بے گناہوں کی موت
سات معصوم افراد کو کراچی ایئر پورٹ پر ریسکیو آپریشن کرنے والے بھول گئے۔
سات معصوم افراد کو کراچی ایئر پورٹ پر ریسکیو آپریشن کرنے والے بھول گئے۔ نجی کمپنی میں فرائض انجام دینے والے یہ لوڈرز 24 گھنٹے کولڈ اسٹوریج سے متصل ویئر ہاؤس کے ایک کمرے میں پھنسے رہے۔ وہ اپنے موبائل فون کے ذریعے حکام اور رشتے داروں سے مدد کی اپیل کرتے رہے مگر ان بے گناہ افراد کے لواحقین کی چیخ و پکار پر کسی نے توجہ نہ دی۔ کراچی ایئر پورٹ کے انتظام کی ذمے دار سول ایوی ایشن اتھارٹی کے حکام نے 9 جون کی صبح ریسکیو آپریشن ختم کر دیا۔
10 جون کو جب لواحقین نے شاہراہ فیصل پر دھرنا دیا اور ایکسپریس نیوز نے ویئر ہاؤس میں پھنسے افراد کے بارے میں بار بار خبر نشر کی تو وزیر اعظم نواز شریف متوجہ ہوئے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اور گور نر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کراچی ایئر پورٹ پہنچے۔ کولڈ اسٹوریج کی آگ بجھانے کا کام شروع ہوا۔ مگر سی اے اے والے غائب رہے۔ کراچی ایئر پورٹ میں آگ بجھانے پر مامور فائر ٹینڈر غائب رہے، یہ فریضہ بھی حکومت کے فائر بریگیڈ کے عملے نے انجام دیا۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بار بار پانی ختم ہو جانے اور گورنمنٹ کے عملے کے پاس کیمیائی آگ بجھانے کے لیے فوم اور جدید آلات نہ ہونے کی بناء پر امدادی کارروائیاں ناکام ثابت ہوئیں۔ رات گئے بری فوج کے عملے نے جدید مشینوں کے ساتھ ایک دفعہ پھر امدادی کارروائی شروع کی۔
اس دوران بحریہ ٹائون کے ماہرین آلات کے ساتھ ایئر پورٹ پہنچے، ایک بے ہنگم ہجوم کے جمع ہونے، فائر بریگیڈ کا پانی ختم ہونے اور جدید آلات نہ ہونے کی بناء پر وقت گزر گیا اور جب کولڈ اسٹوریج کی دیوار ٹوٹی تو 7 لاشیں برآمد ہوئیں۔ اتوار کو رات گئے ایئر پورٹ پر حملے میں 26 افراد جاں بحق ہوئے جس میں 10 دہشت گرد تھے۔ ویئر ہاؤس میں 7 افراد جاں بحق ہوئے، ان کی موت کا ذمے دار کون ہے اس بارے میں ہر طرف خاموشی ہے۔ ذرایع ابلاغ کے پروگراموں اور ایجنسیوں کی رپورٹوں میں بار بار بتایا جا رہا ہے کہ کراچی کے مضافاتی علاقے گھگھر پھاٹک سے لے کر نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے اور ناردرن بائی پاس کے درمیانی علاقے اور بلوچستان کے سرحدی شہر حب تک کے علاقے میں طالبان قابض ہو چکے ہیں۔
گزشتہ دورِ حکومت میں ان علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں قائم ہوئی تھیں۔ طالبان ان پناہ گاہوں سے نکل کر شہر کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بار بار دعویٰ کیا تھا کہ فوج ، رینجرز اور پولیس نے ان علاقوں کو طالبان سے پاک کر دیا ہے۔ اس طرح کے آپریشنوں میں پولیس اور رینجرز کے کئی سپاہی بھی شہید ہوئے تھے۔ کراچی میں مہران نیول بیس، بلدیہ ٹائون پولیس ہیڈ کوارٹر وغیرہ پر حملوں کی منصوبہ بندی بھی شاید ان ہی علاقوں میں ہوئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اورنگی، کورنگی، بلدیہ ٹائون وغیرہ میں بھی ان انتہا پسندوں نے ٹھکانے بنائے مگر سابقہ حکومت میں انتہا پسندوں کی ان کمین گاہوں کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ جب گزشتہ سال میاں نواز شریف حکومت نے ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا تو اس آپریشن کا ایک ہدف ہتھیار بند گروپوں کا قلع قمع کرنا تھا۔
اس آپریشن کے نتیجے میں سیاسی اور لسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ میں کمی آئی مگر فرقہ ورانہ بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ، رینجرز اور پولیس تھانوں پر حملوں اور پولیس افسران کو قتل کرنے کے معاملات جوں کے توں رہے۔ کراچی پولیس اس دوران اپنے بہادر افسر چوہدری اسلم سے محروم ہو گئی۔ طالبان نے نارتھ ناظم آباد میں رینجرز کے دفتر کو بار بار نشانہ بنایا، یوں محسوس ہونے لگا کہ یہ دفتر شاید شمالی وزیر ستان میں ہے۔ اب کراچی ائیر پورٹ پر منظم حملے سے واضح ہوتا ہے کہ انتہا پسندوں نے اپنی صفوں کو پھر مستحکم کر لیا ہے۔
