احمد شاہ سے احمد ندیم قاسمی تک

یوں لگتا ہے کہ ان کی محبت، محبوب کی وفات کے بعد ایک ندی کی مانند ان کے سرچشمۂ قلب سے جاری رہی


Rafiuzzaman Zuberi March 31, 2024

محمد عباس طوروی نے انسان سے محبت کو احمد ندیم قاسمی کی شخصیت اور شاعری کا نمایاں رجحان قرار دیا ہے۔

اپنی کتاب '' احمد شاہ سے احمد ندیم قاسمی تک '' میں وہ لکھتے ہیں۔ '' ندیم کے مسلکِ ادب میں انسان دوستی کا پہلو بڑا واضح ہے۔ ان کے ہاں انسان دوستی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ انسان سے محبت کی تین سطحیں ہیں۔ پہلی سطح وہ ہے جہاں ندیم انسان سے بحیثیت انسان محبت کرتے ہیں۔

ندیم انسان ہیں اور انھی جیسے انسان بلا کسی امتیاز ان کی محبت کے حق دار بنتے ہیں۔ دوسری سطح پر انسان اپنی عظمت کے باعث ان کی محبت کا حق دار ٹھہرتا ہے کہ بیسویں صدی میں سائنسی، سماجی، معاشی اور جمہوری لحاظ سے انسان نے جو کارنامے سرانجام دیے، ندیم انھیں سراہتے ہوئے انسان کو محبت سے نوازتے ہیں۔ اس تصور کے پیچھے اقبال کے افکار بھی ایک بنیاد کا کام کرتے ہیں۔

تیسری سطح پر اس مثالی تصورکی وجہ سے انسان ان کی محبت کا سزاوار ہے جو ندیم کی تجزیاتی فکر نے انھیں عطا کیا ہے۔ یہاں ندیم بیسویں صدی کی انقلابی تحریکوں اور ان کے نظریات سے ابھرنیوالے تصور انسانی سے متاثر نظر آتے ہیں اور انسان ایک جدید تصور پیش کرکے ایسے انسان سے محبت کے داعی ہیں جو اس معیار پر پورا اترتا ہے یعنی ان کی محبت عام انسان، عظیم انسان اور پھر مثالی انسان تک کے سبھی مدارج پر محیط ہے۔''

عباس طوروی لکھتے ہیں '' ابتدا میں ندیم رومانی تصورات اور اپنی محبت کی کسک کو دل میں لیے ہر انسان کو محبت کا حق دار ٹھہراتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ان کی محبت، محبوب کی وفات کے بعد ایک ندی کی مانند ان کے سرچشمۂ قلب سے جاری رہی، جس کا فیض انھوں نے ہر انسان تک پہنچانا شروع کردیا۔ محبت کا جو جذبہ ایک لڑکی کیلئے ان کے دل میں بیدار ہوا تھا، اس نے اتنی وسعت اختیار کر لی کہ پوری نوع انسان میں بھی اس محبت کو بانٹ کر انھیں تہی دامنی کا احساس نہ ہو۔ قطعات میں ان کی یہ محبت اس طرح جھلکتی ہے:

داورِ محشر مجھے تیری قسم

عمر بھر میں نے عبادت کی ہے

تو مرا نامۂ اعمال تو دیکھ

میں نے انسان سے محبت کی ہے

یوں ندیم انسان سے محبت کو عالمی سطح پر انسان دوستی کے مسلک سے ملا دیتے ہیں مگر یہ انسان دوستی ان مجرد بنیادوں پر قائم نہیں ہے جہاں ہیومن ازم کے نام پر تمام عقیدوں اور اصولوں سے قطع نظر کرکے صرف انسان پرستی کو ہی دنیا کا بہترین مسلک قرار دیا جاتا ہے اور اسی کے سہارے دنیا میں امن و سکون پیدا کرنے کی بات کی جاتی ہے۔

مغرب کے اس فلسفے پر مسلم مفکرین نے کافی اعتراضات کیے ہیں، لیکن ندیم ہیومن ازم یعنی انسان پرستی کے قائل نہیں۔ وہ انسان دوستی کے خواہش مند ہیں۔ ان کی تمنا ہے انسان خواہ جس عقیدے، نظریے سے بھی تعلق رکھتے ہوں، اس کی بنیادوں پر قائم رہ کر انسان بحیثیت انسان بھی محبت سے پیش آئیں اور دنیا میں جہاں بھی کوئی انسان کسی درد میں مبتلا ہو، اس کے درد میں تمام انسان شریک ہوں۔''احمد ندیم قاسمی '' تہذیب و فن'' میں لکھتے ہیں:

