نسل کشی میں اسرائیل کے شراکت دار ممالک
بائیڈن انتظامیہ ایمرجنسی اختیارات کے تحت سو سو ملین ڈالر کے ٹکڑوں میں مسلسل اسرائیل کو انسان کش اسلحہ پہنچا رہی ہے
امریکا کے سینئر ترین جنرل اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل چارلس براؤن کا کہنا ہے کہ اگرچہ اسرائیل کی بھرپور فوجی امداد جاری رہے گی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسرائیل کی ہر عسکری فرمائش پوری ہو سکے۔ایسی صورت میں خود ہماری فوجی تیاری اور صلاحیتوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ جنرل صاحب کے اس بیان کا کیا مطلب ہے ؟ مگر پوری دنیا کو معلوم ہے کہ جہاں امریکی کانگریس اسرائیل کی ہر فرمائش کی حمائیت میں فولادی دیوار بن کے کھڑی ہے۔
وہاں سینیٹ کی اکثریتی ڈیموکریٹک پارٹی کے پارلیمانی لیڈر چک شومر جیسے روائیتی اسرائیل نواز سیاست دان کی جانب سے اسرائیل کی نسل کش غزہ پالیسی کی مخالفت اور اسرائیل کی فوجی امداد پر شرائط عائد کرنے کا مطالبہ سوائے ذرا دیر کے لیے ایک خوشگوار حیرت پیدا کرنے کے سوا کوئی تیر نہیں مار سکتا۔
اگرچہ امریکی قوانین کے تحت کسی بھی ملک کو غیر مشروط طور پر اسلحہ فروخت نہیں کیا جا سکتا جب تک وہ تحریری طور پر ضمانت نہ دے کہ یہ اسلحہ کن حالات میں اور کن ممکنہ دشمنوں کے خلاف استعمال ہو گا اور کسی ایسے مشن میں استعمال نہیں ہوگا جس سے مروجہ بین الاقوامی جنگی قوانین کے انسانی پہلوؤں کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔بین الاقوامی قوانین کے تحت نہتے شہریوں اور سویلین املاک کے خلاف اس اسلحے کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔استعمال سے پہلے عام شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا لازمی ہے۔
مگر امریکی محکمہ دفاع اور خارجہ کے سینئیر اہلکار نجی طور پر اعتراف کرتے ہیں کہ سات اکتوبر کے بعد سے بائیڈن انتظامیہ نے ایسا کوئی ریویو نہیں کیا جس سے معلوم ہو سکے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امریکی اسلحے کا استعمال بین الاقوامی اور امریکی قوانین کی حدود میں ہے یا ان حدود سے تجاوز کیا جا چکا ہے۔ایسی صورت میں اسرائیل کو امریکی اسلحے کی فراہمی فوری طور پر روکنا یا محدود کرنا پڑے گی۔
چنانچہ نہ تو کانگریس کی جانب سے ایسے کسی ریویو کا اب تک مطالبہ کیا گیا ہے اور نہ ہی بائیڈن انتظامیہ اس '' مشکل '' وقت میں اسرائیل کو کسی آزمائش میں ڈالنا چاہتی ہے۔الٹا اسرائیل کے لیے چودہ ارب ڈالر کی ہنگامی فوجی امداد کا پیکیج کانگریس کے زیرِ غور ہے۔
جب کہ بائیڈن انتظامیہ ایمرجنسی اختیارات کے تحت سو سو ملین ڈالر کے ٹکڑوں میں مسلسل اسرائیل کو انسان کش اسلحہ پہنچا رہی ہے۔ اتنی مالیت کا اسلحہ کسی امریکی اتحادی کو بیچنے کے لیے کانگریس کی پیشگی منظوری درکار نہیں ہوتی۔اور بائیڈن انتظامیہ اس قانونی چور دروازے کو بھرپور طریقے سے اسرائیلی اسلحہ خانے کو تازہ دم رکھنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( سپری ) کے مطابق امریکا اسرائیل کی اڑسٹھ فیصد فوجی ضروریات پوری کرتا ہے۔سالانہ چار ارب ڈالر دفاعی گرانٹ کی مد میں دیے جاتے ہیں اور جو اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے اس کی قیمت اسی امریکی گرانٹ سے منہا ہو جاتی ہے۔گویا اسرائیل کو بیشتر امریکی اسلحہ مفت میں پڑتا ہے۔
