مہم چلانا چاہیے کہ''دنیا کو عقلمندوں سے بچایے'' کیونکہ غالب نے عقل ہی کے بارے میں کہا ہے کہ ؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے اس کا دشمن آسماں کیوں ہو
کیونکہ تمہارا دوست وہ نہیں جو تمہارے ہاتھ میں بندوق دے بلکہ وہ ہے جو تمہارے ہاتھ سے بندوق لے لے۔اور عقل مند یہی کرتے ہیں کہ دوستوں کے ہاتھوں میں بندوق دیتے رہتے ہیں، وہ اسی منزل میں تھے، ہیں اور رہیں گے ؎
شوق کی دیوانگی طے کرگئی کتنے مقام
عقل جس منزل میں تھی اب تک اسی منزل میں ہے
یہ دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے کہ لوگ نہ جانے کیا کیا کرکے کیا کیا بن گئے اور عبدالستار عاصم کتابیں چھاپ رہا ہے۔ ہمارے گاؤں کے ایک شخص کا بیٹا کالج میں لیکچرار ہوگیا تو اس کا باپ ہر کسی کے آگے دکھڑا روتا تھا کہ لوگوں کو دیکھو پٹواری بن رہے ہیں تھانیدار بن رہے ہیں اور یہ کم بخت صرف بچوں کو پڑھانے والا استاد بن گیا ہے۔علامہ عبدالستار عاصم کی سب سے بڑی دیوانگی تو یہ ہے کہ ایسے وقت میں اہل کتاب بن رہا ہے جب لوگوں کے خیال میں معاشرے سے کتاب کو نکال باہر کیا جارہا ہے، ایک بات جب چل ہڑتی ہے تو چل پڑتی ہے ۔ کسی نے کہا بھی ہے کہ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی ؎
ذکر جب چھیڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک
ایسی بہت ساری باتوں کی طرح آج کل کتاب اور کتاب کلچر کے خاتمے کی بات بھی پھیلی ہوئی ہے، جسے دیکھیے یہی رونا لیے بیٹھا ہے کہ کتاب کلچر کا خاتمہ ہوگیا ۔کسی حد تک تو یہ درست ہے کہ فرق پڑا ہے، واقعی انٹرنیٹ نے دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔لیکن یہ بات جتنی صحیح ہے اتنی ہی یہ بات غلط ہے کہ کتاب کلچر ختم ہوگیا ہے کیونکہ سیلاب،سیلاب ہوتا ہے اور دریا دریا ہوتا ہے۔
کتاب کی مثال کھانے کی ہے اور انٹرنیٹ ''فاسٹ فوڈ''ہے اور فاسٹ فوڈ کبھی بھی کھانے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ایک ثبوت ہمارے سامنے ہے۔ٹی وی آنے پر ریڈیو کی اہمیت کم ہوگئی تھی لیکن ایک جھٹکے کے بعد آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریڈیو مقبول ہونے لگا ہے۔جس پر دلیل بے شمار ریڈیو چینل ہیں جو دھڑا دھڑ کھل رہے ہیں۔کتاب پڑھنے والے بھی موجود ہیں لیکن فرق اتنا پڑا ہے کہ ہر کتاب کے پڑھنے والے نہیں رہے یا کم ہوگئے ہیں۔
کتاب اگر کتاب ہو تو اب بھی اس کے پڑھنے والے موجود ہیں بلکہ یہ ایک طرح سے اچھا ہوگیا ایسی فضول کتابوں کے چھپنے میں کمی آگئی ہے جو پڑھنے کی لائق نہیں ہوتی تھیں۔اگر کتاب واقعی کتاب ہو اور اس میں اتنی صلاحیت ہو کہ پڑھنے والے سے خودکو ''پڑھوا سکے''تو ایسی کتابوں کا کلچر نہ کبھی ختم ہوا تھا نہ ختم ہوا ہے اور نہ کبھی ختم ہوگا بلکہ ہمارے خیال میں تو یہ ایک طرح سے اچھا ہوگیا کم سے کم کسی حد تک ان رطب یابس کتابوں سے تو جان چھوٹی، جو کتاب نہیں بلکہ کتاب کی توہین ہوتی تھی۔ ہر کوئی فضول قسم کے اپنے خیالات نظم و نثر میں اکٹھے کرتا اور اس پر کاغذ اور دوسرے اخراجات کرکے پڑھنے والوں کے متھے مار دیتا تھا۔
ایک دفعہ ایک کتابوں والے سے تنگ آکر ہم نے اپنے حلقہ احباب و حلقہ کتاب میں اعلان کردیا کہ اگر کوئی ہمیں کتاب دیتا ہے تو اسے ہمیں فی صفحہ کے حساب سے مزدوری دینا ہوگی جیسے کاتبوں، کمپوزروں، مترجموں یا پروف ریڈروں کو دی جاتی ہے۔
ایک مرتبہ ہم نے ایک پروف ریڈر سے پوچھا کہ تم آخر پروف ریڈنگ کیسے کرلیتے ہو۔بولا میں جانتا ہوں کوئی پڑھے گا تو میری غلطی پکڑی جائے گی۔اور یہ جو ہمارے علامہ عبدالستار عاصم وہ دیوانے ہیں جو بکارخویش ہوشیار ہوتے ہیں، کتابیں ایسی چھاپتے ہیں کہ ان میں خود کو پڑھوانے کی صلاحیت ہوتی ہے اوپر سے ان کا ادارہ قلم فاونڈیشن کتابیں اتنی خوبصورت چھاپتا ہے کہ نظر کو کھینچ لیتی ہیں اور جب نظر کھینچ لیتی ہیں تو پھر کتاب کسی سے بھی خود پڑھوائے بغیر نہیں رہتی۔اور ہمارے ہاں ایسی بھی کتابیں چھپتی تھیں جن کے صرف تین پڑھنے والے ہوتے تھے ایک خود لکھنے والا دوسرا کاتب اور تیسرا پڑھنے والا۔اور ان تینوں کو پتہ ہوتا تھا کہ کوئی کتاب پڑھے گا تو ان کی غلطی کا پتہ لگے گا تو خواہ مخواہ تکلیف اٹھانے سے کیا فائدہ۔ایک ایسی کتابیں بھی ہوتی ہیں جیسے چارلس ڈارون کی کتاب''اصل انواع'' جب شایع ہوئی تو پہلا ایڈیشن اسی روز شام تک ختم ہوگیا تھا اور اس کے بعد ابھی تک وہ بے شمار زبانوں میں مسلسل چھپ رہی اور بک بھی رہی ہے۔
ایسی اور بھی کئی کتابیں ہیں جنھیں لوگ ڈھونڈتے رہتے ہیں وہ یا ان کے مصنف لوگوں کو نہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ علامہ عبدالستار عاصم کی کتابوں میں جو بات ہم نے دیکھی وہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے کسی نہ کسی پہلو کو اجاگر کرتی یا پاکستان کی نامور شخصیات کا احاطہ کرتی ہیں یا ان گوشوں کو منور کرتی ہیں جو منظرعام پر نہیں آئے۔دیوانے ہیں لیکن کام وہ کرتے ہیں جو فرزانوں سے نہیں ہوپاتے انھوں نے شاید یہ دعا مانگی ہو۔جو پوری ہوگئی ہے کہ ؎
درد سے میرا دامن بھر دے یا اللہ
پھر چاہے دیوانہ کردے یا اللہ