مہنگائی تاجر اور ریگولیٹر
تاجر اورگاہک صدیوں سے ایک دوسرے کے مدمقابل چلے آرہے ہیں، دونوں میں سے کوئی اپنی ہار ماننے کے لیے تیار نہیں
رمضان المبارک کے ایام میں کھانے پینے کی اشیاء خصوصاً سبزیوں اور پھلوں کے نرخوں میں اضافہ ہونا، کم از کم میرے لیے تو یہ اچنبھے کی بات نہیں ہے، ہم پاکستانیوں کے لیے معمول کی کارروائی ہے، کیونکہ ہرسال ایسا ہی ہوتا ہے، امسال بھی کوئی انہونی نہیں ہوئی بلکہ ہمارے تجارتی اور کنزیومرز کلچر کی درخشاں روایت کی پاسداری مسلسل جاری ہے، ابھی روزے چل رہے ہیں، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا، جیسے جیسے عید قریب آتی جائے گی،مہنگائی کا گراف بلند ہوتا جائے گا۔
ریڈی میڈ کپڑوں، جوتوں خصوصاً ''کڈز وئیرز'' کی قیمتیں دوگنی سے زیادہ ہوجاتی ہیں، ویسے بھی بچے والدین کی ''دکھتی رگ'' ہوتے ہیں، ڈیجیٹل عہد کے یہ بچے بلا کے ذہین اور کائیاں ہیں، وہ والدین کی نفسیات پڑھنے میں سگمنڈ فرائڈکو بھی آئینہ دکھاتے ہیں۔ کہتے ہیں، بچوں سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔
ایک بار شیطان گدھے کے روپ میں شریر بچوں کے ہتھے چڑھ گیا، پھر جو کچھ ہوا، اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں، بس اندازہ لگا لیں کہ شیطان نے اپنے چیلوں تک کو نصحیت کر رکھی ہے کہ جو مرضی کرنا لیکن بچوں سے بچنا بلکہ ان کے قریب بھی مت جانا۔ اس میں سبق یہ ہے کہ بچے والدین کے ''باپ'' ہوتے ہیں، رمضان کے آخری عشرے میں بچوں کے ساتھ کسی شاپنگ مال یا مارکیٹ میں چلے جائیں، وہ تاک کر ایسی چیز لینے کا مطالبہ کریں گے، جس کی قیمت والدین خصوصاً پاپا حضور کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیتی ہے۔
آپ لاکھ سمجھائیں، بہانہ بنائیں، لیکن صاحبزادہ مان کر نہیں دے گا ، کئی بار تو والدین زچ ہوکر صاحبزادے کے کانوں کے نیچے ایک '' زور کی'' جڑ بھی دیتے ہیں، عیدکے ایام میں ایسے بچے والدین کی جیب پر بہت بھاری پڑتے ہیں۔ ادھر ہمارے تاجر طبقے کا مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ مذہبی تہوار ایثار کے نہیں ''کمائی'' کے دن ہوتے ہیں لہٰذا رمضان المبارک سے لے کر عیدالفطر کے دن تک عوام مہنگائی کے خنجر سے لہولہان ہوتے رہتے ہیں لیکن شاپنگ نہیں چھوڑتے۔ایسے مائنڈ سیٹ کے ہوتے ہوئے تاجروں کو اﷲ کا واسطہ دے کر راہ راست پر لانا ممکن نہیں ہے اور نہ عوام خریداری چھوڑیں گے۔ حضرت غالب نے شاید اسی لیے فرمایا ہے ؎
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے، کیا پوچھیںکہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
تاجر اورگاہک صدیوں سے ایک دوسرے کے مدمقابل چلے آرہے ہیں، دونوں میں سے کوئی اپنی ہار ماننے کے لیے تیار نہیں، تاجروں نے بھی عزم صمیم کر رکھا ہے کہ مقدس ایام میں مرضی کا منافع لینا ہے جب کہ گاہکوں کا عزم بھی ''ہم توخود بڑے ضدی ہیں'' جیسا ہے۔ پیاز اگر مہنگا ہے تو دھڑا دھڑ پیاز کی خریداری کریں گے، جیسے پیاز نہ ملا تو زندگی کا ایک دن کم ہوجائے گا۔ چینی مہنگی ہے تو سارا گھرانہ چینی خریدنے نکل پڑے گا۔
ٹماٹر مہنگا ہوجائے تو اس کے لیے مرتے جائیں گے، لیموں کے نرخ بڑھیں تو سکنجبین کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ آج کل آپ درزیوں کے پاس جائیں،کپڑوں کے ڈھیر لگے ہیں، معروف درزیوں نے بکنگ بند کردی ہے لیکن ''ارجنٹ'' کا آپشن موجود ہے، بس ریٹ ٹرپل ہے، پھر بھی زندہ دلان لاہور کپڑے سلوانے کے لیے لائن میں کھڑے ہیں اور ساتھ ساتھ ''ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے'' کا انقلابی نعرہ بلند کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔
پاکستان کے بزنس اور کنزیومر کلچر کی یہ ایک تصویر ہے ، یہ تصویر مقدس ایام میں منافع خوری اور اندھا دھند خریداری کی عادت کو ظاہر کرتی ہے، اب ذرا ''خیراتی اور بھکاری'' کلچر کا ذکر ہوجائے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک اور معاشرہ ہے جہاں مخیر بھی بھکاری ہے ، خیرات دینے اور خیرات لینے والے دونوں اپنی سرشت میں بھکاری ہیں ۔بڑے بڑے خیراتی ادارے سارا سال چندہ مانگتے رہتے ہیں، بعض خیراتی ادارے مذہبی و سیاسی جماعتوں کے ونگز کے طور پر کام کرتے ہیں۔
وہ رمضان المبارک میں غرباء و مساکین میں خیرات تقسیم کرتے ہیں، یعنی خود مانگتے ہیں، پھر اس ''پرائے مال'' میں سے چار پانچ ہزار روپے کا سامان جس میں شربت، چائے کی پتی ، دال، دس کلو گرام آٹے کا تھیلا، گھی کا ایک پیکٹ اور چاول پر مشتمل رمضان پیکیج بنا کر'' مستحقین'' میں تقسیم کردیتے ہیں، پرائے مال کا ایک حصہ تنخواہوں اور ٹی اے ڈی اے پر خرچ کردیا جاتا ہے۔
لاہور شہرمیں کئی جگہوں پر لوہے کے ''چندہ بکس'' رکھے نظر آتے ہیں،ان پر تالہ لگا ہوتا ہے، کسی کو پتہ نہیں ہے کہ یہ چندہ بکس کس نے لگایا ہے، اسے کون کھولتا ہے، اس میں جو پیسے ہوتے ہیں، اسے کہاں خرچ کیا جاتا ہے؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ عجب مخمصہ یہ ہے کہ ان چندہ بکسوں کو ہٹانا، لگانے والوں کے کوائف رکھنا، کس سرکاری محکمے کا مینڈیٹ ہے، اس کے بارے میں کم ازکم مجھے تو پتہ نہیں ہے، اگر کسی دوست کو پتہ ہو تو مجھے ضرور بتائے۔
کوئی ٹریفک پولیس سے رجوع کرنے کی بات کرتا ہے، کوئی متعلقہ تھانے کی پولیس پر ذمے داری ڈالتا ہے، کوئی ضلعی انتظامیہ پر ملبہ ڈالتا ہے لیکن پتہ کسی کو کچھ نہیں ہے اور نہ کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ بس اسٹاپوں، معروف چوکوں، اوورہیڈ بریجز کے آہنی جنگلوں پر یہ ''چندہ بکس'' کس کی اجازت سے لگتے ہیں۔ انھیںکون لگاتا ، کون کھولتا ہے، پیسہ کدھر جاتا ہے، بس اﷲ ہی اﷲ ہے۔
یہ سب کچھ مہنگائی کنٹرول کرنے کی سرکاری کوششیں دیکھ کر یاد آیا ہے۔ مستحقین میں راشن کی تقسیم اور پرائس کنٹرول مہم بظاہر بہت اچھے فیصلے ہیں لیکن اس کے عملی نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہوسکتے۔ پرچون فروش مہنگائی کا مرکزی اور بنیادی کردار نہیں ہیں۔
پرچون فروش مارکیٹ میکنزم کا ''اینڈ پرچیزر'' بھی ہوتا ہے اور اینڈ سیلر بھی' اس کے پاس منافع کمانے کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی البتہ سرکاری محکموں کا ہدف یہی ہوتا ہے ' انھیں پر جرمانے عائد ہوتے ہیں، جیل وغیرہ کی سیر بھی کرا دی جاتی ہے، میڈیا میں سرکاری پھرتیاں دیکھ کر ہم بھی تالی بجا دیتے ہیں لیکن اصل منافع خور قانون کی گرفت سے بچا رہتا ہے۔ کاروبار کے بحرالکاہل میں دندناتی وہیل اور شارک مچھلیوں کو تو چھوڑیں، سبزی اور پھل منڈیوں کے آڑھتی ارب پتی ہیں' ان کی سیل ، پرچیز اور منافع کی کوئی شرح مقرر نہیں ہے۔ یہ آڑھتی طبقہ اپنے سرمائے کے حجم سے انتہائی کم ٹیکس ادا کرتاہے۔
سبزی منڈی یا مویشی منڈیوں کا ایک کردار پھڑیا ہے ، جسے مڈل مین بھی کہا جاسکتا ہے ، یہ پھڑیا بغیر کسی سرمایہ کاری کے پیسہ کماتا ہے ، اس کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں ہے ، ایک اور کردار تھوک فروش ہے ، یہ کردار آڑھتی سے مال خریدتا ہے اور منڈی میں ہی فروخت کردیتا ہے، شہروں میں جتنے سبزی فروش اور پھل فروش ہیں، وہ اسی تھوک فروش سے مال لے کر اپنی دکانوں پر سجاتے ہیں، عوام کا براہ راست ٹکراؤ انھیں سے ہوتا ہے ، سرکار بھی ان پر ہی جرمانے کرتی ہے، جسے حکومت کی مہنگائی کنٹرول مہم کہا جاتا ہے ۔
سبزی اور پھل منڈیوں میں صفائی کا سسٹم انتہائی ابتر ہے ' بارش ہوجائے تو صورتحال ناقابل بیان ہوجاتی ہے ۔لیکن ارب پتی آڑھتی منڈی میں صفائی ستھرائی کرانے پر بھی تیار نہیں ہیں، وہ بھی حکومت کو ہی کوستے رہتے ہیں 'حکومت کو سبزی منڈیوں میں صفائی اور سیوریج سسٹم کو بہترین بنانے کے لیے آڑھتیوں پر صفائی ٹیکس نافذ کرنا چاہیے، اس ٹیکس کی وصولی بلدیہ کرے ، اس سے بلدیہ کی مالی حالت بہتر ہوگی اور منڈیوں میں صفائی بھی ہوتی رہے گی۔
پاکستان میں سیکڑوں تجارتی تنظیمیں رجسٹرڈ ہیں لیکن ان تاجر تنظیموں کے عہدیداروں نے تجاوزات روکنے کی عملی کوشش کی نہ منافع کی شرح مقرر کرانے پر زور دیا، ٹیکس دینے کے بجائے ٹیکس چوری کرنے کے طریقے ایجاد کیے ہیں، تاجر رہنما ارب پتی لوگ ہیں 'کئی ارب پتی تاجر قتل و غارت اور دشمنیوں میں ملوث ہیں'انھیں انڈر ورلڈ کا نام بھی دیا جاتا ہے ،یہ لوگ اپنے سیکیورٹی گارڈز 'مخبر نیٹ ورک اور شوٹرز پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن کاروباری سسٹم کو شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے ان کا کوئی کردار نہیں ہے ' بلکہ وہ سسٹم میں تبدیلیاں اور ریفارمز متعارف کرانے کی قابلیت و صلاحیت ہی نہیں رکھتے ۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس حوالے سے سخت پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اس معاشی فلسفے کے داعی ہیں، جس میں کہا جاتا ہے کہ کاروبار کرنا ریاست اور حکومت کا کام نہیں ہے،وہ صرف مانیٹر اور ریگولیٹر ہے۔ اس تھیوری یا فلسفے میں بھی بہت سے اگرمگر اور چونکہ چنانچے موجود ہیں ،ان پر بحث کے بجائے میں صرف یہی کہوں گا،ریاست و حکومت سخت گیر مانیٹر اور ریگولیڑ بن کر تو دکھائے ، ورنہ باتیں تو باتیں ہوتی ہیں۔
ریڈی میڈ کپڑوں، جوتوں خصوصاً ''کڈز وئیرز'' کی قیمتیں دوگنی سے زیادہ ہوجاتی ہیں، ویسے بھی بچے والدین کی ''دکھتی رگ'' ہوتے ہیں، ڈیجیٹل عہد کے یہ بچے بلا کے ذہین اور کائیاں ہیں، وہ والدین کی نفسیات پڑھنے میں سگمنڈ فرائڈکو بھی آئینہ دکھاتے ہیں۔ کہتے ہیں، بچوں سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔
ایک بار شیطان گدھے کے روپ میں شریر بچوں کے ہتھے چڑھ گیا، پھر جو کچھ ہوا، اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں، بس اندازہ لگا لیں کہ شیطان نے اپنے چیلوں تک کو نصحیت کر رکھی ہے کہ جو مرضی کرنا لیکن بچوں سے بچنا بلکہ ان کے قریب بھی مت جانا۔ اس میں سبق یہ ہے کہ بچے والدین کے ''باپ'' ہوتے ہیں، رمضان کے آخری عشرے میں بچوں کے ساتھ کسی شاپنگ مال یا مارکیٹ میں چلے جائیں، وہ تاک کر ایسی چیز لینے کا مطالبہ کریں گے، جس کی قیمت والدین خصوصاً پاپا حضور کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیتی ہے۔
آپ لاکھ سمجھائیں، بہانہ بنائیں، لیکن صاحبزادہ مان کر نہیں دے گا ، کئی بار تو والدین زچ ہوکر صاحبزادے کے کانوں کے نیچے ایک '' زور کی'' جڑ بھی دیتے ہیں، عیدکے ایام میں ایسے بچے والدین کی جیب پر بہت بھاری پڑتے ہیں۔ ادھر ہمارے تاجر طبقے کا مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ مذہبی تہوار ایثار کے نہیں ''کمائی'' کے دن ہوتے ہیں لہٰذا رمضان المبارک سے لے کر عیدالفطر کے دن تک عوام مہنگائی کے خنجر سے لہولہان ہوتے رہتے ہیں لیکن شاپنگ نہیں چھوڑتے۔ایسے مائنڈ سیٹ کے ہوتے ہوئے تاجروں کو اﷲ کا واسطہ دے کر راہ راست پر لانا ممکن نہیں ہے اور نہ عوام خریداری چھوڑیں گے۔ حضرت غالب نے شاید اسی لیے فرمایا ہے ؎
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے، کیا پوچھیںکہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
تاجر اورگاہک صدیوں سے ایک دوسرے کے مدمقابل چلے آرہے ہیں، دونوں میں سے کوئی اپنی ہار ماننے کے لیے تیار نہیں، تاجروں نے بھی عزم صمیم کر رکھا ہے کہ مقدس ایام میں مرضی کا منافع لینا ہے جب کہ گاہکوں کا عزم بھی ''ہم توخود بڑے ضدی ہیں'' جیسا ہے۔ پیاز اگر مہنگا ہے تو دھڑا دھڑ پیاز کی خریداری کریں گے، جیسے پیاز نہ ملا تو زندگی کا ایک دن کم ہوجائے گا۔ چینی مہنگی ہے تو سارا گھرانہ چینی خریدنے نکل پڑے گا۔
ٹماٹر مہنگا ہوجائے تو اس کے لیے مرتے جائیں گے، لیموں کے نرخ بڑھیں تو سکنجبین کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ آج کل آپ درزیوں کے پاس جائیں،کپڑوں کے ڈھیر لگے ہیں، معروف درزیوں نے بکنگ بند کردی ہے لیکن ''ارجنٹ'' کا آپشن موجود ہے، بس ریٹ ٹرپل ہے، پھر بھی زندہ دلان لاہور کپڑے سلوانے کے لیے لائن میں کھڑے ہیں اور ساتھ ساتھ ''ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے'' کا انقلابی نعرہ بلند کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔
پاکستان کے بزنس اور کنزیومر کلچر کی یہ ایک تصویر ہے ، یہ تصویر مقدس ایام میں منافع خوری اور اندھا دھند خریداری کی عادت کو ظاہر کرتی ہے، اب ذرا ''خیراتی اور بھکاری'' کلچر کا ذکر ہوجائے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک اور معاشرہ ہے جہاں مخیر بھی بھکاری ہے ، خیرات دینے اور خیرات لینے والے دونوں اپنی سرشت میں بھکاری ہیں ۔بڑے بڑے خیراتی ادارے سارا سال چندہ مانگتے رہتے ہیں، بعض خیراتی ادارے مذہبی و سیاسی جماعتوں کے ونگز کے طور پر کام کرتے ہیں۔
وہ رمضان المبارک میں غرباء و مساکین میں خیرات تقسیم کرتے ہیں، یعنی خود مانگتے ہیں، پھر اس ''پرائے مال'' میں سے چار پانچ ہزار روپے کا سامان جس میں شربت، چائے کی پتی ، دال، دس کلو گرام آٹے کا تھیلا، گھی کا ایک پیکٹ اور چاول پر مشتمل رمضان پیکیج بنا کر'' مستحقین'' میں تقسیم کردیتے ہیں، پرائے مال کا ایک حصہ تنخواہوں اور ٹی اے ڈی اے پر خرچ کردیا جاتا ہے۔
لاہور شہرمیں کئی جگہوں پر لوہے کے ''چندہ بکس'' رکھے نظر آتے ہیں،ان پر تالہ لگا ہوتا ہے، کسی کو پتہ نہیں ہے کہ یہ چندہ بکس کس نے لگایا ہے، اسے کون کھولتا ہے، اس میں جو پیسے ہوتے ہیں، اسے کہاں خرچ کیا جاتا ہے؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ عجب مخمصہ یہ ہے کہ ان چندہ بکسوں کو ہٹانا، لگانے والوں کے کوائف رکھنا، کس سرکاری محکمے کا مینڈیٹ ہے، اس کے بارے میں کم ازکم مجھے تو پتہ نہیں ہے، اگر کسی دوست کو پتہ ہو تو مجھے ضرور بتائے۔
کوئی ٹریفک پولیس سے رجوع کرنے کی بات کرتا ہے، کوئی متعلقہ تھانے کی پولیس پر ذمے داری ڈالتا ہے، کوئی ضلعی انتظامیہ پر ملبہ ڈالتا ہے لیکن پتہ کسی کو کچھ نہیں ہے اور نہ کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ بس اسٹاپوں، معروف چوکوں، اوورہیڈ بریجز کے آہنی جنگلوں پر یہ ''چندہ بکس'' کس کی اجازت سے لگتے ہیں۔ انھیںکون لگاتا ، کون کھولتا ہے، پیسہ کدھر جاتا ہے، بس اﷲ ہی اﷲ ہے۔
یہ سب کچھ مہنگائی کنٹرول کرنے کی سرکاری کوششیں دیکھ کر یاد آیا ہے۔ مستحقین میں راشن کی تقسیم اور پرائس کنٹرول مہم بظاہر بہت اچھے فیصلے ہیں لیکن اس کے عملی نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہوسکتے۔ پرچون فروش مہنگائی کا مرکزی اور بنیادی کردار نہیں ہیں۔
