اعتکاف
رضائے الٰہی کے حصول کا راستہ
اللہ پاک کے قرب و رضا کے حصول کے لیے گذشتہ امتوں نے ایسی ریاضتیں لازم کرلی تھیں، جو اللہ نے ان پر فرض نہیں کی تھیں۔ قرآن حکیم نے ان عبادت گزار گروہوں کو رہبان اور احبار سے موسوم کیا ہے۔
حضرت محمدمصطفیﷺ نے تقرب الی اللہ کے لیے رہبانیت کو ترک کر کے اپنی امت کے لیے اعلٰی ترین اور آسان ترین طریقہ عطا فرمایا، جو ظاہری خلوت کی بجائے باطنی خلوت کے تصور پر مبنی ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لیے دنیا کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دینا اصل کمال ہے۔ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ اعتکاف ہے ۔
اعتکاف لغوی اعتبار سے ٹھہرنے کو کہتے ہیں، جب کہ اصطلاحِ شریعت میں اعتکاف کا معنی ہے: مسجد میں اور روزے کے ساتھ رہنا، جماع کو بالکل ترک کرنا اور اللہ تعالٰی سے تقرب اور اجروثواب کی نیت کرنا اور جب تک یہ معانی نہیں پائے جائیں گے تو شرعاً اعتکاف نہیں ہوگا، لیکن مسجد میں رہنے کی شرط صرف مردوں کے اعتبارسے ہے۔
عورتوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے بلکہ خواتین اپنے گھر میں نماز کی مخصوص جگہ کو یا کسی الگ کمرے کو مخصوص کرکے وہاں اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہیں۔ ہر مسجد میں اعتکاف ہوسکتا ہے، البتہ بعض علما نے اعتکاف کے لیے جامع مسجد کی شرط لگائی ہے۔ (احکام القرآن: جلد 1 صفحہ 242)
اعتکاف کی تاریخ
اعتکاف کی تاریخ بھی روزوں کی تاریخ کی طرح بہت قدیم ہے۔ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس کا ذکر بھی یوں بیان ہوا ہے۔ ارشادِخداوندی ہے:
ترجمہ: اور ہم نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کو تاکید کی کہ میرا گھر طواف کرنے والوں کے لیے، اعتکاف کرنے والوں کے لیے اور رکوع کرنے والوں کے لیے خوب صاف ستھرا رکھیں۔ (سور البقرہ: آیت نمبر125)
یعنی اس وقت کی بات ہے جب جدالانبیاحضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کعبۃ اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تھے یعنی اس زمانے میں اللہ تعالٰی کی رضا کے لیے اعتکاف کیاجاتا تھا۔
اعتکاف کی فضیلت واہمیت
حضوراکرم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ اعتکاف کیا ہے اور اس کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ چناںچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بے شک حضور نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، یہاں تک کہ آپﷺ خالق حقیقی سے جاملے۔ پھر آپﷺ کی ازواجِ مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
تین خندقیں
رسول اللہﷺ نے ایک دن کے اعتکاف کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالٰی کی خوش نودی کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرے گا، اللہ تعالٰی اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کردے گا جن کی مسافت آسمان و زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی۔ (کنزالعمال)
ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص خالص نیت سے بغیر ریا اور بلاخواہش شہرت ایک دن اعتکاف بجا لائے گا، اس کو ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب ملے گا اور اس کے اور دوزخ کے درمیان فاصلہ پانچ سو برس کی راہ ہوگا (تذکرۃ الواعظین)
تین سو شہیدوں کا ثواب
رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص خالصتاً رمضان شریف میں ایک دن اور ایک رات اعتکاف کرے تو اس کو تین سو شہیدوں کا ثواب ملے گا (تذکرۃالواعظین)
سبحان اللہ چند گھنٹوں کے اعتکاف کی اس قدر فضیلت ہے تو جو رمضان شریف میں پورے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ہیں ان کی شان کیا ہوگی۔