''سچی انسان دوستی کی تو شان ہی یہ ہے کہ انسان اپنی مذہبی اور تہذیبی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے دوسرے مذاہب کے پیروؤں اور دوسری تہذیبوں کے نمایندوں کے ساتھ انسانیت کی لگن محسوس کرے۔ انسان دوستی تو خوبصورت اسی وقت لگتی ہے جب وہ اپنی دینی یا تہذیبی، معاشی، امتیازات کے ماحول میں پھولے پھلے۔ انھی امتیازات کی وجہ سے تو انسانی دوستی ضروری ہے۔ یہ ایک قسم کا نعرہ ہے کہ اے انسان، میں تجھ سے مذہبی یا تہذیبی یا نسلی یا سیاسی یا معاشرتی اختلاف کے باوجود محبت کرتا ہوں، اس لیے کہ تجھے بھی اسی خالق نے پیدا کیا ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔''

عباس طوروی لکھتے ہیں کہ اسی لیے ندیم انسانیت کے ناتے ہر انسان سے کھری محبت کے مجرم رہے ہیں، ایک ایسی محبت جس کا حق دار ابن آدم ہونے کے ناتے سبھی انسان تھے۔ ان کا فن سرشت انسان کی بنیادی صفات کو اجاگر کرکے انسان دوستی کو فروغ دینے کے لیے مختص رہا۔ ان کے افسانوں کے بیش تر کردار انسان کی اعلیٰ تر صفات اپنانے کی طرف بڑھتے نظر آتے ہیں۔ ان کے کردار شخصیت کے مثبت اور منفی دونوں پہلو لے کر سامنے آتے ہیں۔

عباس طوروی کی کتاب میں ندیم کی ادبی شخصیت کے مطالعے کے لیے ادوار کا تعین کیا گیا ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ کسی بھی ادبی شخصیت کی تعمیر زمین پر رونما ہونے والی جغرافیائی تبدیلیوں کی طرح ہوتی ہے جس کے متعلق یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ کون سے نقطے سے شخصیت نے ارتقائی موڑ اختیار کیا۔

عباس طوروی لکھتے ہیں ''ہوتا یہی ہے کہ پہلے بہت کم تعداد میں دھندلے نقوش نظر آتے ہیں جو بعد میں داخلی و خارجی اثرات کی بنا پر ایک واضح شکل اختیار کرتے چلے جاتے ہیں اور ایک ایسا وقت آتا ہے کہ ادبی شخصیت ایک بالکل نئے لباس میں جلوہ گر ہونے لگتی ہے، ایسے میں اس امر کا تعین کہ کس مقام پر یہ تبدیلی واقع ہوئی بہت مشکل اور ایک لحاظ سے بے سود عمل ہے۔''

وہ لکھتے ہیں '' یہاں ندیم کی ادبی شخصیت کی تشکیل کے لیے چار دور متعین کیے گئے ہیں اور اسی ترتیب سے ابواب بندی بھی کی گئی ہے۔ یہ تعین بالکل حتمی شاید نہ ہو مگر ہر دورکے نمایاں رجحانات کا سراغ ندیم کی ادبی شخصیت میں آغاز ہی سے مل جاتا ہے۔ صرف ان کا واضح انداز میں اظہار نہیں ملتا اور پھر جوں جوں ان کی ادبی زندگی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، یہ واضح شکل اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔''

وہ لکھتے ہیں ''سب سے پہلے وہ دور زیر بحث لایا گیا ہے جب انھوں نے ابھی لکھنا شروع نہیں کیا تھا، لیکن جس دور کے گھریلو اور معاشرتی عوامل ان کی ادبی شخصیت پر واضح طور پر اثرانداز ہوئے۔ پھر ابتدا سے 1946 تک ان کے ہاں ادب کا رومانوی تصور اور حسن پرستی کا رجحان حاوی ملتا ہے۔ 1946 کے بعد وہ ترقی پسند نقطۂ نظر کے قائل اور حقیقت پسندی کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔

1962 کے بعد ان کے ہاں ایک خاص سطح کا تخلیقی ٹھہراؤ اور پختگی آ جاتی ہے جو ان کی فنی و فکری پختگی کی دلیل بھی ہے اور ارتقائی لحاظ سے عروج پر پہنچنے کا اشارہ بھی۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں