قرآن کریم اور وحی کا سلسلہ
آپﷺ رمضان کے مہینے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کو قرآن پاک سنایا کرتے تھے
قرآن پاک کا تدریجی نزول آنحضرت ﷺ کے قلب مبارک پر ہوا ، اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبار ک چالیس برس تھی ، اس کی ابتدا لیلۃ القدر سے ہوئی ہے لیکن یہ رات رمضان کی کون سی تاریخ تھی، بعض روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سترھیوں، انیسویں اور ستائیسویں شب معلوم ہوتی ہے۔
حضرت محمد ﷺ پر قرآن کریم کی جو سب سے پہلی آیات اتریں وہ سورہ علق کی ابتدائی آیتیں تھی، صحیح بخاری کے مطابق حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ پر نزول وحی کی ابتدا توسچے خوابوں سے ہوئی تھی، اس کے بعد آپ ﷺ کو تنہائی میں عبادت کرنے کا شوق پیدا ہوا ، اس دوران آپ ﷺ غار حرا میں کئی راتیں گزارتے اور عبادت میں مشغول رہتے تھے ، یہاں تک کہ ایک دن اس ہی غار میں آپ کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے فرشتہ نازل ہوا اور اس نے سب سے پہلے یہ بات کہی ''اقرا'' (یعنی پڑھو) ۔
حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس کے بعد خود حضور ﷺ نے واقعہ بیان کیا کہ میرے اس جواب پر فرشتے نے مجھے پکڑا اور مجھے اس زور سے بھینچا کہ مجھ پر مشقت کی انتہا ہوگئی پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا ، پھر دوبارہ کہا ''اقرا'' میں نے جواب دیا ، میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں ، فرشتہ نے پھر مجھے پکڑا اور دوبارہ اس زور سے بھینچا کہ مجھ پر مشقت کی انتہا ہوگئی ، تیسری بار پکڑا اور بھینچ کر چھوڑ دیا ، اس نے سورۃ العلق کی ۱ ۔۵ آیات پڑھیں ، پڑھو اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا ، جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا ، پڑھو تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے ''۔
ان آیات کے بعد تین سال تک وحی کا سلسلہ بند رہا ،اسی زمانے کو ''فترت وحی '' کا زمانہ کہتے ہیں ، پھر تین سال بعد وہ ہی فرشتہ آپ کو زمین و آسمان کے درمیان دکھائی دیا اور اس نے سورۃ مدثر کی ابتدائی آیات سنائیں ، اس کے بعد وحی کا سلسلہ جاری ہوگیا ، سورہ مدثر کی آیات کا ترجمہ ۔اے کپڑے میں لپٹنے والے (۱) اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو (۲) اور اپنے پروردگا ر کی تکبیر کہو ، سورہ مزمل میں اللہ اپنے محبوب احمد مجتبی ﷺ کو بڑی محبت اور پیار سے پکار رہے ہیں، ''اے چادر میں لپٹنے والے '' جب آپ پر پہلی بار غار حرا میں جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے تھے تو آپ ﷺ پر نبوت کی ذمہ داری کا اتنا بوجھ ہوا کہ آپ کو جاڑا لگنے لگا اور جب آپ اپنی اہلیہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو یہ فرما رہے تھے کہ مجھے چادر میں لپیٹ دو ، مجھے چادر میں لپیٹ دو ، اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے محبوبانہ انداز میں آپ ﷺ کو ''اے چادر میں لپٹنے والے'' ، کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں ، اللہ کو حضرت محمد ﷺ سب سے زیادہ عزیز ہیں ، آپ ﷺ پر قرآن پاک نازل ہوا ، جہاں اللہ کا نام ہے وہاں اللہ نے حضرت محمد ﷺ کا نام بھی اپنے نام کے ساتھ شامل کیا ہے ، کلمہ سے لے کر اذان، نماز ، غرض اللہ اور اس کا رسول ﷺ ساتھ ساتھ ہیں ، اللہ تعالی نے نہ کہ قرآن نازل کیا ، بلکہ معراج عطاکی ، انبیاء وصالحین سے ملاقات کروائی اور جنت و دوزخ کے حالات سے آگاہ کیا ۔
آنحضرت ﷺ پر قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کرکے تقریبا 23 سال میں اتارا گیا ، بعض اوقات جبرئیل علیہ السلام ایک چھوٹی سی آیت بلکہ آیت کا ایک جز لے کر تشریف لے آتے تھے ، بعض اوقات کئی کئی آیتیں بیک وقت نازل ہوجاتیں ، بلکہ سورۃ انعام ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی ، قرآن کریم کی آیتیں دو قسم کی ہیں ، ایک تو اللہ تعالی نے از خود نازل فرمائی ہیں ، دوسرا یہ کہ کوئی خاص واقعہ یا کوئی سوال نزول وحی کا باعث بنا ۔
