نصرت الٰہی کے لیے دعاؤں کی ضرورت
غزہ ہی نہیں پورے فلسطین میں کاروبار زندگی ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے
کئی دہائیوں سے اسرائیلی افواج کی بربریت اور مسلم امہ کی خاموشی پر سات اکتوبر 2023 کو حماس کے مجاہدین نے فلسطینی مسلمانوں کے نسل کش اسرائیل پر دنیا کو حیران کر دینے والا حملہ اس آسرے پر کیا کہ جب مسلم امہ کے حکمران ان نہتے مجاہدین کے ہاتھوں اسرائیلی دفاعی حصار کا حشر دیکھیں گے تو شاید ان کی مصلحت اندیشی جرات مندی میں تبدیل ہو جائے۔ اسرائیل کے مطابق '' حماس کے اس ابتدائی حملے میں 1200 سے زائد یہودی ہلاک ہوئے اور 240 افراد کو حماس کے جنگجو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے۔''
مگر اس کمر توڑ حملے اور کامیابی کے باوجود مسلم امہ کے حکمرانوں کی بے حسی نے اس بار تمام حدیں پارکردیں جس سے اسرائیل شیر ہوگیا اور اس نے غزہ پٹی پر تابڑ توڑ زمینی اور فضائی حملے شروع کر دیے اور اس بار اسرائیلی افواج نے فلسطینیوں کی نسل کشی میں ہر حد پار کردی۔
آج غزہ کی پٹی قبرستان کا منظر پیش کر رہی ہے، اسرائیلی زمینی، فضائی حملوں، ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال، عالمی جنگی قوانین کی بدترین پامالی اور بربریت میں اب تک شہداء کی تعداد تیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جس میں 20 ہزار سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں مگر انسانی حقوق، خاص کر خواتین اور بچوں کے حقوق کے علمبردار اور بین الاقوامی ٹھیکیدار مغرب و امریکا اس بربریت اور نسلی کشی پر خاموش بلکہ اس نسل کشی میں براہ راست شامل ہیں۔ پورا علاقہ کھنڈرات کا نقشہ پیش کررہا ہے، غزہ میں ایک عمارت بھی اپنی بنیادوں پر کھڑی دکھائی نہیں دے رہی۔ رمضان المبارک میں لوگ اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھ کر اپنے آنسوؤں اور اپنے بچوں کے خون سے روزہ رکھتے اور افطار کرتے ہیں۔ غزہ میں خوراک کی قلت شدید بحرانی کیفیت اختیار کرچکی ہے جس سے فلسطینی ہی نہیں یرغمال بنائے گئے اسرائیلی بھی مرنا شروع ہوچکے ہیں۔ 7 اکتوبر کے بعد سے لمحہ موجود تک غزہ میں اوسطاً سو قبریں روزانہ کھودی جاتی ہیں، جنھیں شام تک مکین میسر آجاتے ہیں اور گورکن اگلے دن کی قبریں کھودنے کی مشقت میں لگ جاتے ہیں۔
غزہ ہی نہیں پورے فلسطین میں کاروبار زندگی ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ اسرائیلی درندگی کی وجہ سے ارض مقدس فلسطین میں کفن دفن، گریہ و زاری اور لحد سازی کی یہ صنعت عالمگیر المیہ بن چکی ہے مگر یہ شاید مردہ عالمی ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں۔ اقوام متحدہ اپنی ہی قرار دادوں پر عملدرآمد کرانے سے قاصر ہے۔ عالمی عدالت انصاف اپنے ہی فیصلوں پر عمل درآمد کرانے سے معذور ہے۔
او آئی سی کا مردہ گھوڑا اس بار مردہ گدھا ثابت ہوگیا۔ ستاون کے قریب اسلامی ممالک ہیں لیکن ارض مقدس میں بے گناہ مسلمانوں کا بہتا خون دیکھ کر کسی نے جرات و حوصلے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ روئے زمین پر بسنے والا امت مسلمہ کا ہر فرد مسلم حکمرانوں کی اس مصلحت پسندانہ پالیسی پریشان بھی ہے اور پشیمان بھی۔ گزشتہ دنوں ترکی کی سعادت پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ حسن بتمس ایوان میں خطاب کے دوران فلسطینی بچوں کا درد بیان کرتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ انھیں اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ انتقال کر گئے۔
یہ ان کی تقریر کے آخری الفاظ مسلم امہ کے حکمرانوں کے منہ پر خون آلود تھپڑ سے کم نہیں وہ کہہ گئے ''غزہ میں ظلم پر اگر ہم خاموش رہیں گے تو تاریخ خاموش نہیں رہے گی، اگر تاریخ خاموش رہی تو سچ خاموش نہیں رہے گا۔
اگر آپ اپنے ضمیر کے عذاب سے بچ گئے تو تاریخ کے عذاب سے نہیں بچ پائیں گے، اگر آپ تاریخ کے عذاب سے بچ بھی گئے تو یاد رکھیں، آپ اللہ کے غضب سے نہیں بچ سکیں گے۔'' ترکی کے اس نڈر مسلمان لیڈر کے دل میں اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے لیے جو درد تھا وہ ساری دنیا نے دیکھ لیا یہی درد نبی رحمت العالمین حضرت محمد مجتبیﷺ کا ہر امتی دل میں لیے پھر رہا ہے مسلم ممالک کے حکمران ہوش کے ناخن لیں یہ صرف درد رکھنے والوں کے لیے دل کے دورے کا باعث نہیں بنے گا یہ حکمرانوں کے تخت کو تختہ میں بدلنے کا رخ اختیار کرسکتاہے۔ اس لیے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے سے پہلے فلسطینی بچوں کو اسرائیلی درندگی سے بچانے کے لیے مردانہ وار میدان میں نکل آئیں۔ حسن بتمس تو سرخرو ہوکر اللہ کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔ مجھ سمیت ہر امتی اور عالم اسلام کے ہر حکمران نے بھی ایک دن اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔
اسرائیل کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی کو ہوا دی جائے، امت مسلمہ کو کسی بھی عنوان و تنازعہ پر لڑایا جائے تاکہ امت مسلمہ تقسیم اور باہم دست و گریباں رہے تاکہ توجہ فلسطین کے مسئلے سے ہٹی رہے۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بھی ایسی ہی رپورٹس تھیں اور وہی ہوا۔ رمضان المبارک برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہے، نزول قرآن کا شرف لازوال اسی ماہ مقدس کو حاصل ہے، اس ماہ کے پہلے عشرہ رحمت میں 5 دہائیوں کی بین الاقوامی استعمار کے ظلم و بربریت سے نجات پانے والے برادر اسلامی ملک افغانستان اور اس کے محسن برادر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اچانک جنگ کے دھانے پر لا کھڑا کیا گیا۔
دہشت گردوں کے شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں بارود سے بھری گاڑی پاکستان کی فوجی چیک پوسٹ سے ٹکرا کر خودکش حملے میں لیفٹیننٹ کرنل کاشف علی، کیپٹن محمد بدر اور 5 دیگر فوجی جوانوں کو شہید کردیا گیا، واقعہ کے بعد ذمے داری کالعدم ٹی ٹی پی کے گل بہادر نامی کمانڈر نے قبول کی جو پاکستانی اداروں کے مطابق افغانستان میں مقیم ہے۔ وہ جو بھی ہو اور جہاں بھی مقیم ہو مگر اس عشرہ رحمت میں جس بے دردی کے ساتھ انھوں نے مسلمانوں کو شہید کیا یہ کونسا اسلام یا اسلام کی خدمت ہے؟
مگر یہ غیر معمولی جارحانہ کارروائی تھی پاکستان کیا، دنیا کا کمزور ترین ملک بھی یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کی مسلح افواج پر اس طرح کوئی حملہ آور ہو۔ پاکستان نے افغانستان میں قائم ان دہشت گردوں کے کیمپوں پر حملہ کیا۔ بعد ازاں دہشت گردوں نے قندھار میں بھی خون مسلم سے ہولی کھیلی، اس حملے میں کئی قیمتی جانیں ضایع ہوئیں۔ یہ سب ایک بین الاقوامی سازش ہے جس کے تحت دو برادر اسلامی ممالک کو لڑایا جارہا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین سے دنیا کی نظریں ہٹ جائیں۔ اس جنگ میں اسرائیل، امریکا، یورپی یونین کی جیت کے لیے دنیا کے کسی دو بڑے مضبوط اسلامی ممالک کے درمیان جنگ امریکا اور اسرائیل کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے۔
مسلمان ممالک کا اتحاد اسرائیل، امریکا اور یورپی یونین کی بدترین شکست کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اسی صورتحال سے بچنے کے لیے امریکا، اسرائیل اور بھارت یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کے ساتھ ایران یا افعانستان کی جنگ ہو جائے۔
پہلے پاکستان، ایران اور اب پاک افغان کشیدگی نے جنگی صورتحال بنا دی ہے۔ تمام تر قربانیوں کے باوجود اہل فلسطین کے حوصلے بلند ہیں لیکن ملت اسلامیہ کے دو ممالک کے آپس میں لڑ پڑنے سے ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے لہٰذا پاکستان اور افغانستان دونوں کو ہوش کے ناخن لے کر امت مسلمہ کی وحدت کی خاطر اس جنگ کو روک کر ایک دوسرے کے دست و بازو بننا پڑے گا اور اسرائیلی درندوں کی جارحیت کے خلاف کھڑا ہونا پڑیگا ورنہ تاریخ دونوں کو معاف نہیں کرے گی۔ دونوں ممالک کی قیادت''عیار دشمن''کو ذہن میں رکھتے ہوئے دانشمندی سے آگے بڑھیں اور دنیا پر ثابت کریں کہ یہ امت حقیقی معنوں میں جسد واحد کی طرح ہے۔ پاکستان، افغانستان، ترکی اور دوسرے اسلامی ممالک کو آگے بڑھ کر اسرائیل کو روکنا پڑے گا۔
حکمرانوں کے سرد رویے کے علاوہ مجھے ذاتی طور پر مسلمانان پاکستان کے عمومی رویے نے زیادہ تشویش میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ رمضان المبارک عطا کرنے کا مہینہ ہے اللہ رب العزت سے دعائیں مانگنے کا مہینہ ہے مگر امام و خطیب سے لے کر مقتدی تک سب کی دعاؤں میں فلسطین کا ذکر نہیں، پورے عالم اسلام میں کسی ایک مسجد میں قنوت نازلہ پڑھنے کی خبر نہیں آرہی ہے آخر کیوں ہم اتنے بے حس ہوگئے؟
اے مسلمانو! ہوش کے ناخن لیں ہمارا رب آج بھی وہی رب ہے جس نے بدر کے میدان میں فرشتے بھیج کر 313 کے ہاتھوں ہزاروں کے لشکر کو نیست و نابود کیا تھا۔ ہم کیوں اللہ رب العزت سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لیے گڑگڑا کر مثل بدر نصرت نہیں مانگتے؟
خدا کے لیے آئمہ و خطباء اور عوام پیاز اور ٹماٹر کے ریٹ کو نہیں اپنے آپ کو بھی بھول کر فلسطینیوں کے لیے نصرت الہی کی دعائیں مانگیں تو انشاء اللہ فلسطین آزاد، اسرائیل نیست و نابود اور ہماری بھی ہر مراد پوری ہوگی اور بروز محشر شافع محشر کی شفاعت کے حقدار ہونگے ورنہ دنیا کے ساتھ عاقبت کی بربادی کے لیے فلسطینیوں کی آہیں کافی ہیں۔
مگر اس کمر توڑ حملے اور کامیابی کے باوجود مسلم امہ کے حکمرانوں کی بے حسی نے اس بار تمام حدیں پارکردیں جس سے اسرائیل شیر ہوگیا اور اس نے غزہ پٹی پر تابڑ توڑ زمینی اور فضائی حملے شروع کر دیے اور اس بار اسرائیلی افواج نے فلسطینیوں کی نسل کشی میں ہر حد پار کردی۔
آج غزہ کی پٹی قبرستان کا منظر پیش کر رہی ہے، اسرائیلی زمینی، فضائی حملوں، ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال، عالمی جنگی قوانین کی بدترین پامالی اور بربریت میں اب تک شہداء کی تعداد تیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جس میں 20 ہزار سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں مگر انسانی حقوق، خاص کر خواتین اور بچوں کے حقوق کے علمبردار اور بین الاقوامی ٹھیکیدار مغرب و امریکا اس بربریت اور نسلی کشی پر خاموش بلکہ اس نسل کشی میں براہ راست شامل ہیں۔ پورا علاقہ کھنڈرات کا نقشہ پیش کررہا ہے، غزہ میں ایک عمارت بھی اپنی بنیادوں پر کھڑی دکھائی نہیں دے رہی۔ رمضان المبارک میں لوگ اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھ کر اپنے آنسوؤں اور اپنے بچوں کے خون سے روزہ رکھتے اور افطار کرتے ہیں۔ غزہ میں خوراک کی قلت شدید بحرانی کیفیت اختیار کرچکی ہے جس سے فلسطینی ہی نہیں یرغمال بنائے گئے اسرائیلی بھی مرنا شروع ہوچکے ہیں۔ 7 اکتوبر کے بعد سے لمحہ موجود تک غزہ میں اوسطاً سو قبریں روزانہ کھودی جاتی ہیں، جنھیں شام تک مکین میسر آجاتے ہیں اور گورکن اگلے دن کی قبریں کھودنے کی مشقت میں لگ جاتے ہیں۔