دو حج اور دوعمروں کا ثواب
حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: جس شخص نے رمضان المبارک میں آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا تو گویا کہ اس نے دو حج اور دو عمرے ادا کیے ہوں۔ (شعب الایمان)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معتکف (اعتکاف کرنے والے) کے بارے میں فرمایا کہ: وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیاں اس کے واسطے جاری کردی جاتی ہیں، اس شخص کی طرح جو یہ تمام نیکیاں کرتا ہو۔ (سنن ابن ماجہ، مشکوٰۃ)
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ معتکف یعنی اعتکاف کرنے والا، اعتکاف کی حالت میں بہت سی برائیوں اور گناہوں....مثلاً غیبت، چغلی، بری بات کرنے، سننے اور دیکھنے سے خودبہ خود محفوظ ہوجاتا ہے، ہاں البتہ اب وہ اعتکاف کی وجہ سے کچھ نیکیاں نہیں کرسکتا، مثلاً نمازِجنازہ کی ادائی، بیمار کی عیادت ومزاج پرسی اور ماں باپ واہل وعیال کی دیکھ بھال وغیرہ۔ اگرچہ وہ ان نیکیوں کو انجام نہیں دے سکتا لیکن اللہ تعالٰی اسے یہ نیکیاں کیے بغیر ہی ان تمام کا اجرو ثواب عطا فرمائے گا، کیوںکہ معتکف اللہ کے پیارے رسول ﷺ کی سنت مبارکہ ادا کررہا ہے جو درحقیقت اللہ تعالٰی کی ہی اطاعت وفرماںبرداری ہے۔
اعتکاف کی غرض وغایت، شب قدر کی تلاش
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرمﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا، پھر درمیانی عشرے میں بھی ترکی خیموں میں اعتکاف فرمایا۔ پھر خیمے سے سرِاقدس نکال کر ارشاد فرمایا کہ: میں نے پہلے عشرے میں شب قدرکی تلاش میں اعتکاف کیا تھا پھر میں نے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا، پھر میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور مجھ سے کہا کہ شب قدر آخری عشرے میں ہے، پس جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرتا تھا تو اسے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کرنا چاہیے۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اس اعتکاف کی سب سے بڑی غرض وغایت شبِ قدر کی تلاش وجستجو ہے اور درحقیقت اعتکاف ہی اس کی تلاش اور اس کو پانے کے لیے بہت مناسب ہے، کیوںکہ حالت اعتکاف میں اگر آدمی سویا ہوا بھی ہو تب بھی وہ عبادت وبندگی میں شمار ہوتا ہے۔ نیز اعتکاف میں چوںکہ عبادت وریاضت اور ذکروفکر کے علاوہ اور کوئی کام نہیں رہے گا، لہٰذا شب قدر کے قدردانوں کے لیے اعتکاف ہی سب سے بہترین صورت ہے۔ حضور سیدعالمﷺ کا معمول بھی چوںکہ آخری عشرے ہی کے اعتکاف کارہا ہے، اس لیے علمائے کرام کے نزدیک آخری عشرہ کا اعتکاف ہی سنت موکدہ ہے۔
اعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔
اول.... اعتکاف ِ واجب
دوم.... اعتکاف ِ سنت
سوم.... اعتکافِ مستحب
1۔اعتکاف ِ واجب
اعتکاف واجب یہ ہے کہ کسی نے نذر مانی کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو میں اتنے دن کا اعتکاف کروں گا اور اس کاوہ کام ہوگیا تو یہ اعتکاف کرنا اور اس کا پورا کرنا واجب ہے۔ ادائی نہیں کی تو گناہ گار ہوگا۔ واضح رہے کہ اس اعتکاف کے لیے روزہ بھی شرط ہے، بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہیں ہوگا۔
2۔اعتکاف سنت
اعتکاف ِسنت رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کیا جاتا ہے یعنی بیسویں رمضان کو سورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد (جائے اعتکاف) میں داخل ہوجائے اور تیسویں رمضان کو سورج غروب ہوجانے کے بعد یا انتیسویں (29ویں) رمضان کو عیدالفطر کا چاند ہوجانے کے بعد مسجد (جائے اعتکاف) سے نکلے.... واضح رہے کہ یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی اگر محلے کے سب لوگ چھوڑدیں گے تو سب تارکِ سنت ہوں گے اور اگر کسی ایک نے بھی کرلیا تو سب بری ہوجائیں گے۔ اس اعتکاف کے لیے بھی روزہ شرط ہے، مگر وہی رمضان المبارک کے روزے کافی ہیں۔
