روشن مستقبل کی راہیں کٹ رہی ہیں

متاثرین اور عام طلباء دونوں کے لیے ماہرین نفسیات اور سماجی ماہرین کے ساتھ ذاتی سیشن کی بھی ضرورت ہے


زارا نواز شیخ March 31, 2024

دنیا بھر کے تعلیمی اداروں خصوصاً یونیورسٹیوں میں طالبات کو ہراساں کرنا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں ہر پانچ میں سے دو طالب علم کو کسی نہ کسی طرح کی غنڈہ گردی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی اداروں میں خوف کی فضا اس قدر خوفناک ہے کہ اس کی وجہ سے زندگیاں داؤ پر لگائی جا رہی ہیں اور روشن مستقبل کی راہیں کٹ رہی ہیں۔

اس قسم کے رپورٹ ہونے والے واقعات سندھ کی یونیورسٹیوں میں طالبات کو درپیش دردناک صورتحال کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔ سندھ کی مختلف یونیورسٹیوں میں درج ہونے والی شکایت اس مسئلے کی سنگینی کو واضح طور پر بیان کرتی ہیں۔ اپنی شناخت کو خفیہ رکھنے کے اپنے تجربات بتاتے ہوئے، طالبات کا کہنا ہے کہ انہیں امتحانات میں پاس ہونے، پراجیکٹ کی منظوری، اسکالرشپ گرانٹس اور دیگر معاملات میں رازداری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی نہیں کپڑوں پر تبصرہ کرنا، ذو معنی والے جملوں کا استعمال اور کوئی اور نامناسب بات کرنا روز کا معمول بن گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹس جن میں طالبات نے اپنے ساتھ پیش آنے والے ہراسانی کے واقعات کا ذکر کیا اس کے نیچے درج کردہ کمنٹ میں چند ایسے بھی تھے جس میں ان طالبات کو برا بھلا کہا جا رہا تھا اور کچھ افراد ان کے الزامات کو 'جھوٹ کا پلندا' بھی قرار دے رہے تھے۔بجائے شرمندگی کے لوگ کتنی خوبصورتی سے اپنے ساتھیوں کے گھٹیا عمل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور سینکڑوں طالبات کے مستقبل سے کھیل جاتے ہیں۔

سینکڑوں طالبات کا شکایات کے ساتھ سامنے آنا معاشرے میں اس مسئلے کی سنگینی کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتا ہے۔سندھ کی جامعات میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات انتہائی تکلیف دہ ہیں، جن کے نتائج طالبات اور ان کے اہل خانہ کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ ہراساں کرنا، نہ صرف تعلیم کے بنیادی حق کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ متاثرین کے لیے شدید نفسیاتی اور جذباتی صدمے کا باعث بھی بنتا ہے۔ خاص طور پر خواتین اس کے زیر اثر سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہیں۔

ہاورڈ بزنس ریویو کی ایک تحقیق کے مطابق جنسی ہراسانی کے متاثرین ان معاملات کو انتقامی کارروائی کے خوف سے رپورٹ نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ کے مطابق معاشرے میں رائج پدرشاہی نظام بھی ان متاثرین کو سامنے آنے سے روکتا ہے۔ہیومن رائٹس واچ جیسے بین الاقوامی اداروں نے بھی پاکستان میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی نشاندہی بارہا، اپنی رپورٹس میں کی ہے۔

بیشتر لڑکیوں نے بتایا کہ ان کے گھر میں ایسا کوئی شخص نہیں جس سے وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ہراسانی کے بارے میں کھل کر بات کر سکیں، جبکہ سب نے والدین کو بتانے کے سوال پر نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا والدین نہیں سمجھیں گے۔کسی نے اپنے گھر والوں کو اس حوالے سے اس لیے نہیں بتایا کہ وہ انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں۔

'ویسے تو میں نے کچھ نہیں کیا تھا لیکن وہ یہ ضرور پوچھتے کہ ''کیا تمہاری طرف سے تو کوئی سگنل نہیں دیا گیا تھا؟'' ان طالبات کے مطابق والدین کے سامنے ہراسانی تو دور کی بات اپنی جسمانی صحت کے بارے میں بھی سوچ سمجھ کر بات کرنی پڑتی ہے۔ انھیں یہ خوف بھی تھا کہ ایسے واقعات کے بارے میں بتانے کے بعد والدین انھیں پڑھائی چھڑوا کر گھر ہی نہ بٹھا دیں گے۔