مغربی ماہرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ غیر قانونی اسلحہ بارود کی نقل و حمل کو روک کر، ملزموں کو تنہا کر کے اور انتہا پسندوں کی مالیاتی سپلائی لائن کو روک کر ہی ان کے عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ اسلحے کی پورے ملک میں بھرمار ہے۔ پرویز مشرف حکومت، زرداری حکومت اور اب میاں نواز شریف حکومت غیر قانونی اسلحے کے خاتمے کا عزم کر رہی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کا مطالبہ ہوتا رہا ہے۔ ایم کیو ایم مطالبہ کرتی ہے کہ پنجاب، پختونخواہ اور بلوچستان سے ناجائز اسلحہ کا خاتمہ کیا جائے، یوں ایک بے معنی بحث میں یہ معاملہ ٹل جاتا ہے۔
رینجرز حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آور ازبک نظر آتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شمالی وزیر ستان کے راستے کراچی پہنچے ہیں۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ قبائلی علاقوں، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے آپریشن کیا جائے، اس کے ساتھ ہی وسطی اور جنوبی پنجاب میں بھی جنگجوئوں کی کمین گاہوں کو ختم کیا جائے، اور چاروں صوبوں میں اسلحہ برآمد کرنے کی مہم شروع کی جائے۔ اسلحے کی تجارت میں سردار، جاگیر دار، طاقتور افسران اور بااثر سیاست دان ملوث ہیں۔ ان کے خلاف بغیر کسی امتیاز کے آپریشن کیا جائے، غیر قانونی اسلحے رکھنے پر سزائیں دی جائیں، انتہا پسندوں کی مالیاتی پائپ لائن کے خاتمے کے لیے سعودی عرب، خلیجی ممالک کو مجبور کیا جائے اور چاروں صوبوں میں مذہبی بنیادوں پر فنڈز جمع کرنے کو جرم قرار دیا جائے۔
دہشت گردی کے مقدمات کی عدالتیں قائم کی جائیں، ججوں، وکلاء اور عینی شاہدین کے تحفظ کا قانون بنایا جائے اور ان کے تحفظ کے لیے جدید ہتھیاروں سے لیس فورس قائم کی جائے۔ ایئر پورٹ، کراچی کی دو بندر گاہوں اور ریلوے اسٹیشنوں کی حفاظت کے لیے جدید طریقوں کو استعمال کیا جائے۔ کراچی کی فائر بریگیڈ، سی اے اے، کراچی ایئر پورٹ او دوسرے اداروں کی فائر بریگیڈ کی تنظیمِ نو کی جائے، ان اداروں میں کام کرنے والوں کو بہترین تنخواہیں دی جائیں اور تربیت کے لیے یورپ اور امریکا بھیجا جائے ۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے منصوبے منظم کرنے میں غیر قانونی سمز کا اہم کردار ہے۔ برسرِ اقتدار آنے والی حکومتوں کے اعلانات کے باوجود غیر قانونی سمز کا کاروبار ختم نہیں ہوا۔ شہر شہر، گاؤں گاؤں، کسی بھی کمپنی کی سم باسانی خریدی جا سکتی ہے۔
ملک میں افغانستان، خلیجی ممالک اور جنوبی افریقہ کے ٹیلی فون نمبر والی سمز بھی دستیاب ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل کمپنیاں کروڑوں روپے چمک پر خرچ کرتی ہیں، یوں یہ غیر قانونی کاروبار ختم نہیں ہو رہا۔ حکومت انتہاپسندوں کے نیٹ ورک کو معطل نہیں کر رہی۔ کراچی میں دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان نے کراچی میں Sleeper Cells قائم کیے ہوئے ہیں۔ ان کی سرپرستی ریاست کا کوئی ادارہ یا اس سے تعلق رکھنے والے افراد کرتے ہیں۔ ان Cells کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔
کراچی ایئر پورٹ پر حملوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج پر مشتمل خصوصی ٹریبونل قائم کیا جائے، یہ ٹریبونل خاص طور پر کولڈ اسٹوریج کے سانحے کی تحقیقات کرے۔ اس حادثے کی ذمے داری سول ایوی ایشن کے حکام پر عائد ہوتی ہے۔ اصولی طور پر سول ایسوی ایشن کے اعلیٰ حکام کو برطرف کرنا چاہیے تا کہ آیندہ کوئی ایسی غفلت کا مرتکب نہ ہو۔ سیاسی جماعتوں کو عوام کو دہشت گردوں کے عزائم سے آگاہ کرنا چاہیے تا کہ یہ تنہا ہو جائیں، سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے بارے میں واضح مؤقف اختیار کریں۔ پاکستانی قوم متحد ہو کر ایسے واقعات کا تدارک کر سکتی ہے۔