دنیا بھر سے افغانستان کے انتخابات اور پاکستان
افغانستان میں منتخب ہونے والی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے
5اپریل کو افغانستان میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں کسی بھی امیدوار کی جانب سے واضح برتری حاصل نہ کرنے پر افغان الیکشن کمیشن کے چیئرمین احمد یوسف نوراستانی نے افغانستان بھر میں انتخابات کے دوسرے اور حتمی مرحلے کے لیے 7جون کا اعلان کیا تھا تاہم الیکشن سے ایک روز قبل ہی صدارتی امیدوار اور پہلے مرحلے میں 44فیصد ووٹ حاصل کرنے والے سابق افغان وزیر خارجہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو جمعہ6جون کو اس وقت خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے الیکشن مہم کے سلسلے میں کابل کے دورہ پر تھے ۔ حملے کے دوران ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تاہم ان کے سیکورٹی پر مامور عملے سمیت 12افراد خودکش حملے میں اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے جس کے بعد افغان الیکشن کمیشن نے ووٹنگ کو مزید 8روز آگے کرتے ہوئے انتخابات کے آخری مرحلے کے لیے 14جون کا اعلان کیا ۔
شمشاد ٹی وی،خبری ادارے پژواک اور امریکی ادارے یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹیٹیوٹ آف پیس سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نیشنل کولیشن آف افغانستان کے لیڈر بھی ہیں اورنئے صدر بننے کے لے اِن کے امکانات زیادہ نظر آتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے حتمی مرحلے سے قبل ہی عبداللہ عبداللہ کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی گئی۔
2009ء کے الیکشن میں حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان سخت مقابلہ کی اُمید کی جارہی تھی مگر حامد کرزئی نے جب واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ محض 30فیصد ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر آئے تو پھر عبداللہ عبداللہ کی جانب سے حامد کرزئی پر دھاندلی کا الزام لگایا تھا تاہم امریکی مداخلت پر اس وقت وہ خاموش ہوگئے تھے اور بعدازاں انہوں نے نیشنل کولیشن آف افغانستان نامی پارٹی کی بنیاد رکھی مذکورہ پارٹی افغانستان کے تمام لسانی دھڑوں میں پشتون، تاجک، ازبک، ہزارہ،بلوچ،عرب میں یکساں مقبول ہے ۔
ڈاکٹر نجیب اللہ کے دور میں افغانستان پر روسی حملے کے بعد افغان مزاحمت کار میدان میں اترے جس میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کمانڈر احمد شاہ مسعود کے ہمراہ روسی سے لڑتے رہے اس دوران ان کو پنجشیر میں کامیابی حاصل ہوئی جس کے بعد پنجشیر پر ان کو کنٹرول حاصل ہوا اور1996ء میں طالبان کے ظہور کے بعد احمد شاہ مسعود نے شمالی اتحاد کے نام سے الگ تنظیم بنائی جس نے طالبان کی امارت اسلامی افغانستان کو قبول نہیں کیا اور2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد قائم ہونے والی نگراں حکومت میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ وزیر خارجہ رہے جبکہ یہ امریکہ اور انڈیا دونوں کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے صدر بننے کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کے لئے مستقل سہولیات دینے سمیت انڈیا کو بھی افغانستان میں خصوصی اہمیت حاصل ہوجائے گی جس کی وجہ سے پاکستان کے قبائلی علاقوں سمیت بلوچستان میں حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے اور طالبان سے ہونے والے کسی بھی قسم کے مذاکرات ختم ہونے کا بھی امکان ہے۔
لیکن اِن کے برخلاف اُمیدوار اشرف غنی کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو 2009 میں ہونے والے انتخابات میں اگرچہ نمایاں کارکردگی حاصل نہیں کرسکے تھے مگر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہی اشرف غنی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے 15 سال ورلڈ بینک میں گزارے ۔ جو ہرگز جہادی نہیں ہیں بلکہ ایک ماہر معاشیات ہیں اور امریکا کے منظور نظر سمجھے جاتے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ برملہ اِس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اپنے ماضی کی وجہ سے غیر ملکی قوتوں سے بہتر طریقے سے مذاکرات کرسکتے ہیں ۔
لیکن ایک بات طے ہے کہ دونوں صدارتی اُمیدوار امریکا کے حمایت یافتہ ہے۔ اور فتح چاہے عبداللہ عبداللہ کی ہویا پھر اشرف غنی کی پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ افغانستان میں قائم ہونے والی حکومت کے لیے 3 بڑے چیلنجز ہیں۔ پہلا امریکا اور اُس کی اتحادیوں کے ساتھ بہتر طریقے سے معاملات کو حل کرنا تاکہ وہ جلد افغان سرزمین کو چھوڑ کر چلے جائیں کیونکہ یاد رہے کہ سیکورٹی معاہدہ بہت عرصے سے نئے صدر کا انتظار کررہا ہے کیونکہ حامد کرزئی نے اُس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا جس میں یہ بات واضح طورپرلکھی ہے کہ اِس معاہدے کی منظوری کے بعد امریکی اور نیٹو فورسز کچھ عرصے اور اٖفغانستان میں قیام کرسکتے ہیں جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ افغان جنگ 2014 میں ختم ہونے کے بجائے مزید کئی عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔ جبکہ دوسرا معاملہ طالبان سے کامیاب مذاکرات کا چیلنچ بھی نئی حکومت کو درپیش ہوگا کیونکہ اندرونی معاملات کو بہتر طریقے سے حل کرنے کے لیے اب یہ ناگزیر ہے کہ طالبان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اُن سے مذاکرات کیے جائیں ۔ اور بحثیت پاکستانی میرے لیے سب سے اہم تیسرا بڑا چیلنج جو ہوگا وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا ہے جس میں اب یہ بات کسی سے دھکی چھپی نہیں ہے کہ بھارت افغانستان سے بیٹھ کر قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے ذریعے پاکستان بھر میں دہشت گرد کارروائیوں میں مصروف عمل ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
