سحری کی فضیلت
روزہ صبح صادق کے بعد شروع ہوتا ہے اور اس حدیث پاک میں روزے کے افتتاحی طعام کو سحری فرمایا گیا ہے
حضرت انسؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے ارشاد فرمایا ''سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔'' حدیث پاک میں رمضان المبارک کی مقدس عبادت روزے میں اختیار کی جانیوالی ایک خاص غذا کی برکت کا ذکر فرمایا گیا ہے اس طرز طعام کا نام سحری ہے، یہ لفظ سحر سے ہے یعنی صبح کا وقت اور سحری سے وہ کھانا مراد ہے کہ جو روزہ دار نصف رات کے بعد اٹھ کر طلوع صبح صادق سے پہلے کھاتے ہیں۔
روزے کے شروع کرنے کا وقت صبح صادق ہے یعنی طلوع فجر کی وہ علامت جو آسمان کے مشرق میں اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ افق پر سفیدی کی دھاری رات کی سیاہی سے جدا ہو جاتی ہے، یہی صبح صادق ہے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ سفیدی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ آفتاب طلوع ہو جاتا ہے۔ روزے کے آغاز کا جو وقت قرآن کریم نے متعین فرمایا ہے اس کی یہی علامت مقر ر فرمائی ہے لہٰذا صبح صادق سے پہلے تک کھایا پیا جا سکتا ہے ۔
روزہ صبح صادق کے بعد شروع ہوتا ہے اور اس حدیث پاک میں روزے کے افتتاحی طعام کو سحری فرمایا گیا ہے اور امت کو اس کی برکت سے نوازا گیا ہے۔ یہ کھانا جہاں ایک طرف روزے دار کو روزے کی ادائیگی میں ایک طرح کی توانائی اور تقویت عطا کرتا ہے اور روزے کی شدت اور سختی کو کسی حد تک کم کر کے ایک طرح کا تعاون عطا کرتا ہے وہیں یہ عمل اور بھی بہت سارے فوائد رکھتا ہے۔
اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ سحری کا تعین چونکہ رسول اللہ ﷺ نے کیا اور رسول اللہﷺ کی اتباع ہی دین ہے اس طرح یہ کھانا بھی ایک طرح کی عبادت ہے جب ہم سحری کھاتے ہیں تو اسے سنت سمجھ کر کھاتے ہیں اللہ تعالی کی بارگارہ میں مقبولیت کا معیار نیت کی سلامتی اور رضا الٰہی کے حصول کی پاکیزگی ہے ۔
حدیث پاک میں سحری کی بہت تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا (سحری میں برکت ہے اور اس کو ہر گز نہ چھوڑو) اگر کچھ نہ ہو تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا کرو کیونکہ سحر میں کھانے پینے والوں پر اللہ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے اس کے لیے دعا ئے خیر کرتے ہیں۔ دیکھئے سحری کھانے کا جو اجر ثواب یہاں بیان ہوا ہے اس میں برکت اور رحمت کا ذکر ہے اور اس بات کا اظہار بھی ہے کہ یہ اللہ کی رحمت کا باعث اور فرشتوں کی دعاوں کا محرک بھی ہے لہذا سحری کا اہتمام ضرور کیا جائے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس شخص کی آنکھ اتنی دیر سے کھلی کہ فجر کی اذان ہو رہی تھی یا اس کے بھی کچھ دیر بعد کھلی تو اُس کے لئے جلدی جلدی سحری کھا لینا جائز ہے، یہ ان لوگوں کی غلط فہمی ہے، اس لئے کہ سحری کا وقت صبح صادق سے پہلے ہے صبح صادق کے بعد سحری کھانا جائز نہیں خواہ اذان ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو (معارف القرآن)۔ بعض لوگ آدھی رات سے سحری کھا کر بیٹھ جاتے ہیں، اتنی جلدی سحری کھانا شریعت کے منشاء اور سحری کے مقاصد کیخلاف ہے، کوئی معذوری اور مجبوری ہو تو علیحدہ بات ہے ۔
جب صبح صادق کا وقت قریب ہو تو اس وقت سحری کھانی چاہیے اور صبح صادق سے پہلے ہی سحری سے اطمینان کے ساتھ فارغ ہو جانا چاہیے۔ (شرح البدایہ و ردالمحتار) بعض لوگ سحری کھانے کے لئے اُٹھتے تو ہیں مگر فجر کی نماز پڑھے بغیرسحری کھا کر سو جاتے ہیں، اس طرح رمضان میں بھی اُن کی فجر کی نماز قضاء ہو جاتی ہے۔ یاد رکھیئے! اس طرح سحری کی سنت ادا کر کے فجر کے فرضوں کو قضا کرنا جائز نہیں (ماہ ِ رمضان کے فضائل و احکام)، امت کی بہتری سحری کے عمل میں ہے ۔ ارشاد نبوی ﷺ:'' جب تک لوگ افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کریں گے تو وہ خیر اور بھلائی پر رہیں گے (صحیح مسلم: باب فضل السحور) حضرت عبد اللہ بن حارث ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا: میں سرکارِ دو عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ، اور آپ ﷺ سحری تناول فرما رہے تھے ۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : یہ اللہ کی دی ہوئی برکت ہے ، تم اسے ترک نہ کیا کرو'' (سنن النسائی)۔ حضرت ابوہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: مومن کی بہترین سحری کھجور ہے۔ (سنن ابی داوؤد/ حدیث2342) پس ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی سحری میں بھی کھجور شامل کریں ، صرف افطاری کے لیے خاص نہ سمجھا جائے۔ ایک حدیث میں ہے: بیشک اللہ تعالیٰ سحری کرنے والوں پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے ان کیلئے رحمت کی دعا کرتے ہیں (مسنداحمد) حضرت ابوسعیدؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سحری کرنا سراپا برکت ہے۔
لہٰذا اسے نہ چھوڑو، اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ کے ذریعے ہی ہو ۔ اللہ اور فرشتے سحری کھانے والوں کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں'' (مسند، امام احمد بن حنبل) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں اور اس کے فرشتے ان کیلئے دعا کرتے ہیں ۔
مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ سحری کھانی چاہیے بعض لوگ سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس کی فضیلت سے محروم ہو جاتے ہیں جبکہ بعض لوگ رات ہی کو اس لیے کھانا کھا لیتے ہیں تاکہ صبح سحری کے وقت میں اٹھنا نہ پڑے (موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان، رقم الحدیث:880) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، جب پوچھا گیا کہ سحری ختم ہونے اور نماز پڑھنے کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟تو انہوں نے بیان فرمایا: پچاس آیات پڑھنے کی مقدار (صحیح مسلم: کتاب الصیام باب فضل السحور وتاکید) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس دو مؤذن تھے۔
ایک کا نام بلالؓ اور دوسرے کا نام ابن ام مکتومؓ تھا (ابن ام مکتوم نابینا تھے) پس رسول اللہ نے فرمایا کہ بلالؓ رات باقی رہتی ہے تو اذان دیتے ہیں جب تک ابن ام مکتوم ؓ اذان نہ دیں تو تم کھاؤ پیو ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ان دونوں اذانوں کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہوتا تھا کہ یہ بلال رضی اللہ عنہ اذان دے کر اترتے اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دینے کیلئے چڑھتے ۔ حدیث میں آتا ہے رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ ''سحری'' کھا کر روزہ پر قوت حاصل کیا کرو! اور دوپہر کو سو کر (قیلولہ کر کے) اخیر شب میں (تہجد وغیرہ کے لئے) اٹھنے پر مدد چاہا کرو!۔''حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ایک مرتبہ ''سحری'' کے وقت مجھ سے ارشاد فرمایا: ''انسؓ! روزہ رکھنا چاہتا ہوں ، کچھ کھانے پینے کے لئے ہے تو لے آؤ! حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ''میں کھجور اور ایک پانی کا برتن لے کر حاضر خدمت ہوا'' (سنن نسائی) نبی کریم ؐ جب کسی صحابی کو اپنے ساتھ ''سحری'' کھانے کے لئے بلاتے تو ارشاد فرماتے کہ ''آؤ! برکت کا کھانا کھا لو!۔ حضرت عبد اللہ بن حارثؓ ایک صحابیؓ سے نقل کرتے ہیں کہ میں حضور اقدسؐ کی خدمت میں ایسے وقت میں حاضر ہوا کہ آپؐ ''سحری'' نوش فرما رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ: ''یہ ایک برکت کی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم کو عطاء فرمائی ہے۔
اس لئے اس کو مت چھوڑنا!۔ بلکہ ایک اور جگہ تو یہاں تک ارشاد ہے کہ اور کچھ نہ ہو تو ایک چھوہارہ ہی کھا لیاکرو! یا ایک گھونٹ پانی ہی پی لیا کرو! چنانچہ مسند احمد میں حضرت ابو سعیدؓ سے مروی ہے کہ ''سحری'' ساری کی ساری برکت کی چیز ہے۔
لہٰذا اسے (کسی بھی صورت میں) نہ چھوڑنا چاہیے اگرچہ ایک گھونٹ پانی پی کر ہی کیوں نہ ہو (مسند احمد) لیکن علامہ ابن نجیم حنفیؒ نے لکھا ہے کہ ''محدثین کے کلام میں ا یسی کوئی تصریح میری نظر سے نہیں گزری کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ محض پانی کا ایک گھونٹ پی لینے سے ''سحری'' کی سنت کا ثواب حاصل ہو جاتا ہو، البتہ ظاہر حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے'' (البحر الرائق شرح کنز الدقائق) ایک حدیث میں آتا ہیٗ حضورِ اقدس ؐ کا ارشاد ہے کہ تین چیزیں رسولوں کے اخلاق میں سے ہیں (۱) افطاری میں جلدی کرنا (۲) سحری میں تاخیر کرنا (۳) اور نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا'' ( مراقی الفلاح علیٰ حاشیۃ الطحطاوی شرح نور الایضاح) بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس شخص کی آنکھ اتنی دیر سے کھلی کہ فجر کی اذان ہو رہی تھی یا اس کے بھی کچھ دیر بعد کھلی تو اُس کے لئے جلدی جلدی ''سحری'' کھا لینا جائز ہے ٗ یہ ان لوگوں کی غلط فہمی ہے، اس لئے کہ ''سحری'' کا وقت صبح صادق سے پہلے ہے۔
صبح صادق کے بعد ''سحری'' کھانا جائز نہیں خواہ اذان ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ۔ (معارفُ القرآن) سحری کھانا سنت ہے اور اس میں برکت بھی ہے کیونکہ سحری کھانے سے انسان کو توانائی اور طاقت وقوت ملتی ہے اور اس کا بہترین وقت فجر کی اذان سے پندرہ یا بیسں منٹ قبل ہوتا ہے۔ اور اس وقت سحری کھانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان فجر کی نماز باجماعت ادا کر لیتا ہے۔ اور سحری کے لئے ضروری نہیں ہے کہ مختلف قسم کے پکوان ہوں یا بہت ساری چیزیں ہوں تبھی سحری مانی جائے گی بلکہ اگر آدمی کی طبیعت کچھ کھانے کو نہیں چاہتی ہے تو کم از کم کھجور یا چند گھونٹ پانی وغیرہ سحری کی نیت سے کھا پی لے تو سحری ہو جائے گی، یہ تہجد، استغفار اور دعا کا وقت ہوتا ہے۔
اس لیے سحری کا مطلب یہ نہیں کہ سارا وقت کھانے میں ہی گزار دیا جائے بلکہ تہجد، دعا و استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بعض لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ سحری میں بہت زیادہ کھانا کھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے دن بھر کھٹی ڈکاریں، معدے کی جلن اور تیزابیت کا شکار رہتے ہیں، سحری کھائیں لیکن مناسب مقدار میں کھائیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سحری نہ کی تو روزہ نہیں ہو گا اس لیے جب کبھی سحری نہ کریں تو روزہ ہی چھوڑ دیتے ہیں یہ درست نہیں ۔
روزہ کے لیے سحری کھانا مستحب اور پسندیدہ چیز ہے، شرط نہیں کہ اس کے بغیر روزہ ہی نہ ہو۔ اس لیے محض سحری کے چھوٹ جانے کی وجہ سے روزہ چھوڑنا شرعاً غلط ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک فجر کی اذان نہ ہو سحری کی جا سکتی ہے۔ یہ بات سراسر غلط ہے ختم سحری کے اعلان کے وقت ہی سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد کھانا پینا غلط ہے۔ بعض لوگ سحری کھاتے ہی سو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نماز فجر قضا ہو جاتی ہے یہ بھی غلط ہے۔ سحری کے بعد تلاوت، ذکراللہ، درود پاک، استغفار، دعا ومناجات وغیرہ کریں ۔
چل کر مسجد پہنچیں وہاں نماز فجر باجماعت ادا کریں۔ پھر ایک اور حکمت جو سحر ی میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ روزہ ضبط نفس کی ایک تربیت ہے اور اس تربیت میں سحری کھانا بھی اپنی جگہ ایک خاص حصہ ادا کرتا ہے بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ آدمی پر اس وقت نیند غالب ہوتی ہے اور وہ بھوک پیاس برداشت کر لیتا ہے مگر نیند سے دستبردار ہونا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ روزے قمری کلینڈر سے وابستہ ہیں لہٰذا یہ سال کے سال گردش کرتے رہتے ہیں کبھی گرمی میں کبھی سردی میں روزے ایسے دنوں میں بھی ہوتے ہیں کہ جب بھوک کوئی بہت بڑی تکلیف کا سبب نہیں ہوتی بلکہ رات کو گرم بستر چھوڑ کر اٹھنا نفس پر بھاری ہوتا ہے۔
لہٰذا ایسی حالت میں اس حکم پر عمل کہ سحری کو ہر گز نہ چھوڑو بھوک نہ ہو تب بھی اٹھو ایک گھونٹ پانی پی لو، ایک بہت بڑا جہاد نفس ہے اور سنت پر عمل آدمی کے لیے ضبط نفس کا ایک بڑا ہی حکیمانہ طریقہ ہے اور اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ روزہ صرف ایک عبادت ہی نہیں بلکہ بہت سی عبادتوں کا مجموعہ ہے جس میں کبھی رات کی نیند چھوڑ کر قیام تروایح ضروری ہے تو کبھی سحری کھانے کے لیے اٹھنا بندگی ہے اور کبھی دن میں بھوک و پیاس عبادت ہے پھر افطار کے ٹھیک وقت پر روزہ کھولنا عبادت ہے۔ سحری بلاشبہ اہم اور ایک بابرکت اور عالی شان عمل ہے۔
روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزے میں کام کی زیادہ رغبت پیدا ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں سحری کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ بھی ہے کیونکہ یہ وقت ذکر اور دعا کا ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دعا اور استغفار کی قبولیت کاباعث بنتا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں ماہ رمضان کے فیوض و برکات سے مستفیذ ہو نے کی توفیق نصیب فرمائے۔
روزے کے شروع کرنے کا وقت صبح صادق ہے یعنی طلوع فجر کی وہ علامت جو آسمان کے مشرق میں اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ افق پر سفیدی کی دھاری رات کی سیاہی سے جدا ہو جاتی ہے، یہی صبح صادق ہے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ سفیدی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ آفتاب طلوع ہو جاتا ہے۔ روزے کے آغاز کا جو وقت قرآن کریم نے متعین فرمایا ہے اس کی یہی علامت مقر ر فرمائی ہے لہٰذا صبح صادق سے پہلے تک کھایا پیا جا سکتا ہے ۔
روزہ صبح صادق کے بعد شروع ہوتا ہے اور اس حدیث پاک میں روزے کے افتتاحی طعام کو سحری فرمایا گیا ہے اور امت کو اس کی برکت سے نوازا گیا ہے۔ یہ کھانا جہاں ایک طرف روزے دار کو روزے کی ادائیگی میں ایک طرح کی توانائی اور تقویت عطا کرتا ہے اور روزے کی شدت اور سختی کو کسی حد تک کم کر کے ایک طرح کا تعاون عطا کرتا ہے وہیں یہ عمل اور بھی بہت سارے فوائد رکھتا ہے۔
اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ سحری کا تعین چونکہ رسول اللہ ﷺ نے کیا اور رسول اللہﷺ کی اتباع ہی دین ہے اس طرح یہ کھانا بھی ایک طرح کی عبادت ہے جب ہم سحری کھاتے ہیں تو اسے سنت سمجھ کر کھاتے ہیں اللہ تعالی کی بارگارہ میں مقبولیت کا معیار نیت کی سلامتی اور رضا الٰہی کے حصول کی پاکیزگی ہے ۔
