قُرب الہی کا حصول
دوسروں کی غلطی و قصور معاف کرنا اور صبر و برداشت سے کام لینا مسلمان کی بنیادی صفات ہیں جن سے ہم محروم ہوتے جارہے ہیں
رمضان المبارک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے عظیم تحفہ ہے، ہمارا فرض ہے کہ اس ماہ عظیم الشان کے فیوض و برکات سے اپنے دامن کو نیکیوں سے بھرلیں، اس بات کا پختہ ارادہ کریں کہ ہم اس ماہ مبارک میں اپنے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزہ کا اصل مقصد ہے۔
رمضان کا بنیادی اور اہم کام یہ ہے کہ اس کی عظمت کا احساس اور قدر و منزلت کا لحاظ ذہن و دماغ میں پیوست کرلیا جائے۔ رمضان کریم اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم نعمت بھی ہے۔ عام طور سے انسان کو اس نعمت کا احساس کم ہی ہوتا ہے جو حاصل ہوجاتی ہے لیکن جو نہیں مل پاتی اس کے لیے تڑپتا رہتا ہے۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم رمضان جیسے مقدس مہینے کی نعمت کا احساس کریں۔ اور اس احساس کا تقاضا ہے کہ اس نعمت پہ رب کی شکر گزاری ہو جیسا کہ قرآن مجید میں اﷲ تعالی کا ارشادہے، مفہوم:
''اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بے شک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔'' (سورۂ ابراہیم)
جب ہم اپنے دل میں رمضان کی عظمت اور اس عظیم نعمت کی قدر و منزلت کا احساس کرلیں تو اب ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ دنیا سے رخ موڑ کے اﷲ کی طرف لوٹ جائیں۔ اﷲ کی طرف لوٹنا صرف رمضان کے لیے نہیں ہے بل کہ مومن کی زندگی ہمیشہ اﷲ کے حوالے اور اس کی مرضی کے حساب سے گزرنی چاہیے۔ یہاں صرف بہ طور یاددہانی ذکر کیا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو بندہ رب سے دور ہوکر روزہ کے نام پر صرف بھوک اور پیاس برداشت کرے، اگر ایسا ہے تو روزے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پہلے رب کی طرف لوٹیں، اس سے تعلق جوڑیں اور اس کو راضی کریں پھر ہماری ساری نیکیاں قبول ہوں گی۔
رمضان کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہم پہلے اپنے گزشتہ گناہوں سے سچی توبہ کریں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیں۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ ہم لوگ ایک طرف نیکی کرتے ہیں تو دوسری طرف برائیاں بھی جاری رکھتے ہیں، اس طرح اعمال کا ذخیرہ نہیں بن پاتا بل کہ برائی کے سمندر میں ہماری نیکیاں ڈوب جاتی ہیں، اس لیے رمضان المبارک کی برکتوں، رحمتوں اور نعمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا اور نیکیوں کو بچانا چاہتے ہیں تو برائی سے مکمل اجتناب کرنا پڑے گا۔
نیکیوں میں رغبت کرنا اور نیکیوں کو اخلاص کے ساتھ سرانجام دینا چاہیے۔ رمضان بھلائی کمانے کے واسطے ہے ، اﷲ تعالی مؤمنوں کو متعدد طریقے سے اس مہینے میں بھلائی سے نوازتا ہے، ہمیں ان بھلائیوں کے حصول کی خاطر کمربستہ ہوجانا چاہیے اور نیکیوں کے اس بہترین موقع سے مستفید ہونے کے لیے ایک خاکہ تیار کرنا چاہیے تاکہ ہر قسم کی بھلائیاں سمیٹ سکیں۔
باترجمہ قرآن مجید پڑھنے کا اہتمام کریں، پانچ وقت کی نمازوں کے علاوہ نفلی عبادات، صدقہ و خیرات، ذکر و اذکار، دعا و مناجات، تہجد کا خاص اہتمام، روزے کے مسائل کے حوالے سے آگاہی، دروس و بیانات میں شرکت، اعمال صالحہ پہ محنت و مشقت اور زہد و تقوی سے آراستہ ہونے کا مکمل خاکہ ترتیب دیں اور اس کے مطابق رمضان المبارک کا مقدس مہینہ گزاریں۔
رمضان میں ہر نیکی کا ثواب زیادہ ہو جاتا ہے اور روزے کی حالت میں ثواب کا کام کرنا نیکیوں میں مزید اضافہ کا باعث ہے ، اس لیے اس موسم میں معمولی نیکی بھی بہت عظیم ہے، خواہ مسواک کی سنت ہی کیوں نہ ہو، ہر نماز کے لیے مسواک کرنا، اذان کا انتظار کرنا بل کہ پہلے سے مسجد میں حاضر رہنا، تراویح میں پیش پیش رہنا، نیکی کی طرف دوسروں کو دعوت دینا، دروس و محاضرات کا اہتمام کرنا، منکرات کے خلاف مہم جوئی کرنا اور صالح معاشرہ کی تشکیل کے لیے جدوجہد کرنا سبھی ہمارے خاکے کا حصہ ہوں۔
رمضان میں پہلے سے زیادہ سچائی اور نیکی کی راہ اختیار کریں۔ تقویٰ کے اسباب اپنائیں، یہاں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اپنے اندر بہتری پیدا کرنے کی خوبی اور خاصہ صرف رمضان کے لیے نہیں بل کہ سال بھر کے لیے پیدا کرے، ایسے بہت سے لوگ ہیں جو رمضان کے نمازی ہوا کرتے ہیں اور رمضان رخصت ہوتے ہی نماز سے غافل ہوجاتے ہیں، اس لیے ابھی سے اچھی طرح ذہن نشین کریں کہ یہ مثبت تبدیلی اور نیکیاں کرنے کا سچا جذبہ صرف ایک مہینہ کے لیے نہیں بل کہ زندگی بھر کے لیے ہو۔
رمضان المبارک میں اپنی نیت کو بھی درست کریں اور زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کا پختہ ارادہ کریں مثلا تلاوت قرآن کی کثرت گناہوں سے توبہ کا اہتمام، دعا و اذکار کی پابندی، عبادات کا التزام، لوگوں سے معاملات درست کرنے کی نیت، دینی و تربیتی کتابوں کا مطالعہ، رمضان سے متعلق دینی بیانات سننا تاکہ رمضان کا احساس دل میں رہے اور اس کی تیاری پر بھرپور توجہ ہو سکے۔
ایک بہت ہی خراب کام جو ہماری معاشرتی زندگیوں کو عذاب کر رہا ہے وہ آپس کی بڑھتی ہوئی ناراضی اور رنجشیں ہیں، اس لیے ماہ رمضان میں ایک کام ہمارا یہ بھی ہونا چاہیے کہ ہم ناراض لوگوں کو منائیں، رنجشوں اور خفگیوں کو دور کریں۔ دور حاضر میں باہمی عداوت، انتقامی کارروائیاں، لڑائیاں اور جھگڑے، قطع تعلق اور ناراضیاں، معمولی باتوں پر آپے سے باہر ہو کر ظلم و زیادتی کرنا، بے جا غصہ کرنا، گالی گلوچ اور اس طرح کی برائیاں معاشرے کا غالب حصہ بنتا جارہا ہے، قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں میں باہمی معاملات بگاڑ کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور سلام دعا بھی ترک کر دیتے ہیں، دوسرے کی غلطی و قصور معاف کرنا اور صبر و برداشت سے کام لینا مسلمان کی بنیادی صفات ہیں جن سے ہم محروم ہوتے جارہے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''بہادر وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے، حقیقت میں بہادر تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو۔'' (صحیح البخاری)
رمضان المبارک کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپس کی رنجشوں اور ناراضیوں کو ختم کر دیں، اگر آپ اپنے بھائیوں، دوستوں، عزیزوں اور قریبی رشتے داروں میں سے کسی سے خفا ہیں، تو صلح کرکے یہ ناراضی اور رنجشیں دور کر لیں کیوں کہ ناراضی کی موجودی میں آپ کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم :
''ہر جمعرات اور پیر کے دن اعمال پیش کیے جاتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ہر اس شخص کو معاف فرما دیتا ہے جو کسی کو اﷲ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہراتا ہو، سوائے اس شخص کے جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیان ناراضی ہو تو اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ان دونوں کو چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ آپس میں صلح کرلیں۔'' (صحیح مسلم)
آخری بات یہ کہ کوئی بھی کام بغیر اﷲ کی مرضی کے ممکن نہیں تو ہمیں اس کے لیے اﷲ سے توبہ و استغفار کے ساتھ دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔ توبہ میں انسان اپنے رب کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتا ہے گناہوں کے سبب جو فاصلہ انسان اور اس کے رب کے درمیان ہوتا ہے وہ ختم ہو جاتا ہے، نیک کاموں کی طرف رغبت بڑھتی ہے جو رمضان کی دیگر عبادات میں بھی معاون ثابت ہوگی۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں رمضان کا بہترین استقبال کرنے، اس مہینے سے ہر طرح کا فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرے اور رمضان میں بہ کثرت اعمال صالحہ انجام دینے کی توفیق دے اور ان اعمال کو آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے۔ آمین