3۔اعتکافِ مستحب
اعتکاف ِمستحب یہ ہے کہ جب کبھی دن یارات میں مسجد میں داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرلے۔ جتنی دیر مسجد میں رہے گا اعتکاف کا ثواب پائے گا۔ یہ اعتکاف تھوڑی دیر کا بھی ہوسکتا ہے اور اس میں روزہ بھی شرط نہیں ہے، جب مسجد سے باہر نکلے گا تو اعتکافِ مستحب خود بہ خود ختم ہوجائے گا۔
اعتکاف کی نیت
نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کرلیا کہ میں سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں تو یہی کافی ہے۔ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بہتر ہے۔ اپنی مادری زبان میں بھی نیت ہوسکتی ہے۔ اگر عربی زبان میں نیت آتی ہو تو بہتر و مناسب ہے۔
اعتکاف کی نیت عربی میں یہ ہے۔
نویت سنت الاعتکاف للہ تعالٰی
ترجمہ: میں نے اللہ تعالی کی رضا کے لیے سنت اعتکاف کی نیت کی۔
مسئلہ: مسجد کے اندر کھانے، پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہوتی، مگر اعتکاف کی نیت کرنے کے بعد اب ضمناً کھانے، پینے اور سونے کی بھی اجازت ہوجاتی ہے، لہٰذا معتکف دن رات مسجد میں ہی رہے، وہیں کھائے، پیے اور سوئے اور اگر ان کاموں کے لیے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: اعتکاف کے لیے تمام مساجد سے افضل مسجد حرام ہے۔ پھر مسجد نبوی شریف، پھر مسجد اقصٰی (بیت المقدس) پھر ایسی جامع مسجد جس میں پانچ وقت باجماعت نماز ادا کی جاتی ہو۔ اگر جامع مسجد میں جماعت نہ ہوتی ہو تو پھر اپنے محلہ کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔
مسئلہ: اعتکاف کا اہم ترین رکن یہ ہے کہ آپ اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود ہی میں رہیں اور حوائج ضروریہ کے سوا ایک لمحہ کے لیے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلیں، کیوںکہ ایک لمحہ کے لیے بھی شرعی اجازت کے بغیر حدود مسجد سے باہر چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
مسئلہ: کسی شرعی عذر کے بغیر مسجد سے باہر نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ بول وبراز کے لیے اور نمازِ جمعہ کے لیے جانا شرعی عذر ہے....وضو کے لیے اور غسل جنابت کے لیے جانا بھی عذرشرعی ہے .... کھانے پینے اور سونے کے لیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی مریض کی عیادت کے لیے یانمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے مسجد سے باہر گیا تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
اعتکاف کی قضاء
فقیہ الامت علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمتہ (متوفی1252ھ) لکھتے ہیں کہ: رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف ہرچندکہ نفل (سنت موکدہ) ہے، لیکن شروع کرنے سے لازم ہوجاتا ہے۔ اگر کسی شخص نے ایک دن کا اعتکاف فاسد کردیا تو امام ابویوسف کے نزدیک اس پر پورے دس کی قضالازم ہے، جب کہ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام محمدبن حسن شیبانی رحمۃاللہ علیہما کے نزدیک اس پر صرف اسی ایک دن کی قضا لازم ہے۔
اعتکاف کی قضا صرف قصداً اور جان بوجھ کر ہی توڑنے سے نہیں بلکہ اگر کسی عذر کی وجہ سے اعتکاف چھوڑ دیا مثلاً عورت کو حیض یانفاس آگیا یا کسی پر جنون و بے ہوشی طویل طاری ہوگئی ہو تو اس پر بھی قضا لازم ہے اور اگر اعتکاف میں کچھ دن فوت ہوں تو تمام کی قضا کی حاجت نہیں بلکہ صرف اتنے دنوں کی قضا کرے، اور اگرکُل دن فوت ہوں تو پھرکُل کی قضا لازم ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالٰی معتکفین کے اعتکاف کو قبول فرمائے اور سنت کے مطابق اعتکاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)
حضرت محمدمصطفیﷺ نے تقرب الی اللہ کے لیے رہبانیت کو ترک کر کے اپنی امت کے لیے اعلٰی ترین اور آسان ترین طریقہ عطا فرمایا، جو ظاہری خلوت کی بجائے باطنی خلوت کے تصور پر مبنی ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لیے دنیا کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دینا اصل کمال ہے۔ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ اعتکاف ہے ۔
اعتکاف لغوی اعتبار سے ٹھہرنے کو کہتے ہیں، جب کہ اصطلاحِ شریعت میں اعتکاف کا معنی ہے: مسجد میں اور روزے کے ساتھ رہنا، جماع کو بالکل ترک کرنا اور اللہ تعالٰی سے تقرب اور اجروثواب کی نیت کرنا اور جب تک یہ معانی نہیں پائے جائیں گے تو شرعاً اعتکاف نہیں ہوگا، لیکن مسجد میں رہنے کی شرط صرف مردوں کے اعتبارسے ہے۔
عورتوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے بلکہ خواتین اپنے گھر میں نماز کی مخصوص جگہ کو یا کسی الگ کمرے کو مخصوص کرکے وہاں اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہیں۔ ہر مسجد میں اعتکاف ہوسکتا ہے، البتہ بعض علما نے اعتکاف کے لیے جامع مسجد کی شرط لگائی ہے۔ (احکام القرآن: جلد 1 صفحہ 242)
اعتکاف کی تاریخ
اعتکاف کی تاریخ بھی روزوں کی تاریخ کی طرح بہت قدیم ہے۔ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس کا ذکر بھی یوں بیان ہوا ہے۔ ارشادِخداوندی ہے:
ترجمہ: اور ہم نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کو تاکید کی کہ میرا گھر طواف کرنے والوں کے لیے، اعتکاف کرنے والوں کے لیے اور رکوع کرنے والوں کے لیے خوب صاف ستھرا رکھیں۔ (سور البقرہ: آیت نمبر125)
یعنی اس وقت کی بات ہے جب جدالانبیاحضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کعبۃ اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تھے یعنی اس زمانے میں اللہ تعالٰی کی رضا کے لیے اعتکاف کیاجاتا تھا۔
اعتکاف کی فضیلت واہمیت
حضوراکرم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ اعتکاف کیا ہے اور اس کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ چناںچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بے شک حضور نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، یہاں تک کہ آپﷺ خالق حقیقی سے جاملے۔ پھر آپﷺ کی ازواجِ مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
تین خندقیں
رسول اللہﷺ نے ایک دن کے اعتکاف کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالٰی کی خوش نودی کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرے گا، اللہ تعالٰی اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کردے گا جن کی مسافت آسمان و زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی۔ (کنزالعمال)
ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص خالص نیت سے بغیر ریا اور بلاخواہش شہرت ایک دن اعتکاف بجا لائے گا، اس کو ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب ملے گا اور اس کے اور دوزخ کے درمیان فاصلہ پانچ سو برس کی راہ ہوگا (تذکرۃ الواعظین)
تین سو شہیدوں کا ثواب
رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص خالصتاً رمضان شریف میں ایک دن اور ایک رات اعتکاف کرے تو اس کو تین سو شہیدوں کا ثواب ملے گا (تذکرۃالواعظین)
سبحان اللہ چند گھنٹوں کے اعتکاف کی اس قدر فضیلت ہے تو جو رمضان شریف میں پورے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ہیں ان کی شان کیا ہوگی۔
دو حج اور دوعمروں کا ثواب
حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: جس شخص نے رمضان المبارک میں آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا تو گویا کہ اس نے دو حج اور دو عمرے ادا کیے ہوں۔ (شعب الایمان)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معتکف (اعتکاف کرنے والے) کے بارے میں فرمایا کہ: وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیاں اس کے واسطے جاری کردی جاتی ہیں، اس شخص کی طرح جو یہ تمام نیکیاں کرتا ہو۔ (سنن ابن ماجہ، مشکوٰۃ)
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ معتکف یعنی اعتکاف کرنے والا، اعتکاف کی حالت میں بہت سی برائیوں اور گناہوں....مثلاً غیبت، چغلی، بری بات کرنے، سننے اور دیکھنے سے خودبہ خود محفوظ ہوجاتا ہے، ہاں البتہ اب وہ اعتکاف کی وجہ سے کچھ نیکیاں نہیں کرسکتا، مثلاً نمازِجنازہ کی ادائی، بیمار کی عیادت ومزاج پرسی اور ماں باپ واہل وعیال کی دیکھ بھال وغیرہ۔ اگرچہ وہ ان نیکیوں کو انجام نہیں دے سکتا لیکن اللہ تعالٰی اسے یہ نیکیاں کیے بغیر ہی ان تمام کا اجرو ثواب عطا فرمائے گا، کیوںکہ معتکف اللہ کے پیارے رسول ﷺ کی سنت مبارکہ ادا کررہا ہے جو درحقیقت اللہ تعالٰی کی ہی اطاعت وفرماںبرداری ہے۔
اعتکاف کی غرض وغایت، شب قدر کی تلاش
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرمﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا، پھر درمیانی عشرے میں بھی ترکی خیموں میں اعتکاف فرمایا۔ پھر خیمے سے سرِاقدس نکال کر ارشاد فرمایا کہ: میں نے پہلے عشرے میں شب قدرکی تلاش میں اعتکاف کیا تھا پھر میں نے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا، پھر میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور مجھ سے کہا کہ شب قدر آخری عشرے میں ہے، پس جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرتا تھا تو اسے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کرنا چاہیے۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اس اعتکاف کی سب سے بڑی غرض وغایت شبِ قدر کی تلاش وجستجو ہے اور درحقیقت اعتکاف ہی اس کی تلاش اور اس کو پانے کے لیے بہت مناسب ہے، کیوںکہ حالت اعتکاف میں اگر آدمی سویا ہوا بھی ہو تب بھی وہ عبادت وبندگی میں شمار ہوتا ہے۔ نیز اعتکاف میں چوںکہ عبادت وریاضت اور ذکروفکر کے علاوہ اور کوئی کام نہیں رہے گا، لہٰذا شب قدر کے قدردانوں کے لیے اعتکاف ہی سب سے بہترین صورت ہے۔ حضور سیدعالمﷺ کا معمول بھی چوںکہ آخری عشرے ہی کے اعتکاف کارہا ہے، اس لیے علمائے کرام کے نزدیک آخری عشرہ کا اعتکاف ہی سنت موکدہ ہے۔
اعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔
اول.... اعتکاف ِ واجب
دوم.... اعتکاف ِ سنت
سوم.... اعتکافِ مستحب
1۔اعتکاف ِ واجب
اعتکاف واجب یہ ہے کہ کسی نے نذر مانی کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو میں اتنے دن کا اعتکاف کروں گا اور اس کاوہ کام ہوگیا تو یہ اعتکاف کرنا اور اس کا پورا کرنا واجب ہے۔ ادائی نہیں کی تو گناہ گار ہوگا۔ واضح رہے کہ اس اعتکاف کے لیے روزہ بھی شرط ہے، بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہیں ہوگا۔
2۔اعتکاف سنت
اعتکاف ِسنت رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کیا جاتا ہے یعنی بیسویں رمضان کو سورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد (جائے اعتکاف) میں داخل ہوجائے اور تیسویں رمضان کو سورج غروب ہوجانے کے بعد یا انتیسویں (29ویں) رمضان کو عیدالفطر کا چاند ہوجانے کے بعد مسجد (جائے اعتکاف) سے نکلے.... واضح رہے کہ یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی اگر محلے کے سب لوگ چھوڑدیں گے تو سب تارکِ سنت ہوں گے اور اگر کسی ایک نے بھی کرلیا تو سب بری ہوجائیں گے۔ اس اعتکاف کے لیے بھی روزہ شرط ہے، مگر وہی رمضان المبارک کے روزے کافی ہیں۔
3۔اعتکافِ مستحب
اعتکاف ِمستحب یہ ہے کہ جب کبھی دن یارات میں مسجد میں داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرلے۔ جتنی دیر مسجد میں رہے گا اعتکاف کا ثواب پائے گا۔ یہ اعتکاف تھوڑی دیر کا بھی ہوسکتا ہے اور اس میں روزہ بھی شرط نہیں ہے، جب مسجد سے باہر نکلے گا تو اعتکافِ مستحب خود بہ خود ختم ہوجائے گا۔
اعتکاف کی نیت
نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کرلیا کہ میں سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں تو یہی کافی ہے۔ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بہتر ہے۔ اپنی مادری زبان میں بھی نیت ہوسکتی ہے۔ اگر عربی زبان میں نیت آتی ہو تو بہتر و مناسب ہے۔
اعتکاف کی نیت عربی میں یہ ہے۔
نویت سنت الاعتکاف للہ تعالٰی
ترجمہ: میں نے اللہ تعالی کی رضا کے لیے سنت اعتکاف کی نیت کی۔
مسئلہ: مسجد کے اندر کھانے، پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہوتی، مگر اعتکاف کی نیت کرنے کے بعد اب ضمناً کھانے، پینے اور سونے کی بھی اجازت ہوجاتی ہے، لہٰذا معتکف دن رات مسجد میں ہی رہے، وہیں کھائے، پیے اور سوئے اور اگر ان کاموں کے لیے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: اعتکاف کے لیے تمام مساجد سے افضل مسجد حرام ہے۔ پھر مسجد نبوی شریف، پھر مسجد اقصٰی (بیت المقدس) پھر ایسی جامع مسجد جس میں پانچ وقت باجماعت نماز ادا کی جاتی ہو۔ اگر جامع مسجد میں جماعت نہ ہوتی ہو تو پھر اپنے محلہ کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔
مسئلہ: اعتکاف کا اہم ترین رکن یہ ہے کہ آپ اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود ہی میں رہیں اور حوائج ضروریہ کے سوا ایک لمحہ کے لیے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلیں، کیوںکہ ایک لمحہ کے لیے بھی شرعی اجازت کے بغیر حدود مسجد سے باہر چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
مسئلہ: کسی شرعی عذر کے بغیر مسجد سے باہر نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ بول وبراز کے لیے اور نمازِ جمعہ کے لیے جانا شرعی عذر ہے....وضو کے لیے اور غسل جنابت کے لیے جانا بھی عذرشرعی ہے .... کھانے پینے اور سونے کے لیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی مریض کی عیادت کے لیے یانمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے مسجد سے باہر گیا تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
اعتکاف کی قضاء
فقیہ الامت علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمتہ (متوفی1252ھ) لکھتے ہیں کہ: رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف ہرچندکہ نفل (سنت موکدہ) ہے، لیکن شروع کرنے سے لازم ہوجاتا ہے۔ اگر کسی شخص نے ایک دن کا اعتکاف فاسد کردیا تو امام ابویوسف کے نزدیک اس پر پورے دس کی قضالازم ہے، جب کہ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام محمدبن حسن شیبانی رحمۃاللہ علیہما کے نزدیک اس پر صرف اسی ایک دن کی قضا لازم ہے۔
اعتکاف کی قضا صرف قصداً اور جان بوجھ کر ہی توڑنے سے نہیں بلکہ اگر کسی عذر کی وجہ سے اعتکاف چھوڑ دیا مثلاً عورت کو حیض یانفاس آگیا یا کسی پر جنون و بے ہوشی طویل طاری ہوگئی ہو تو اس پر بھی قضا لازم ہے اور اگر اعتکاف میں کچھ دن فوت ہوں تو تمام کی قضا کی حاجت نہیں بلکہ صرف اتنے دنوں کی قضا کرے، اور اگرکُل دن فوت ہوں تو پھرکُل کی قضا لازم ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالٰی معتکفین کے اعتکاف کو قبول فرمائے اور سنت کے مطابق اعتکاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)