قاضی نوراللہ شوستری شہید
قاضی نوراللہ کے علم و منطق کے قصے اور دنیا کے تمام فقہی امور پہ دسترس نے انہیں اکبر بادشاہ کے دربار پہنچایا
ایسا ہر گز نہیں کہ ہمارے ترقی پذیر سماج میں جنم لینے، پلنے اور رہنے والے افراد صرف ترقی پذیر ذہن ہی رکھتے ہوں، اور ایسا بھی ہرگز نہیں کہ صاحب علم حضرات '' علم'' کے ترقی پسندانہ کردار سے واقف نہیں ہوں۔
اس گتھی کے درمیان ہمارے رسم و روایت سے جکڑے سماج کا یہ دلسوز لمحہ ہے کہ ہمارے ہاں کے صاحب علم حضرات پر عمومی طور سے سماج کی خواہشات کے وہ منفی اثرات زیادہ حاوی ہوجاتے ہیں جو کسی بھی واقعے یا حادثے کے نتائج پر غور و فکر کرنے کے بجائے ان کے فوری رد عمل میں بہہ کر مذکورہ واقعے یا حادثے کے دور رس نتائج یا اس کی کھوج سے خود کو ''خواہشات یا پسند'' کے زمرے میں تلاش کرتے نظر آتے ہیں، جس کا لازمی حتمی نتیجہ ''خفت'' کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔
جہاں تک غلط مشاہدے میں ''خفت'' کا تعلق ہے تو یہ بھی ایک ترقی پسند اور روشن خیال سمت ہے کہ وہ صاحبان اپنے غلط تجزیے یا تبصرے پر غور کے بعد درست سمت جانے کے متمنی ہیں یا مستقبل میں ''خواہشات'' سے کنارہ کشی'' کرنے کا طے کر چکے ہیں، لیکن اگر ''خفت'' کے روشن خیال پہلو کو یہی صاحبان علم اپنے مستقبل کے تجزیوں میں بروئے کار نہیں لاتے تو پھر ''علم'' ان کی جہالت کے مدارج طے کر دیتا ہے اور یوں اپنے طور '' عالم'' کہلانے والے حضرات یا تو ''دربار جہانگیری'' کے حوالے کر دیے جاتے ہیں یا ''علم کی قدرت'' ایسے صاحبان علم کو وقت کے '' بے شعور'' دھارے کی لہروں کے سپرد کرکے ان کے نا درست ہونے کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ جاتی ہے اور اپنے ''علم''کو انہی افراد کے سپرد کرتی ہے جو غورو فکر اور تحقیق و جستجو کے رسیا ہوتے ہیں۔
اس تمہید کا مرکزی خیال مجھے پچھلے دنوں رضا شاہ اور باقر رضوی کی ایک ایسی کوشش سے ہوا جو اس بے ترتیب سماج میں آج بھی گلبہار ایسی پسماندہ بستی میں '' قاضی نور اللہ شوستری کتب خانے یا لائبریری''سے وہاں کی نئی نسل میں علم و شعور کی آگہی کے خواہشمند ہیں،رضا شاہ اور ان کے ساتھی چاہتے ہیں کہ اس مذکورہ لائبریری میں جہاں تاریخ ادب کی کتب بینی ہو وہیں یہاں آنے والا ہر بچہ جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم سے بھی آگاہ ہو،یوں تو یہ لائبریری ''شاہ گنج آگرہ'' کے مقامی اور بیرون ملک مقیم حضرات کے فنڈز سے تعمیر کی گئی ہے ،مگر ''قاضی نور اللہ شوستری لائبریری''گلبہار کے ہر خاص و عام کیلئے ہے، جس میں ایسے اساتذہ کی خدمات بھی حاصل کی گئیں جو ''لائبریری ''میں آنے والوں کی مدد کیلئے ہر وقت موجود و دستیاب ہیں۔
'' قاضی نوراللہ شوستری'' کے نام سے ہی یہ لائبریری کیوں رکھی گئی ہے، یہی وہ فکر تھی جس کے تحت پچھلے دنوں مجھے وہاں جانے کی طلب ہوئی، دوران تقریب میں نے '' قاضی نور اللہ شوستری'' کے حوالے سے ''علم'' اور غور و فکر پر اپنا نکتہ نظر دیتے ہوئے حضرت جوش ملیح آبادی کی اس قطعہ سے ابتدا کی کہ۔
سن ہوگئے کان تو سماعت پائی
آنکھیں پتھرائیں تو بصارت پائی
علم کے کھنگال ڈالے سب قلزم
تب دولت علم و عرفاں پائی
