سیاست کے بدلتے رنگ

ملک میں دبنگ یعنی حق سچ اور انصاف کی بات کرنے والے رہنماؤں کا ہمیشہ فقدان رہا ہے

ملک میں دبنگ یعنی حق سچ اور انصاف کی بات کرنے والے رہنماؤں کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔ ایسے رہنماؤں کو ہماری حکومتیں اور طاقتور حلقے بھی برداشت نہیں کر پاتے۔ وہ ان سے جلد از جلد دوری اختیار کر لیتے ہیں۔

ایسے لوگ اپنے لیے کچھ نہیں مانگتے صرف قوم و ملک کی فلاح کی بات کرتے ہیں۔ ایک ابھرتے ہوئے رہنما فیصل واؤڈا ہیں جو دبنگ باتیں کرتے ہیں، وہ اپنے بے لاگ تبصروں کے لیے بہت مشہور ہوگئے ہیںمگر اسی شوق کی پاداش میں انھیں ان کی سابقہ سیاسی پارٹی کی جانب سے شوکاز نوٹس جاری کیاگیا جس کا انھوں نے جواب ہی نہیں دیا۔ اس کے بعد سے وہ کسی سیاسی جماعت میں نہیں تھے۔

آج کل وہ مختلف ٹی وی چینلز پر بلائے جاتے ہیں جہاں وہ اپنے موقف کو اجاگر کرنے اور مفاد پرستوں کے خلاف بات کرنے میں ذرابھی نہیں ہچکچاتے۔ ان کے اسی بولڈ پن کی وجہ سے عوام میں ان کے لیے کافی جگہ بن گئی ہے۔شاید اسی لیے انھوں نے پھر سیاست کا رخ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس وقت وہ سینیٹر بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

واؤڈا جو پہلے ایم کیو ایم کے قریب جانے سے بھی کتراتے تھے مگر اب وہ فخریہ طور پر ایم کیو ایم پاکستان کا حصہ بن چکے ہیں اور پارٹی کے لیے رات دن کام کر رہے ہیں۔ کاش کہ مہاجروں کو 35 سالہ بھیانک دور سے نہ گزرنا پڑتا جس میں دیگر لوگوں کے علاوہ مہاجر بھی بڑی تعداد میں بڑی بے دردی سے قتل کر دیے گئے تھے۔

اس وقت کراچی کی جو حالت تھی کیا کوئی اسے کبھی بھول سکتا ہے۔ ہر دوسرے دن ہڑتال، ہر روز بے گناہوں کا قتل۔ بھیانک تباہی و بربادی اس شہرکی ہوئی جو پاکستان کی معیشت کا انجن ہے۔ ان دنوں جو کراچی کی وجہ سے ہی ملک کی معیشت خراب ہوئی وہ آج تک سنبھل ہی نہیں پائی ہے۔


پارٹی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہی اس میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ شروع ہوا۔ پھر پاک سرزمین پارٹی کا ظہور ہوا۔ اس کے قیام کا سہرا ایم کیو ایم کے ہی دو اہم رہنماؤں مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کے سر تھا ان دونوں رہنماؤں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر بانی کے بارے میں عوام کے سامنے پہلی مرتبہ حقائق سامنے رکھے۔

اس کے بعد ایم کیو ایم کے کئی رہنماؤں نے اس نئی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی کو قتل و غارت گری اور ہڑتالوں سے نجات دلانے کا سہرا پاک سرزمین پارٹی کے سر ہی جاتا ہے۔ پھر جب 15 اگست 2016 کو بانی نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ بلند کیا تو ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے بانی سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا تھا ان رہنماؤں کا بھی یہ انتہائی دلیرانہ فیصلہ تھا جس میں ڈاکٹر فاروق ستار پیش پیش تھے۔

ڈاکٹر فاروق ستار جو ایم کیو ایم پاکستان کی اندر کی چپقلش کی وجہ سے الگ ہو کر ایک نیا گروپ بنا چکے تھے پی ایس پی کے رہنماؤں کے بعد وہ بھی پھر پارٹی سے جڑ گئے۔ پھر ایم کیو ایم پاکستان کے سب ہی رہنماؤں نے مل کر پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرانے میں رات دن ایک کر دیا اور اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ کراچی کے عوام نے کھل کر ایم کیو ایم پاکستان کا ساتھ دیا اور اس طرح پارٹی نے حالیہ الیکشن میں مثالی کامیابی حاصل کی۔ اس نے 2018 میں اپنی کھوئی ہوئی تمام نشستیں پھر جیت لیں۔

یہ دوسروں کے لیے ضرور حیرت کی بات ہے مگر اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ پارٹی کے رہنماؤں کی محنت تھی جو رنگ لے آئی تھی۔

کچھ دن قبل ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں مگر حالات کو جلد قابو میں کر لیا گیا۔ مصطفیٰ کمال نے اس وقت کہا تھا کہ ابھی بھی پارٹی میں کچھ کالی بھیڑیں موجود ہیں جو پارٹی کو ناکام بناناچاہتی ہیں۔
Load Next Story