بھارت میں مسجدوں پر ہندو قبضہ

دہشت گردی کی وجہ سے پاکستانی معیشت کی بحالی کی تمام امیدیں دم توڑنے لگی ہیں

gfhlb169@gmail.com

میرا کالم تو بھارت میں مساجد کے خلاف جاری ایک مہم کے بارے میں ہے لیکن گذشتہ دو تین دنوں سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے اتنے افسوس ناک واقعات ہوئے ہیں جن کو سن اور دیکھ کر دل بجھ سا گیا ہے۔

دہشت گردی کی وجہ سے پاکستانی معیشت کی بحالی کی تمام امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔میں نے گذشتہ کالم کے آخر میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ میر علی کے علاقے میں ٹی ٹی پی کے انتہائی سفاکانہ حملے میں ہونے والے جانی نقصان کے بعد پاکستان نے افغانستان کے اندر جو اسٹرائیک کی ہے اس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بڑا اضافہ ہو سکتا ہے۔وہی ہوا،گوادر،تربت اور بھاشام میں حملے ہوئے اور قیمتی جانیں گئیں۔

سب سے افسوس ناک نقصان یہ ہوا کہ پانچ چینی انجینئرز لقمۂ اجل بن گئے۔چینی باشندوں پر حملہ براہِ راست پاکستان پر حملہ ہے۔ہم اس وقت ایک بکھری ہوئی قوم ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک سیاست میں الجھا ہوا ہے۔ہمیں پرواہ نہیں کہ ہمارے گرد ہماری سالمیت کو درپیش خطرات منڈلا رہے ہیں۔بھارت دشمنی کا تو ہمیں علم ہے لیکن افغانستان کو ہم مذہبی معاشرہ دیکھتے ہوئے ایک برادر ملک سمجھتے ہیں،دشمن نہیں سمجھتے۔

دشمن کا معلوم ہو تو مقابلہ آسان ہوتا ہے لیکن دشمنی عیاں نہ ہو تو مقابلہ آسان نہیں ہوتا۔ افغانستان ایک ایسا دردِ سر ہے جس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ پاکستان کی کوئی افغان پالیسی کامیاب نہیں۔ادھر ہم اپنی اندرونی سیاست میں الجھ کر اس بڑھتے خطرے کے خلاف نبرد آزما ہونے کے بجائے باہم دست و گریبان ہیں۔

قارئینِ کرام،پہلی فروری کی آدھی رات گزرے ابھی کچھ وقت ہی ہوا تھا کہ بہت سے ہندو شمالی ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے شہر وارناسی کی پانچ سو سال سے زائد پرانی ایک مسجد گیان وپی میں داخل ہوئے اور وہاں مورتیاں رکھ کر پوجا پاٹ شروع کر دی۔گہری رات ہونے کے باوجود یہ خبر پھیل گئی اور بہت سے ہندو وہاں پہنچ گئے اور علاقہ رام کی جے کے نعروں سے گونجنے لگا۔ مسلمانوں کو پتہ لگا تو امام صاحب اورمسلمان بھی آ گئے اور سہم کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔

اسی دن وہاں کی ضلعی عدالت نے ان ہندوؤں کی ایک درخواست کو سماعت کے لیے منظور کیا تھا جس میں عدالت سے کہا گیا تھا کہ یہ مسجد لارڈ شیوا کے ایک مندر پر تعمیر کی گئی تھی،اس لیے اس میں ہندو پوجا پاٹ کی اجازت دی جائے۔


1780میں اس مسجد کے پہلو میں لارڈ شیوا کے مندر کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور یوں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلومسلمان اور ہندو عبادت گاہوں میں عبادت کرتے آ رہے تھے لیکن یکم فروری کی رات کے اندھیرے میں قبضہ ہو گیا۔یہ مسجد ایک ہائی رسک سیکیورٹی کمپاؤنڈ میں واقع ہے جہاں بلوے سے بچنے کے لیے مسلح گارڈ تعینات تھے لیکن مسلح گارڈوں نے کوئی کاروائی نہیں کی۔

یکم فروری 2024 کو ہندو پجاریوں کے مسجد میں داخل ہو کر قبضہ کرنے اور پوجا پاٹ شروع کرنے کے بعد سے علاقے میں شدید کشیدگی ہے۔ہندو پجاری بضد ہیں کہ وہ وہاں سے نہیں جائیں گے۔وہ کسی بھی حد تک جانے کا کہہ رہے ہیں۔ ایودھیا اترپردیش میں مشہور بابری مسجد شہید کر کے رام مندر کی کامیاب تعمیر نے ہندوستان بھر میں ایک تحریک کو جنم دیا ہے جس میں ہندو للکارتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک کے طول و عرض میں واقع ایسی تمام مساجد کو منہدم کر کے مندر تعمیر کریں گے جہاں ان کے بقول مندروں کو مسمار کر کے مساجد تعمیر کی گئی تھیں۔یہ فیصلہ بھی وہ ہندو خود ہی کر رہے ہیں کہ ایسی کون سی مساجد ہیں جن پر قبضہ ہونا ہے۔

یہ مساجد صدیوں پہلے تعمیر کی گئی تھیں۔ بھارت میں اگلے انتخابات 19اپریل کو شروع ہو کر یکم جون کو مکمل ہوں گے۔مودی صاحب کی بھارتی جنتا پارٹی کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ ان انتخابات میں اپنی تمام حریف سیاسی جماعتوں بشمول انڈین نیشنل کانگریس کو پچھاڑتے ہوئے اگلے 5سال کے لیے انتخابی دنگل جیت لے گی۔ابھی امسال جنوری میں جناب مودی نے ایودھیا میں رام مندر تعمیر مکمل ہونے سے پہلے ہی رام کی مورتی رکھنے کی رسم کی قیادت کی تھی۔اس سے پہلے 1992میں ہندو انتہا پسند بلوائیوں نے حملہ کر کے مسجد کو شہید کیا تھا۔

مودی صاحب کی بی جے پی ایسی تمام کارروائیوں میں پیش پیش ہے،اس لیے اسے اگلے عام انتخابات میں بہت فائدہ ہونے کا امکان ہے۔ہندو قوم پرست مساجد پر قبضے کی تحریک زور شور سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ان کے خیال میں ہندو احیاء کی تحریک سے صدیوں پر محیط نو آبادیاتی دور اور زیادتیوں کا خاتمہ ہو گا۔مساجد کو ہتھیانے کے لیے یہ لوگ ایک پٹیشن تیار کرتے ہیں جس میں مقامی عدالت سے درخواست کی جاتی ہے کہ فلاں مسجد ایک مندر کے اوپر تعمیر کی گئی تھی۔پٹیشن میں ہندو وکلاء عدالت سے کہتے ہیں کہ مسجد کی جگہ کا ہیریٹیج Heritage سروے کرایا جائے تا کہ پتہ چل سکے کہ آیا وہ جگہ پہلے مندر تو نہیں تھی۔

عدالت عام طور پر ایسے سروے کا حکم دے دیتی ہے تو سروے والے ہندو ہونے کی وجہ سے یہ رپورٹ دیتے ہیں کہ مسجد کی جگہ سے ایسے آثار ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جگہ پہلے ایک مندر تھی۔عدالت اس رپورٹ کی بنیاد پر حکم دیتی ہے کہ کیس کے فیصلے تک مسجد کے اندر ہندو پوجا پاٹ کی اجازت دی جاتی ہے۔کیس کا فیصلہ تو کھٹائی میں پڑا رہتا ہے لیکن ہندو پنڈت اور پجاری مسجد پر آہستہ آہستہ قبضہ جما لیتے ہیں۔اترپردیش میں ہی میتھرا میں مسلمان عید گاہ اور مسجد کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ پچھلے 6ماہ میں دو مساجد گرا دی گئی ہیں۔ ایک مسجد اترا کھنڈ میں گرائی گئی ہے اور ایک دوسری 6سو سال پرانی مسجددہلی میں شہید کی گئی ہے۔

مسلمانوں کے خیال میںیہ ایک سوچی سمجھی اسکیم کے مطابق ہو رہا ہے۔جواہر لال یونیورسٹی دہلی میں شعبہ ء تاریخ کی پروفیسر ایمیرٹس زویا حسن کے خیال میں یہ ہندوستانی معاشرے میں پولارائیزیشن پیدا کرنے کے لیے ہو رہا ہے تاکہ بھارت کے ہندو عوام جناب مودی جی کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر موجودہ حکومت کے لیے ووٹ کریں۔

زویا حسن کے مطابق مودی حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ مسلمان جان لیں کہ بھارت میں ان کا مقام کیا ہے اور وہ اپنی نیچ حیثیت جان کر رہیں۔ بہر حال بھارتی مسلمان سہمے ہوئے تقاضہ بھی کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ہمیں پاکستان میں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ یہاں کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو یہ چیلنجز درپیش نہیں ہیں۔
Load Next Story