اس میں ایم سولہ ساخت کی اسالٹ رائفل سے لے کر ایف تھرٹی فائیوا سٹیلتھ طیاروں اور نام نہاد اسمارٹ بموں سمیت سب ہی کچھ شامل ہے جو اس وقت غزہ پر مسلسل آزمایا جا رہا ہے۔
امریکا نے اسرائیل میں اپنی ضروریات کے لیے بھی اسلحہ خانہ بنا رکھا ہے۔ اس اسلحہ خانے سے اسرائیل بھی اپنی ہنگامی ضروریات کے لیے ہتھیار نکلوا سکتا ہے۔یہیں سے یوکرین کو بھی امریکی ہتھیار بھیجے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ امریکا اسرائیل کو میزائیل حملوں سے محفوظ رکھنے والی آئرن ڈوم چھتری کے لیے بھی ٹیکنالوجی اور اینٹی میزائیل سسٹم فراہم کرتا ہے۔
اسرائیل کو ایف پینتیس طیاروں کی جو کھیپ فراہم کی گئی ہے۔اس کے لیے فاضل پرزے اور اضافی آلات نیدر لینڈز اور برطانیہ میں قائم امریکی عسکری گوداموں سے سپلائی کیے جاتے ہیں۔فی الحال ایک ڈچ عدالت نے حکومتِ ہالینڈ پر اضافی سامان فراہم کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔
عدالت کو '' شبہہ '' ہے کہ ایف پینتیس طیارے فوجی اہداف کے ساتھ ساتھ شہری اہداف کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔مگر ڈچ حکومت نے اس عدالتی حکم سے بچنے کا یہ راستہ نکالا ہے کہ ایف پینتیس کے آلات کسی تیسرے یورپی ملک کو فراہم کیے جاتے ہیں۔ وہاں سے یہ آلات باآسانی اسرائیل کو تھما دیے جاتے ہیں تاکہ نسل کشی کے کام میں اسرائیل کا ہاتھ رکنے نہ پائے۔
اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک جرمنی ہے۔جو چوبیس فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔دو ہزار بائیس میں اسرائیل کو جتنا جرمن اسلحہ فروخت ہوا۔دو ہزار تئیس میں اس سے دس گنا زائد اسلحہ دیا گیا۔جرمنی دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں سے بہیمانہ سلوک کے جس احساسِ جرم میں مسلسل مبتلا ہے، وہ اس کے ازالے کے لیے اسرائیل کی ہر فرمائش پوری کرنے کا اپنے تئیں پابند ہے تاکہ فلسطینی خون سے اسرائیل کی پیاس بجھ سکے اور اسرائیل وقتاً فوقتاً جرمنی کو اس کا ماضی نہ یاد دلائے۔
برطانیہ اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔وہ اسرائیلی کی پندرہ فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔برطانیہ نے ہی اسرائیل کو تاریخی طور پر جنم دینے کی راہ ہموار کی تھی۔لہٰذا دونوں ممالک کے تعلقات کوئی عام سا سفارتی بندھن نہیں بلکہ باپ بیٹے والا تعلق ہے۔اٹلی نے پچھلے پانچ ماہ میں اسرائیل کو تئیس لاکھ ڈالر کے دفاعی آلات فراہم کیے۔
مگر کچھ ممالک نے اسرائیل کی فوجی امداد روک دی ہے۔مثلاً کینیڈا اسرائیل کو سالانہ چار بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کرتا ہے۔فی الحال اس نے نئے سودے روک دیے ہیں۔جاپان کی اٹوچو کارپوریشن نے اسرائیل کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنی ایل بیت کے ساتھ شراکت داری منجمد کر دی ہے۔
فروری میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے اسرائیل کے خلاف جزوی فیصلے کی روشنی میں اسپین نے اسرائیل کے لیے اسلحے کی برآمد کے لائسنس معطل کر دیے ہیں۔بلجئیم نے بارود کی برآمد معطل کر دی ہے۔