ابتدائے وحی میں قرآن کریم کی حفاظت کے لیے سب سے زیادہ زور حافظے پر دیا گیا ، شروع شرو ع میں جب وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ اسی وقت الفاظ دہرانے لگتے ، تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں ، سورۃ قیامہ کی آیات میں اللہ تعالی نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ قرآن کریم یاد رکھنے کیلئے آپ کو عین نزول جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالی خود آپ میں ایسا حافظہ پیدا کردے گا ، ایک بار نزول وحی کے وقت آپ اسے بھول نہیں سکیں گے ، چنانچہ یہ ہی ہوا کہ ادھر آپ پر آیات قرآنی نازل ہوئیں ، اور ادھر وہ آپ ﷺ کو یاد ہوجاتیں ، اسی طرح آپ ﷺ کا سینہ مبارک قرآن کریم کا سب سے زیادہ محفوظ گنجینہ بن گیا ، جس میں کسی ادنی غلطی وترمیم وتغیر کا امکان نہیں تھا۔
آپ رمضان کے مہینے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کو قرآن پاک سنایا کرتے تھے اور جس سال آپ ﷺ کی وفات ہوئی ، اس سال آپ ﷺ نے دوبار حضرت جبرئیل کے ساتھ دور کیا ، آپ ﷺ صحابہ کرام ؓ کو قرآن کریم کے معنی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے اور خود صحابہ کرام ؓ کو سیکھنے اور اسے یاد رکھنے کا اتنا اشتیاق تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا شوق رکھتا تھا ، بعض خواتین نے اپنے خاوندوں سے مہر کی بجائے قرآن کریم سیکھنے کو ترجیح دی۔
حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں قرآن کریم کے جتنے نسخے لکھے گئے تھے ان کی کیفیت یہ تھی کہ مختلف چیزوں مثلا چمڑے، درختوں کے پتے یا کوئی ہڈی وغیرہ پر آیات لکھی جاتی تھی ، کئی صحابہ کے پاس کوئی ایک سورت اور کسی کے پاس پانچ دس اور کسی کے پاس چند آیات اور بعض کے پاس تفسیری جملے بھی لکھے ہوئے تھے اس وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے عہد خلافت میں یہ سمجھا کہ قرآن کریم کے منتشر حصوں کو یکجا کرکے محفوظ کردیا جائے، انہوں نے یہ کارنامہ جن محرکات کے تحت اور جس طرح انجام دیا اس کی تفصیل حضر ت زید بن ثابت ؓ نے اس طرح بیان کی کہ جنگ یمامہ کے فوراً بعد ایک روز حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مجھے بلوایا ، جب میں وہاں پہنچا تو حضرت عمر ؓ بھی وہاں موجود تھے۔
حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ عمرؓ نے ابھی مجھ سے یہ بات کہی ہے کہ جنگ یمامہ میں شہدا ء کی ایک بڑی تعداد شہید ہوگئی ہے ، اگر مختلف جگہوں پر حفاظ شہید ہوتے رہے تو مجھے خدشہ ہے کہ قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ محفوظ نہ رہ سکے ، لہذا اس امر پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ، حضرت ابوبکرصدیقؓ ، حضرت عثمان بن عفان ؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓ نے اپنی کاوشوں کے تحت بڑی چھان بین اور قراتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرے مختلف صحابہ نے بھی آیات کو یکجا کیا۔
صحابہ اور تابعین کا معمول تھا کہ وہ ہر ہفتے ایک قرآن ختم کرلیتے تھے اس مقصد کے لیے انہوں نے روزانہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی ، جسے حزب یا منزل کہا جاتا ہے ، قرآن پاک کے تلفظ کو سمجھنے کے لیے رموز اوقاف کی سہولت مقرر کردی گئی ہے ، مختلف آیات اور الفاظ پر ایسی حرکات لکھ دی گئی ہیں جس کی وجہ سے قرآن پڑھنا ان لوگوں کے لیے بھی آسان ہوگیا جن کی زبان عربی نہیں ، کہ کہاں وقف کرنا ہے اور کس جگہ سکتہ ہے اور کہاں ملا کر پڑھنا ہے وغیرہ ۔
الحمد للہ قرآن کریم تاقیامت سلامت رہے گا ، چونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے اور کرتا رہے گا ایک پیش، زیر، زبر یا پھر مطلب اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتا ہے ۔یہ ہماری بدبختی ہے کہ اس اللہ کی آخری کتاب سے غیر مسلم فائدہ اٹھار ہے ہیں اور ہم انجانی راہوں اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں ، اگر قرآن کو دوست بنالیتے اس کی تعلیم پر عمل کرتے تو آج ہم غیروں کے غلام نہ ہوتے، کاش اب بھی قرآن کریم کے زریں اصولوں پر اور تعلیم پر عمل کیا جائے تو امت مسلمہ کی دنیا بدل سکتی ہے ۔