اس موقع پر مذکورہ قطعے کی روشنی میں میرا استدلال تھا کہ''علم حاصل کرنا اور علم پانے کی منزل طے کرنا دو جداگانہ مراحل ہیں یعنی نصابی اور دنیاوی علم کے لیے تعلیم کا حصول ''علم کی حاصلات'' کا شعبہ ہے جبکہ شعور و منطق کی روشنی میں علم کے بارے میں غور و فکر کی منزل شعور اور روشن خیالی کے ممکنہ درجات متعین کرتی ہے ،کیونکہ علم حاصل کرنے کی سند اس کا آخرہ نتیجہ ہے جبکہ ''علم پانے'' کا عمل مسلسل غور و فکر کرنا ٹہرتا ہے، جس کا تعلق تحقیق وجستجو کا مسلسل وہ عمل ہے، جو جاری ہی رہتا ہے جبکہ یہ دونوں عمل انسان کی دسترس میں ہیں کہ وہ کس '' علم و عمل'' کا انتخاب کرتا ہے'' اور یہاں یہ بات ضروری نہیں کہ تعلیم حاصل کرنے والا ''علم کو پالے'' یا '' علم پانے والا'' اسناد کا محتاج ہو، مگر '' علم پانے والے '' کے لیے ضروری ہے کہ وہ تاریخ، فلسفے، منطق اور دلیل کی روشنی میں ''کردار کا غازی بھی ہو۔
علم پانے کے مضبوط کردار کی کسوٹی پر عمومی طور سے عدل فراہم کرنے والے قاضی یا مختلف علوم کی علمی شخصیات نے تاریخ میں نہ صرف مشکلات اٹھائی ہیں بلکہ '' طاقت'' نے انہیں تہہ تیغ بھی کیا۔ اس ضمن میں تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ ''قاضی نور اللہ شوستری'' ایران کے صوبے خوزستان کے شہر ''شوشتر'' میں 956ہجری کو پیدا ہوئے، علم و فلسفے اور منطق کی طرف رجحان نے انہیں ایک عالم کی حیثیت دی، خراسان کے سیاسی حالات و ابتری کے سبب قاضی صاحب نے 992ہجری میں بر صغیر کوچ کیا اور آگرہ میں جا بسے۔
قاضی نوراللہ کے علم و منطق کے قصے اور دنیا کے تمام فقہی امور پہ دسترس نے انہیں اکبر بادشاہ کے دربار پہنچایا، جہاں ان کے علم و فلسفے نے اکبر بادشاہ کو مجبور کیا کہ وہ اپنی '' سیکیولر'' سلطنت کا ''قاضی الْقضا'' قاضی نوراللہ شوستری کو بنائے،علم و فضل کے تناظر میں قاضی نور اللہ کے فیصلے ''عدل'' کی کسوٹی پر تمام بر صغیر میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
قاضی نور اللہ کے قاضی القضا ہونے کا سلسلہ اکبر کے بیٹے ''جہانگیر'' کے دور تک جاری و ساری تھا کہ ''جہانگیری دربار'' میں ایک سازش کے تحت ''بادشاہ جہانگیر'' کی خوشنودی حاصل کی گئی اور ان کی کتاب ''احقاق الحق اور مجالس المومنین'' لکھنے پر قاضی نور اللہ شوستری کے فیصلوں میں ''متعصب'' ہونے کا الزام عائد کیا اور ''جہانگیر بادشاہ'' کی چاپلوسی کرتے ہوئے ''درباری عالموں نے'' قاضی القضا ''قاضی نوراللہ شوستری '' کے خلاف جہانگیر بادشاہ کے کان بھرے اور جہانگیر سے قاضی صاحب کی سزائے موت کا پروانہ لکھوا لیا اور یوں نحیف قاضی القضا کو کوڑے مار کر1019ھ میں ''شہید'' کیا گیا اور بعد کو قاضی نوراللہ کی زبان گدی سے کھینچ کر پورے بر صغیر کی رعایا کو پیغام دیا گیا کہ اگر انہوں نے ''سچ یا حق'' بولنے کی کوشش کی تو رعایا کا بھی حال ''قاضی نورااللہ شوستری'' کی طرح کیا جائے گا۔
قاضی القضا نور اللہ شوستری کی عدل و انصاف کے اس تاریخی تناظر میں جب میں اپنے سماج کی بے ابتری اور دولت و شہرت کے حصول کو دیکھتا ہوں تو مجھے ''علم حاصل کرنے'' اور ''علم پانے والوں '' کا فرق واضح ہوجاتا ہے اور اس لمحے ہمارے دیس کے '' قاضیوں'' کے عدل و انصاف اور قول و فعل کے تضادات مزید افسردہ کر دیتے ہیں اور لگتا ہے کہ ملک میں سیاسی ابتری پھیلانے اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے والوں کے ساتھ جب ''قاضیوں'' کے کردار بھی وسالیہ نشان بن جائیں تو وہ سماج کیسے عدل و انصاف کے اس معیار پر آئے گا جو کہ ''حق اور سچ'' کے ''علم پانے والوں'' نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر عدل کا پرچم بلند رکھا۔
اس گتھی کے درمیان ہمارے رسم و روایت سے جکڑے سماج کا یہ دلسوز لمحہ ہے کہ ہمارے ہاں کے صاحب علم حضرات پر عمومی طور سے سماج کی خواہشات کے وہ منفی اثرات زیادہ حاوی ہوجاتے ہیں جو کسی بھی واقعے یا حادثے کے نتائج پر غور و فکر کرنے کے بجائے ان کے فوری رد عمل میں بہہ کر مذکورہ واقعے یا حادثے کے دور رس نتائج یا اس کی کھوج سے خود کو ''خواہشات یا پسند'' کے زمرے میں تلاش کرتے نظر آتے ہیں، جس کا لازمی حتمی نتیجہ ''خفت'' کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔
جہاں تک غلط مشاہدے میں ''خفت'' کا تعلق ہے تو یہ بھی ایک ترقی پسند اور روشن خیال سمت ہے کہ وہ صاحبان اپنے غلط تجزیے یا تبصرے پر غور کے بعد درست سمت جانے کے متمنی ہیں یا مستقبل میں ''خواہشات'' سے کنارہ کشی'' کرنے کا طے کر چکے ہیں، لیکن اگر ''خفت'' کے روشن خیال پہلو کو یہی صاحبان علم اپنے مستقبل کے تجزیوں میں بروئے کار نہیں لاتے تو پھر ''علم'' ان کی جہالت کے مدارج طے کر دیتا ہے اور یوں اپنے طور '' عالم'' کہلانے والے حضرات یا تو ''دربار جہانگیری'' کے حوالے کر دیے جاتے ہیں یا ''علم کی قدرت'' ایسے صاحبان علم کو وقت کے '' بے شعور'' دھارے کی لہروں کے سپرد کرکے ان کے نا درست ہونے کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ جاتی ہے اور اپنے ''علم''کو انہی افراد کے سپرد کرتی ہے جو غورو فکر اور تحقیق و جستجو کے رسیا ہوتے ہیں۔
اس تمہید کا مرکزی خیال مجھے پچھلے دنوں رضا شاہ اور باقر رضوی کی ایک ایسی کوشش سے ہوا جو اس بے ترتیب سماج میں آج بھی گلبہار ایسی پسماندہ بستی میں '' قاضی نور اللہ شوستری کتب خانے یا لائبریری''سے وہاں کی نئی نسل میں علم و شعور کی آگہی کے خواہشمند ہیں،رضا شاہ اور ان کے ساتھی چاہتے ہیں کہ اس مذکورہ لائبریری میں جہاں تاریخ ادب کی کتب بینی ہو وہیں یہاں آنے والا ہر بچہ جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم سے بھی آگاہ ہو،یوں تو یہ لائبریری ''شاہ گنج آگرہ'' کے مقامی اور بیرون ملک مقیم حضرات کے فنڈز سے تعمیر کی گئی ہے ،مگر ''قاضی نور اللہ شوستری لائبریری''گلبہار کے ہر خاص و عام کیلئے ہے، جس میں ایسے اساتذہ کی خدمات بھی حاصل کی گئیں جو ''لائبریری ''میں آنے والوں کی مدد کیلئے ہر وقت موجود و دستیاب ہیں۔
'' قاضی نوراللہ شوستری'' کے نام سے ہی یہ لائبریری کیوں رکھی گئی ہے، یہی وہ فکر تھی جس کے تحت پچھلے دنوں مجھے وہاں جانے کی طلب ہوئی، دوران تقریب میں نے '' قاضی نور اللہ شوستری'' کے حوالے سے ''علم'' اور غور و فکر پر اپنا نکتہ نظر دیتے ہوئے حضرت جوش ملیح آبادی کی اس قطعہ سے ابتدا کی کہ۔
سن ہوگئے کان تو سماعت پائی
آنکھیں پتھرائیں تو بصارت پائی
علم کے کھنگال ڈالے سب قلزم
تب دولت علم و عرفاں پائی
