پاکستان ایک نظر میں کراچی میں ٹارگٹ کلنگ جیسے چھوٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں

شکر ہے جان بچی ورنہ وہ دونوں لڑکے تو اس پہ یوں پستول تانے کھڑے تھے کہ ابھی گولی اس کے سینے میں اتار دیں گے۔


شاہد محمود June 13, 2014
شکر ہے جان بچی ورنہ وہ دونوں لڑکے تو اس پہ یوں پستول تانے کھڑے تھے کہ ابھی گولی اس کے سینے میں اتار دیں گے۔ ٖفوٹو اے ایف پی

میں نے پچھلے سال اس کو ای میل میں لکھا تھا کہ کراچی کے حالات کا کچھ پتا نہیں،کسی وقت بھی خراب ہو سکتے ہیں۔ تمھیں اب واپس گاؤں چلے جانا چاہئے ۔ ماں باپ بوڑھے ہو چکے ہیں ۔تمہا ر ے چھوٹے بھائی کو کرکٹ سے فرصت نہیں۔ تو ماں باپ کا خیال کون رکھتا ہو گا؟ پھر اب کراچی بھی تو وہ پہلے والا کراچی نہیں رہا۔ آئے روز کی ہڑتالوں نے شہر کو مفلوج کر دیا ہے۔ دھما کوں اور اندھی گولیوں نے شہر کا امن تباہ کر دیا ہے - تم نے ہی تو اپنے آخری ای میل میں لکھا تھا کہ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ مہینے کی کمائی دنوں میں خرچ ہو جاتی ہے - ایسے میں کراچی میں رہنے کا کیا فائدہ؟ جب بچت ہی نہیں ہوتی تو تم گھر والوں کو خرچہ کہاں سے بھیجتے ہو گے؟ دیکھو مہنگائی کا یہی حال نیو یا ر ک میں بھی ہے۔اچھی خاصی کمائی والے بھی مہینے کے آخر میں روتے ہوے نظر آتے ہیں۔

خیر ایک بات ہے کہ یہاں ہڑتال نہیں ہوتی ۔ اگر کبھی کوئی جلوس وغیرہ نکلا بھی ہو تو بازار اور دفتر بند نہیں ہوتے ۔ یقین کرو ایسے میں پھر کراچی کی یاد بہت آتی ہے- کراچی کی ہڑتال کا ایک فائدہ ہے کہ انسان کو کام سے کچھ آرام مل جاتا ہے۔ ہاں آرام سے یاد آیا تمہارے خالو جو زرعی بینک میں جاب کرتے تھے ان کے خوب مزے تھے ۔رمضان میں بینک میں ہی کچھ گھنٹوں کیلئے سو جایا کرتے تھے۔ خیر گرمی کے موسم میں رمضان آسان نہیں ہو تا اور پھر چلچلاتی دھوپ میں رمضان کے مہینے میں کس نے بینک آنا ہو تا ہے - خیر اگر اب کی بار گاؤں جاؤ تو میرا ان سے سلام کہنا - اس ای میل کے جواب میں ضرور لکھنا کہ زرعی بینک والے خالو کی بیٹی سلمیٰ سے تمہارا رشتہ پکا ہوا کہ نہیں ؟ وہ اس وقت نویں کلاس میں تھی اب تو خیر ایف اے بھی کر چکی ہو گی-

میری ای میل کا جواب اس نے کوئی تین دن بعد دیا تھا۔ میں نے اسے کہا بھی تھا کہ ای میل کا جواب اسی دن لکھ دیا کرو مگر وہ ہمیشہ ٹیکسٹ میسج کر دیتا تھا کہ 'ای میل مل گیا ہے بہت جلد جواب لکھوں گا '۔ اس نے لکھا تھا کہ اس نے اتوار کو گلشن اقبال میں بلکل یونیورسٹی روڈ کے پاس ایک ٹھیلے سے بریانی کھائی تھی ۔ اتنی زبردست بریانی اس نے بہت کم ہی کھائی تھی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اگلے اتوار کو پھر آئے گا۔ لیکن اگلے اتوار سے پہلے ہی اس کی موٹر سائیکل چھن گئی۔ شکر ہے جان بچی ورنہ وہ دونوں لڑکے تو اس پہ یوں پستول تانے کھڑے تھے کہ ابھی گولی اس کے سینے میں اتار دیں گے۔ ایک لڑکے کے ہاتھ بری طرح کا نپ رہے تھے۔ شاید وہ ابھی ٹریننگ پہ تھا۔ خیر سب سے مشکل مرحلہ پولیس میں رپورٹ کرنے کا تھا۔ وقوعہ کس تھانے کی حدود میں ہوا تھا اس بات پہ جھگڑا ختم ہونے کو نہیں آ رہا تھا۔ آخر میں مقدمہ درج تو ہوا مگر ایک جاننے والے کی سفارش پہ- اس نے لکھا کوئی پرواہ نہیں نئی بائیک آ جائے گی ۔ اب کراچی میں رہنا ہے تو ایسے چھوٹے موٹے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں ۔ میری اس نصیحت پہ کہ گاؤں واپس چلے جاؤ، اس نے ہمیشہ کی طرح بس یہی لکھا کہ تو پاگل ہے یار۔ کراچی سے جا نا آسان نہیں۔ یہ اس کی عادت تھی بات ٹالنے کی اسے بحث کی عادت ہی نہیں تھی ، لاپروائی سے ہنس کر کہتا "تو پاگل ہے یار-"

وہ گرمیوں کے دن تھے جب اس نے میری ای میل کا جواب نہ دیا۔ ایک ہفتہ بیت گیا، دو ہفتے اور پھر مہینہ۔ میرے اندر خدشات جنم لینے لگے۔ میں نے اپنے اور اس کے کالج کے زمانہ کے دوستوں سے رابطہ کیا مگر کوئی بھی اس سے کالج کے بعد رابطہ میں نہ تھا۔ میں نے اپنے بھائی کو فون کیا اور کہا کہ وہ گاؤں میں اس کے گھر والوں سے جلد از جلد رابطہ کرکے مجھے بتائیں۔ بھائی نے وعدہ تو کر دیا مگر وہ ہمیشہ بھول جاتا تھا۔ میرے ناراض ہونے پہ اس نے وعدہ کیا کہ اس بات جب میں اتوار کو فون کروں گا تو وہ پتا لگا کے رکھے گا۔ لیکن مجھے اتوار کا انتظار نہ کرنا پڑا۔ وہ جمعہ کا دن تھا۔ میں حسب معمول ای میل چیک کر رہا تھا کہ بھائی کا فون آگیا اس کے لہجے میں اداسی تھی اس نے بس اتنا کہا کہ تمہارا دوست کراچی میں کسی اندھی گولی کا شکار ہو گیا ہے ۔ وہ کچھ اور بھی کہ رہا تھا لیکن مجھے کچھ سمجھ سنائی نہ دے رہا تھا - پھر پتا نہیں فون کیسے بند ہو گیا -

میں نے اس کا آخری ای میل اوپن کیا اور ایک لائن میں اس کو یہ جواب لکھ کر بھیج دیا- صرف ایک لائن " تو پاگل ہے یار"-

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں