دمادم مست قلندر ہو کر رہے گا
نظم و ضبط کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے اخلاقی مجرموں کو برسرِ عام کوڑے مارنے کی روایت متعارف کروائی گئی۔
رومن حکمران اپنے عوام کی توجہ گمبھیر مسائل سے ہٹانے کے لیے شہر کے اہم مقامات پر بڑے بڑے پنجرے لگا کر ان میں غلاموں کو شیروں کے آگے پھینک دیا کرتے تھے۔ ہماری اشرافیہ ایسے تماشے لگانے کا بندوست کبھی کبھار کیا کرتی ہے۔ اللہ جنت نصیب کرے جنرل مجیب الرحمن کو۔ خود کو نفسیاتی جنگ کا یکتا و تنہاء ماہر سمجھا کرتے تھے۔ جولائی 1977ء سے جون 1985ء تک مسلسل اس ملک کے سیکریٹری اطلاعات رہے۔
جنرل ضیاء نے ان دنوں پوری توجہ افغانستان کو آزاد کروانے پر مبذول کر رکھی تھی۔ افغانوں کو آزاد کروانے کے لیے ضروری تھا کہ پاکستانیوں کو صراطِ مستقیم پر دھکیلا جائے اور سیاسی جماعتیں اس ملک میں انتشار نہ پھیلائیں۔ نظم و ضبط کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے اخلاقی مجرموں کو برسرِ عام کوڑے مارنے کی روایت متعارف کروائی گئی۔ اس سزا کو دیکھنے کے لیے ہمارے شہروں میں بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو جاتا۔ اللہ اکبر کے نعروں سے جلاد کا حوصلہ بڑھاتا اور جب مجرم کے منہ کے آگے رکھے لائوڈ اسپیکر سے اس کی چیخیں سنائی دیتیں تو ہجوم فرطِ مسرت سے کھلکھلا اُٹھتا۔
ہمارے اپنے عوام کی اکثریت کو سستے اور فوری انصاف کا یہ انداز تو بہت بھایا۔ مگر مصیبت یہ ہو گئی کہ افغانستان کو آزاد کروانے کے لیے امریکی ڈالروں اور ہتھیاروں کی ضرورت بھی تھی۔ واشنگٹن میں کانگریس اور سینیٹ نام کے دو ادارے ہیں۔ یہ ادارے طاقتور سے طاقتور ترین امریکی صدر کو بھی چند معاملات میں کھل کر کھیلنے نہیں دیتے۔ ویسے بھی ان اداروں میں بہت سارے یہودی گھس آتے ہیں۔ انھیں اسلام اور مسلمانوں سے شدید نفرت ہے۔
اس نفرت کا اظہار مگر وہ کھل کر نہیں کرتے۔ بڑی مکاری سے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی داستانیں گھڑ کر اپنا بغض نکالتے ہیں۔ ایسے تمام خواتین وحضرات پاکستان میں برسرِ عام کوڑے مارنے کے عمل کے خلاف یک جا ہو گئے۔ صدر ریگن نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کر رکھا تھا۔ انھوں نے اس رقم کی ادائیگی کو برسرِ عام کوڑے مارنے کی سزا کو روکنے کے ساتھ مشروط کر دیا۔ افغان جہاد کے وسیع تر مفاد میں جنرل ضیاء اس پرراضی ہو گئے۔ مسئلہ مگر اب یہ پیدا ہو گیا کہ پاکستانی عوام کو تفریح کیسے بہم پہنچائی جائے۔
ابھی ایسے طریقے ڈھونڈے ہی جا رہے تھے کہ لاہور میں ایک ''پیر سپاہی'' نمودار ہو گیا۔ مجھے خبر نہیں کہ وہ سپاہی اب بھی زندہ ہے یا نہیں۔ مگر 1980ء کی دہائی میں جوان ہونے والے لاہوریوں کو خوب یاد ہو گا کہ لوگوں کا ایک ہجوم ان کے شہر کے بڑے بڑے چوراہوں میں بڑی بڑی بوتلوں میں پانی بھر کر ''پیر سپاہی'' کا گھنٹوں تک منتظر رہتا۔ پھر وہ نمودار ہوتا۔ منہ میں کچھ پڑھ کر ہوا میں پھونکیں مارتا۔ ہجوم ان پھونکوں کی کرامت کو کسی نہ کسی طرح اپنی گرفت میں لے کر گھروں کو لوٹ جاتا۔ یہ تھیٹر بھی مگر زیادہ دن نہ چل سکا۔ اس موقعہ پر جنرل مجیب کے شاندار ذہن نے کرکٹ اور ہاکی میچوں کو Live دکھانے کا بندوبست کیا۔ PTV میں اسپورٹس کا ایک تگڑا ڈیپارٹمنٹ بنا دیا گیا۔ اس ڈیپارٹمنٹ کو جدید ترین کیمرے اور DSNG وغیرہ فی الفور فراہم کر دی گئیں۔ اکھاڑے سجانے کا کاروبار اپنی رونقیں بکھیرنا شروع ہو گیا۔
ہماری اشرافیہ کے لیے ان دنوں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ دُنیا کی کوئی کرکٹ ٹیم پاکستان آنے کو تیار نہیں ہوتی۔ ہمارے کرکٹر کہیں اور کھیلنے جاتے ہیں تو میچ کم جیتتے ہیں اور خواہ مخواہ کے اسکینڈل ہمارے دشمن ان کے بارے میں پھیلانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہاکی جو کبھی ہمارا قومی کھیل سمجھا جاتا تھا بھلائے ہوئے ہمیں عرصہ ہو گیا ہے۔ تفریح کے لیے لے دے کر بس تھیٹر تھا اور وہ بھی پنجاب کے چند شہروں تک محدود۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے 24/7 چینل آ گئے۔