فیملی کونسلر اور ماہر ذہنی امراض کی ڈاکٹر جو ریپ اور ہراسانی کے شکار افراد اور ان کے والدین کی تھراپی کر رہی ہیں۔والدین کے بارے میں انھوں نے بتایا: 'یہ باتیں کچھ لوگوں کو کتابی لگتی ہیں،لیکن اگر آپ کے بچے کسی کے بارے میں بتاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اعتماد میں لیں۔

دوسری جانب اگر وہ کھل کر اپنے ساتھ ہونے والی ہراسانی کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی بات ماننا آپ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ڈاکٹرز نے کہا کہ بچوں کو اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی بیان کرنی نہیں آتی اس لیے وہ شرمندہ ہو کر اسے اپنی غلطی سمجھ لیتے ہیں اور کسی سے بھی بات نہیں کرتے۔ ان کے مطابق تھر اپی کے دوران اکثر بڑی عمر کے افراد بھی اسی کشمکش سے دو چار ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 'بچوں کے معاملے میں والدین کا کام ہے کہ وہ بچوں کے اچانک سے خاموش رہنے کو یا ہر وقت کمرے میں یا گھر میں بند رہنے کا کتنی جلدی اور کیا مطلب نکالتے ہیں۔' یونیورسٹیوں اور حکام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کریں۔ طلبہ کے پاس اس خطرے سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے تجاویز بھی ہیں۔ جیسا کہ:

یونیورسٹیوں میں انسداد ہراسمنٹ کمیٹیاں فعال ہوں اور قصورواروں کے خلاف فوری فیصلے کیے جائیں۔ طلبا اور طالبات کو ہراساں کیے جانے کی صورت میں سپورٹ میکانزم کے بارے میں ایک جامع آگاہی مہم شروع کریں۔ اساتذہ کے چیمبروں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں اور دفتر کے دروازوں پر شیشے لگائے جائیں۔ متاثرین اور طالب علموں کے لیے ماہر نفسیات کے ساتھ انفرادی سیشن فراہم کریں تاکہ معاون ماحول کو فروغ دیا جا سکے۔

شکایت کا طریقہ کار شفاف، آسان اور تسلی بخش ہونا چاہیے تاکہ متاثرین انتقامی کارروائی کے خوف کے بغیر آگے آسکیں اور ان کو درپیش ہراسانی کے بارے میں کھل کر بات کر سکیں۔ ہراساں کرنے والوں کو فوری اور قانون کے مطابق سزا دینے کے لیے موجودہ قوانین اور ضوابط کو نافذ کریں۔ والدین اور بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر رابطہ برقرار رکھنا چاہیے۔

ان تجاویز کے ساتھ سول سوسائٹی، بنیادی حقوق کی تنظیموں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندوں نے بھی اسکولوں سے آنے والی نئی خبروں کے حوالے سے اپنی بے چینی کا اظہار کیا ہے۔ یونیورسٹیوں کو طلباء کے لیے محفوظ پناہ گاہیں ہونی چاہئیں اور متاثرین کی حفاظت کے لیے فوری کارروائی کرنی چاہیے۔

سندھ میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی نمائندگی کرنے والی خواتین ہراساں کرنے کے خلاف ایک مضبوط مہم کی ضرورت پر زور دیتی ہیں، وہ اس بات پر بھی اصرار کرتی ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ فعال طور پر ہر فرد کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

متاثرین اور عام طلباء دونوں کے لیے ماہرین نفسیات اور سماجی ماہرین کے ساتھ ذاتی سیشن کی بھی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے عہدیدار کہتے ہیں کہ اگر انسداد ہراساں کرنے والی کمیٹیاں فعال نہیں ہیں یا اگر آپ کے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں تو محتسب کے پاس شکایت درج کرائیں۔ قوانین اور ضوابط کا موثر نفاذ اس برے عمل کو روک سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں