سی پیک دہشت گردوں کے نشانے پر
ملک سے دہشت گردی کو مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے
دہشت گردی ایک ناسور ہے جو دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پاکستان80 کی دہائی سے مختلف اقسام کی دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے۔
پاکستان کے تمام بڑے شہر دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں لیکن خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات پیش آئے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر بلوچستان ہے۔ دشمن ریاستوں کی سرپرستی میں علیحدگی پسند، فرقہ وارانہ، نسلی اور مذہبی بنیاد پرستوں کی وجہ سے پاکستانی اور غیر ملکی شہری دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
پاکستان میں ہونیوالے دہشت گرد حملوں میں 70 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، جبکہ پاکستان کی معیشت کو مجموعی طور پر 150بلین ڈالرز سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں بھارت کے ملوث ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
بھارتی خفیہ ادارے ''را'' پاکستان میں دہشت گردی کے لیے تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) سمیت علیحدگی پسندوں تنظیموں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بشام میں دہشت گردوں کا خود کش حملہ بھی اس ہی سازش کی ایک کڑی ہے۔
بشام میں دہشت گردوں کے خود کش حملے کے نتیجے میں پانچ چینی انجینیئرز جبکہ ایک پاکستانی ڈرائیور شہید ہوا تھا۔ بشام کا افسوسناک واقعہ در حقیقت پاک چین دوستی کو نقصان پہنچانے کی ایک ناکام کوشش تھی۔ پانچ چینی انجینیئرز کی ہلاکت کے باوجود چین نے انتہائی صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے یہ عمل چین کی پاکستان سے حقیقی اور لازوال دوستی کا ایک ثبوت ہے۔
دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی کئی بار چینی انجینئرز اور سی پیک سے جڑے افراد کو عسکریت پسند اورعلیحدگی پسند تنظیمیں نشانہ بناتی رہی ہیں۔ 3 نومبر 2023 کوگوادر کے قریب اورماڑہ کے علاقے میں سیکیورٹی فورسزکے قافلے پر دہشت گردوں کے حملے میں 14 سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید کیا گیا تھا جو گوادر پورٹ کی سیکیورٹی پر مامور تھے۔
20 مارچ 2024 کو گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کمپلیکس پر بی ایل اے کے دہشت گردوں نے حملہ کیا اور فائرنگ کرتے ہوئے اندر گھسنے کی کوشش کی، تاہم سیکیورٹی فورسزنے کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کو موثر طریقے سے روکا اور فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں آٹھوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ فائرنگ کے تبادلے کے دوران پاک فوج کے دو جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر حملے کی ذمے داری کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ نے قبول کی۔ گزشتہ برس اگست میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے وابستہ تنظیم مجید بریگیڈ کی جانب سے گوادر میں چینی انجینئرز کے قافلے پر حملہ کیا گیا تھا جس میں چینی باشندے محفوظ رہے تھے۔ ماضی میں بھی علیحدگی پسند تنظیمیں سیکیورٹی فورسز، چینی مفادات اور تنصیبات کو نشانہ بناتی رہی ہیں۔
یاد رہے کہ 2021 میں بھی داسو منصوبے کے قریب چینی انجینیئرز کی بس پر حملہ ہوا تھا، اس حملے میں9 چینی شہریوں سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ داسو وہ مقام ہے جہاں پاکستان اور چین کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ڈیم کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ اس مقام پر ہونے والا یہ دوسرا حملہ ہے۔ اپریل 2022 میں ایک خاتون خودکش بمبار نے خود کو کراچی یونیورسٹی کے چینی سینٹر کے سامنے اڑا دیا تھا جس کے نتیجے میں تین چینی اساتذہ ہلاک ہوگئے تھے۔
بشام کے افسوس ناک واقعے کے بعد پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت نے داسو ہائیڈل پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا ایک بار پھر عہد کیا کہ ہم دہشت گردی کا بھرپور انداز میں مقابلہ کریں گے۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ریاست کے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس واقعے کی مشترکہ تحقیقات کی جائیں، مجرموں کو جلد کٹہرے میں لایا جائے، جبکہ آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کے دشمنوں نے ایک بار پھر ریاست اور پاکستان کے عوام کے حوصلے اور عزم کا غلط اندازہ لگایا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اس وحشیانہ فعل کے مجرموں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
چینی وزیر خارجہ نے اس سانحے کے بعد پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بشام حملے میں ملوث دہشت گردوں کا سراغ لگائے، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائے اور جلد ازجلد واقعے کی مکمل تحقیقات کرائی جائے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستان میں چینی شہریوں، اداروں اور منصوبوں کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
چین بھی اس بات سے باخوبی واقف ہے کہ دشمن قوتیں اور دہشت گرد تنظیمیں سی پیک منصوبے سے خوش نہیں ہیں وہ دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے ڈرانا چاہتی ہیں۔ بیرونی قوتیں چاہتیں ہیں کہ پاک چین دوستی میں خلیج، بدگمانیاں اور دوریاں پیدا کی جائیں لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے کہ پاکستان چین دوستی سمندر سے گہری اور فولاد سے زیادہ مضبوط ہے۔
چین کی پاکستان سے لازوال دوستی کی ایک مثال سی پیک منصوبہ ہے۔ اس منصوبے میں گوادر بندرگاہ، توانائی اور مواصلاتی نظام اور صنعتی زونزکو بہتر بنانا شامل ہیں۔ اس منصوبے کے تحت چین 64 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ چین نے یہ سرمایہ کاری اس وقت کی ہے جب کوئی ملک سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔
بلوچستان کی متعدد کالعدم علیحدگی پسند تنظیمیں صوبے میں سی پیک کی بھرپور مخالفت کرتی رہی ہیں اور ملک بھر میں سی پیک سے وابستہ منصوبوں اور چینی باشندوں پر حملے کرتی رہتی ہیں۔ بلوچ شدت پسند یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ سی پیک سے ان کے علاقے کی ڈیموگرافی تبدیل ہوجائے گی۔ وفاق ہمارے وسائل پر قابض ہونا چاہتا ہے، اس سوچ کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
بلوچستان میں مستقل امن اور سی پیک میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان کے حقیقی نمائندوں، تمام مکتبہ فکر، قوم پرستوں اور تمام اسٹیک ہولڈرسے بامقصد بات چیت کی جائے۔ پاکستان کو معیشت کے بحران کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے عفریت کا بھی سامنا ہے۔ دہشت گردی ایک بین الاقوامی خطرہ ہے، جسے پاکستان کے دشمنوں نے پاکستان کی ترقی وخوشحالی میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے استعمال کیا ہے۔
ملک سے دہشت گردی کو مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے کالعدم تنظیموں، علیحدگی پسندوں اور ملک کے اندر سیاسی اور وطن مخالفت عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے اور ان کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کی بھی ضروری ہیں۔ پاک فوج کے افسران اور جوان اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے اور ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے دن رات برسر پیکار ہیں اور اس میں اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان کے تمام بڑے شہر دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں لیکن خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات پیش آئے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر بلوچستان ہے۔ دشمن ریاستوں کی سرپرستی میں علیحدگی پسند، فرقہ وارانہ، نسلی اور مذہبی بنیاد پرستوں کی وجہ سے پاکستانی اور غیر ملکی شہری دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
پاکستان میں ہونیوالے دہشت گرد حملوں میں 70 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، جبکہ پاکستان کی معیشت کو مجموعی طور پر 150بلین ڈالرز سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں بھارت کے ملوث ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
بھارتی خفیہ ادارے ''را'' پاکستان میں دہشت گردی کے لیے تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) سمیت علیحدگی پسندوں تنظیموں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بشام میں دہشت گردوں کا خود کش حملہ بھی اس ہی سازش کی ایک کڑی ہے۔
بشام میں دہشت گردوں کے خود کش حملے کے نتیجے میں پانچ چینی انجینیئرز جبکہ ایک پاکستانی ڈرائیور شہید ہوا تھا۔ بشام کا افسوسناک واقعہ در حقیقت پاک چین دوستی کو نقصان پہنچانے کی ایک ناکام کوشش تھی۔ پانچ چینی انجینیئرز کی ہلاکت کے باوجود چین نے انتہائی صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے یہ عمل چین کی پاکستان سے حقیقی اور لازوال دوستی کا ایک ثبوت ہے۔
دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی کئی بار چینی انجینئرز اور سی پیک سے جڑے افراد کو عسکریت پسند اورعلیحدگی پسند تنظیمیں نشانہ بناتی رہی ہیں۔ 3 نومبر 2023 کوگوادر کے قریب اورماڑہ کے علاقے میں سیکیورٹی فورسزکے قافلے پر دہشت گردوں کے حملے میں 14 سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید کیا گیا تھا جو گوادر پورٹ کی سیکیورٹی پر مامور تھے۔
20 مارچ 2024 کو گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کمپلیکس پر بی ایل اے کے دہشت گردوں نے حملہ کیا اور فائرنگ کرتے ہوئے اندر گھسنے کی کوشش کی، تاہم سیکیورٹی فورسزنے کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کو موثر طریقے سے روکا اور فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں آٹھوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ فائرنگ کے تبادلے کے دوران پاک فوج کے دو جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر حملے کی ذمے داری کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ نے قبول کی۔ گزشتہ برس اگست میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے وابستہ تنظیم مجید بریگیڈ کی جانب سے گوادر میں چینی انجینئرز کے قافلے پر حملہ کیا گیا تھا جس میں چینی باشندے محفوظ رہے تھے۔ ماضی میں بھی علیحدگی پسند تنظیمیں سیکیورٹی فورسز، چینی مفادات اور تنصیبات کو نشانہ بناتی رہی ہیں۔
یاد رہے کہ 2021 میں بھی داسو منصوبے کے قریب چینی انجینیئرز کی بس پر حملہ ہوا تھا، اس حملے میں9 چینی شہریوں سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ داسو وہ مقام ہے جہاں پاکستان اور چین کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ڈیم کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ اس مقام پر ہونے والا یہ دوسرا حملہ ہے۔ اپریل 2022 میں ایک خاتون خودکش بمبار نے خود کو کراچی یونیورسٹی کے چینی سینٹر کے سامنے اڑا دیا تھا جس کے نتیجے میں تین چینی اساتذہ ہلاک ہوگئے تھے۔
بشام کے افسوس ناک واقعے کے بعد پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت نے داسو ہائیڈل پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا ایک بار پھر عہد کیا کہ ہم دہشت گردی کا بھرپور انداز میں مقابلہ کریں گے۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ریاست کے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس واقعے کی مشترکہ تحقیقات کی جائیں، مجرموں کو جلد کٹہرے میں لایا جائے، جبکہ آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کے دشمنوں نے ایک بار پھر ریاست اور پاکستان کے عوام کے حوصلے اور عزم کا غلط اندازہ لگایا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اس وحشیانہ فعل کے مجرموں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
چینی وزیر خارجہ نے اس سانحے کے بعد پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بشام حملے میں ملوث دہشت گردوں کا سراغ لگائے، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائے اور جلد ازجلد واقعے کی مکمل تحقیقات کرائی جائے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستان میں چینی شہریوں، اداروں اور منصوبوں کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
چین بھی اس بات سے باخوبی واقف ہے کہ دشمن قوتیں اور دہشت گرد تنظیمیں سی پیک منصوبے سے خوش نہیں ہیں وہ دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے ڈرانا چاہتی ہیں۔ بیرونی قوتیں چاہتیں ہیں کہ پاک چین دوستی میں خلیج، بدگمانیاں اور دوریاں پیدا کی جائیں لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے کہ پاکستان چین دوستی سمندر سے گہری اور فولاد سے زیادہ مضبوط ہے۔
چین کی پاکستان سے لازوال دوستی کی ایک مثال سی پیک منصوبہ ہے۔ اس منصوبے میں گوادر بندرگاہ، توانائی اور مواصلاتی نظام اور صنعتی زونزکو بہتر بنانا شامل ہیں۔ اس منصوبے کے تحت چین 64 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ چین نے یہ سرمایہ کاری اس وقت کی ہے جب کوئی ملک سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔
بلوچستان کی متعدد کالعدم علیحدگی پسند تنظیمیں صوبے میں سی پیک کی بھرپور مخالفت کرتی رہی ہیں اور ملک بھر میں سی پیک سے وابستہ منصوبوں اور چینی باشندوں پر حملے کرتی رہتی ہیں۔ بلوچ شدت پسند یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ سی پیک سے ان کے علاقے کی ڈیموگرافی تبدیل ہوجائے گی۔ وفاق ہمارے وسائل پر قابض ہونا چاہتا ہے، اس سوچ کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
بلوچستان میں مستقل امن اور سی پیک میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان کے حقیقی نمائندوں، تمام مکتبہ فکر، قوم پرستوں اور تمام اسٹیک ہولڈرسے بامقصد بات چیت کی جائے۔ پاکستان کو معیشت کے بحران کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے عفریت کا بھی سامنا ہے۔ دہشت گردی ایک بین الاقوامی خطرہ ہے، جسے پاکستان کے دشمنوں نے پاکستان کی ترقی وخوشحالی میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے استعمال کیا ہے۔
ملک سے دہشت گردی کو مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے کالعدم تنظیموں، علیحدگی پسندوں اور ملک کے اندر سیاسی اور وطن مخالفت عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے اور ان کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کی بھی ضروری ہیں۔ پاک فوج کے افسران اور جوان اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے اور ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے دن رات برسر پیکار ہیں اور اس میں اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر رہے ہیں۔