حضرت محمد ﷺ پر قرآن کریم کی جو سب سے پہلی آیات اتریں وہ سورہ علق کی ابتدائی آیتیں تھی، صحیح بخاری کے مطابق حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ پر نزول وحی کی ابتدا توسچے خوابوں سے ہوئی تھی، اس کے بعد آپ ﷺ کو تنہائی میں عبادت کرنے کا شوق پیدا ہوا ، اس دوران آپ ﷺ غار حرا میں کئی راتیں گزارتے اور عبادت میں مشغول رہتے تھے ، یہاں تک کہ ایک دن اس ہی غار میں آپ کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے فرشتہ نازل ہوا اور اس نے سب سے پہلے یہ بات کہی ''اقرا'' (یعنی پڑھو) ۔
حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس کے بعد خود حضور ﷺ نے واقعہ بیان کیا کہ میرے اس جواب پر فرشتے نے مجھے پکڑا اور مجھے اس زور سے بھینچا کہ مجھ پر مشقت کی انتہا ہوگئی پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا ، پھر دوبارہ کہا ''اقرا'' میں نے جواب دیا ، میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں ، فرشتہ نے پھر مجھے پکڑا اور دوبارہ اس زور سے بھینچا کہ مجھ پر مشقت کی انتہا ہوگئی ، تیسری بار پکڑا اور بھینچ کر چھوڑ دیا ، اس نے سورۃ العلق کی ۱ ۔۵ آیات پڑھیں ، پڑھو اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا ، جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا ، پڑھو تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے ''۔
ان آیات کے بعد تین سال تک وحی کا سلسلہ بند رہا ،اسی زمانے کو ''فترت وحی '' کا زمانہ کہتے ہیں ، پھر تین سال بعد وہ ہی فرشتہ آپ کو زمین و آسمان کے درمیان دکھائی دیا اور اس نے سورۃ مدثر کی ابتدائی آیات سنائیں ، اس کے بعد وحی کا سلسلہ جاری ہوگیا ، سورہ مدثر کی آیات کا ترجمہ ۔اے کپڑے میں لپٹنے والے (۱) اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو (۲) اور اپنے پروردگا ر کی تکبیر کہو ، سورہ مزمل میں اللہ اپنے محبوب احمد مجتبی ﷺ کو بڑی محبت اور پیار سے پکار رہے ہیں، ''اے چادر میں لپٹنے والے '' جب آپ پر پہلی بار غار حرا میں جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے تھے تو آپ ﷺ پر نبوت کی ذمہ داری کا اتنا بوجھ ہوا کہ آپ کو جاڑا لگنے لگا اور جب آپ اپنی اہلیہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو یہ فرما رہے تھے کہ مجھے چادر میں لپیٹ دو ، مجھے چادر میں لپیٹ دو ، اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے محبوبانہ انداز میں آپ ﷺ کو ''اے چادر میں لپٹنے والے'' ، کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں ، اللہ کو حضرت محمد ﷺ سب سے زیادہ عزیز ہیں ، آپ ﷺ پر قرآن پاک نازل ہوا ، جہاں اللہ کا نام ہے وہاں اللہ نے حضرت محمد ﷺ کا نام بھی اپنے نام کے ساتھ شامل کیا ہے ، کلمہ سے لے کر اذان، نماز ، غرض اللہ اور اس کا رسول ﷺ ساتھ ساتھ ہیں ، اللہ تعالی نے نہ کہ قرآن نازل کیا ، بلکہ معراج عطاکی ، انبیاء وصالحین سے ملاقات کروائی اور جنت و دوزخ کے حالات سے آگاہ کیا ۔
آنحضرت ﷺ پر قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کرکے تقریبا 23 سال میں اتارا گیا ، بعض اوقات جبرئیل علیہ السلام ایک چھوٹی سی آیت بلکہ آیت کا ایک جز لے کر تشریف لے آتے تھے ، بعض اوقات کئی کئی آیتیں بیک وقت نازل ہوجاتیں ، بلکہ سورۃ انعام ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی ، قرآن کریم کی آیتیں دو قسم کی ہیں ، ایک تو اللہ تعالی نے از خود نازل فرمائی ہیں ، دوسرا یہ کہ کوئی خاص واقعہ یا کوئی سوال نزول وحی کا باعث بنا ۔