غزہ ہی نہیں پورے فلسطین میں کاروبار زندگی ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ اسرائیلی درندگی کی وجہ سے ارض مقدس فلسطین میں کفن دفن، گریہ و زاری اور لحد سازی کی یہ صنعت عالمگیر المیہ بن چکی ہے مگر یہ شاید مردہ عالمی ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں۔ اقوام متحدہ اپنی ہی قرار دادوں پر عملدرآمد کرانے سے قاصر ہے۔ عالمی عدالت انصاف اپنے ہی فیصلوں پر عمل درآمد کرانے سے معذور ہے۔
او آئی سی کا مردہ گھوڑا اس بار مردہ گدھا ثابت ہوگیا۔ ستاون کے قریب اسلامی ممالک ہیں لیکن ارض مقدس میں بے گناہ مسلمانوں کا بہتا خون دیکھ کر کسی نے جرات و حوصلے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ روئے زمین پر بسنے والا امت مسلمہ کا ہر فرد مسلم حکمرانوں کی اس مصلحت پسندانہ پالیسی پریشان بھی ہے اور پشیمان بھی۔ گزشتہ دنوں ترکی کی سعادت پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ حسن بتمس ایوان میں خطاب کے دوران فلسطینی بچوں کا درد بیان کرتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ انھیں اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ انتقال کر گئے۔
یہ ان کی تقریر کے آخری الفاظ مسلم امہ کے حکمرانوں کے منہ پر خون آلود تھپڑ سے کم نہیں وہ کہہ گئے ''غزہ میں ظلم پر اگر ہم خاموش رہیں گے تو تاریخ خاموش نہیں رہے گی، اگر تاریخ خاموش رہی تو سچ خاموش نہیں رہے گا۔
اگر آپ اپنے ضمیر کے عذاب سے بچ گئے تو تاریخ کے عذاب سے نہیں بچ پائیں گے، اگر آپ تاریخ کے عذاب سے بچ بھی گئے تو یاد رکھیں، آپ اللہ کے غضب سے نہیں بچ سکیں گے۔'' ترکی کے اس نڈر مسلمان لیڈر کے دل میں اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے لیے جو درد تھا وہ ساری دنیا نے دیکھ لیا یہی درد نبی رحمت العالمین حضرت محمد مجتبیﷺ کا ہر امتی دل میں لیے پھر رہا ہے مسلم ممالک کے حکمران ہوش کے ناخن لیں یہ صرف درد رکھنے والوں کے لیے دل کے دورے کا باعث نہیں بنے گا یہ حکمرانوں کے تخت کو تختہ میں بدلنے کا رخ اختیار کرسکتاہے۔ اس لیے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے سے پہلے فلسطینی بچوں کو اسرائیلی درندگی سے بچانے کے لیے مردانہ وار میدان میں نکل آئیں۔ حسن بتمس تو سرخرو ہوکر اللہ کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔ مجھ سمیت ہر امتی اور عالم اسلام کے ہر حکمران نے بھی ایک دن اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔
اسرائیل کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی کو ہوا دی جائے، امت مسلمہ کو کسی بھی عنوان و تنازعہ پر لڑایا جائے تاکہ امت مسلمہ تقسیم اور باہم دست و گریباں رہے تاکہ توجہ فلسطین کے مسئلے سے ہٹی رہے۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بھی ایسی ہی رپورٹس تھیں اور وہی ہوا۔ رمضان المبارک برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہے، نزول قرآن کا شرف لازوال اسی ماہ مقدس کو حاصل ہے، اس ماہ کے پہلے عشرہ رحمت میں 5 دہائیوں کی بین الاقوامی استعمار کے ظلم و بربریت سے نجات پانے والے برادر اسلامی ملک افغانستان اور اس کے محسن برادر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اچانک جنگ کے دھانے پر لا کھڑا کیا گیا۔
دہشت گردوں کے شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں بارود سے بھری گاڑی پاکستان کی فوجی چیک پوسٹ سے ٹکرا کر خودکش حملے میں لیفٹیننٹ کرنل کاشف علی، کیپٹن محمد بدر اور 5 دیگر فوجی جوانوں کو شہید کردیا گیا، واقعہ کے بعد ذمے داری کالعدم ٹی ٹی پی کے گل بہادر نامی کمانڈر نے قبول کی جو پاکستانی اداروں کے مطابق افغانستان میں مقیم ہے۔ وہ جو بھی ہو اور جہاں بھی مقیم ہو مگر اس عشرہ رحمت میں جس بے دردی کے ساتھ انھوں نے مسلمانوں کو شہید کیا یہ کونسا اسلام یا اسلام کی خدمت ہے؟
مگر یہ غیر معمولی جارحانہ کارروائی تھی پاکستان کیا، دنیا کا کمزور ترین ملک بھی یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کی مسلح افواج پر اس طرح کوئی حملہ آور ہو۔ پاکستان نے افغانستان میں قائم ان دہشت گردوں کے کیمپوں پر حملہ کیا۔ بعد ازاں دہشت گردوں نے قندھار میں بھی خون مسلم سے ہولی کھیلی، اس حملے میں کئی قیمتی جانیں ضایع ہوئیں۔ یہ سب ایک بین الاقوامی سازش ہے جس کے تحت دو برادر اسلامی ممالک کو لڑایا جارہا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین سے دنیا کی نظریں ہٹ جائیں۔ اس جنگ میں اسرائیل، امریکا، یورپی یونین کی جیت کے لیے دنیا کے کسی دو بڑے مضبوط اسلامی ممالک کے درمیان جنگ امریکا اور اسرائیل کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے۔
مسلمان ممالک کا اتحاد اسرائیل، امریکا اور یورپی یونین کی بدترین شکست کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اسی صورتحال سے بچنے کے لیے امریکا، اسرائیل اور بھارت یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کے ساتھ ایران یا افعانستان کی جنگ ہو جائے۔
پہلے پاکستان، ایران اور اب پاک افغان کشیدگی نے جنگی صورتحال بنا دی ہے۔ تمام تر قربانیوں کے باوجود اہل فلسطین کے حوصلے بلند ہیں لیکن ملت اسلامیہ کے دو ممالک کے آپس میں لڑ پڑنے سے ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے لہٰذا پاکستان اور افغانستان دونوں کو ہوش کے ناخن لے کر امت مسلمہ کی وحدت کی خاطر اس جنگ کو روک کر ایک دوسرے کے دست و بازو بننا پڑے گا اور اسرائیلی درندوں کی جارحیت کے خلاف کھڑا ہونا پڑیگا ورنہ تاریخ دونوں کو معاف نہیں کرے گی۔ دونوں ممالک کی قیادت''عیار دشمن''کو ذہن میں رکھتے ہوئے دانشمندی سے آگے بڑھیں اور دنیا پر ثابت کریں کہ یہ امت حقیقی معنوں میں جسد واحد کی طرح ہے۔ پاکستان، افغانستان، ترکی اور دوسرے اسلامی ممالک کو آگے بڑھ کر اسرائیل کو روکنا پڑے گا۔
حکمرانوں کے سرد رویے کے علاوہ مجھے ذاتی طور پر مسلمانان پاکستان کے عمومی رویے نے زیادہ تشویش میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ رمضان المبارک عطا کرنے کا مہینہ ہے اللہ رب العزت سے دعائیں مانگنے کا مہینہ ہے مگر امام و خطیب سے لے کر مقتدی تک سب کی دعاؤں میں فلسطین کا ذکر نہیں، پورے عالم اسلام میں کسی ایک مسجد میں قنوت نازلہ پڑھنے کی خبر نہیں آرہی ہے آخر کیوں ہم اتنے بے حس ہوگئے؟
اے مسلمانو! ہوش کے ناخن لیں ہمارا رب آج بھی وہی رب ہے جس نے بدر کے میدان میں فرشتے بھیج کر 313 کے ہاتھوں ہزاروں کے لشکر کو نیست و نابود کیا تھا۔ ہم کیوں اللہ رب العزت سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لیے گڑگڑا کر مثل بدر نصرت نہیں مانگتے؟
خدا کے لیے آئمہ و خطباء اور عوام پیاز اور ٹماٹر کے ریٹ کو نہیں اپنے آپ کو بھی بھول کر فلسطینیوں کے لیے نصرت الہی کی دعائیں مانگیں تو انشاء اللہ فلسطین آزاد، اسرائیل نیست و نابود اور ہماری بھی ہر مراد پوری ہوگی اور بروز محشر شافع محشر کی شفاعت کے حقدار ہونگے ورنہ دنیا کے ساتھ عاقبت کی بربادی کے لیے فلسطینیوں کی آہیں کافی ہیں۔