محمود اچکزئی کا زور بیاں
میاں محمد نواز شریف نے تیسرے دور حکومت میں یہ انداز اپنایا ہوا ہے کہ دل کی باتیں دوسروں کے ذریعے کرتے ہیں۔
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12
محمود خان اچکزئی جب بھی بولتے ہیں یا دھماکہ کرتے ہیں یا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی ان کا خطاب جمہوریت کے سر پر منڈلاتے ہوئے خطرات سے بھرپور تھا۔ اخبار میں چھپی ہوئی خبر کے مطابق انھوں نے جو کچھ فرمایا وہ دوبارہ سے آپ کے سامنے رکھے دیتا ہوں۔
''جمہوریت کو خطرات ہیں، اس کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس یا اے پی سی بلا کر مشترکہ فرنٹ بنایا جائے۔ ملک میں دو شریف ہیں ایک نواز شریف اور ایک راحیل شریف دونوں دنیا کو بتائیں کہ وہ جمہوریت کے لیے ایک ہیں۔ عمران خان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جلسے جلوسوں سے اجتناب کریں، حکومت پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے الائنس بنائیں۔ جمہوریت کے حامیوں اور مخالفین میں لکیر کھینچنی ہو گی۔ اگر میں نواز شریف کی جگہ ہوتا تو طاہر القادری کو گرفتار کر کے واپس کینیڈا بھجوا دیتا۔ اسٹیبلشمنٹ جمہوریت کو نہ چھیڑے تو اس کی عزت کریں گے۔ جمہوریت ایک طاقت ہے جس کی وجہ سے ڈکٹیٹروں کے بچے اور پوتے بھی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ دنیا کو بتانا ہو گا کہ پاکستان کی امداد جمہوریت سے مشروط کریں، آئین کو پھاڑنے والے کو الٹا لٹکانا ہو گا''۔
محمود خان اچکزئی وزیر اعظم پاکستان کی موجودگی میں یہ سب کچھ فرما رہے تھے، ن لیگ کے حلقوں کی طرف سے نہ ان کی تقریر میں اضافہ کیا گیا نہ کمی۔ یعنی جو انھوں نے بولا وہی من و عن تسلیم کر لیا۔ اگر ان کے اوہام اور خدشات سے حکومت اتفاق نہ کرتی تو یقیناً ن لیگ کے بولنے والے ماہرین اچکزئی صاحب سے اختلاف کرتے ہوئے نظر آتے۔ ایسا نہیں ہوا۔ ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ کیوں کہ اچکزئی ن لیگ کے ترجمان کے طور پر بات کر رہے تھے۔ میاں محمد نواز شریف نے تیسرے دور حکومت میں یہ انداز اپنایا ہوا ہے کہ دل کی باتیں دوسروں کے ذریعے کرتے ہیں۔ اس طریقے کی وجہ سے جنگ اور جیو کا مسئلہ ایک بحران میں تبدیل ہو گیا۔ اس مرتبہ نواز لیگ کے اندر کا خوف بزبان محمود خان اچکزئی بیان ہوا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ محمود اچکزئی کے برادر محترم بلوچستان کے گورنر کیسے بنے؟ اور وہ خود میاں محمد نواز شریف کے کتنے قریب ہیں ان کے بیان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ اگر وہ صحیح کہہ رہے ہیں تو پاکستان میں ایک بڑا سیاسی طوفان اندرونی ساحل پر منڈلا رہا ہے۔ بہرحال ایک سوال ضرور بنتا ہے کہ محمود خان اچکزئی کے پاس وہ کون سی ایسی معلومات ہیں جنہوں نے ان کو یہ بیان جاری کرنے پر مجبور کر دیا۔ آیا یہ معلومات نئی ہیں یا پرا نی، آپ کو یاد ہو گا کہ چند ماہ پہلے انھوں نے اپنے بھائی کی گورنری کے فوراََ بعد اسٹیبلشمنٹ کی ایسی کی تیسی کی تھی۔ مگر پھر جب پارلیمینٹ کے باہر حقیقی زندگی کا سامنا کرنا پڑا تو کافی دیر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔
شاید اس وقت وزیر داخلہ نے اسی اسمبلی میں ان کے بیانات کو سختی سے رد بھی کیا تھا۔ مگر چونکہ انھوں نے یہ سب کچھ دہرایا ہے اور عمران خان و طاہر القادری کے احتجاج کا مرچ مصالحہ بھی اپنے خدشات پر چھڑک دیا ہے۔ لہذا ان کو اپنی معلومات کا ذریعہ بھی بتانا چاہیے۔ مبہم باتوں اور لمبی کہانی کے بجائے قوم کو یہ سمجھانا ہو گا کہ جمہوریت کے خلاف مبینہ سازش میں کو ن ملوث ہے۔ اب ایسا تو نہیں ہے کہ پاکستان میں درجنوں قوتیں یہ استطاعت رکھتی ہوں کہ جمہوری حکومت کے پیر تلے سے زمین نکال لیں۔ اچکزئی صاحب کے بیان میں دو ہی قوتوں کا ذکر ہو رہا تھا فوج اور آئی ایس آئی، ان دونوں اداروں کے سربراہان بھی ایک درجن نہیں،دو ہی ہیں، جنرل راحیل شریف اور لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام۔
خان صاحب جو ہر کسی کو سچ بولنے کے لمبے لمبے لیکچر دیتے ہیں کہ ان کو بتائیں کہ آیا یہ دونوں سربراہاں ان کے خدشات کا موجب ہیں یا ان کے نیچے کام کرنے والے۔ اور اگر یہ ایسا نہیں ہے تو پھر وہ کیوں ہر دو مہینے کے بعد پارلیمان کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے خطرے کی گھنٹیاں بجانے لگتے ہیں۔ اگر ان کا بیان سنی سنائی پر مبنی ہے تو کیا ان کو یہ معلوم نہیں کہ سنی سنائی کو لگائی بجھائی کے طور پر تصدیق کرائے بغیر آگے پہنچانے والے کو کیا کہا جاتا ہے۔ اگر محمود خان اچکزئی اپنے بیان کے محرکات کو واضح کر دیں تو مہربانی ہو گی اور اگر نہ کریں تو پھر بھی خیر ہے۔ پاکستان میں بیان جاری کرنے پر کوئی ٹیکس تو عائد نہیں ہے ۔