ابتدائے وحی میں قرآن کریم کی حفاظت کے لیے سب سے زیادہ زور حافظے پر دیا گیا ، شروع شرو ع میں جب وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ اسی وقت الفاظ دہرانے لگتے ، تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں ، سورۃ قیامہ کی آیات میں اللہ تعالی نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ قرآن کریم یاد رکھنے کیلئے آپ کو عین نزول جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالی خود آپ میں ایسا حافظہ پیدا کردے گا ، ایک بار نزول وحی کے وقت آپ اسے بھول نہیں سکیں گے ، چنانچہ یہ ہی ہوا کہ ادھر آپ پر آیات قرآنی نازل ہوئیں ، اور ادھر وہ آپ ﷺ کو یاد ہوجاتیں ، اسی طرح آپ ﷺ کا سینہ مبارک قرآن کریم کا سب سے زیادہ محفوظ گنجینہ بن گیا ، جس میں کسی ادنی غلطی وترمیم وتغیر کا امکان نہیں تھا۔
آپ رمضان کے مہینے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کو قرآن پاک سنایا کرتے تھے اور جس سال آپ ﷺ کی وفات ہوئی ، اس سال آپ ﷺ نے دوبار حضرت جبرئیل کے ساتھ دور کیا ، آپ ﷺ صحابہ کرام ؓ کو قرآن کریم کے معنی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے اور خود صحابہ کرام ؓ کو سیکھنے اور اسے یاد رکھنے کا اتنا اشتیاق تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا شوق رکھتا تھا ، بعض خواتین نے اپنے خاوندوں سے مہر کی بجائے قرآن کریم سیکھنے کو ترجیح دی۔
حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں قرآن کریم کے جتنے نسخے لکھے گئے تھے ان کی کیفیت یہ تھی کہ مختلف چیزوں مثلا چمڑے، درختوں کے پتے یا کوئی ہڈی وغیرہ پر آیات لکھی جاتی تھی ، کئی صحابہ کے پاس کوئی ایک سورت اور کسی کے پاس پانچ دس اور کسی کے پاس چند آیات اور بعض کے پاس تفسیری جملے بھی لکھے ہوئے تھے اس وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے عہد خلافت میں یہ سمجھا کہ قرآن کریم کے منتشر حصوں کو یکجا کرکے محفوظ کردیا جائے، انہوں نے یہ کارنامہ جن محرکات کے تحت اور جس طرح انجام دیا اس کی تفصیل حضر ت زید بن ثابت ؓ نے اس طرح بیان کی کہ جنگ یمامہ کے فوراً بعد ایک روز حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مجھے بلوایا ، جب میں وہاں پہنچا تو حضرت عمر ؓ بھی وہاں موجود تھے۔
حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ عمرؓ نے ابھی مجھ سے یہ بات کہی ہے کہ جنگ یمامہ میں شہدا ء کی ایک بڑی تعداد شہید ہوگئی ہے ، اگر مختلف جگہوں پر حفاظ شہید ہوتے رہے تو مجھے خدشہ ہے کہ قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ محفوظ نہ رہ سکے ، لہذا اس امر پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ، حضرت ابوبکرصدیقؓ ، حضرت عثمان بن عفان ؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓ نے اپنی کاوشوں کے تحت بڑی چھان بین اور قراتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرے مختلف صحابہ نے بھی آیات کو یکجا کیا۔
صحابہ اور تابعین کا معمول تھا کہ وہ ہر ہفتے ایک قرآن ختم کرلیتے تھے اس مقصد کے لیے انہوں نے روزانہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی ، جسے حزب یا منزل کہا جاتا ہے ، قرآن پاک کے تلفظ کو سمجھنے کے لیے رموز اوقاف کی سہولت مقرر کردی گئی ہے ، مختلف آیات اور الفاظ پر ایسی حرکات لکھ دی گئی ہیں جس کی وجہ سے قرآن پڑھنا ان لوگوں کے لیے بھی آسان ہوگیا جن کی زبان عربی نہیں ، کہ کہاں وقف کرنا ہے اور کس جگہ سکتہ ہے اور کہاں ملا کر پڑھنا ہے وغیرہ ۔
الحمد للہ قرآن کریم تاقیامت سلامت رہے گا ، چونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے اور کرتا رہے گا ایک پیش، زیر، زبر یا پھر مطلب اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتا ہے ۔یہ ہماری بدبختی ہے کہ اس اللہ کی آخری کتاب سے غیر مسلم فائدہ اٹھار ہے ہیں اور ہم انجانی راہوں اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں ، اگر قرآن کو دوست بنالیتے اس کی تعلیم پر عمل کرتے تو آج ہم غیروں کے غلام نہ ہوتے، کاش اب بھی قرآن کریم کے زریں اصولوں پر اور تعلیم پر عمل کیا جائے تو امت مسلمہ کی دنیا بدل سکتی ہے ۔