اگرچہ یہ پابندیاں بے نظیر اور خوش آیند ہیں۔مگر تمام سرکردہ تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ امریکی تادیبی پابندیوں کے بغیر اسرائیل کو من مانی سے روکنا تقریباً ناممکن ہے۔امریکا چاہے تو آج رات جنگ رک سکتی ہے۔مگر امریکا اس نسل کشی سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔یہ راز فی الحال یا بائیڈن جانتا ہے یا پھر خدا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
مجھے نہیں معلوم کہ جنرل صاحب کے اس بیان کا کیا مطلب ہے ؟ مگر پوری دنیا کو معلوم ہے کہ جہاں امریکی کانگریس اسرائیل کی ہر فرمائش کی حمائیت میں فولادی دیوار بن کے کھڑی ہے۔
وہاں سینیٹ کی اکثریتی ڈیموکریٹک پارٹی کے پارلیمانی لیڈر چک شومر جیسے روائیتی اسرائیل نواز سیاست دان کی جانب سے اسرائیل کی نسل کش غزہ پالیسی کی مخالفت اور اسرائیل کی فوجی امداد پر شرائط عائد کرنے کا مطالبہ سوائے ذرا دیر کے لیے ایک خوشگوار حیرت پیدا کرنے کے سوا کوئی تیر نہیں مار سکتا۔
اگرچہ امریکی قوانین کے تحت کسی بھی ملک کو غیر مشروط طور پر اسلحہ فروخت نہیں کیا جا سکتا جب تک وہ تحریری طور پر ضمانت نہ دے کہ یہ اسلحہ کن حالات میں اور کن ممکنہ دشمنوں کے خلاف استعمال ہو گا اور کسی ایسے مشن میں استعمال نہیں ہوگا جس سے مروجہ بین الاقوامی جنگی قوانین کے انسانی پہلوؤں کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔بین الاقوامی قوانین کے تحت نہتے شہریوں اور سویلین املاک کے خلاف اس اسلحے کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔استعمال سے پہلے عام شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا لازمی ہے۔
مگر امریکی محکمہ دفاع اور خارجہ کے سینئیر اہلکار نجی طور پر اعتراف کرتے ہیں کہ سات اکتوبر کے بعد سے بائیڈن انتظامیہ نے ایسا کوئی ریویو نہیں کیا جس سے معلوم ہو سکے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امریکی اسلحے کا استعمال بین الاقوامی اور امریکی قوانین کی حدود میں ہے یا ان حدود سے تجاوز کیا جا چکا ہے۔ایسی صورت میں اسرائیل کو امریکی اسلحے کی فراہمی فوری طور پر روکنا یا محدود کرنا پڑے گی۔
چنانچہ نہ تو کانگریس کی جانب سے ایسے کسی ریویو کا اب تک مطالبہ کیا گیا ہے اور نہ ہی بائیڈن انتظامیہ اس '' مشکل '' وقت میں اسرائیل کو کسی آزمائش میں ڈالنا چاہتی ہے۔الٹا اسرائیل کے لیے چودہ ارب ڈالر کی ہنگامی فوجی امداد کا پیکیج کانگریس کے زیرِ غور ہے۔
جب کہ بائیڈن انتظامیہ ایمرجنسی اختیارات کے تحت سو سو ملین ڈالر کے ٹکڑوں میں مسلسل اسرائیل کو انسان کش اسلحہ پہنچا رہی ہے۔ اتنی مالیت کا اسلحہ کسی امریکی اتحادی کو بیچنے کے لیے کانگریس کی پیشگی منظوری درکار نہیں ہوتی۔اور بائیڈن انتظامیہ اس قانونی چور دروازے کو بھرپور طریقے سے اسرائیلی اسلحہ خانے کو تازہ دم رکھنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( سپری ) کے مطابق امریکا اسرائیل کی اڑسٹھ فیصد فوجی ضروریات پوری کرتا ہے۔سالانہ چار ارب ڈالر دفاعی گرانٹ کی مد میں دیے جاتے ہیں اور جو اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے اس کی قیمت اسی امریکی گرانٹ سے منہا ہو جاتی ہے۔گویا اسرائیل کو بیشتر امریکی اسلحہ مفت میں پڑتا ہے۔
اس میں ایم سولہ ساخت کی اسالٹ رائفل سے لے کر ایف تھرٹی فائیوا سٹیلتھ طیاروں اور نام نہاد اسمارٹ بموں سمیت سب ہی کچھ شامل ہے جو اس وقت غزہ پر مسلسل آزمایا جا رہا ہے۔
امریکا نے اسرائیل میں اپنی ضروریات کے لیے بھی اسلحہ خانہ بنا رکھا ہے۔ اس اسلحہ خانے سے اسرائیل بھی اپنی ہنگامی ضروریات کے لیے ہتھیار نکلوا سکتا ہے۔یہیں سے یوکرین کو بھی امریکی ہتھیار بھیجے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ امریکا اسرائیل کو میزائیل حملوں سے محفوظ رکھنے والی آئرن ڈوم چھتری کے لیے بھی ٹیکنالوجی اور اینٹی میزائیل سسٹم فراہم کرتا ہے۔
اسرائیل کو ایف پینتیس طیاروں کی جو کھیپ فراہم کی گئی ہے۔اس کے لیے فاضل پرزے اور اضافی آلات نیدر لینڈز اور برطانیہ میں قائم امریکی عسکری گوداموں سے سپلائی کیے جاتے ہیں۔فی الحال ایک ڈچ عدالت نے حکومتِ ہالینڈ پر اضافی سامان فراہم کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔
عدالت کو '' شبہہ '' ہے کہ ایف پینتیس طیارے فوجی اہداف کے ساتھ ساتھ شہری اہداف کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔مگر ڈچ حکومت نے اس عدالتی حکم سے بچنے کا یہ راستہ نکالا ہے کہ ایف پینتیس کے آلات کسی تیسرے یورپی ملک کو فراہم کیے جاتے ہیں۔ وہاں سے یہ آلات باآسانی اسرائیل کو تھما دیے جاتے ہیں تاکہ نسل کشی کے کام میں اسرائیل کا ہاتھ رکنے نہ پائے۔
اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک جرمنی ہے۔جو چوبیس فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔دو ہزار بائیس میں اسرائیل کو جتنا جرمن اسلحہ فروخت ہوا۔دو ہزار تئیس میں اس سے دس گنا زائد اسلحہ دیا گیا۔جرمنی دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں سے بہیمانہ سلوک کے جس احساسِ جرم میں مسلسل مبتلا ہے، وہ اس کے ازالے کے لیے اسرائیل کی ہر فرمائش پوری کرنے کا اپنے تئیں پابند ہے تاکہ فلسطینی خون سے اسرائیل کی پیاس بجھ سکے اور اسرائیل وقتاً فوقتاً جرمنی کو اس کا ماضی نہ یاد دلائے۔
برطانیہ اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔وہ اسرائیلی کی پندرہ فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔برطانیہ نے ہی اسرائیل کو تاریخی طور پر جنم دینے کی راہ ہموار کی تھی۔لہٰذا دونوں ممالک کے تعلقات کوئی عام سا سفارتی بندھن نہیں بلکہ باپ بیٹے والا تعلق ہے۔اٹلی نے پچھلے پانچ ماہ میں اسرائیل کو تئیس لاکھ ڈالر کے دفاعی آلات فراہم کیے۔
مگر کچھ ممالک نے اسرائیل کی فوجی امداد روک دی ہے۔مثلاً کینیڈا اسرائیل کو سالانہ چار بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کرتا ہے۔فی الحال اس نے نئے سودے روک دیے ہیں۔جاپان کی اٹوچو کارپوریشن نے اسرائیل کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنی ایل بیت کے ساتھ شراکت داری منجمد کر دی ہے۔
فروری میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے اسرائیل کے خلاف جزوی فیصلے کی روشنی میں اسپین نے اسرائیل کے لیے اسلحے کی برآمد کے لائسنس معطل کر دیے ہیں۔بلجئیم نے بارود کی برآمد معطل کر دی ہے۔
اگرچہ یہ پابندیاں بے نظیر اور خوش آیند ہیں۔مگر تمام سرکردہ تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ امریکی تادیبی پابندیوں کے بغیر اسرائیل کو من مانی سے روکنا تقریباً ناممکن ہے۔امریکا چاہے تو آج رات جنگ رک سکتی ہے۔مگر امریکا اس نسل کشی سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔یہ راز فی الحال یا بائیڈن جانتا ہے یا پھر خدا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)