حدیث پاک میں سحری کی بہت تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا (سحری میں برکت ہے اور اس کو ہر گز نہ چھوڑو) اگر کچھ نہ ہو تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا کرو کیونکہ سحر میں کھانے پینے والوں پر اللہ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے اس کے لیے دعا ئے خیر کرتے ہیں۔ دیکھئے سحری کھانے کا جو اجر ثواب یہاں بیان ہوا ہے اس میں برکت اور رحمت کا ذکر ہے اور اس بات کا اظہار بھی ہے کہ یہ اللہ کی رحمت کا باعث اور فرشتوں کی دعاوں کا محرک بھی ہے لہذا سحری کا اہتمام ضرور کیا جائے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس شخص کی آنکھ اتنی دیر سے کھلی کہ فجر کی اذان ہو رہی تھی یا اس کے بھی کچھ دیر بعد کھلی تو اُس کے لئے جلدی جلدی سحری کھا لینا جائز ہے، یہ ان لوگوں کی غلط فہمی ہے، اس لئے کہ سحری کا وقت صبح صادق سے پہلے ہے صبح صادق کے بعد سحری کھانا جائز نہیں خواہ اذان ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو (معارف القرآن)۔ بعض لوگ آدھی رات سے سحری کھا کر بیٹھ جاتے ہیں، اتنی جلدی سحری کھانا شریعت کے منشاء اور سحری کے مقاصد کیخلاف ہے، کوئی معذوری اور مجبوری ہو تو علیحدہ بات ہے ۔
جب صبح صادق کا وقت قریب ہو تو اس وقت سحری کھانی چاہیے اور صبح صادق سے پہلے ہی سحری سے اطمینان کے ساتھ فارغ ہو جانا چاہیے۔ (شرح البدایہ و ردالمحتار) بعض لوگ سحری کھانے کے لئے اُٹھتے تو ہیں مگر فجر کی نماز پڑھے بغیرسحری کھا کر سو جاتے ہیں، اس طرح رمضان میں بھی اُن کی فجر کی نماز قضاء ہو جاتی ہے۔ یاد رکھیئے! اس طرح سحری کی سنت ادا کر کے فجر کے فرضوں کو قضا کرنا جائز نہیں (ماہ ِ رمضان کے فضائل و احکام)، امت کی بہتری سحری کے عمل میں ہے ۔ ارشاد نبوی ﷺ:'' جب تک لوگ افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کریں گے تو وہ خیر اور بھلائی پر رہیں گے (صحیح مسلم: باب فضل السحور) حضرت عبد اللہ بن حارث ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا: میں سرکارِ دو عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ، اور آپ ﷺ سحری تناول فرما رہے تھے ۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : یہ اللہ کی دی ہوئی برکت ہے ، تم اسے ترک نہ کیا کرو'' (سنن النسائی)۔ حضرت ابوہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: مومن کی بہترین سحری کھجور ہے۔ (سنن ابی داوؤد/ حدیث2342) پس ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی سحری میں بھی کھجور شامل کریں ، صرف افطاری کے لیے خاص نہ سمجھا جائے۔ ایک حدیث میں ہے: بیشک اللہ تعالیٰ سحری کرنے والوں پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے ان کیلئے رحمت کی دعا کرتے ہیں (مسنداحمد) حضرت ابوسعیدؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سحری کرنا سراپا برکت ہے۔
لہٰذا اسے نہ چھوڑو، اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ کے ذریعے ہی ہو ۔ اللہ اور فرشتے سحری کھانے والوں کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں'' (مسند، امام احمد بن حنبل) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں اور اس کے فرشتے ان کیلئے دعا کرتے ہیں ۔
مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ سحری کھانی چاہیے بعض لوگ سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس کی فضیلت سے محروم ہو جاتے ہیں جبکہ بعض لوگ رات ہی کو اس لیے کھانا کھا لیتے ہیں تاکہ صبح سحری کے وقت میں اٹھنا نہ پڑے (موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان، رقم الحدیث:880) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، جب پوچھا گیا کہ سحری ختم ہونے اور نماز پڑھنے کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟تو انہوں نے بیان فرمایا: پچاس آیات پڑھنے کی مقدار (صحیح مسلم: کتاب الصیام باب فضل السحور وتاکید) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس دو مؤذن تھے۔
ایک کا نام بلالؓ اور دوسرے کا نام ابن ام مکتومؓ تھا (ابن ام مکتوم نابینا تھے) پس رسول اللہ نے فرمایا کہ بلالؓ رات باقی رہتی ہے تو اذان دیتے ہیں جب تک ابن ام مکتوم ؓ اذان نہ دیں تو تم کھاؤ پیو ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ان دونوں اذانوں کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہوتا تھا کہ یہ بلال رضی اللہ عنہ اذان دے کر اترتے اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دینے کیلئے چڑھتے ۔ حدیث میں آتا ہے رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ ''سحری'' کھا کر روزہ پر قوت حاصل کیا کرو! اور دوپہر کو سو کر (قیلولہ کر کے) اخیر شب میں (تہجد وغیرہ کے لئے) اٹھنے پر مدد چاہا کرو!۔''حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ایک مرتبہ ''سحری'' کے وقت مجھ سے ارشاد فرمایا: ''انسؓ! روزہ رکھنا چاہتا ہوں ، کچھ کھانے پینے کے لئے ہے تو لے آؤ! حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ''میں کھجور اور ایک پانی کا برتن لے کر حاضر خدمت ہوا'' (سنن نسائی) نبی کریم ؐ جب کسی صحابی کو اپنے ساتھ ''سحری'' کھانے کے لئے بلاتے تو ارشاد فرماتے کہ ''آؤ! برکت کا کھانا کھا لو!۔ حضرت عبد اللہ بن حارثؓ ایک صحابیؓ سے نقل کرتے ہیں کہ میں حضور اقدسؐ کی خدمت میں ایسے وقت میں حاضر ہوا کہ آپؐ ''سحری'' نوش فرما رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ: ''یہ ایک برکت کی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم کو عطاء فرمائی ہے۔
اس لئے اس کو مت چھوڑنا!۔ بلکہ ایک اور جگہ تو یہاں تک ارشاد ہے کہ اور کچھ نہ ہو تو ایک چھوہارہ ہی کھا لیاکرو! یا ایک گھونٹ پانی ہی پی لیا کرو! چنانچہ مسند احمد میں حضرت ابو سعیدؓ سے مروی ہے کہ ''سحری'' ساری کی ساری برکت کی چیز ہے۔
لہٰذا اسے (کسی بھی صورت میں) نہ چھوڑنا چاہیے اگرچہ ایک گھونٹ پانی پی کر ہی کیوں نہ ہو (مسند احمد) لیکن علامہ ابن نجیم حنفیؒ نے لکھا ہے کہ ''محدثین کے کلام میں ا یسی کوئی تصریح میری نظر سے نہیں گزری کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ محض پانی کا ایک گھونٹ پی لینے سے ''سحری'' کی سنت کا ثواب حاصل ہو جاتا ہو، البتہ ظاہر حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے'' (البحر الرائق شرح کنز الدقائق) ایک حدیث میں آتا ہیٗ حضورِ اقدس ؐ کا ارشاد ہے کہ تین چیزیں رسولوں کے اخلاق میں سے ہیں (۱) افطاری میں جلدی کرنا (۲) سحری میں تاخیر کرنا (۳) اور نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا'' ( مراقی الفلاح علیٰ حاشیۃ الطحطاوی شرح نور الایضاح) بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس شخص کی آنکھ اتنی دیر سے کھلی کہ فجر کی اذان ہو رہی تھی یا اس کے بھی کچھ دیر بعد کھلی تو اُس کے لئے جلدی جلدی ''سحری'' کھا لینا جائز ہے ٗ یہ ان لوگوں کی غلط فہمی ہے، اس لئے کہ ''سحری'' کا وقت صبح صادق سے پہلے ہے۔
صبح صادق کے بعد ''سحری'' کھانا جائز نہیں خواہ اذان ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ۔ (معارفُ القرآن) سحری کھانا سنت ہے اور اس میں برکت بھی ہے کیونکہ سحری کھانے سے انسان کو توانائی اور طاقت وقوت ملتی ہے اور اس کا بہترین وقت فجر کی اذان سے پندرہ یا بیسں منٹ قبل ہوتا ہے۔ اور اس وقت سحری کھانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان فجر کی نماز باجماعت ادا کر لیتا ہے۔ اور سحری کے لئے ضروری نہیں ہے کہ مختلف قسم کے پکوان ہوں یا بہت ساری چیزیں ہوں تبھی سحری مانی جائے گی بلکہ اگر آدمی کی طبیعت کچھ کھانے کو نہیں چاہتی ہے تو کم از کم کھجور یا چند گھونٹ پانی وغیرہ سحری کی نیت سے کھا پی لے تو سحری ہو جائے گی، یہ تہجد، استغفار اور دعا کا وقت ہوتا ہے۔
