حمد کے سات رنگ

ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ انسان دنیاوی طاقت، اقتدار، حکومت اور سلطنت حاصل کرنے کے بعد بھی عاجزی کو اپنائے


صدام ساگر March 31, 2024

معروف شاعرو ادیب شاعر علی شاعر کی مسلسل تخلیقات شعری و نثری زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر آ رہی ہیں جو دنیائے اُردو ادب کو نہ صرف چونکا رہی ہیں بلکہ شاعر علی شاعر کے مقام اور نام کے گراف کو بڑھابھی رہی ہیں۔

وہ ایک کثیرالتصانیف اور کثیر الجہات شخص و شاعر ہیں جنھوں نے اب تک تمام اصناف نظم و نثر پر نہ صرف طبع آزمائی کی ہے بلکہ اُنھیں کتابی شکل میں بھی محفوظ کر دیا ہے۔

میرے پیش ِ نظر اُن کی ایک اور شعری کاوش ''حمد کے سات رنگ'' ہے جس میں اُنھوں نے سات اصنافِ نظم'' ہائیکو، ماہیا، ثلاثی، تروینی، دوہا، رباعی اور قطعہ'' میں سو سوحمدیہ نظمیں کہی ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ سات اصنافِ نظم پر سات سو (700) حمدیہ نظمیں اِس کتاب میں یکجا کر دی گئی ہیں۔ اِس قسم کا انتخاب آج تک میری نظر سے نہیں گزرا۔

یہ شاعر علی شاعر ہی کا خاصہ ہے کہ وہ ہر صنفِ سخن پر دست رس رکھتے ہیں اور اُسے بہت عمدگی سے نبھاتے بھی ہیں۔ اِس کتاب میں شامل سات سو حمدیہ نظمیں لکھنا ایک ریکارڈ ہے جس سے دامنِ اُردو ادب مالا مال ہوا ہے اور یہ وقیع سرمایۂ ادب اِن شاء اللہ تاریخ اُردو ادب کا حصہ بھی بنے گا۔اِس کتاب کا مقدمہ پاکستان کے معروف اور حمد و نعت کے نمائندہ نقاد و شاعر اور ماہرِ اقبالیات ڈاکٹر عزیز احسن نے لکھا ہے، ملاحظہ ہو۔

اِس مقدمے سے کتاب اور صاحب کتاب کا بھرپور تعارف سامنے آتا ہے:مجھے نہیں معلوم کہ شاعر علی شاعر ؔ نے اپنی کتاب کا نام ''حمد کے سات رنگ'' ، عدد کی اہمیت کے لحاظ سے رکھا ہے یا کائنات کے نظام میں سات کے عدد کی تکرار کے خیال سے ، لیکن ایک بات واضح ہے کہ موصوف نے اس عدد کے باطنی اثرات کا تصور باندھ کر ہی اپنی حمدیہ شاعری کیلئے بیسیوں اصنافِ سخن میں سے صرف سات کا انتخاب کیا ہے۔ یہ انتخاب بھی شاعر کی اُفتادِ طبع کی نشاندہی کررہا ہے۔

اُردو ادب کی تاریخ میں ایک طویل عرصے تک تقدیسی شاعری کو ادبِ عالیہ کا حصہ نہیں مانا گیاتھا۔یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی شاعری میں جن لوگوں نے طبع آزمائی کی وہ زیادہ تر بیانیہ (Narrative) شاعری کرتے رہے، جس میں ادبی حُسن ذرا کم کم ہوتا ہے۔ لیکن جب اُردو ادب کے دامن میں حمد و نعت و منقبت کے اظہاریے میں تنوع آنا شروع ہوا تو شعرا ء نے، متن کی تقدیسی شان کا لحاظ رکھتے ہوئے فنی اظہاریے کو بھی شعری معیارات سے ثروت مند کرنے کی اہمیت جانی۔

''حمد کے سات رنگ'' اس اعتبار سے لائقِ تحسین ،تحمیدی نقش ہے کہ اس میں متن کی بُنت میں شعری لطافت اورفنی لوازم کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ شاعر نے ، کتاب میں شامل ہر صنفِ شعرکے فنی لوازم کا نثر میں اظہار کردیاہے۔ جہاں شاعر نے کسی نئی شعری صنف کو متعارف کروایا ہے، اس کے خدو خال سے آگاہی دینے کی خاطر اس کے فنی دروبست کی جانکاری دینے کا اہتمام بھی کردیا ہے۔

مثلاًہائیکو کے متعلق لکھتے ہیں:''میں نے پانچ سات پانچ کی پیروی کرتے ہوئے سو(۱۰۰) ہائیکو تخلیق کیے ہیں۔''حمدیہ ماہیے کے ذیل میں لکھتے ہیں:''چراغ حسن حسرت نے اِس ماہیے کی بحر، وزن اور شکل مخصوص کردی ہے۔اُن کا مشہور اُردو ماہیا :

