شبِ نجات کی برکتیں اور اعمال
’’ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں؟‘‘
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:''اﷲ عزوجل (خاص طور پر) ان چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے: عیدالاضحی کی رات، عیدالفطر کی رات، شعبان کی پندرھویں رات (اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رزق اور (اس سال) حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں) عرفہ (نو ذی الحج کی رات، اذان فجر تک)۔''
''غنیۃ الطالبین'' میں آیا ہے:''بہت سے کفن دھل کر تیار رکھے ہوتے ہیں، مگر کفن پہننے والے بازاروں میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی قبریں کھدی ہوئی تیار ہوتی ہیں، مگر ان میں دفن ہونے والے خوشیوں میں مست ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں حالاں کہ ان کی موت کا وقت قریب آچکا ہوتا ہے۔ بہت سے مکانات کی تعمیر کا کام مکمل ہونے والا ہوتا ہے، مگر ساتھ ہی ان مکانوں کے مالکان کی موت کا وقت بھی سر پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔''
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے۔ حضورسرور کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''میرے پاس جبرائیل ؑ آئے اور کہا: یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے، اس رات میں اﷲ تعالیٰ جہنم سے اتنے لوگوں کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں، مگر کافر اور عداوت والے اور رشتہ کاٹنے والے اور (ٹخنوں سے نیچے) کپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے، اور شراب کے عادی، ان لوگوں کی طرف اﷲ تعالیٰ نظر رحمت نہیں فرماتا۔''
ایک روایت میں نشے باز کی جگہ تصویریں بنانے والا بھی آیا ہے۔ اسی طرح کاہن، جادوگر، تکبر کے ساتھ پاجاما یا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکالنے والے، دو مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے والے اور کسی مسلمان سے کینہ رکھنے والے پر بھی اس رات مغفرت سے محرومی کی وعید ہے۔ چناں چہ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اگر وہ خدانخواستہ وہ متذکرہ گناہوں میں سے کسی گناہ میں ملوث ہوں تو شب برأت کے آنے سے پہلے ہی دل سے سچی توبہ کرلیں اور تمام معاملات صاف کرلیں۔
حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان عظیم ہے:''جب پندرہ شعبان کی رات آئے تو اس میں قیام (یعنی عبادت) کرو اور دن میں روزے رکھو! بے شک، اﷲ غروب آفتاب کے بعد آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا اور کہتا ہے:''ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں؟ ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اسے روزی دوں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اسے عافیت عطا کروں؟ ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا، اور یہ اس وقت تک فرماتا رہتا ہے، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجائے۔''
شب برأت میں اعمال نامے تبدیل ہوتے ہیں، لہٰذا ممکن ہو تو چودھویں شعبان المعظم کو بھی روزہ رکھ لیا جائے، تاکہ اعمال نامے کے آخری دن بھی روزہ ہو۔ 14 شعبان کو عصر کی نماز پڑھ کر مسجد میں نفلی اعتکاف کی نیت سے قیام کیا جائے، تاکہ اعمال نامہ تبدیل ہونے کے آخری لمحات میں مسجد کی حاضری اور اعتکاف لکھا جائے۔ معمولات اولیائے کرام میں سے ہے کہ مغرب کے فرض و سنت وغیرہ کے بعد چھ رکعت نفل دو دو رکعت کرکے ادا کیے جائیں۔ پہلی دو رکعت سے پہلے یہ نیت کریں:''یااﷲ! ان کی برکت سے درازی عمر بالخیر عطا فرما۔'' اس کے بعد دو رکعت میں یہ نیت کریں:''یااﷲ! ان کی برکت سے تمام بلاؤں اور آفات سے میری حفاظت فرما۔'' اس کے بعد والی دو رکعتوں کے لیے یہ نیت کریں:''یااﷲ! ان کی برکت سے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر!''
ہر دو رکعت کے بعد اکیس بار قل ہو اﷲ احد (پوری سورت) یا ایک بار سورۂ یٰس پڑھیں، بلکہ ہوسکے تو دونوں ہی پڑھ لیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی ایک فرد یٰس شریف بلند آواز سے پڑھے اور دوسرے خاموشی سے سنیں۔ اس میں یہ خیال رکھیں کہ دوسرا اس دوران زبان سے یٰس شریف بلکہ کچھ بھی نہ پڑھے۔ ان شاء اﷲ رات شروع ہوتے ہی ثواب کا انبار لگ جائے گا۔ ہر بار یٰس شریف کے بعد دعائے نصف شعبان بھی پڑھیں۔
نماز مغرب کے بعد کی جانے والی یہ عادت نفلی ہے، فرض یا واجب نہیں۔ مغرب کے بعد نوافل و تلاوت کی شریعت میں کہیں ممانعت بھی نہیں لہٰذا ممکن ہو تو تمام حضرات اپنی مساجد میں اس کا اہتمام فرمائیں اور ڈھیروں ثواب کمائیں۔ خواتین اپنے گھروں میں اس کا اہتمام کریں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات سرور کائنات ﷺ کو جنت البقیع میں دیکھا۔ آپؐ نے مجھ سے ارشاد فرمایا:''بے شک! اﷲ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات کو آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے۔''