اس لیے سحری کا مطلب یہ نہیں کہ سارا وقت کھانے میں ہی گزار دیا جائے بلکہ تہجد، دعا و استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بعض لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ سحری میں بہت زیادہ کھانا کھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے دن بھر کھٹی ڈکاریں، معدے کی جلن اور تیزابیت کا شکار رہتے ہیں، سحری کھائیں لیکن مناسب مقدار میں کھائیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سحری نہ کی تو روزہ نہیں ہو گا اس لیے جب کبھی سحری نہ کریں تو روزہ ہی چھوڑ دیتے ہیں یہ درست نہیں ۔
روزہ کے لیے سحری کھانا مستحب اور پسندیدہ چیز ہے، شرط نہیں کہ اس کے بغیر روزہ ہی نہ ہو۔ اس لیے محض سحری کے چھوٹ جانے کی وجہ سے روزہ چھوڑنا شرعاً غلط ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک فجر کی اذان نہ ہو سحری کی جا سکتی ہے۔ یہ بات سراسر غلط ہے ختم سحری کے اعلان کے وقت ہی سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد کھانا پینا غلط ہے۔ بعض لوگ سحری کھاتے ہی سو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نماز فجر قضا ہو جاتی ہے یہ بھی غلط ہے۔ سحری کے بعد تلاوت، ذکراللہ، درود پاک، استغفار، دعا ومناجات وغیرہ کریں ۔
چل کر مسجد پہنچیں وہاں نماز فجر باجماعت ادا کریں۔ پھر ایک اور حکمت جو سحر ی میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ روزہ ضبط نفس کی ایک تربیت ہے اور اس تربیت میں سحری کھانا بھی اپنی جگہ ایک خاص حصہ ادا کرتا ہے بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ آدمی پر اس وقت نیند غالب ہوتی ہے اور وہ بھوک پیاس برداشت کر لیتا ہے مگر نیند سے دستبردار ہونا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ روزے قمری کلینڈر سے وابستہ ہیں لہٰذا یہ سال کے سال گردش کرتے رہتے ہیں کبھی گرمی میں کبھی سردی میں روزے ایسے دنوں میں بھی ہوتے ہیں کہ جب بھوک کوئی بہت بڑی تکلیف کا سبب نہیں ہوتی بلکہ رات کو گرم بستر چھوڑ کر اٹھنا نفس پر بھاری ہوتا ہے۔
لہٰذا ایسی حالت میں اس حکم پر عمل کہ سحری کو ہر گز نہ چھوڑو بھوک نہ ہو تب بھی اٹھو ایک گھونٹ پانی پی لو، ایک بہت بڑا جہاد نفس ہے اور سنت پر عمل آدمی کے لیے ضبط نفس کا ایک بڑا ہی حکیمانہ طریقہ ہے اور اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ روزہ صرف ایک عبادت ہی نہیں بلکہ بہت سی عبادتوں کا مجموعہ ہے جس میں کبھی رات کی نیند چھوڑ کر قیام تروایح ضروری ہے تو کبھی سحری کھانے کے لیے اٹھنا بندگی ہے اور کبھی دن میں بھوک و پیاس عبادت ہے پھر افطار کے ٹھیک وقت پر روزہ کھولنا عبادت ہے۔ سحری بلاشبہ اہم اور ایک بابرکت اور عالی شان عمل ہے۔
روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزے میں کام کی زیادہ رغبت پیدا ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں سحری کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ بھی ہے کیونکہ یہ وقت ذکر اور دعا کا ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دعا اور استغفار کی قبولیت کاباعث بنتا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں ماہ رمضان کے فیوض و برکات سے مستفیذ ہو نے کی توفیق نصیب فرمائے۔