نیکٹا۔زود پشیماں
بد قسمتی سے یہ ادارہ موجودہ اورسابقہ حکومت کی ترجیحات میں سب سے نچلے درجے پرہے
پاکستان کے وزیر داخلہ محترم محسن نقوی نے کہا ہے کہ 'دہشت گردی اور تشدد کی ایک خطرناک اور پیچیدہ لہر کا سامنا کرتے ہوئے'ریاست کے پاس نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی کی تنظیم نو کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ نیشنل ایکشن پلان (NAP) کے بارے میں ایک پرانے کالم کے کچھ حصے قابل ملاحظہ ہیں۔
''آج 16 اگست 2016ہے اورسانحہ آرمی پبلک اسکول کو 20ماہ اور نیشنل ایکشن پلان کو بھی 20ماہ ہوگئے ہیں'آج ہم بڑی محنت اور تمام فریقین کی رضامندی سے تیار کردہ نیشنل ایکشن پلان(NAP) پر عمل درآمد کا جائزہ لیتے ہیں'تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ بھی روایتی سرخ فیتے کا شکار ہو گئی ہے 'آپریشن ضرب عضب کے علاوہ کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی'ِفوجیوں کے علاوہ کوئی اور لیڈر متحرک بھی نظر نہیں آتا'وزیر داخلہ کو تو شاید NAPکا نام لیتے ہوئے شرم آتی ہے۔
یہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ NAPکے 20نکات میں سے 16نکات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا'عام تاثر یہ ہے کہ NAPپر عمل درآمد کے لیے ہمارے ادارے مطلوبہ صلاحیت اور وسائل اور شایدخواہش بھی نہیں رکھتے'قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی ایجنسیوں میں تعاون کا فقدان نظر آرہا ہے 'ابھی بھی ایجنسیوں کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے کا طریقہ کار مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچا'دہشت گردی کے خلاف سب سے اہم ادارہ ''نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی(NACTA)نیکٹا'' ابھی تک فعال نہیں ہو سکا اور نہ ہی اس کے آثار نظر آرہے ہیں 'سیاسی حکومت دہشت گردی کے خلاف مشکل فیصلے کرنے سے کترا رہی ہے۔
آئی ایس پی آر کے ڈائرکٹر جنرل باجوہ نے جنرل راحیل کے دورہ ماسکو کے موقعہ پر روسی رسالے سپوتنک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ '' پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پہلے سے ہی نیشنل ایکشن پلان کے بعض حصوں پر کام شروع کردیا ہے لیکن سیاسی مسائل کی وجہ سے قومی ایکشن پلان کے باقی حصوں پر عمل درآمد میں وقت لگے گا''۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک ٹی وی پروگرام میں اعتراف کیا ہے کہ ''نیشنل ایکشن پلان پر جس سرعت کے ساتھ عمل درآمد ہونا چاہیے تھا 'وہ نہیں ہو رہا 'حکومت کو چاہیے کہ اس کی ذمے داری قبول کرے''؟اس سے قبل سپریم کورٹ کی ایک خبر کے مطابق 'سپریم کورٹ میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس ''وفاقی اور صوبائی حکومتیں 'نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں سنجیدہ نہیں'یہ پلان قوم کے ساتھ ایک مذاق ہے 'ٹکے کا کام نہیں ہو رہا' نیکٹا بھی بے کار ہے 'ملک میں نیشنل ایکشن پلان کا بڑا چرچا ہے 'جس میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردوں کی فنڈنگ کی نگرانی کرکے اس کو روکا جائے گالیکن بیس ماہ گزرچکے 'کوئی عمل نہیں ہو رہا 'کالعدم تنظیموں کے لیے فنڈنگ آکسیجن کا کام کرتی ہیںلیکن بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے ان کی فنڈنگ روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔''
یہ کالم 2016میں لکھا گیا تھا لیکن NAP کی صورت حال اب بھی وہی ہے۔
دہشت گردی میں حالیہ خوفناک اضافے کے بعد اب ایک بار پھر حکومت کو نیکٹا اور NAPکی یاد آئی ہے۔پشاور میں '16دسمبر 2014 کوآرمی پبلک اسکول کے بچوں کے قتل عام کے بعد'بڑی محنت اور سب اداروں 'سیاسی پارٹیوں کی اتفاق رائے سے 'دہشت گرد ی کے تدارک کے لیے ایک بہترین پالیسی بنام (NAP) یعنی نیشنل ایکشن پلان بنائی گئی تھی۔
اس پالیسی میں دہشت گردی کے خاتمے کے ہر پہلو کا جائزہ لیا گیا تھا 'پاکستانی ریاست کی روایتی طریقہ کار کے مطابق یہ پالیسی طاق میںرکھ دی گئی اور کسی شق پر عمل درآمد نہیں ہوا۔اب جب کہ پانی سر سے گزر چکا ہے اور دہشت گردی کے واقعات میں قیمتی جانیں ضایع ہو رہی ہیں تو ہماری حکومت کو الماریوں میں پڑیء دیمک خوردہ NAP اور NACTAیادٍِآ گئے۔
وزیر داخلہ NACTAہیڈ کوارٹر میںایک میٹنگ میں شریک تھے'جس دن بلوچ دہشت گردوں نے گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلکس پر حملہ کیا تھا 'جب کہ اس سے چند دن قبل ہی'شمالی وزیرستان میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے ایک مہلک حملہ کیا تھا'جس میں سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید کیا گیاتھا۔
موجودہ دہشت گردی کا خطرہ نظریاتی اور جغرافیائی دونوں لحاظ سے مختلف ہے اور گزشتہ چندسالوں میں 'خاص طور پر2021۔میں افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد دہشت گردوں کومزید حوصلہ ملا ہے اور انھوں نے پاکستان میںامارات اسلامی کے قیام کے لیے بڑی تعداد میں حملے بلکہ میرا تو خیال ہے کہ باقاعدہ جنگ شروع کردی ہے۔
NACTA 'اگر چہ یہ ریاست کا انسداد دہشت گردی کا بنیادی ادارہ سمجھا جاتا ہے۔اس ادارے کو عسکریت پسندوں کے خلاف ابتدائی کامیابیوں کے بعد حکمرانوں نے بڑی حد تک نظر انداز کردیا ہے' اس ایجنسی کو بطور ون ونڈو دہشت گردی مخالف ادارے کے طور پر 'اپنے لازمی اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری آلات سمیت کوئی بھی سہولت نہیں دی گئی 'حالانکہ اس ادارے کی ساخت سے ہی اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے' اس ادارے کو پس پشت ڈال کر دہشت گردی کے خلاف اقدامات کو فوج اور اس کے انٹیلی جنس اداروں کی ذمے داری بنا دیا گیا ہے لیکن دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سویلین اداروں کی اپنی اہمیت ہے۔ خصوصاً شہری اور دیہی علاقوں میں 'جہاں پولیس اور اس کی اطلاعاتی صلاحیت اہم ترین کردار ادا کرسکتی ہے۔
انسداد دہشت گردی کی حکمت عملیوں کو متحرک رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے 'اسی لیے NACTAکا ادارہ بنایا گیا تھا۔ دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے لازمی ہے کہ NACTAکو با اختیار بنایا جائے ' صوبائی انسداد دہشت گردی کے اداروں کو دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے فنڈز'آلات اور تربیت فراہم کی جائے۔نیشنل کائونٹر ٹیررزم اتھارٹی کو مضبوط اور فعال بنایا جائے گا' NAPکا یہ بہت اہم ادارہ ہے۔