باغوں میں پڑے جھولے

تم بھول گئے ہم کو

ہم تم کو نہیں بھولے

ہے، جس کے ارکان مفعول مفاعیلن ہیں۔ میں نے بھی انہی اراکین کی پیروی کرتے ہوئے سو(۱۰۰) اُردو حمدیہ ماہیے تخلیق کیے ہیں۔''حمدیہ تروینی کے ضمن میں رقم طراز ہیں:

''جناب گلزارؔ نے ایک نئی صنفِ سخن اختراع کی تھی، جسے اُنہوں نے تروینی کا نام دیا۔تقسیمِ ہندوستان کے وقت وہ ہندوستان ہجرت کرگئے اور یہ صنفِ سخن پرورش نہ پاسکی۔

ایک مدت گزرجانے کے بعد راقم نے اِس نئی صنف سخن کی طرف توجہ کی اور راقم کی تروینیوں کا پہلا مجموعہ ''تروینیاں'' کے نام سے 2009میں شائع ہواجس سے اِس پژمردہ صنف کو نئی زندگی بھی ملی اور اِس مجموعے کو عالمی سطح پر اوّلین کا اعزاز بھی ملا۔ تروینیاں کا مقدمہ ڈاکٹر سید شبیہ الحسن نے تحریر کرتے ہوئے لکھا تھا:''شاعر علی شاعرؔ نے تروینی پر اِس قدر کام کردیا ہے کہ اب شاعر علی شاعر کو تروینی کی نہیں بلکہ تروینی کو شاعر علی شاعرؔ کی ضرورت ہے۔''

ہائیکو، ماہیے اور تروینی کے ساتھ ساتھ شاعرؔ نے ''ثلاثی'' کا بھی تخلیقی لوازمہ پیش کیا ہے۔ یہ صنف بھی نسبتاً نئی ہے جس کو پاکستان میں حمایت علی شاعر نے متعارف کروایا تھا ۔ ہائیکو ، ماہیے، تروینی اور ثُلاثی جیسی جدید اصناف کے تعارف کے بعد شاعر نے اپنی تخلیقی کاوشوں میں کیے جانے والے تجربات کا عملی مظاہرہ بھی کردیا ہے۔یقینا وہ اپنے اِن تجربات اور تخلیقی اظہارات میں کامیاب رہے ہیں۔

روایتی اصناف میں ، قطعہ، رباعی اور دوہے،ہیں۔ان میں بھی شاعر علی شاعر نے حمدیہ متون کی لمعات بکھیری ہیں۔ قطعات کی ابتداء، اللہ تعالیٰ کے نور کی ہر شئے میں جلوہ گری کے مضمون سے ہوتی ہے:

اُس کے جلوے ہر طرف پھیلے ہوئے

نور اُس کا ہر کرن میں ہے نہاں

یہاں معاًآیتِ قرآنی کی طرف دھیان جاتا ہے جس میں اللہ رب العزت نے خود فرمادیا ہے کہ:اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض (النُّور۲۴، آیت۳ ۵)

اللہ کی ہستی آسمان اور زمین کی روشنی )نور(ہے۔

پہلے دو مصرعوں میں اللہ تعالیٰ کی ہر شئے میں جلوہ گری کا ذکر کرکے شاعر نے دوسرے دو مصرعوں میں معرفت کا نکتہ بیان کیا ہے ۔ اللہ کی جلوہ گری، اُس کی موجودگی اور اُس کی عظمت و شان دیکھنے، سمجھنے ، جاننے اور قبول کرنے کے لیے بھی ''دیکھنے والی آنکھ'' درکار ہے۔یہ گویا دعوتِ فکر ہے:

دیکھنے والی ہو شاعرؔ آنکھ گر

اُس کا جلوہ ہے ہر اِک شے سے عیاں

عظمتِ رب تسلیم کرنے کے بعد ، انسان کی اَنا مٹ جانی چاہیے، لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ انسان دنیاوی طاقت ،اقتدار ، حکومت اور سلطنت حاصل کرنے کے بعد بھی عاجزی کو اپنائے۔ہاں جس نے اپنی حقیقت جان لی کہ وہ فانی ہے اور اسے ایک دن اللہ کے حضور پیش ہونا ہے ، وہ کبھی فرعونیت کی راہ نہیں اپناتا۔ شاعر اسی نکتے کو شعری پیکر دیتا ہے:

مٹ گئے فرعون بھی، ہامان بھی

اپنی طاقت پر نہ تُو مغرور ہو

قادرِ مطلق خدا کو مان لے

تاکہ تیری روح بھی مسرور ہو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں