گزارش ہے

ایک وفاقی وزیر کہتے ہیں ایرانی گیس لینے کے لیے امریکا سے چھوٹ کی بات کریں گے

پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ملک کو معاشی بحران سے نکال کر قوم کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جائے ، بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب انھوں نے صو بے میں بے شمار ترقیاتی کام کروائے ہیں۔ اب ملک کے وزیر اعظم ہیں اور امید ہے کہ بحیثیت وزیر اعظم، اچھی تجاویز پر ضرور عمل کریں گے۔

کچھ مسائل ہیں جن پرگفتگو ضرور اس کالم میں ہم کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں کہ مفلوک الحال بے سر و ساماں غریب لوگ جو مہنگائی کی وجہ سے تشویش ناک زندگی گزار رہے ہیں ان کے حالات بھی بہتر ہوں۔ فی الحال صورت حال بہت ابتر ہے اور امید ہے کہ آپ اس پر خوبصورتی سے کنٹرول کرلیں گے۔

کہاں تک سنیں گے، کہاں تک سناؤں؟ زمینی حقائق کے مطابق بتا رہا ہوں کہ گیس کی عدم دستیابی کے باعث ملک بھر میں روزہ دار شدید مشکلات کا شکار ہیں، بروقت سحری وافطاری کی تیاری میں شدید مشکلات سامنے آرہے ہیں۔کراچی سے لے کر خیبر تک گیس کے حوالے سے قوم کولہو کے بیل کی طرح زندگی گزار رہے ہیں دوسری جانب آئے روز گیس مہنگی کی جارہی ہے۔

کراچی پاکستان کا ایڈوانس شہر ہے مگر کراچی کے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، آپ تو چاروں صوبوں کے وزیر اعظم ہیں، صوبہ سندھ میں کئی مقامات پر گیس کے وافر مقدار میں نکلنے کی خبریں اخبارات میں آتی ہیں آپ اس پر خصوصی توجہ دیں اور جہاں گیس نکلتی ہے وہاں کا سروے کروائیں اور اس پر باضابطہ ذمے داری سے اس پر کام شروع کروائیں۔ کبھی یہ خبریں نہیں آتیں کہ سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں سے گیس وافر مقدار میں دریافت ہوئی ہو، اس پہلو پر توجہ دیں۔

لوڈ شیڈنگ نے جان عذاب کر دی، گیس ناپید ہے آپ نے پاک ایران گیس منصوبے پر کمیشن کے قیام کی ہدایت دی ہے۔ اس پر خصوصی توجہ دیں کہ قوم بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں سے بے زار ہو چکی ہے۔ آپ کو انقلابی فیصلے کرنے ہوں گے کیونکہ غریب تو بدحالی کا شکار ہے۔

اب تو مڈل کلاس کا جینا بھی حرام ہوگیا ہے آج سے بیس سال پہلے ہم گیس میں خودکفیل تھے مگر ماضی کی حکومتوں نے اس پر توجہ نہیں دی جس سے آج بے مقصد تصادم ہو رہا ہے قوم کو شدید گلہ ہے کہ حکومتی مراعات یافتہ طبقہ گیس اور الیکٹرک کے حوالے سے پرسکون زندگی گزار رہا ہے جبکہ غریب اور متوسط طبقوں کے افراد گیس اور بجلی کے بھاری بھر کم بلوں کے حوالے سے پریشانیوں میں مبتلا ہے۔


آپ کا ایک بیان اخبارات میں بڑا نمایاں تھا کہ بڑے ٹیکس دہندگان کو اعزازی سفیرکا درجہ دیا جائے گا۔ یہ مثال تو آپ نے اپنے بچپن میں اپنے بزرگوں سے سنی ہوگی کہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے، تنخواہوں سے ٹیکس کٹوتی ہوتی ہے، شاپنگ کرتے ہیں، ٹیکس دیتے ہیں، سفر کرتے ہیں، ٹیکس دیتے ہیں تو پھر قوم کو بھی آپ اچھے اعزاز سے نوازیں یہ بھی تو ملک سے محبت کرتے ہیں کہ ان میں حوصلہ ہو اور وہ خوشی خوشی ٹیکس دیں۔

اس کے لیے آپ کو خصوصی توجہ دینا ہوگی جو ٹیکس نہیں دے رہا وہ مزے کی زندگی گزار رہا ہے اور جو ٹیکس دے رہے ہیں وہ پریشان ہیں۔ میں ایک محب وطن شہری ہوں اور وزیر اعظم صاحب آپ کے علم میں کچھ باتیں لانا چاہتا ہوں تاکہ ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور جو صاحب حیثیت ہیں اور ٹیکس نہیں دیتے ان کا ملک کی ترقی میں کوئی کردار نہیں جو دے رہا ہے، اس کا نمایاں کردار ہے۔

راقم الحروف کئی یورپین ممالک میں گیا، وہاں جو میں نے نظام دیکھا وہ اپنی مثال آپ تھا جو ٹیکس ادا کرتے ہیں، ان کے ایئرپورٹ اور ریلوے میں الگ کاؤنٹر ہوتے ہیں اورکاؤنٹر پر پلیٹ ہوتی ہے۔ '' پیڈ انکم ٹیکس'' اور جو انکم ٹیکس نہیں دیتے وہاں وہ لوگ قصور وار نہیں ہیں کہ وہ واقعی غریب افراد ہوتے ہیں مگر یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ٹیکس لینے کے طریقے ہوتے ہیں۔

آپ اسٹیشن اور ایئرپورٹ پر کاؤنٹر تشکیل دیں جو صاحب حیثیت ہیں اور ٹیکس نہیں دیتے انھیں لائن میں لگنا پڑے گا تو انھیں شرم آئے گی تو وہ شرمندگی سے بچنے کے لیے خود بہ خود ٹیکس دینے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ ریلوے اور ہوائی سفر پر ٹیکس ہولڈر کو 15 فیصد چھوٹ دی جائے جوگھر کے مالک ہیں یا فلیٹ کے مالک ہیں اور سالانہ ٹیکس دیتے ہیں۔

گھر کے سالانہ ٹیکس میں انھیں 10 فیصد چھوٹ دی جائے شاپنگ مال، بڑے ہوٹل بل میں ٹیکس کاٹ لیتے ہیں مگر بل پرکسٹمر کا نام نہیں لکھتے، اگر انھیں نام کے لیے کہا جائے تو تلخی سے جواب دیا جاتا ہے'' سسٹم میں نہیں ہے'' ٹیکس لے رہے ہیں مگر سسٹم میں نہیں ہے (اس سے بڑی غلطی کیا ہوگی) تمام کاروبارکرنے والے حضرات کو پابند کیا جائے کہ وہ رسید پر کسٹمرکا نام لکھیں اور ان رسیدوں پر جو ٹیکس دیا گیا ہے وہ سالانہ انکم ٹیکس ریٹرن میں شمارکیا جائے۔ اس سے لوگ ٹیکس ضرور دیں گے اور ترقی وہی ملک کرتے ہیں کہ ان کا ایک منفرد نظام ہے (جو ٹیکس پیڈ ہیں) انھیں خصوصی سہولیات دیں تاکہ قوم میں ٹیکس دینے کا جذبہ پیدا ہو۔

آپ نے بڑے ٹیکس دینے والوں کو اعزازی سفیرکا درجہ دینے کی بات کی ہے اچھی روایت کا آغاز کیا ہے تاکہ لوگوں میں ٹیکس دینے کا جذبہ پیدا ہو تبھی ملک اور قوم ترقی کریں گے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران وزرا کی مراعات ختم کریں۔ قوم کو جو ٹیکس دے رہی ہے اسے اس بات پر بھی شکوہ ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ مایوس ہے۔

ایک وفاقی وزیر کہتے ہیں ایرانی گیس لینے کے لیے امریکا سے چھوٹ کی بات کریں گے۔ بلوچستان، سندھ اب تو پنجاب میں بھی گیس وافر مقدار میں نکل رہی ہے اس پر توجہ دیں اگر آپ کے پاس سرمایہ نہیں ہے تو آپ یقین کریں یہاں بہت ارب پتی نیک دل ہیں ان سے اپیل کریں وہ مدد کے لیے فوراً میدان میں آئیں ۔ ان کی حوصلہ افزائی کیجیے یہ کھلے دل سے حکومت کا ساتھ دیں گے۔ آپ ترقی کی سیڑھی پر قدم تو رکھیں یہ قوم ملک کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔
Load Next Story