محکمہ خوراک سندھ کے گندم کے ریکارڈ میں مبینہ فراڈ چوری سے 3 ارب 22 کروڑ کا نقصان

تحقیقاتی حکام نے گندم فراڈ میں ملوث عہدیداروں سے رقم کی واپسی اور سخت کارروائی کی سفارش کردی

رپورٹ کے مطابق خراب گندم کا ریکارڈ بھی غلط بنایا گیا—فائل: فوٹو

محکمہ خوراک سندھ کے عہدیداروں کی غفلت کے باعث گندم خراب ہونے اور اس کے اعداد وشمار بھی غلط ریکارڈ ہونے کے باعث قومی خزانے کو 3 ارب 22 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سندھ کے محکمہ خوراک کے عہدیداروں نے قومی خزانے کو 3 ارب 22 کروڑ کا نقصان پہنچایا، محکمے نے 2022کے دوران بارشوں سے گوداموں میں گندم خراب ہونے کا جو ریکارڈ پیش کیا تھا وہ غلط نکلا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کے مختلف گوداموں سے پچھلے برسوں میں 3 لاکھ79ہزار 62 گندم کی بوریاں چوری کی گئی تھیں، بوریوں کی مالیت 3 ارب روپے سے زائد بنتی ہے جبکہ محکمہ خوراک کے کرپٹ ملازمین کی جانب سے2022کی بارشوں کا غلط فائدہ اٹھایا گیا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ خوراک کے اہلکار گندم کی چوری اور اسمگلنگ میں براہ راست ملوث ہیں، چوری ہونے والی گندم کی جگہ خراب گندم میں مٹی اور پتھر ملا کر ریکارڈ پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔

مزید بتایا گیا ہے کہ محکمہ خوراک کے ملازمین نے قومی خزانے کو 3 ارب 22 کروڑ کا نقصان پہنچایا اور اسی طرح محکمہ خوراک کے ضلعی افسران مارکیٹ میں فروخت ہونے والی چوری شدہ گندم کی بوریوں کا حساب دینے میں بھی ناکام رہے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نگراں وزیر اعلیٰ کے حکم پر نئے چئیرمین نے معائنہ ٹیم کے رکن علی گل سنجرانی کی سربراہی میں مکمل تحقیقاتی رپورٹ وزیراعلیٰ کو بھجوانے کی منظوری دی تھی۔


رپورٹ کے مطابق متعلقہ حکام نے 3لاکھ79 ہزار گندم کی بوریاں چوری کرکے اوپن مارکیٹ میں فروخت کی، حیدرآباد ریجن کے گوداموں سے 78ہزار گندم کی بوریاں غائب ہیں، سکھر ریجن کے گوداموں سے 26ہزار بوریاں، لاڑکانہ ریجن کے گوداموں سے 63 ہزار بوریاں غائب ہوئی۔

اعداد وشمار میں واضح کیا گیا ہے کہ شہید بینظیر آباد ریجن سے 4 ہزار 500 بوریاں اور کراچی ریجن کے گوداموں سے 2 لاکھ گندم کی بوریاں غائب ہیں جبکہ محکمہ خوراک کے اہلکاروں نے چالاکی سے پرانی بوسیدہ اور پرانی گندم میں مٹی اور پتھر بھر دیے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چوری شدہ گندم کی جگہ تعداد غلط طریقے سے برابر کی گئی ہے، تحقیق کرنے والے حکام نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گوداموں میں ذخیرہ شدہ گندم کا ذخیرہ دو سال پرانا ہے جبکہ بارشیں 16 ماہ قبل ہوئی تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گندم چوری کرکے منڈی میں فروخت کی گئی تھی۔

حکام نے رپورٹ میں بتایا کہ گندم کے تھیلے خراب گندم اور مٹی سے بھرے ہوئے تھے اور محکمہ خوراک کے حکام نے بارشوں سے گندم کی خرابی سے متعلق تحقیقاتی ٹیم کو آگاہ نہیں کیا، اہلکاروں نے اپنی دستاویزات میں گندم کی خرابی کا انکشاف بھی کیا ہے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ گندم فراڈ میں ملوث محکمہ خوراک کے اہلکاروں سے گندم کی فروخت سے حاصل کیے گئے اربوں کی رقم برآمد کرلی جائے اور ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گندم اس قدر خراب ہے کہ خطرناک مواد اور بدبو کی وجہ سے انسانوں، جانوروں اور پرندوں کے استعمال کے قابل بھی نہیں ہے، خراب گندم کو فوری تلف کیا جائے کیونکہ گندم کی بدبو سے بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔

چیئرمین شکیل احمد مگنیجو نے تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو بھجوانے کی منظوری دے دی ہے جبکہ صوبائی وزیر جام خان شورو مذکورہ معاملے سے مکمل طور پر لاعلم نکلے اور ان کا کہنا تھا کہ معلومات حاصل کر کے جواب دیا جائے گا۔
Load Next Story