شمشاد ٹی وی،خبری ادارے پژواک اور امریکی ادارے یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹیٹیوٹ آف پیس سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نیشنل کولیشن آف افغانستان کے لیڈر بھی ہیں اورنئے صدر بننے کے لے اِن کے امکانات زیادہ نظر آتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے حتمی مرحلے سے قبل ہی عبداللہ عبداللہ کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی گئی۔
2009ء کے الیکشن میں حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان سخت مقابلہ کی اُمید کی جارہی تھی مگر حامد کرزئی نے جب واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ محض 30فیصد ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر آئے تو پھر عبداللہ عبداللہ کی جانب سے حامد کرزئی پر دھاندلی کا الزام لگایا تھا تاہم امریکی مداخلت پر اس وقت وہ خاموش ہوگئے تھے اور بعدازاں انہوں نے نیشنل کولیشن آف افغانستان نامی پارٹی کی بنیاد رکھی مذکورہ پارٹی افغانستان کے تمام لسانی دھڑوں میں پشتون، تاجک، ازبک، ہزارہ،بلوچ،عرب میں یکساں مقبول ہے ۔
ڈاکٹر نجیب اللہ کے دور میں افغانستان پر روسی حملے کے بعد افغان مزاحمت کار میدان میں اترے جس میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کمانڈر احمد شاہ مسعود کے ہمراہ روسی سے لڑتے رہے اس دوران ان کو پنجشیر میں کامیابی حاصل ہوئی جس کے بعد پنجشیر پر ان کو کنٹرول حاصل ہوا اور1996ء میں طالبان کے ظہور کے بعد احمد شاہ مسعود نے شمالی اتحاد کے نام سے الگ تنظیم بنائی جس نے طالبان کی امارت اسلامی افغانستان کو قبول نہیں کیا اور2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد قائم ہونے والی نگراں حکومت میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ وزیر خارجہ رہے جبکہ یہ امریکہ اور انڈیا دونوں کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے صدر بننے کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کے لئے مستقل سہولیات دینے سمیت انڈیا کو بھی افغانستان میں خصوصی اہمیت حاصل ہوجائے گی جس کی وجہ سے پاکستان کے قبائلی علاقوں سمیت بلوچستان میں حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے اور طالبان سے ہونے والے کسی بھی قسم کے مذاکرات ختم ہونے کا بھی امکان ہے۔
لیکن اِن کے برخلاف اُمیدوار اشرف غنی کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو 2009 میں ہونے والے انتخابات میں اگرچہ نمایاں کارکردگی حاصل نہیں کرسکے تھے مگر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہی اشرف غنی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے 15 سال ورلڈ بینک میں گزارے ۔ جو ہرگز جہادی نہیں ہیں بلکہ ایک ماہر معاشیات ہیں اور امریکا کے منظور نظر سمجھے جاتے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ برملہ اِس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اپنے ماضی کی وجہ سے غیر ملکی قوتوں سے بہتر طریقے سے مذاکرات کرسکتے ہیں ۔
لیکن ایک بات طے ہے کہ دونوں صدارتی اُمیدوار امریکا کے حمایت یافتہ ہے۔ اور فتح چاہے عبداللہ عبداللہ کی ہویا پھر اشرف غنی کی پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ افغانستان میں قائم ہونے والی حکومت کے لیے 3 بڑے چیلنجز ہیں۔ پہلا امریکا اور اُس کی اتحادیوں کے ساتھ بہتر طریقے سے معاملات کو حل کرنا تاکہ وہ جلد افغان سرزمین کو چھوڑ کر چلے جائیں کیونکہ یاد رہے کہ سیکورٹی معاہدہ بہت عرصے سے نئے صدر کا انتظار کررہا ہے کیونکہ حامد کرزئی نے اُس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا جس میں یہ بات واضح طورپرلکھی ہے کہ اِس معاہدے کی منظوری کے بعد امریکی اور نیٹو فورسز کچھ عرصے اور اٖفغانستان میں قیام کرسکتے ہیں جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ افغان جنگ 2014 میں ختم ہونے کے بجائے مزید کئی عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔ جبکہ دوسرا معاملہ طالبان سے کامیاب مذاکرات کا چیلنچ بھی نئی حکومت کو درپیش ہوگا کیونکہ اندرونی معاملات کو بہتر طریقے سے حل کرنے کے لیے اب یہ ناگزیر ہے کہ طالبان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اُن سے مذاکرات کیے جائیں ۔ اور بحثیت پاکستانی میرے لیے سب سے اہم تیسرا بڑا چیلنج جو ہوگا وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا ہے جس میں اب یہ بات کسی سے دھکی چھپی نہیں ہے کہ بھارت افغانستان سے بیٹھ کر قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے ذریعے پاکستان بھر میں دہشت گرد کارروائیوں میں مصروف عمل ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