خواجہ احمد عباس کی باتیں پہلا حصہ

آج جب ان کے کیے ہوئے کام کا جائزہ لیتا ہوں تو شکر کرتا ہوں کہ اگر صبر سے کام نہ لیا جاتا تو مزہ جاتا رہتا

چند ہفتوں پہلے کی بات ہے کہ مہ ناز رحمن اور شہناز احد کے فون آنے لگے۔ ان دونوں کا کہنا تھا کہ آپ پریس کلب آئیں اور خواجہ احمد عباس کے بارے میں کچھ کہیں۔ میں نے ان دونوں سے بہت معذرت کی اور اپنی جگہ اپنی بیٹی فینانہ فرنام کو بھیج دیا۔ وہ دونوں بھی پریس کلب سے خواجہ صاحب کی کتابوں سے لدے پھندے پہنچے تھے کہ ان کے قریبی عزیز کا نیویارک سے فون آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے معلوم ہے آپ کراچی پریس کلب نہیں پہنچ سکیں لیکن ان کی 8 جلدوں پر لکھیے گا ضرور۔ میں ہنس دی اور میں نے کہا کہ خواجہ احمد عباس ہماری ادبی اور صحافتی تاریخ کا ایک بڑا نام ہیں، ان پر لکھنا ایک بڑی بات ہے، میں اسے اپنے لیے ایک بڑا اعزاز سمجھتی ہوں۔ میں ممنون ہوں کہ آپ نے اس کے لیے مجھے اس قابل سمجھا۔ فینانہ آئیں تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ 8 ضخیم جلدیں لے کر چلی آ رہی ہیں۔ یہ پروفیسر ارتضیٰ کریم کا حوصلہ ہے کہ انھوں نے خواجہ صاحب کے صحافتی کالم اکٹھے کر دیے ہیں۔ آگے کی روداد پروفیسر ارتضیٰ کریم کی زبانی سنیے۔

نقی اور راشد اشرف کے احساس میں آپ کی بھی شرکت ہو جائے تاکہ ہر دو ترجمے کی حقیقت سامنے آ جائے۔ پہلے راشد اشرف صاحب کے خیالات حاضر کرتا ہوں۔ ان کے الفاظ ہیں:

''۔۔۔۔۔ان کی آپ بیتی I AM NOT AN ISLAND کے بارے میں خواہش تھی کہ کاش اس کا اردو ترجمہ کیا جاتا۔ چند روز قبل۔۔۔۔۔ نے یہ خوش خبری سنائی کہ مذکورہ کتاب کا اردو ترجمہ ''جزیرہ نہیں ہوں میں'' کے عنوان سے شایع ہو گیا ہے۔ مترجم ڈاکٹر نریش ہیں۔

خواجہ احمد عباس کے سگے بھانجے جناب خورشید حسنین صاحب سے میرا رابطہ ان ہی دنوں ہوا۔ جب اس آپ بیتی کا مسودہ بھارت سے میرے پاس آ چکا تھا۔ خورشید صاحب سے تعارفی مضمون کی درخواست کی۔ انھوں نے تجویز کیا کہ ان کی ہم شیرہ ڈاکٹر شہلا نقوی سے تعارفی مضمون کے سلسلے میں رابطہ کروں جو بہتر انداز سے لکھ سکتی ہیں۔

صاحبو! وہاں سے ایک داستانِ طولانی کا آغاز ہوا جس کا سلسلہ اگلے چھ ماہ تک دراز ہوا۔ شہلا صاحبہ نے مسودے کا جائزہ لینے کو کہا اور کئی اغلاط کی نشان دہی کی۔ بعدازاں انھوں نے یہ پیش کش کی کہ وہ اس کا ازسرِ نو ترجمہ کرنا چاہیں گی۔ جب انھوں نے اس پر کام شروع کیا تو ۔۔۔۔۔ کام رفو کا اس قدر نکلا کہ طے ہوا کہ وہ مکمل مسودے پر کام کریں گی اور اس دوران راقم صبر کرے۔ زیر ِ نظر آپ بیتی پر بہ طور ترجمہ نگار ڈاکٹر شہلا نقوی اور ڈاکٹر نریش کے نام درج کیے گئے ہیں۔۔

آج جب ان کے کیے ہوئے کام کا جائزہ لیتا ہوں تو شکر کرتا ہوں کہ اگر صبر سے کام نہ لیا جاتا تو مزہ جاتا رہتا۔ پاکستانی قارئین ادق ہندی تراکیب و دیگر پیچیدگیوں سے دِق ہوتے اور وہ لوگ جنھوں نے اس کتاب کا انگریزی میں مطالعہ کر رکھا ہے باقاعدہ خفا ہوتے۔''


ڈاکٹر شہلا نقوی صاحبہ کہتی ہیں:

''میں ڈاکٹر نریش کی ممنوں ہوں جنھوں نے اس ترجمے کی ابتدا کی اور راشد اشرف صاحب کی، جنھوں نے مجھے یہ موقع دیا کہ میں اس میں خاندانی کوائف کو درست کروں اور جہاں تک ممکن ہوا، اس ترجمے کی زبان کو خواجہ احمد عباس کی زبان اور لفظیات میں ڈھال سکوں۔''

ان اقتباسات سے دونوں ترجموں کی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ آج 22 جولائی 2022 کو جب میں خواجہ احمد عباس کے تعلق سے منعقد کیے جانے والے اس بین الاقوامی سیمینار میں آپ سے گفتگو کر رہا ہوں۔۔۔۔۔ جس کا موقع ظاہر ہے ڈاکٹر شہلا نقوی صاحبہ اور ان کے احباب کے توسط اور طفیل سے میرے حصے میں آیا ہے۔۔۔۔۔۔ اور اس ادبی انجمن ''حلقۂ اربابِ ذوق'' کے یہ ادبی دیوانے اور پروانے اردو کے حوالے سے 'دیارِ غیر' یا بقول خواجہ احمد عباس ''ایک جزیرہ میں'' پرورش و پرداخت کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ ان کو صمیمِ قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں نیز ان تمام خواتین و حضرات کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں جنھوں نے قرعۂ فال میرے نام نکالا اور مجھے اس بزم میں شرکت کی دعوت دی۔۔۔۔۔۔ آپ کے اس خلوصِ فراواں کا میں قرض دار رہوں گا اور یہ قرض خواجہ احمد عباس کے تخلیقی جہات پر مستقل کام کرکے ہی ادا کیا جاسکتا ہے، جس کے لیے میں وعدہ کناں ہوں۔

اس لمحہ جب ہم اپنے ممتاز اور منفرد ادیب کو یاد کر رہے ہیں، اس بات کا بھی ذکر ضروری بلکہ ناگزیر ہے کہ اس شہر 'نیویارک' کی خواجہ احمد عباس کی زندگی میں کتنی اہمیت رہی ہے۔ خواجہ احمد عباس کے مطابق:

''یہ کتاب میں نے اپنی ساٹھویں سال گرہ پر لکھنی شروع کی۔ اسے مکمل ہونے میں مجھے دو برس لگ گئے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ یہ کتاب نہ لکھی جا سکتی یا کم از کم مکمل نہ ہو سکتی۔''

گویا انھوں نے اپنی سوانح حیات 7؍ جون 1975 سے لکھنی شروع کی اور 1977 میں جا کر مکمل ہوئی اور اسی سال یہ پہلی بار انگریزی میں وکاس پبلشنگ ہاؤس، پرائیویٹ لمیٹڈ انصاری روڈ، نئی دہلی سے شایع ہوئی۔

خواجہ احمد عباس کی صحافتی زندگی میں ALIGADH MAIL, THE ALIGADH OPINION, NATIONAL CALL اور BOMBAY CHRONICLE کی کتنی اور کیسی بنیادی اہمیت ہے اس سے صحافت سے دلچسپی رکھنے والے خوب واقف ہیں۔ دراصل THE BOMBAY CHRONICLE جو سید عبداللہ بریلوی کی ادارت میں شایع ہوتا تھا۔ اس کی اشاعت 1910 میں شروع ہوئی تھی۔ اس کے مالک و مدیر SIR PHEROZESHAH MEHTA تھے جو بہت نام ور وکیل تھے۔ اسی اخبار سے خواجہ احمد عباس نے اپنا کالم THE PAGE 1935 کے شمار سے لکھنا شروع کیا لیکن اخبار کی پالیسی کے پیش نظر اس پر لکھنے والے کے بجائے CHRONICLERS درج ہوتا تھا۔ THE BOMBAY CHRONICLE کی اشاعت بند (1947) ہو جانے کے بعد یہ کالم 1947 میں بلٹز اخبار میں اشاعت پذیر ہونے لگا۔ یہ سلسلہ 1947 سے اکتوبر 1963 تک جاری رہا۔ (جاری ہے)
Load Next Story