1+3 والے Format نے چند دن تو بہت رونق لگائی۔ پھر سیاست کو ذرا لائٹ انداز میں پیش کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ دل اب اس سے بھی اُکتانا شروع ہو گیا ہے۔ ایسے میں گلشن کا کاروبار چل رہا ہے تو صرف دو لوگوں کی وجہ سے۔ خدا ان کی عمر اور زبان دراز سے دراز تر کرتا چلا جائے۔ اسکرینوں پر آتے ہیں تو قلب کو گرما اور روح کو تڑپا دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک شیخ السلام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب تو اب پاکستان میں حقیقی انقلاب برپا کرنے بنفسِ نفیس 23 جون کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر اُترنے کو تیار بیٹھے ہیں۔
محمود خان اچکزئی میرے بھائیوں سے بڑھ کر دوست ہیں۔ ان کے مرحوم والد خان عبدالصمد خان اچکزئی نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگی جیلوں میں گزاری۔ محمود خان کے خلاف جنرل ضیاء کی طرف سے زندہ یا مردہ گرفتار کرنے کے وارنٹ پورے 6 سال تک برقرار رہے۔ موصوف روپوشی میں یہ سال بسر کرتے رہے۔ ان جیسے سیاستدان کو تو اب ڈاکٹر قادری جیسے انقلابیوں کے ہر اوّل دستے میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ مگر حیرت ہے کہ یہی محمود خان شیخ السلام کی راہ روکنے کے لیے جمعرات کے دن قومی اسمبلی میں کھڑے ہو گئے۔ وزیر اعظم ان کی تقریر شروع ہوتے ہی ایوان میں اپنی نشست پر براجمان ہو گئے۔
انھیں دیکھتے ہی محمود خان نے فوراََ انھیں براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے یاد دلایا کہ ''ایک شخص'' ٹیلی وژن پر آ کر ان دنوں پاک فوج سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اس کی آمد کے روز اسلام آباد ایئرپورٹ کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کی حفاظت کا بندوبست کرے۔ ''میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ شخص پاکستان کا سپریم کمانڈر کس روز تعینات ہوا؟'' غصے سے بپھرے ہوئے محمود خان کے سوال کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔ کوئی جواب نہ پا کر موصوف نے خود سے پُر زور مطالبہ کر دیا کہ ''جس روز یہ شخص اسلام آباد اُترے اسے وہیں پکڑ کر اس ملک واپس بھیج دیا جائے جہاں سے وہ اس ملک میں آنا چاہ رہا ہے''۔ تحریک انصاف کے سوا ایوان میں موجود تمام اراکین نے بھرپور انداز میں اپنے ڈیسک بجاتے ہوئے محمود خان کے اس مطالبے کی حمایت کی اور میں اداس ہو گیا۔
ایک سیاسی رپورٹر کے طور پر میں خوب جانتا ہوں کہ وزیر اعظم محمود خان اچکزئی کے اس مطالبے کو آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتے جو انھوں نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر ببانگِ دہل بیان کیا ہے۔ میرا دُکھ یہ ہے کہ قادری صاحب کو ایئرپورٹ اترتے ہی قابو میں لے کر کینیڈا بھیج دیا گیا تو میرے عوام کے لیے انقلاب کی رونق کون لگائے گا؟۔ اب بہت سوچ بچار کے بعد میں نے ایک نسخہ سوچا ہے جو محمود خان کے بنائے منصوبے کو ناکام بنا سکتا ہے۔
پاکستان کے جہاز پر سوار ہونے سے پہلے اگر شیخ السلام ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اپنی کینیڈا کی شہریت چھوڑ دی اور صرف پاکستانی پاسپورٹ پر وطن لوٹنا چاہا تو پھر انھیں اس ملک میں اُترنے اور یہاں رہنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ڈاکٹر قادری صاحب یہ بندوبست کر کے 23 جون کو پاکستان تشریف لائیں گے اور پھر دمادم مست قلندر ہو کر رہے گا۔ محمود خان اچکزئی جیسے لوگ جو چاہے کہتے رہیں۔