محمود خان اچکزئی نے اپنے بیان میں ایک دلچسپ حوالہ بھی دیا ہے جو آج کل پاکستان کی سیاسی بحث میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اصطلاح پر بنیاد کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنرل راحیل شریف اور وزیر اعظم نواز شریف کو ایک پیج یعنی صفحے پر ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں یہ دونوں ایک دوسرے سے بہت دور جا چکے ہیں۔ ان سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے۔ انھوں نے سیاست دانوں سے اکٹھا ہونے کی بھی اپیل کی۔ تا کہ جمہوریت کا بہتر انداز میں دفاع کیا جا سکے۔ فوج اور حکومت کو ایک پیج پر لانا تو بعد کا عمل ہے پہلے سیاستدانوں کے پیج گنیں تو تفرقے کا یہ عالم ہے کہ پوری کتاب بن جائے گی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا پیپلز پارٹی کے سیاسی بھائیوں سے متعلق بیان پڑھ لیں۔ ایک اخبار کے مطابق انھوں نے فرمایا
''وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں بتایا کہ سندھ حکومت کو ایئر پورٹ سیکیورٹی سے متعلق 5 ماہ پہلے آگاہ کر دیا تھا، 6الرٹس جاری کیے، دہشت گردوں کی کارروائی سے آگاہ کیا گیا، ایئر پورٹ کے غیر محفوظ ترین راستوں کی نشاندہی بھی کی گئی تاہم سندھ حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
چوہدری نثار نے آئی جی اور چیف سیکریٹری کی تقرری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، ان کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس شیئرنگ وفاق کا کام ہے لیکن شہر کی حفاظت صوبائی حکومت ہی کرے گی، سندھ حکومت اپنی ذمے داری قبول کرنے کے بجائے راہ فرار اختیار نہ کرے۔
چوہدری نثار نے خبردار کیا کہ سندھ حکومت کو ارسال کی گئی تفصیلات ریکارڈ پر موجود ہیں، عوام کو کنفیوز کرنے کی کوشش کی تو دستاویزات منظر عام بھی کی جا سکتی ہیں''۔
محترم عمران خان کیا فرما رہے ہیں وہ بھی سن لیں۔
''کہ امریکا مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو رشوت دے کر افواج پاکستان کی ساکھ تباہ کرنا چاہتا ہے، ایسے وقت میں جب شمالی وزیرستان میں بہت سے گروہ بات چیت پر آمادہ ہیں، عسکری کارروائی ایک خودکش قدم ثابت ہو گی جس کی وجہ سے 7 لاکھ افراد بے گھر ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ مسلح کارروائی کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے اور بات چیت پر آمادہ گروہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کی مخالفت میں جت جائیں گے اور یہ عسکری کارروائی تمام مسلح گروہوں کے اتحاد کا باعث بنے گی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جب شمالی وزیرستان کے قابل ذکر قبائل اور گروہ بات چیت پر آمادہ ہیں اور مذاکرات کی پشت پناہی کر رہے ہیں تو امریکی خواہشات پر کی جانے والی یہ فوجی کارروائی پاکستان کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہو گی۔ حکومت سے امریکی دباؤ مسترد کرنے اور قومی سیاسی قیادت کو کل جماعتی کانفرنس کی ایماء پر شروع کیے جانے والے مذاکرات کے حوالے سے آگاہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت مذاکرات پر آمادہ گروہوں کی سخت گیر اور تشدد پر مائل دہشت گردوں سے علیحدگی یقینی بنائے تا کہ ان کے خلاف کارروائی ممکن ہو سکے۔
حالیہ مکمل ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان کو6.7 ارب ڈالر کے نقصانات اٹھانا پڑے جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 3.3 ارب ڈالر یعنی 33 فیصد کم ہیں اور یہ واضح کمی ڈرون حملوں کے خاتمے اور بات چیت کے آغاز کے باعث ممکن ہوئی۔ ریاست پاکستان اور حکومت امریکی عزائم کی تکمیل میں کرائے کے کارکنوں کا کردار ادا نہیں کر سکتی چنانچہ اگر عسکری کارروائی ناگزیر ہے تو حکومت اس سے قبل قوم کو مذاکرات کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کرے''۔
اب الطاف حسین کے بیانات کو دہرانے کا فائدہ نہیں۔ وہ سب کو اکثر یاد ہیں۔ اچکزئی صاحب نے عمران خان اور طاہر القادری کے بارے میں جو باتیں کیں ان میں کہیں بھائی چارے کی کوئی جھلک نہیں تھی۔ ملک میں سیاسی جماعتیں ایک پیج پر نہیں ہیں۔ محمود خان اچکزئی اپنے بیانات کے ذریعے یہ فاصلے بڑھا رہے ہیں۔ جمہوریت کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ بری حکمرانی سے ہے۔ لوگوں کو رگڑا دیتے ہوئے آپ ان کے نام پر ہمدردیاں حاصل نہیں کر سکتے۔ پسے ہوئے عوام کے لیے کچھ کام کر دیں جمہوریت محفوظ ہو جائے گی۔ محمود خان اچکزئی بیانات دینے کے بجائے کچھ اور مثبت کام لیں گے۔