پرچون فروش مارکیٹ میکنزم کا ''اینڈ پرچیزر'' بھی ہوتا ہے اور اینڈ سیلر بھی' اس کے پاس منافع کمانے کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی البتہ سرکاری محکموں کا ہدف یہی ہوتا ہے ' انھیں پر جرمانے عائد ہوتے ہیں، جیل وغیرہ کی سیر بھی کرا دی جاتی ہے، میڈیا میں سرکاری پھرتیاں دیکھ کر ہم بھی تالی بجا دیتے ہیں لیکن اصل منافع خور قانون کی گرفت سے بچا رہتا ہے۔ کاروبار کے بحرالکاہل میں دندناتی وہیل اور شارک مچھلیوں کو تو چھوڑیں، سبزی اور پھل منڈیوں کے آڑھتی ارب پتی ہیں' ان کی سیل ، پرچیز اور منافع کی کوئی شرح مقرر نہیں ہے۔ یہ آڑھتی طبقہ اپنے سرمائے کے حجم سے انتہائی کم ٹیکس ادا کرتاہے۔
سبزی منڈی یا مویشی منڈیوں کا ایک کردار پھڑیا ہے ، جسے مڈل مین بھی کہا جاسکتا ہے ، یہ پھڑیا بغیر کسی سرمایہ کاری کے پیسہ کماتا ہے ، اس کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں ہے ، ایک اور کردار تھوک فروش ہے ، یہ کردار آڑھتی سے مال خریدتا ہے اور منڈی میں ہی فروخت کردیتا ہے، شہروں میں جتنے سبزی فروش اور پھل فروش ہیں، وہ اسی تھوک فروش سے مال لے کر اپنی دکانوں پر سجاتے ہیں، عوام کا براہ راست ٹکراؤ انھیں سے ہوتا ہے ، سرکار بھی ان پر ہی جرمانے کرتی ہے، جسے حکومت کی مہنگائی کنٹرول مہم کہا جاتا ہے ۔
سبزی اور پھل منڈیوں میں صفائی کا سسٹم انتہائی ابتر ہے ' بارش ہوجائے تو صورتحال ناقابل بیان ہوجاتی ہے ۔لیکن ارب پتی آڑھتی منڈی میں صفائی ستھرائی کرانے پر بھی تیار نہیں ہیں، وہ بھی حکومت کو ہی کوستے رہتے ہیں 'حکومت کو سبزی منڈیوں میں صفائی اور سیوریج سسٹم کو بہترین بنانے کے لیے آڑھتیوں پر صفائی ٹیکس نافذ کرنا چاہیے، اس ٹیکس کی وصولی بلدیہ کرے ، اس سے بلدیہ کی مالی حالت بہتر ہوگی اور منڈیوں میں صفائی بھی ہوتی رہے گی۔
پاکستان میں سیکڑوں تجارتی تنظیمیں رجسٹرڈ ہیں لیکن ان تاجر تنظیموں کے عہدیداروں نے تجاوزات روکنے کی عملی کوشش کی نہ منافع کی شرح مقرر کرانے پر زور دیا، ٹیکس دینے کے بجائے ٹیکس چوری کرنے کے طریقے ایجاد کیے ہیں، تاجر رہنما ارب پتی لوگ ہیں 'کئی ارب پتی تاجر قتل و غارت اور دشمنیوں میں ملوث ہیں'انھیں انڈر ورلڈ کا نام بھی دیا جاتا ہے ،یہ لوگ اپنے سیکیورٹی گارڈز 'مخبر نیٹ ورک اور شوٹرز پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن کاروباری سسٹم کو شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے ان کا کوئی کردار نہیں ہے ' بلکہ وہ سسٹم میں تبدیلیاں اور ریفارمز متعارف کرانے کی قابلیت و صلاحیت ہی نہیں رکھتے ۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس حوالے سے سخت پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اس معاشی فلسفے کے داعی ہیں، جس میں کہا جاتا ہے کہ کاروبار کرنا ریاست اور حکومت کا کام نہیں ہے،وہ صرف مانیٹر اور ریگولیٹر ہے۔ اس تھیوری یا فلسفے میں بھی بہت سے اگرمگر اور چونکہ چنانچے موجود ہیں ،ان پر بحث کے بجائے میں صرف یہی کہوں گا،ریاست و حکومت سخت گیر مانیٹر اور ریگولیڑ بن کر تو دکھائے ، ورنہ باتیں تو باتیں ہوتی ہیں۔