پولیس کے ایک افسر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف نیکٹا کا ادارہ فعال نہ ہوسکا 'جو قابل افسوس ہے'ہم پولیس والے اپنے وسائل اور صلاحیت کے مطابق دہشت گردی اور عام جرائم کے خلاف بر سر پیکار ہیں'یہ حقیقت ہے کہ بلند بانگ دعوے ایک طرف'لیکن دہشت گردی کے خلاف سب سے اہم اداروںبشمول نیکٹا اور پولیس کو حکومت کی طرف سے سرد مہری کا سامنا ہے 'جب کہ آ ٓج بھی مختلف انٹلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کا شدید فقدان ہے۔
سب سے اہم ادارہ یعنی نیکٹااور دسمبر 2014میں بنائے گئے NAPکے بعد اس کو فعال ہونا تھا 'اس کو حکومت مسلسل نظر اندا زکر رہی ہے۔ ' کاغذات میں نیکٹا کا ایک طاقتور اور با اختیار بورڈ آف ڈائریکٹر موجود ہے 'قانونی پابندی ہے کہ بورڈ کا اجلاس ہر تین مہینے کے بعد ہونا لازمی ہے یعنی سال میں چار مرتبہ 'افسوس کا مقام ہے کہ و زیر اعظم کو مسلسل توجہ دلانے کے باوجود آج تک اس محکمے کے اعلیٰ اختیاراتی بورڈ کا ایک بھی اجلاس نہ ہو سکا۔
نیکٹاکے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین وزیراعظم ہیں اوراسکے ممبرا ن میں تما م صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزراء اعلیٰ 'وزیر اعظم آزادکشمیر ' داخلہ' قانون ' دفاع اورخزانہ کے مرکزی وزراء' آئی ایس آئی' آئی بی 'ملٹری انٹلی جنس اورایف آئی اے کے ڈائرکٹر جنرل 'صوبائی چیف سیکریٹری اور تمام صوبوں کے آئی جی پی 'سیکریٹری داخلہ اور دوسرے اہم عہدیداران شامل ہیں۔بد قسمتی سے یہ ادارہ موجودہ اورسابقہ حکومت کی ترجیحات میں سب سے نچلے درجے پرہے۔
ملک کے تمام باشعور حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ 'تمام خفیہ ایجنسیوں اور سیکیورٹی کے اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون بڑھانے کے لیے ایک منظم سسٹم کی ضرورت ہے۔آخرہمارا سسٹم کب ٹھیک ہوگا؟P NAکے باقی نکات کا تجزیہ بعد میں ۔
''آج 16 اگست 2016ہے اورسانحہ آرمی پبلک اسکول کو 20ماہ اور نیشنل ایکشن پلان کو بھی 20ماہ ہوگئے ہیں'آج ہم بڑی محنت اور تمام فریقین کی رضامندی سے تیار کردہ نیشنل ایکشن پلان(NAP) پر عمل درآمد کا جائزہ لیتے ہیں'تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ بھی روایتی سرخ فیتے کا شکار ہو گئی ہے 'آپریشن ضرب عضب کے علاوہ کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی'ِفوجیوں کے علاوہ کوئی اور لیڈر متحرک بھی نظر نہیں آتا'وزیر داخلہ کو تو شاید NAPکا نام لیتے ہوئے شرم آتی ہے۔
یہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ NAPکے 20نکات میں سے 16نکات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا'عام تاثر یہ ہے کہ NAPپر عمل درآمد کے لیے ہمارے ادارے مطلوبہ صلاحیت اور وسائل اور شایدخواہش بھی نہیں رکھتے'قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی ایجنسیوں میں تعاون کا فقدان نظر آرہا ہے 'ابھی بھی ایجنسیوں کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے کا طریقہ کار مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچا'دہشت گردی کے خلاف سب سے اہم ادارہ ''نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی(NACTA)نیکٹا'' ابھی تک فعال نہیں ہو سکا اور نہ ہی اس کے آثار نظر آرہے ہیں 'سیاسی حکومت دہشت گردی کے خلاف مشکل فیصلے کرنے سے کترا رہی ہے۔
آئی ایس پی آر کے ڈائرکٹر جنرل باجوہ نے جنرل راحیل کے دورہ ماسکو کے موقعہ پر روسی رسالے سپوتنک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ '' پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پہلے سے ہی نیشنل ایکشن پلان کے بعض حصوں پر کام شروع کردیا ہے لیکن سیاسی مسائل کی وجہ سے قومی ایکشن پلان کے باقی حصوں پر عمل درآمد میں وقت لگے گا''۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک ٹی وی پروگرام میں اعتراف کیا ہے کہ ''نیشنل ایکشن پلان پر جس سرعت کے ساتھ عمل درآمد ہونا چاہیے تھا 'وہ نہیں ہو رہا 'حکومت کو چاہیے کہ اس کی ذمے داری قبول کرے''؟اس سے قبل سپریم کورٹ کی ایک خبر کے مطابق 'سپریم کورٹ میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس ''وفاقی اور صوبائی حکومتیں 'نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں سنجیدہ نہیں'یہ پلان قوم کے ساتھ ایک مذاق ہے 'ٹکے کا کام نہیں ہو رہا' نیکٹا بھی بے کار ہے 'ملک میں نیشنل ایکشن پلان کا بڑا چرچا ہے 'جس میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردوں کی فنڈنگ کی نگرانی کرکے اس کو روکا جائے گالیکن بیس ماہ گزرچکے 'کوئی عمل نہیں ہو رہا 'کالعدم تنظیموں کے لیے فنڈنگ آکسیجن کا کام کرتی ہیںلیکن بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے ان کی فنڈنگ روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔''
یہ کالم 2016میں لکھا گیا تھا لیکن NAP کی صورت حال اب بھی وہی ہے۔
دہشت گردی میں حالیہ خوفناک اضافے کے بعد اب ایک بار پھر حکومت کو نیکٹا اور NAPکی یاد آئی ہے۔پشاور میں '16دسمبر 2014 کوآرمی پبلک اسکول کے بچوں کے قتل عام کے بعد'بڑی محنت اور سب اداروں 'سیاسی پارٹیوں کی اتفاق رائے سے 'دہشت گرد ی کے تدارک کے لیے ایک بہترین پالیسی بنام (NAP) یعنی نیشنل ایکشن پلان بنائی گئی تھی۔
اس پالیسی میں دہشت گردی کے خاتمے کے ہر پہلو کا جائزہ لیا گیا تھا 'پاکستانی ریاست کی روایتی طریقہ کار کے مطابق یہ پالیسی طاق میںرکھ دی گئی اور کسی شق پر عمل درآمد نہیں ہوا۔اب جب کہ پانی سر سے گزر چکا ہے اور دہشت گردی کے واقعات میں قیمتی جانیں ضایع ہو رہی ہیں تو ہماری حکومت کو الماریوں میں پڑیء دیمک خوردہ NAP اور NACTAیادٍِآ گئے۔
وزیر داخلہ NACTAہیڈ کوارٹر میںایک میٹنگ میں شریک تھے'جس دن بلوچ دہشت گردوں نے گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلکس پر حملہ کیا تھا 'جب کہ اس سے چند دن قبل ہی'شمالی وزیرستان میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے ایک مہلک حملہ کیا تھا'جس میں سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید کیا گیاتھا۔
موجودہ دہشت گردی کا خطرہ نظریاتی اور جغرافیائی دونوں لحاظ سے مختلف ہے اور گزشتہ چندسالوں میں 'خاص طور پر2021۔میں افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد دہشت گردوں کومزید حوصلہ ملا ہے اور انھوں نے پاکستان میںامارات اسلامی کے قیام کے لیے بڑی تعداد میں حملے بلکہ میرا تو خیال ہے کہ باقاعدہ جنگ شروع کردی ہے۔
NACTA 'اگر چہ یہ ریاست کا انسداد دہشت گردی کا بنیادی ادارہ سمجھا جاتا ہے۔اس ادارے کو عسکریت پسندوں کے خلاف ابتدائی کامیابیوں کے بعد حکمرانوں نے بڑی حد تک نظر انداز کردیا ہے' اس ایجنسی کو بطور ون ونڈو دہشت گردی مخالف ادارے کے طور پر 'اپنے لازمی اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری آلات سمیت کوئی بھی سہولت نہیں دی گئی 'حالانکہ اس ادارے کی ساخت سے ہی اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے' اس ادارے کو پس پشت ڈال کر دہشت گردی کے خلاف اقدامات کو فوج اور اس کے انٹیلی جنس اداروں کی ذمے داری بنا دیا گیا ہے لیکن دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سویلین اداروں کی اپنی اہمیت ہے۔ خصوصاً شہری اور دیہی علاقوں میں 'جہاں پولیس اور اس کی اطلاعاتی صلاحیت اہم ترین کردار ادا کرسکتی ہے۔
انسداد دہشت گردی کی حکمت عملیوں کو متحرک رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے 'اسی لیے NACTAکا ادارہ بنایا گیا تھا۔ دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے لازمی ہے کہ NACTAکو با اختیار بنایا جائے ' صوبائی انسداد دہشت گردی کے اداروں کو دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے فنڈز'آلات اور تربیت فراہم کی جائے۔نیشنل کائونٹر ٹیررزم اتھارٹی کو مضبوط اور فعال بنایا جائے گا' NAPکا یہ بہت اہم ادارہ ہے۔
پولیس کے ایک افسر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف نیکٹا کا ادارہ فعال نہ ہوسکا 'جو قابل افسوس ہے'ہم پولیس والے اپنے وسائل اور صلاحیت کے مطابق دہشت گردی اور عام جرائم کے خلاف بر سر پیکار ہیں'یہ حقیقت ہے کہ بلند بانگ دعوے ایک طرف'لیکن دہشت گردی کے خلاف سب سے اہم اداروںبشمول نیکٹا اور پولیس کو حکومت کی طرف سے سرد مہری کا سامنا ہے 'جب کہ آ ٓج بھی مختلف انٹلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کا شدید فقدان ہے۔
سب سے اہم ادارہ یعنی نیکٹااور دسمبر 2014میں بنائے گئے NAPکے بعد اس کو فعال ہونا تھا 'اس کو حکومت مسلسل نظر اندا زکر رہی ہے۔ ' کاغذات میں نیکٹا کا ایک طاقتور اور با اختیار بورڈ آف ڈائریکٹر موجود ہے 'قانونی پابندی ہے کہ بورڈ کا اجلاس ہر تین مہینے کے بعد ہونا لازمی ہے یعنی سال میں چار مرتبہ 'افسوس کا مقام ہے کہ و زیر اعظم کو مسلسل توجہ دلانے کے باوجود آج تک اس محکمے کے اعلیٰ اختیاراتی بورڈ کا ایک بھی اجلاس نہ ہو سکا۔
نیکٹاکے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین وزیراعظم ہیں اوراسکے ممبرا ن میں تما م صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزراء اعلیٰ 'وزیر اعظم آزادکشمیر ' داخلہ' قانون ' دفاع اورخزانہ کے مرکزی وزراء' آئی ایس آئی' آئی بی 'ملٹری انٹلی جنس اورایف آئی اے کے ڈائرکٹر جنرل 'صوبائی چیف سیکریٹری اور تمام صوبوں کے آئی جی پی 'سیکریٹری داخلہ اور دوسرے اہم عہدیداران شامل ہیں۔بد قسمتی سے یہ ادارہ موجودہ اورسابقہ حکومت کی ترجیحات میں سب سے نچلے درجے پرہے۔
ملک کے تمام باشعور حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ 'تمام خفیہ ایجنسیوں اور سیکیورٹی کے اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون بڑھانے کے لیے ایک منظم سسٹم کی ضرورت ہے۔آخرہمارا سسٹم کب ٹھیک ہوگا؟P NAکے باقی نکات کا تجزیہ بعد میں ۔