خوش کن معاشی اشارے
موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی کااصل امتحان یہ ہے کہ وہ ملکی معیشت کو کس طرح پیداواری ٹریک پر لے کر جاتی ہے
پاکستان کے وزیراعظم شہبازشریف کو امریکا کے صدر جو بائیڈن نے خط لکھا ہے، میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اس خط میں امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کی نومنتخب حکومت کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔
امریکی صدر نے کہا ہے کہ دنیا اور خطے کو درپیش وقت کے اہم ترین چیلنجز کا سامنا کرنے میں امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ ہم پاکستان کے ساتھ مل کرانسانی حقوق کے تحفظ اور ترقی کے فروغ کے لیے پرعزم ہیں،دونوں اقوام کے درمیان استوارمضبوط پارٹنرشپ کو تقویت دیں گے۔
موجودہ عالمی صف بندی کے تناظر میں امریکا کے صدر کا پاکستان کے وزیراعظم کو نیک تمناؤں پر مشتمل خط انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکا کے صدر کا یہ کہنا کہ اس وقت دنیا اور خطے کو جن اہم ترین چیلنجز کا سامنا ہے، امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات میں جو مسائل تھے، وہ مستقبل میں دور ہوتے نظر آ رہے ہیں جو کہ ایک اچھی پیش رفت کہی جا سکتی ہے۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں ہمیشہ سے اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے تاہم کچھ عرصے سے یہ تعلقات خاصی نچلی سطح پر تھے۔ اب صورت حال میں مثبت تبدیلی نظر آ رہی ہے جو پاکستان کی معیشت کے لیے اچھا اشارہ ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے منصب سنبھالنے کے بعد امریکی صدر کا یہ پہلا خط ہے، اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان شراکت داری دنیا اور ہمارے عوام کی سلامتی کو یقینی بنانے میں نہایت اہم ہے، صحت عامہ کا تحفظ، معاشی ترقی اور سب کے لیے تعلیم مشترکہ وژن ہے جسے مل کر فروغ دیتے رہیں گے۔
امریکی صدرنے خط میں مزید کہا ہے کہ امریکا پاکستان گرین الائنس فریم ورک سے ماحولیاتی بہتری کے لیے اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کریں گے۔پائیدار زرعی ترقی، آبی انتظام اور 2022کے سیلاب کے تباہ کن اثرات سے بحالی میں پاکستان کی معاونت جاری رکھیں گے۔ دونوں اقوام کے درمیان استوارمضبوط پارٹنرشپ کو تقویت دیں گے، دونوں ممالک کے عوام کے درمیان استوار قریبی رشتے مزید مضبوط بنائیں گے۔
امریکی صدر جوبائیڈن کے وزیراعظم شہباز شریف کے نام پیغام سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں برف پگھلی ہے۔ امریکی صدر نے ہر شعبہ میں تعاون کا اعادہ کیا ہے۔5 سال بعد کسی امریکی صدرنے پاکستانی سربراہ سے پہلا رابطہ کیا ہے۔ 16 ماہ کی شہباز شریف کی حکومت کے دوران بھی دونوں ملکوں کے سربراہوں میں کوئی رابطہ نہ ہوا۔البتہ جوبائیڈن اور شہباز شریف کے درمیان 2023مین نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی۔
نگران سیٹ اپ کے دوران بھی امریکی صدر کا کسی پاکستانی عہدیدارسے رابطہ نہ ہوسکا۔تقریباً پانچ سال بعد پاکستان کے وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان سفارتی سطح پر رابطہ ہوا ہے۔ حالیہ پیغام پاکستان میں ترقی اور معاشی مضبوطی کی طرف ایک قدم ہوگا۔
پاکستان کے لیے امریکی حمایت حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کی معیشت بحران کا شکار ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کی امداد انتہائی ضروری ہے۔ امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات اور یورپی یونین کے ساتھ بہتر ریلیشن شپ پاکستان کی معیشت کے لیے نئے خون کے مترادف ہے۔
ادھر آئی ایم ایف کی طرف سے بھی پاکستان کے لیے اچھی خبر آ رہی ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے کم از کم 3سال کا نیا قرض پروگرام درکار ہے۔ فی الوقت نئے پیکیج کا مالی حجم طے نہیں پایا۔ آئی ایم ایف کی سپرنگ میٹنگز میں شرکت کے لیے 15اپریل کو واشنگٹن جارہا ہوں۔
جمعہ کوپاکستان اسٹاک ایکسچینج میں گونگ بیل تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اگلے طویل معاہدے پر14اور15اپریل کو بات چیت ہوگی۔اپریل کے آخر تک ایف بی آر کو ڈیجٹلائز کرنے کے لیے کنسلٹنٹ کی تقرری کردی جائے گی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاملات بہتر چل رہے ہیں۔ امید یہی ہے کہ پاکستان کے وزیر خزانہ اپنا مقصد اور ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ پاکستان کی معیشت کے لیے گردشی قرضے ہمیشہ سے اہم مسئلہ رہے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ نے بھی کہا ہے کہ سرکلر ڈیٹ کو کم کرنا ہے اور اس پر کام ہورہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بجلی گیس لیکیجز پر قابو پائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ سسٹم میں 3ٹریلین کے لیکیجز ہیں۔ قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اقتصادی اشاریوں میں بہتری کے ساتھ 2024 میں بہترانداز میں معیشت کا آغاز ہوا ہے۔ وزارت خزانہ چھوٹے ودرمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے سرمائے تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے کیپٹل مارکیٹ کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔
وزیرخزانہ نے پاکستان کی کیپٹل مارکیٹ میں چینی شراکت داری اور اسٹیک ہولڈنگ پر تشکر کا اظہار کرتے ہوئے چینی سرمایہ کاری کی اہمیت کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں اور چینی ایکسچینجز کے درمیان بڑھتا تعاون پاکستان کی اقتصادی ترقی اور دونوں ممالک کے باہمی مفاد کے لیے اہم ہے۔
کراچی میں یوٹیلیٹی اسٹورکارپوریشن کے دورے کے موقع پرگفتگو میں انھوں نے کہاکہ رمضان پیکیج 7.5 ارب روپے سے بڑھا کر12 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ اشیاء کے معیار پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں میں اضافہ، توانائی شعبہ میں نقصانات میں کمی اور اداروںکو خسارے سے نکالنا ہماری ترجیحات ہیں۔
وزیر خزانہ نے کراچی میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد اور کلیدی بینکوں کے چیف ایگزیکٹو افسران اور صدور کے ساتھ ملاقات کی ۔ اقتصادی نمو اور پاکستان کی ترقی کے لیے ترجیحی شعبوں کو بینکوں کی جانب سے قرضوںکی فراہمی میں اضافہ سے متعلق امور زیر بحث لائے گئے۔ یہ ساری باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ملکی معیشت درست ٹریک پر چل رہی ہے۔
ادھر آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان سے پاک چین معاہدوں کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی، آئی ایم ایف رکن ممالک کے معاہدوں پر بات چیت نہیں کرتا، مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے مالی تعاون کے حصول کا انحصار پاکستان پر ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق آئی ایم ایف نے کہا کہ سیاسی جماعتوں سے جولائی2023 کی ملاقاتوں میں پروگرام کی کامیابی کے حوالے سے بات چیت ہوئی، اس کے بعد انتخابات تھے، اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ9 ماہ کے لیے تھا جو اپریل میں ختم ہو جائے گا، ترقیاتی بجٹ منجمد کرنے کا مشورہ خسارہ کم کرنے کے لیے دیا، پاکستان نے گردشی قرض پر قابو نہ پایا تو نرخوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی معاشی پیشرفت حوصلہ افزا مگر چیلنجز کا تاحال سامنا ہے،آئی ایم ایف کی تجاویز پر پاکستان نے بہتر عمل کیا، پائیدار شرح نمو کے لیے پاکستان کو سیاسی مشکلات پرقابو پاناہوگا، نئے قرض پروگرام سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ ٹیکس وصولوں، ٹیکس بنیاد میں توسیع اور شعبہ توانائی میں بروقت ایڈجسٹمنٹ ضروری ہے، شعبہ بجلی میں ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے، توانائی کی قیمتوں میں طریقہ کار کے تحت اضافہ کرنا ہوگا تاکہ مہنگائی نہ بڑھے۔
آئی ایم ایف کے مطابق ٹیکس تناسب میں اضافہ آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کا اہم نکتہ ہے، پاکستان کو قرضے کی واپسی کی سہولت درکار ہے ، دسمبر میں آئی ایم ایف نے رکن ممالک کے لیے اسپیشل ڈرائنگ رائٹس کوٹے میں اضافہ کیا ہے، قرض کی رقم اور آئی ایم ایف پالیسی پیکیج کے ذریعے معیشت پائیدار ہوگی۔
نئی حکومت کے لیے سفارتی سطح پر بھی اچھے اشارے سامنے آ رہے ہیں جب کہ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے بھی اچھی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی کااصل امتحان یہ ہے کہ وہ ملکی معیشت کو کس طرح پیداواری ٹریک پر لے کر جاتی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کا تعاون وقتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ گو یہ ضروری ہے اور خوش قسمتی سے پاکستان کو یہ تعاون مل رہا ہے۔
اب نئی حکومت کی معاشی ٹیم کی ذہانت کا پتہ اس وقت چلے گا جب نئے بجٹ کے اہداف سامنے آئیں گے۔ پاکستان کے پاس پوٹینشل کی کمی نہیں ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل بھی ایسے نہیں ہیں کہ جو حل نہ ہو سکیں۔ حکومت کو صرف اپنی ترجیحات میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
امریکی صدر نے کہا ہے کہ دنیا اور خطے کو درپیش وقت کے اہم ترین چیلنجز کا سامنا کرنے میں امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ ہم پاکستان کے ساتھ مل کرانسانی حقوق کے تحفظ اور ترقی کے فروغ کے لیے پرعزم ہیں،دونوں اقوام کے درمیان استوارمضبوط پارٹنرشپ کو تقویت دیں گے۔
موجودہ عالمی صف بندی کے تناظر میں امریکا کے صدر کا پاکستان کے وزیراعظم کو نیک تمناؤں پر مشتمل خط انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکا کے صدر کا یہ کہنا کہ اس وقت دنیا اور خطے کو جن اہم ترین چیلنجز کا سامنا ہے، امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات میں جو مسائل تھے، وہ مستقبل میں دور ہوتے نظر آ رہے ہیں جو کہ ایک اچھی پیش رفت کہی جا سکتی ہے۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں ہمیشہ سے اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے تاہم کچھ عرصے سے یہ تعلقات خاصی نچلی سطح پر تھے۔ اب صورت حال میں مثبت تبدیلی نظر آ رہی ہے جو پاکستان کی معیشت کے لیے اچھا اشارہ ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے منصب سنبھالنے کے بعد امریکی صدر کا یہ پہلا خط ہے، اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان شراکت داری دنیا اور ہمارے عوام کی سلامتی کو یقینی بنانے میں نہایت اہم ہے، صحت عامہ کا تحفظ، معاشی ترقی اور سب کے لیے تعلیم مشترکہ وژن ہے جسے مل کر فروغ دیتے رہیں گے۔
امریکی صدرنے خط میں مزید کہا ہے کہ امریکا پاکستان گرین الائنس فریم ورک سے ماحولیاتی بہتری کے لیے اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کریں گے۔پائیدار زرعی ترقی، آبی انتظام اور 2022کے سیلاب کے تباہ کن اثرات سے بحالی میں پاکستان کی معاونت جاری رکھیں گے۔ دونوں اقوام کے درمیان استوارمضبوط پارٹنرشپ کو تقویت دیں گے، دونوں ممالک کے عوام کے درمیان استوار قریبی رشتے مزید مضبوط بنائیں گے۔
امریکی صدر جوبائیڈن کے وزیراعظم شہباز شریف کے نام پیغام سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں برف پگھلی ہے۔ امریکی صدر نے ہر شعبہ میں تعاون کا اعادہ کیا ہے۔5 سال بعد کسی امریکی صدرنے پاکستانی سربراہ سے پہلا رابطہ کیا ہے۔ 16 ماہ کی شہباز شریف کی حکومت کے دوران بھی دونوں ملکوں کے سربراہوں میں کوئی رابطہ نہ ہوا۔البتہ جوبائیڈن اور شہباز شریف کے درمیان 2023مین نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی۔
نگران سیٹ اپ کے دوران بھی امریکی صدر کا کسی پاکستانی عہدیدارسے رابطہ نہ ہوسکا۔تقریباً پانچ سال بعد پاکستان کے وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان سفارتی سطح پر رابطہ ہوا ہے۔ حالیہ پیغام پاکستان میں ترقی اور معاشی مضبوطی کی طرف ایک قدم ہوگا۔
پاکستان کے لیے امریکی حمایت حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کی معیشت بحران کا شکار ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کی امداد انتہائی ضروری ہے۔ امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات اور یورپی یونین کے ساتھ بہتر ریلیشن شپ پاکستان کی معیشت کے لیے نئے خون کے مترادف ہے۔
ادھر آئی ایم ایف کی طرف سے بھی پاکستان کے لیے اچھی خبر آ رہی ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے کم از کم 3سال کا نیا قرض پروگرام درکار ہے۔ فی الوقت نئے پیکیج کا مالی حجم طے نہیں پایا۔ آئی ایم ایف کی سپرنگ میٹنگز میں شرکت کے لیے 15اپریل کو واشنگٹن جارہا ہوں۔
جمعہ کوپاکستان اسٹاک ایکسچینج میں گونگ بیل تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اگلے طویل معاہدے پر14اور15اپریل کو بات چیت ہوگی۔اپریل کے آخر تک ایف بی آر کو ڈیجٹلائز کرنے کے لیے کنسلٹنٹ کی تقرری کردی جائے گی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاملات بہتر چل رہے ہیں۔ امید یہی ہے کہ پاکستان کے وزیر خزانہ اپنا مقصد اور ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ پاکستان کی معیشت کے لیے گردشی قرضے ہمیشہ سے اہم مسئلہ رہے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ نے بھی کہا ہے کہ سرکلر ڈیٹ کو کم کرنا ہے اور اس پر کام ہورہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بجلی گیس لیکیجز پر قابو پائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ سسٹم میں 3ٹریلین کے لیکیجز ہیں۔ قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اقتصادی اشاریوں میں بہتری کے ساتھ 2024 میں بہترانداز میں معیشت کا آغاز ہوا ہے۔ وزارت خزانہ چھوٹے ودرمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے سرمائے تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے کیپٹل مارکیٹ کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔
وزیرخزانہ نے پاکستان کی کیپٹل مارکیٹ میں چینی شراکت داری اور اسٹیک ہولڈنگ پر تشکر کا اظہار کرتے ہوئے چینی سرمایہ کاری کی اہمیت کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں اور چینی ایکسچینجز کے درمیان بڑھتا تعاون پاکستان کی اقتصادی ترقی اور دونوں ممالک کے باہمی مفاد کے لیے اہم ہے۔
کراچی میں یوٹیلیٹی اسٹورکارپوریشن کے دورے کے موقع پرگفتگو میں انھوں نے کہاکہ رمضان پیکیج 7.5 ارب روپے سے بڑھا کر12 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ اشیاء کے معیار پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں میں اضافہ، توانائی شعبہ میں نقصانات میں کمی اور اداروںکو خسارے سے نکالنا ہماری ترجیحات ہیں۔
وزیر خزانہ نے کراچی میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد اور کلیدی بینکوں کے چیف ایگزیکٹو افسران اور صدور کے ساتھ ملاقات کی ۔ اقتصادی نمو اور پاکستان کی ترقی کے لیے ترجیحی شعبوں کو بینکوں کی جانب سے قرضوںکی فراہمی میں اضافہ سے متعلق امور زیر بحث لائے گئے۔ یہ ساری باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ملکی معیشت درست ٹریک پر چل رہی ہے۔
ادھر آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان سے پاک چین معاہدوں کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی، آئی ایم ایف رکن ممالک کے معاہدوں پر بات چیت نہیں کرتا، مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے مالی تعاون کے حصول کا انحصار پاکستان پر ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق آئی ایم ایف نے کہا کہ سیاسی جماعتوں سے جولائی2023 کی ملاقاتوں میں پروگرام کی کامیابی کے حوالے سے بات چیت ہوئی، اس کے بعد انتخابات تھے، اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ9 ماہ کے لیے تھا جو اپریل میں ختم ہو جائے گا، ترقیاتی بجٹ منجمد کرنے کا مشورہ خسارہ کم کرنے کے لیے دیا، پاکستان نے گردشی قرض پر قابو نہ پایا تو نرخوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی معاشی پیشرفت حوصلہ افزا مگر چیلنجز کا تاحال سامنا ہے،آئی ایم ایف کی تجاویز پر پاکستان نے بہتر عمل کیا، پائیدار شرح نمو کے لیے پاکستان کو سیاسی مشکلات پرقابو پاناہوگا، نئے قرض پروگرام سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ ٹیکس وصولوں، ٹیکس بنیاد میں توسیع اور شعبہ توانائی میں بروقت ایڈجسٹمنٹ ضروری ہے، شعبہ بجلی میں ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے، توانائی کی قیمتوں میں طریقہ کار کے تحت اضافہ کرنا ہوگا تاکہ مہنگائی نہ بڑھے۔
آئی ایم ایف کے مطابق ٹیکس تناسب میں اضافہ آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کا اہم نکتہ ہے، پاکستان کو قرضے کی واپسی کی سہولت درکار ہے ، دسمبر میں آئی ایم ایف نے رکن ممالک کے لیے اسپیشل ڈرائنگ رائٹس کوٹے میں اضافہ کیا ہے، قرض کی رقم اور آئی ایم ایف پالیسی پیکیج کے ذریعے معیشت پائیدار ہوگی۔
نئی حکومت کے لیے سفارتی سطح پر بھی اچھے اشارے سامنے آ رہے ہیں جب کہ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے بھی اچھی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی کااصل امتحان یہ ہے کہ وہ ملکی معیشت کو کس طرح پیداواری ٹریک پر لے کر جاتی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کا تعاون وقتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ گو یہ ضروری ہے اور خوش قسمتی سے پاکستان کو یہ تعاون مل رہا ہے۔
اب نئی حکومت کی معاشی ٹیم کی ذہانت کا پتہ اس وقت چلے گا جب نئے بجٹ کے اہداف سامنے آئیں گے۔ پاکستان کے پاس پوٹینشل کی کمی نہیں ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل بھی ایسے نہیں ہیں کہ جو حل نہ ہو سکیں۔ حکومت کو صرف اپنی ترجیحات میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