اس موقع پر مذکورہ قطعے کی روشنی میں میرا استدلال تھا کہ''علم حاصل کرنا اور علم پانے کی منزل طے کرنا دو جداگانہ مراحل ہیں یعنی نصابی اور دنیاوی علم کے لیے تعلیم کا حصول ''علم کی حاصلات'' کا شعبہ ہے جبکہ شعور و منطق کی روشنی میں علم کے بارے میں غور و فکر کی منزل شعور اور روشن خیالی کے ممکنہ درجات متعین کرتی ہے ،کیونکہ علم حاصل کرنے کی سند اس کا آخرہ نتیجہ ہے جبکہ ''علم پانے'' کا عمل مسلسل غور و فکر کرنا ٹہرتا ہے، جس کا تعلق تحقیق وجستجو کا مسلسل وہ عمل ہے، جو جاری ہی رہتا ہے جبکہ یہ دونوں عمل انسان کی دسترس میں ہیں کہ وہ کس '' علم و عمل'' کا انتخاب کرتا ہے'' اور یہاں یہ بات ضروری نہیں کہ تعلیم حاصل کرنے والا ''علم کو پالے'' یا '' علم پانے والا'' اسناد کا محتاج ہو، مگر '' علم پانے والے '' کے لیے ضروری ہے کہ وہ تاریخ، فلسفے، منطق اور دلیل کی روشنی میں ''کردار کا غازی بھی ہو۔
علم پانے کے مضبوط کردار کی کسوٹی پر عمومی طور سے عدل فراہم کرنے والے قاضی یا مختلف علوم کی علمی شخصیات نے تاریخ میں نہ صرف مشکلات اٹھائی ہیں بلکہ '' طاقت'' نے انہیں تہہ تیغ بھی کیا۔ اس ضمن میں تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ ''قاضی نور اللہ شوستری'' ایران کے صوبے خوزستان کے شہر ''شوشتر'' میں 956ہجری کو پیدا ہوئے، علم و فلسفے اور منطق کی طرف رجحان نے انہیں ایک عالم کی حیثیت دی، خراسان کے سیاسی حالات و ابتری کے سبب قاضی صاحب نے 992ہجری میں بر صغیر کوچ کیا اور آگرہ میں جا بسے۔
قاضی نوراللہ کے علم و منطق کے قصے اور دنیا کے تمام فقہی امور پہ دسترس نے انہیں اکبر بادشاہ کے دربار پہنچایا، جہاں ان کے علم و فلسفے نے اکبر بادشاہ کو مجبور کیا کہ وہ اپنی '' سیکیولر'' سلطنت کا ''قاضی الْقضا'' قاضی نوراللہ شوستری کو بنائے،علم و فضل کے تناظر میں قاضی نور اللہ کے فیصلے ''عدل'' کی کسوٹی پر تمام بر صغیر میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
قاضی نور اللہ کے قاضی القضا ہونے کا سلسلہ اکبر کے بیٹے ''جہانگیر'' کے دور تک جاری و ساری تھا کہ ''جہانگیری دربار'' میں ایک سازش کے تحت ''بادشاہ جہانگیر'' کی خوشنودی حاصل کی گئی اور ان کی کتاب ''احقاق الحق اور مجالس المومنین'' لکھنے پر قاضی نور اللہ شوستری کے فیصلوں میں ''متعصب'' ہونے کا الزام عائد کیا اور ''جہانگیر بادشاہ'' کی چاپلوسی کرتے ہوئے ''درباری عالموں نے'' قاضی القضا ''قاضی نوراللہ شوستری '' کے خلاف جہانگیر بادشاہ کے کان بھرے اور جہانگیر سے قاضی صاحب کی سزائے موت کا پروانہ لکھوا لیا اور یوں نحیف قاضی القضا کو کوڑے مار کر1019ھ میں ''شہید'' کیا گیا اور بعد کو قاضی نوراللہ کی زبان گدی سے کھینچ کر پورے بر صغیر کی رعایا کو پیغام دیا گیا کہ اگر انہوں نے ''سچ یا حق'' بولنے کی کوشش کی تو رعایا کا بھی حال ''قاضی نورااللہ شوستری'' کی طرح کیا جائے گا۔
قاضی القضا نور اللہ شوستری کی عدل و انصاف کے اس تاریخی تناظر میں جب میں اپنے سماج کی بے ابتری اور دولت و شہرت کے حصول کو دیکھتا ہوں تو مجھے ''علم حاصل کرنے'' اور ''علم پانے والوں '' کا فرق واضح ہوجاتا ہے اور اس لمحے ہمارے دیس کے '' قاضیوں'' کے عدل و انصاف اور قول و فعل کے تضادات مزید افسردہ کر دیتے ہیں اور لگتا ہے کہ ملک میں سیاسی ابتری پھیلانے اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے والوں کے ساتھ جب ''قاضیوں'' کے کردار بھی وسالیہ نشان بن جائیں تو وہ سماج کیسے عدل و انصاف کے اس معیار پر آئے گا جو کہ ''حق اور سچ'' کے ''علم پانے والوں'' نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر عدل کا پرچم بلند رکھا۔