وفاقی کابینہ اجلاس ججز کے الزامات پر انکوائری کمیشن قائم کرنے کی منظوری
ذمہ داری قبول کرلی، عید کے بعد پروسیڈنگ کا آغاز کریں گے، سماعت اوپن نہیں ہوگی، جسٹس (ر) جیلانی کی ایکسپریس سے گفتگو
وفاقی کابینہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں پر مبینہ طور پر آئی ایس آئی کی جانب سے دباؤ ڈالنے کے الزامات پر انکوائری کمیشن قائم کرنے کی منظوری دے دی جس کے سربراہ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی ہوں گے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مختلف امور زیر بحث آئے۔ اجلاس زوم پر ہوا جس میں بیشتر وزرا نے آن لائن شرکت کی۔
اجلاس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے میبنہ طور پر آئی ایس آئی کے دباؤ ڈالنے کے الزامات پر مبنی خط کی تحقیقات کے انکوائری کمیشن قائم کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ کابینہ نے کمیشن کے سربراہ کے لیے جسٹس (ر) ناصر الملک اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کے ناموں پر غور کیا اور جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کے نام کی منظوری دے دی۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے تصدق جیلانی سے رجوع کیا تھا جس پر انہوں ںے سربراہی کے لیے رضا مندی ظاہر کی، کمیشن ساٹھ دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا، الزامات درست ثابت ہونے پر مزید ایکشن لیا جائے گا، کابینہ ڈویژن انکوائری کمیشن کو معاونت فراہم کرے گا۔
کمیشن آئی ایس آئی پر الزامات عائد کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کو طلب کرکے ان سے شواہد طلب کرے گا۔
وفاقی کابینہ نے کمیشن کے ٹی اوآرز کی بھی منظوری دے دی
وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کی شرائط کار کی بھی منظوری دے دی۔
ٹی او آرز کے مطابق انکوائری کمیشن معزز جج صاحبان کے خط میں عائد کردہ الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا اور تعین کرے گا کہ یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔ انکوائری کمیشن تعین کرے گا کہ کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا، کمیشن اپنی تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر کسی ایجنسی، محکمے یا حکومتی ادارے کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا۔
کمیشن کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ انکوائری کے دوران ضروری سمجھے تو کسی اور معاملے کی بھی جانچ کرسکے گا۔ کابینہ کے اجلاس نے معزز چھ جج صاحبان کے خط میں ایگزیکٹو کی مداخلت کے الزام کی نفی کرتے ہوئے اسے نامناسب قرار دیا۔
کابینہ ارکان کی متفقہ رائے تھی کہ دستور پاکستان 1973ء میں طے کردہ تین ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے اصول پرپختہ یقین رکھتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے عدلیہ کی آزادی اور دستوری اختیارات کے تقسیم کے اصول پر کامل یقین رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کابینہ کو اس خط کے بعد اپنے مشاورت اور چیف جسٹس پاکستان سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں بھی اعتماد میں لیا۔
کابینہ نے وزیراعظم کے فیصلوں اور اب تک کے اقدامات کی مکمل توثیق وحمایت کی۔
ذمہ داری قبول کرلی، عید کے بعد پروسیڈنگ کا آغاز کریں گے، جسٹس (ر) جیلانی
کمیشن کا سربراہ مقرر ہونے کے بعد جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ ذمہ داری قبول کرلی ہے، نوٹی فکیشن جاری ہونے پر عید کے بعد اس معاملے پر پروسیڈنگ کا آغاز کریں گے، یہ بہت ہی حساس نوعیت کا ایشو ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ اوپن جوڈیشل پروسیڈنگ نہیں ہے، یہ اوپن ہوگی یا نہیں میں ابھی اس پر کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم اسلام آباد میں ہی کمیشن کی کارروائی کو مکمل کریں گے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مختلف امور زیر بحث آئے۔ اجلاس زوم پر ہوا جس میں بیشتر وزرا نے آن لائن شرکت کی۔
اجلاس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے میبنہ طور پر آئی ایس آئی کے دباؤ ڈالنے کے الزامات پر مبنی خط کی تحقیقات کے انکوائری کمیشن قائم کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ کابینہ نے کمیشن کے سربراہ کے لیے جسٹس (ر) ناصر الملک اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کے ناموں پر غور کیا اور جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کے نام کی منظوری دے دی۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے تصدق جیلانی سے رجوع کیا تھا جس پر انہوں ںے سربراہی کے لیے رضا مندی ظاہر کی، کمیشن ساٹھ دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا، الزامات درست ثابت ہونے پر مزید ایکشن لیا جائے گا، کابینہ ڈویژن انکوائری کمیشن کو معاونت فراہم کرے گا۔
کمیشن آئی ایس آئی پر الزامات عائد کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کو طلب کرکے ان سے شواہد طلب کرے گا۔
وفاقی کابینہ نے کمیشن کے ٹی اوآرز کی بھی منظوری دے دی
وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کی شرائط کار کی بھی منظوری دے دی۔
ٹی او آرز کے مطابق انکوائری کمیشن معزز جج صاحبان کے خط میں عائد کردہ الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا اور تعین کرے گا کہ یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔ انکوائری کمیشن تعین کرے گا کہ کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا، کمیشن اپنی تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر کسی ایجنسی، محکمے یا حکومتی ادارے کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا۔
کمیشن کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ انکوائری کے دوران ضروری سمجھے تو کسی اور معاملے کی بھی جانچ کرسکے گا۔ کابینہ کے اجلاس نے معزز چھ جج صاحبان کے خط میں ایگزیکٹو کی مداخلت کے الزام کی نفی کرتے ہوئے اسے نامناسب قرار دیا۔
کابینہ ارکان کی متفقہ رائے تھی کہ دستور پاکستان 1973ء میں طے کردہ تین ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے اصول پرپختہ یقین رکھتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے عدلیہ کی آزادی اور دستوری اختیارات کے تقسیم کے اصول پر کامل یقین رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کابینہ کو اس خط کے بعد اپنے مشاورت اور چیف جسٹس پاکستان سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں بھی اعتماد میں لیا۔
کابینہ نے وزیراعظم کے فیصلوں اور اب تک کے اقدامات کی مکمل توثیق وحمایت کی۔
ذمہ داری قبول کرلی، عید کے بعد پروسیڈنگ کا آغاز کریں گے، جسٹس (ر) جیلانی
کمیشن کا سربراہ مقرر ہونے کے بعد جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ ذمہ داری قبول کرلی ہے، نوٹی فکیشن جاری ہونے پر عید کے بعد اس معاملے پر پروسیڈنگ کا آغاز کریں گے، یہ بہت ہی حساس نوعیت کا ایشو ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ اوپن جوڈیشل پروسیڈنگ نہیں ہے، یہ اوپن ہوگی یا نہیں میں ابھی اس پر کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم اسلام آباد میں ہی کمیشن کی کارروائی کو مکمل کریں گے۔