شب برأت میں مردوں کا قبرستان جانا سنت ہے، البتہ خواتین کو شرعاً اجازت نہیں ہے۔ شب برأت، جہنم کی آگ سے برأت یعنی چھٹکارا پانے کی رات ہے۔ اس میں دل و جان سے اﷲ کی عبادت کی جائے، اس کی رضا اور خوش نودی حاصل کی جائے اور آتش بازی جیسے فعل سے اجتناب کیا جائے۔ دعا ہے کہ ﷲ تعالیٰ تمام اہل ایمان کو اس مقدس رات کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
''غنیۃ الطالبین'' میں آیا ہے:''بہت سے کفن دھل کر تیار رکھے ہوتے ہیں، مگر کفن پہننے والے بازاروں میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی قبریں کھدی ہوئی تیار ہوتی ہیں، مگر ان میں دفن ہونے والے خوشیوں میں مست ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں حالاں کہ ان کی موت کا وقت قریب آچکا ہوتا ہے۔ بہت سے مکانات کی تعمیر کا کام مکمل ہونے والا ہوتا ہے، مگر ساتھ ہی ان مکانوں کے مالکان کی موت کا وقت بھی سر پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔''
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے۔ حضورسرور کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:''میرے پاس جبرائیل ؑ آئے اور کہا: یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے، اس رات میں اﷲ تعالیٰ جہنم سے اتنے لوگوں کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں، مگر کافر اور عداوت والے اور رشتہ کاٹنے والے اور (ٹخنوں سے نیچے) کپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے، اور شراب کے عادی، ان لوگوں کی طرف اﷲ تعالیٰ نظر رحمت نہیں فرماتا۔''
ایک روایت میں نشے باز کی جگہ تصویریں بنانے والا بھی آیا ہے۔ اسی طرح کاہن، جادوگر، تکبر کے ساتھ پاجاما یا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکالنے والے، دو مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے والے اور کسی مسلمان سے کینہ رکھنے والے پر بھی اس رات مغفرت سے محرومی کی وعید ہے۔ چناں چہ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اگر وہ خدانخواستہ وہ متذکرہ گناہوں میں سے کسی گناہ میں ملوث ہوں تو شب برأت کے آنے سے پہلے ہی دل سے سچی توبہ کرلیں اور تمام معاملات صاف کرلیں۔
حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان عظیم ہے:''جب پندرہ شعبان کی رات آئے تو اس میں قیام (یعنی عبادت) کرو اور دن میں روزے رکھو! بے شک، اﷲ غروب آفتاب کے بعد آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا اور کہتا ہے:''ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں؟ ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اسے روزی دوں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اسے عافیت عطا کروں؟ ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا، اور یہ اس وقت تک فرماتا رہتا ہے، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجائے۔''
شب برأت میں اعمال نامے تبدیل ہوتے ہیں، لہٰذا ممکن ہو تو چودھویں شعبان المعظم کو بھی روزہ رکھ لیا جائے، تاکہ اعمال نامے کے آخری دن بھی روزہ ہو۔ 14 شعبان کو عصر کی نماز پڑھ کر مسجد میں نفلی اعتکاف کی نیت سے قیام کیا جائے، تاکہ اعمال نامہ تبدیل ہونے کے آخری لمحات میں مسجد کی حاضری اور اعتکاف لکھا جائے۔ معمولات اولیائے کرام میں سے ہے کہ مغرب کے فرض و سنت وغیرہ کے بعد چھ رکعت نفل دو دو رکعت کرکے ادا کیے جائیں۔ پہلی دو رکعت سے پہلے یہ نیت کریں:''یااﷲ! ان کی برکت سے درازی عمر بالخیر عطا فرما۔'' اس کے بعد دو رکعت میں یہ نیت کریں:''یااﷲ! ان کی برکت سے تمام بلاؤں اور آفات سے میری حفاظت فرما۔'' اس کے بعد والی دو رکعتوں کے لیے یہ نیت کریں:''یااﷲ! ان کی برکت سے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر!''
ہر دو رکعت کے بعد اکیس بار قل ہو اﷲ احد (پوری سورت) یا ایک بار سورۂ یٰس پڑھیں، بلکہ ہوسکے تو دونوں ہی پڑھ لیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی ایک فرد یٰس شریف بلند آواز سے پڑھے اور دوسرے خاموشی سے سنیں۔ اس میں یہ خیال رکھیں کہ دوسرا اس دوران زبان سے یٰس شریف بلکہ کچھ بھی نہ پڑھے۔ ان شاء اﷲ رات شروع ہوتے ہی ثواب کا انبار لگ جائے گا۔ ہر بار یٰس شریف کے بعد دعائے نصف شعبان بھی پڑھیں۔
نماز مغرب کے بعد کی جانے والی یہ عادت نفلی ہے، فرض یا واجب نہیں۔ مغرب کے بعد نوافل و تلاوت کی شریعت میں کہیں ممانعت بھی نہیں لہٰذا ممکن ہو تو تمام حضرات اپنی مساجد میں اس کا اہتمام فرمائیں اور ڈھیروں ثواب کمائیں۔ خواتین اپنے گھروں میں اس کا اہتمام کریں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات سرور کائنات ﷺ کو جنت البقیع میں دیکھا۔ آپؐ نے مجھ سے ارشاد فرمایا:''بے شک! اﷲ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات کو آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے۔''
شب برأت میں مردوں کا قبرستان جانا سنت ہے، البتہ خواتین کو شرعاً اجازت نہیں ہے۔ شب برأت، جہنم کی آگ سے برأت یعنی چھٹکارا پانے کی رات ہے۔ اس میں دل و جان سے اﷲ کی عبادت کی جائے، اس کی رضا اور خوش نودی حاصل کی جائے اور آتش بازی جیسے فعل سے اجتناب کیا جائے۔ دعا ہے کہ ﷲ تعالیٰ تمام اہل ایمان کو اس مقدس رات کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین