لیاری توجہ کا متقاضی ہے

لیاری کے نوجوان چاہے وہ تعلیم یافتہ ہو یا ناخواندہ ہو ، ہنر مند ہو یا کہ غیر ہنر مند ہو روزگار کے متلاشی نظر آتے ہیں


Shabbir Ahmed Arman March 31, 2024

کراچی کا وجود لیاری کا مرہون منت ہے جہاں سے شہر کی ابتدا ہوئی ، یہ الگ بات ہے لیاری پر وہ توجہ مرکوز نہیں کی گئی جو بعد میں آباد علاقوں پر کی گئی۔

لیاری میں بھی سانس لیتے ہوئے انسان بستے ہیں ، افسوس ! غیروں نے لیاری پرظلم ڈھائے ہیں اور اپنوں نے اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔ لیاری کے لوگ کل کی طرح آج بھی بنیادی مسائل کی گرداب میں جھکڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،دنیا کی نظریں چاند اور مریخ پر جمی ہوئی ہیں جبکہ لیاری میں لوگوں کی نظریں بند گٹروں اور کھلے ہوئے مین ہولوں پر ہیں، لیاری کے قدیمی مکینوں کو بید خل کرنے کی تمام منصوبوں کی ناکامی کے بعد انتہائی چالاکی و عیاری سے کام لیتے ہوئے اسرائیلی فارمولے جیسے منصوبے کے تحت لیاری کی قدیمی رہائشی زمینوں پر فلیٹ کے نام پر اونچی عمارتیں تعمیر کرکے ان پر قبضے کیے جارہے ہیں اور غربت کے مارے لوگ ان کی چنگل میں بری طرح پھنس کر اپنی آباؤ اجداد کی زمینیں کوڑیوں کے دام فروخت کررہے ہیں ۔اگر چہ لیاری میں ترقیاتی کام نظر آتے ہیں لیکن لیاری کی بڑھتی ہوئی آبادی کو نظر اندازکیے ہوئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ لیاری کے مسائل حل ہونے کے بجائے ان میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

لیاری کے بنیادی مسائل معروضی حالات کے تحت حل کرنے کے متقاضی ہیں ۔کل بھی لیاری میں پینے کے پانی کا مسئلہ درپیش تھا آج بھی یہ مسئلہ برقرار ہے جبکہ اس ضمن میں اربوں روپوں کی لاگت سے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ گئے ہیں ۔لیاری میں پینے کے پانی کا مسئلہ گورکھ دھندہ تھا اور ہے شاید آئندہ بھی رہے کیوں کہ اس کے تدارک کا کوئی پلان دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ لیاری کو اس کی آبادی کے تناسب سے پانی فراہم نہیں کیا جاتا جو پانی فراہم کیا جاتا ہے راستے سے چوری کرلیا جاتا ہے جو باقی ماندہ پانی لیاری تک پہنچتا ہے اس پر علاقائی طاقتوروں کا قبضہ رہتا ہے جو اپنے اپنے پسندیدہ علاقوں میں سپلائی کیا جاتا ہے حیران کن بات یہ ہے کہ رہائشی یونٹ پینے کے پانی سے محروم رہتے ہیں جبکہ کاروباری یونٹ میں وافر مقدار میں پانی سپلائی ہوتا ہے۔

کبھی صاف پانی سپلائی ہوتا ہے تو کبھی گٹر کا پانی فراہم کیا جاتا ہے ، کبھی پانی کی کم پریشر کا بہانا بنایا جاتا ہے ،کبھی بجلی کی لوڈشیڈ نگ کو جواز بنایا جاتا ہے، تو کبھی موٹر کی خرابی کا عذر پیش کیا جاتا ہے ۔ لیاری میں پانی کا مسئلہ شیطان کی آنت بنا ہوا ہے جس کا سرا کہیں بھی نظر نہیں آتا۔

بجلی کی فراہمی کی آنکھ مچولی کا حال یہ ہے کہ 24گھنٹوں میں سے صرف 8گھنٹے بجلی وقفہ وقفہ سے فراہم کی جاتی ہے، اس ضمن میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی سربراہی میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس میں راقم الحروف بھی مدعو تھا اس اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے لیاری میں جاری لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر کے الیکٹرک کو 18گھنٹے لوڈ شیڈنگ کو جلد کم سے کم کرتے ہوئے زیرو لوڈ شیڈنگ کے لئے بجلی کی فراہمی اور صارفین کو بلوں کی ادائیگی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی اور کے الیکٹرک کو اوور بلنگ و دیگر بلنگ معاملات حل کرنے کے لئے ہر یونین کونسل میں کے الیکٹرک اور صوبائی حکومت کے ایک ایک نمائندے پر مشتمل کمیٹی بنانے کے احکامات جاری کیے تھے جو ہر یونین کونسل کے دفتر میںبیٹھیں گے اس بات کو گزرے دس مہینے کا عرصہ ہوچکاہے ، ابھی تک ان احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے ، آخرکیوں ؟

اسی طرح لیاری بھر میں گیس کی ظالمانہ لوڈ شیڈنگ عرصے دراز سے جاری ہے ۔ امسال رمضان مبارک کا مہینہ ہے لیکن سوئی سدرن کا رویہ تبدیل نہیں ہوسکا ہے صرف میڈیا میں بیان جاری ہوتا ہے کہ رمضان میں گیس لوڈ شیڈنگ میں کمی کی جائیگی جو کہ حقیقت کے برخلاف بات ہے ۔سلنڈر گیس فی کلو 300روپے کا ہے لیاری کے غریب لوگ خرید نہیں سکتے ،لوگوں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں ، ہوٹلوں سے کھانا خریدنے کی سکت نہیں رکھتے ، لکڑی کی تلاش میں لیاری کی خواتین پرانا حاجی کیمپ میں واقع ٹمبر مارکیٹ میں سرگرداں ہیں جن سے گھر کے چولہے تھوڑے بہت جلتے ہیں ۔

لیاری کے نوجوان چاہے وہ تعلیم یافتہ ہو یا ناخواندہ ہو ، ہنر مند ہو یا کہ غیر ہنر مند ہو روزگار کے متلاشی نظر آتے ہیں ۔نوجوانوں کا ایک طبقہ تاریک راہوں میں منشیات فروشی ، سٹے بازی اور جوا میں رزق تلاش کررہے ہیں ، دن بہ دن لیاری میں نشی افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جس وجہ سے خاندان کے خاندان تباہ و برباد ہورہے ہیں۔


ایسے میں لیاری میں نشئی افراد کی بحالی کے لیے ایک سرکاری اسپتال قائم ہے جہاں ان کا علاج کیا جاتا ہے اسی طرح لیاری کے مختلف علاقوں میں یہ اسپتال نجی سطح پر کھولیں گئے ہیں جہاں ہر ماہ کی فیس 35000روپے لیے جارہے ہیں اور والدین اپنے لخت جگروں کی زندگی کی بحالی کے لیے اپنے اثاثے فروخت کرنے پر مجبور ہیں لیکن علاج کے بعد پھر یہ نشے کے لت میں پڑ جاتے ہیں اس طرح خاندان کے خاندان تباہ و برباد ہورہے ہیں۔


منشیات کا دھند جوئے و سٹے کے اڈے علاقہ پولیس کی سرپرستی میں جاری و ساری ہے جہاں سرعام کسی شرم و حیا کے بغیر جیبیں گرم کیے جارہے ہیں جو افراد ان کے خلاف احتجاج کرتا ہے انھیں ٹیکنیکل طریقہ سے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے یا پھر اسے بھی دھندے میں سے حصہ دیکر خاموش کردیا جاتا ہے۔


لیاری شہید بے نظیر بھٹو یونی ورسٹی کی کارکردگی اب فخریہ نہیں رہی، تباہی کی دہانے پر ہے ، لیاری ڈگری کالج عدم توجہی کا شکار ہے فنڈ کی کمی نے اس کی اہمیت کم کردی ہے ، سرکاری اسکولوں کی حالت بھی قابل رشک نہیں ہے یہاں بھی فنڈز کی کمی اور سہولیات کی کمی درپیش ہے۔

اسپتال میں مریض علاج کے لیے جاتے ہیں تو واپسی میں ان کی میت لوٹا دی جاتی ہے ، دوائیاں فروخت کی جاتی ہیں ، انتظامی معاملات پر سیاست چمکا ئی جارہی ہے ، مریض رل گئے ہیں۔ میڈیکل کالج کی بابت بھی شکایتیں زدعام ہیں۔ شناختی کارڈ بنانا مشکل مرحلہ بنا دیا گیا ہے۔

چاکیواڑہ پوسٹ آفس کی عمارت خستہ حال ہے ، شہید ذوالفقار علی بھٹو لا کالج عرصہ دراز سے صرف عمارت کی صورت میں موجود ہے جو افتتاح کا منتظر ہے ۔بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام مستحقین خواتین کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے ، رقم سے 1500روپے سے 2000روپے جبری کٹوتی کی جارہی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں یہ ظلم ملی بھگت سے جارہی ہے۔

لیاری کے کھیل کے میدان ترقیاتی کاموں کے منتظر ہیں ، لیاری بھر میں بچوں کا کوئی پارک نہیں جو تھے انھیں ختم کردیا گیا ہے ۔لیاری کے اسپورٹس مین بیروزگار ہیں ،لیاری بھر میں عوامی بس سروس کا تصور نہیں ، لیاری شہر کراچی سے کٹا ہوا علاقہ ہے ، لیاری ٹاؤن انتظامیہ اور یونین کونسلیں عدم فنڈز کی وجہ سے وہ کارکردگی دکھا نہیں پارہے ہیں جن سے عوامی توقعات وابستہ ہیں۔

لیاری کے لوگوں کو اپنے عوامی نمائندؤں سے بہت امیدیں وابستہ ہیں، دیکھتے ہیں وہ کس حد تک عوام کی امیدوں پر پورا اتریں گے ؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں