آخر میرا قصور کیا ہے
معصوم چہرے سے معصومیت چھن جائے تو یہ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے پھولوں کی خوشبو ان سے جدا کر دی گئی ہو ۔
اگرکسی نے دنیا میں معصومیت کا صحیح روپ دیکھنا ہے تو وہ بچوں کے چہروں کو دیکھ لے کیونکہ دنیا میں معصومیت کا اصل وجود بچوں کے چہرے ہی ہیں ، منافقت اور بیگانگی جن کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔
اگر معصوم چہرے سے معصومیت چھن جائے تو یہ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے پھولوں کی خوشبو ان سے جدا کر دی گئی ہو ۔ یہ معصومیت اس وقت چھن جاتی ہے جب قحط سالی کا دور دورہ ہو، جنگیں لڑی جا رہی ہوں یا جب بچوں کو اپنے گھناؤنے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جا رہا ہو۔ اپنے مفادات کی جنگیں لڑنے والے معصوم جانوں سے کھلواڑ کرتے ہوئے ذرا سا بھی نہیں ہچکچاتے۔ عراق اور افغانستان میں امریکی جنگوں کی وجہ سے بچے یتیم اور لاوارث تو ہوئے ہی لیکن اس کے ساتھ ان کو بھوک اور بیماریوں کے کنویں میں بھی دھکیل دیا گیا ۔
جہاں پر وہ موت کی خوراک بن جاتے ہیں۔ حال ہی میں شام سے ہجرت کرنے والی ماؤں کے دکھ بھی اپنے بچوں کے بارے میں دل دہلا دینے والے ہیں۔ حتیٰ کہ گھر کا تصور بھی ان بچوںکی یادداشت سے جاتا رہا ہے جو پناہ گزین کیمپ کو اپنا مسکن سمجھنے لگ گئے ہیں۔کیا یہ اس دور سے کم ظلم ہے جب بچوں کو دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا؟ کیا یہ وہی دور جہالت نہیں جہاں بچوں کو جنگوں میں قربان کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ جنگیں بھی اپنے دیوتاؤں ( حکمرانوں ) کو خوش کرنے کیلئے نہیں لڑی جاتیں؟ آج بھی بچوں کے اسی طرح چڑھاوے چڑھائے جا رہے ہیں جیسے زمانہ جاہلیت میں چڑھائے جاتے تھے۔
افغانستان اور عراق میں بھوک بچوں کو آج بھی ویسے ہڑپ کر رہی ہے جیسے سفنکس (sphinx ) یعنی میمون یا نرسنگھ جو پہیلی نہ بتا پانے پر یونانی لوگوں کو ماردیتا تھا۔ کیا یہ بچوں کیلئے اسی طرح کی پہیلی نہیں ہے کہ اسامہ بن لادن کو پکڑنا ہے یا پھر صدام حسین کو پکڑنا ہے؟ افغانستان کے خوست ہسپتال میں بچوں کے انتہائی غذائی قلت والے وارڈ میں ایسے بچے موجود ہیں جہاں ڈیرھ سے دو سال کے بچوں کا وزن صرف ساڑھے چار کلو ہے۔
کیا ایسے بچے کے چہرے پر معصومیت ہوگی؟ کیا کوئی ایسے بچے کے ساتھ بیٹھی ماں کے جذبات سمجھ سکتا ہے؟ اسی ہسپتال میں صرف 9 ماہ کی بچیوں کے دل کام کرنا چھوڑ رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق ایسے بچوں کی سرجری ضروری ہے اور والدین کے پاس پیسہ نہیں ہے ۔
جس کی وجہ سے بچے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ایسے بچوں کے چہرے پر ابدی خوف کے سائے منڈلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ ایک لمحے کیلئے بھی رونا بند نہیں کرتے۔ وارڈ میں ایسے بچوں کے رونے کی وجہ سے ہر وقت ایک شور سا بپا رہتا ہے۔ صوبہ ہلمند میں بھی ایسے سیکڑوں بچے رجسٹر کئے گئے ہیں جو انتہائی غذائی قلت کا شکار ہیں اور تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایسے بچوں میں 50% تک اضافہ ہو چکا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق قندھار، فرح، کنڑ، پکتیا اور پکتیا صوبوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ افغانستان میں تعینات ملکی اور غیرملکی ڈاکٹرز اس بات سے متفق ہیں کہ بچوں میں خوراک کی قلت کی بڑی وجوہات جنگ اور اپنے علاقے سے ہجرت ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسا نیٹو ممالک کی مداخلت کی وجہ سے ہوا ۔ یہاں پر نہ صرف بچوں کی صحت کا مسئلہ ہے بلکہ یہ صورتحال بدتر ہوتی جا رہی ہے اور ڈاکٹرز جو ان حالات میں کام کر رہے ہیں وہ انتہائی پریشان ہیں۔ جنگ کی وجہ سے زرعی نظام تباہ ہونے سے وہاں خوراک کی انتہائی قلت ہو گئی ہے۔ سیاسی تناؤ اور تشدد کی وجہ سے ٹرانسپورٹ ذرائع تباہ ہونے سے امداد میں رکاوٹیں کھڑی ہوگئی ہیں۔
خوست ہسپتال میں ایک مہینے میں دو سو ایسے بچے داخل ہوئے جو شدید غذائی قلت کا شکار تھے۔ دو ماہ کے اندر یہ تعداد دگنی ہوگئی۔ ایسے علاقوں میں جہاں جنگی جنون عروج پر ہے وہاں بچوں کو ہڈیوں اور مسلز کی دیگر بیماریاں بھی ہو جاتی ہیں جیسا کہ کواشیر کور اور میراسمس کی بیماری ۔ میراسمس ایک ایسی خطرناک بیماری ہے جو غذائی قلت کی وجہ سے ہوتی ہے جس سے بچے کی جلد ڈھیلی ہوکر لٹکنے لگ جاتی ہے اور وہ بوڑھا لگتا ہے۔
خوست ہسپتال میں روزانہ ایسے 40 سے 50بچوں کا علاج کیا جا تا ہے۔ اور بستر اتنے کم ہوتے ہیں کہ ایک بستر پر دو دو بچوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد پریشان کن حد تک زیادہ ہے اور اس وجہ سے ہر ماہ 7 سے 8 بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔
لوگوں کے پاس نہ کھانے کے پیسے ہیں اور نہ ادویات خریدنے کی سکت ۔ یہ تو صرف وہ بچے ہیں جن کے والدین ہسپتال تک پہنچ پاتے ہیں اور جو ہسپتالوں تک نہیں پہنچ پاتے ان کیلئے کوئی وسیلہ موجود نہیں ہے۔
غذائی قلت کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک وجہ تو کھیتوں میں چھپائی گئی بارودی سرنگیں ہیں جس سے وہ فصلیں کاشت نہیں کر پاتے۔ دوسرا ٹرانسپورٹ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے والدین ہسپتال تک یا تو دیر سے پہنچتے ہیں یا کچھ پہنچ ہی نہیں پاتے جس سے صورت حال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ مائیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں، وہ اشتہارات میں بچوں کی خوبصورت تصویریں دیکھتی ہیں اور وہی اشتہاری غذا شروع کرادیتی ہیں ۔ چوتھے نمبر پر صاف پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو ڈائریا کی صورت میں خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مزیدبرآں بچوں میں ایک سال کا وقفہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی تعداد زیادہ اور خوراک کم پڑجاتی ہے جس کی وجہ سے بچے غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں ، جبکہ ایک ماں اوسطاً نو سے دس بچوں کو جنم دیتی ہے۔ عسکریت پسندی کی وجہ سے خوراک کی چین سپلائی میں بھی رکاوٹیں موجود ہیں اور یہ خوراک ناروے جیسے دور دراز کے ممالک سے لانا پڑتی ہے۔ یہی وہ اسباب ہیں جس سے غذائی قلت کا شکار 100 بچوں میں سے 5 سے 10 بچوں کو موت گھسیٹ لے جاتی ہے۔
عراق میں صورت حال اس سے بھی بد تر ہے۔ امریکی حملے میں شیر خوار، ننھے منے اور سکول جانے والے ہزاروں بچوں کو جنگ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے بچے حیران و پریشان ہیں اور وہ ایسے دیکھتے ہیں جیسے نابینا ہوں۔ ان کے اعداد و شمار تیار کرتے ہوئے انسان کف افسوس ملتا رہ جاتا ہے۔ بچوں کے حقوق کے حوالے سے مشرق وسطیٰ کو بدترین خطے میں تبدیل کردیا گیا۔
شمالی افریقہ کے اس خطے میں 3.5 ملین لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، پانچ سال سے کم عمر کے 1.5 ملین بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور ہر روز 100 بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ 2003ء سے اب تک عراقی حکومت بچوں کے بنیادی فرائض پورے کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔ بچے اپنی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی ترقی سے خالی ہیں اور اس کی تمام تر ذمہ داری حملہ کرنے والے ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے ملک کا سماجی ڈھانچہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اخلاقیات کے معیار کو توڑ پھوڑ دیا ہے اور صاف پانی کے نظام کو تباہ کردیا ہے۔ کچھ بے سہارا بچوں کو انسانی سمگلر مختلف مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔
عراق میں کل اموات کا 70-95% بچے ہیں جبکہ ایک اور اعداد وشمار کے مطابق 1455590بچے جنگ کی نذر ہوگئے۔ ان میں سے 39% بچے ہوائی حملوں میں مارے گئے۔42% بچوں کی جان گولوں نے لے لی۔ 8.54% بچے تشدد میں مارے گئے جن کی عمر 18 سال سے کم تھی۔ امریکا اور اتحادیوں کی طرف سے بلا واسطہ بچوں کی اموات 29% ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ بچے بیماریوں اور خوراک کی قلت کا شکار ہوگئے یا پھر بھوک سے مر گئے۔ یورینیم اور دوسرے جنگی کیمیکلز سے پھیلنے والی آلودگی سے بچے کسی نہ کسی جسمانی نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ دریائے فرات اور دجلہ کا پانی آلودہ ہونے سے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی مہلک بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں جبکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کیلئے یہ محض تجربات ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق وقت سے قبل بچوں کی پیدائش اور کینسر کے کیسز میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ بمباری کے ایک سال بعد شروع ہوگیا تھا جبکہ عصبی نظام کے نقائص 33 گنا بڑھ گئے ہیں۔ امریکی بمباری سے نیوکلیائی شعاعوں کی وجہ سے پیدائشی نقائص کی شرح 14.7 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور جاپان سے یہ شرح 14 گنا زیادہ ہے۔ اسی بمباری کی وجہ سے 15 سالوں میں بچوں میں لیوکیمیا کی شرح دوگنا ہو گئی ہے اور عراقی شہر نصرہ میں اس کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ کلسٹر بموں اور بارودی سرنگوں اور دھماکہ خیز مواد سے 25 فیصد بچے موت کے منہ میں چلے گئے۔
15 سال کے 45.7% بچے ناکارہ نہ ہوسکنے والے بموں کا شکار ہو گئے، ان میں 23.9% بچوں کی عمر 14 سال سے کم تھی۔ بارود کا شکار ہونے والے متعدد بچوں کے اعضاء بھی کاٹنے پڑتے ہیں۔ تابکار شعاعوں کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کی رپورٹ کے مطابق اتحادی حملے کے بعد خوراک کی کمی کا شکار بچوں کی تعداد 19 فیصد سے بڑھ کر 28 فیصد تک جا پہنچی ہے جبکہ پانچ سال کے تین بچوں میں سے صرف ایک بچے کو صاف پانی تک رسائی حاصل ہے اور چار میں سے ایک بچہ خوراک کی قلت کا شکار ہے۔ آلودگی اور صحت و صفائی کے ناقص انتظام کی وجہ سے پانچویں سالگرہ سے پہلے آٹھ میں سے ایک بچہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
بچوں کی اموات زیادہ تر پیچش، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور یرقان سے ہوتی ہیں اور یہ تمام بیماریاں آلودہ خوراک اور آلودہ پانی کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔ آدھے عراقی بچے آلودہ ماحول میں رہنے پر مجبور ہیں حتیٰ کہ آدھے سکول بچوں کو صاف پانی فراہم نہیں کر پاتے اور 63% بچوں کو صاف پانی دستیاب ہی نہیں۔
علاوہ ازیں معاشی بحران اور بدعنوانی بھی عراقی بچوں میں خوراک کی قلت کی ایک وجہ ہے۔ عراق میں بچوں کو خاندان کے اخراجات چلانے کیلئے سکول بھیجنے کی بجائے کام پر بھیج دیا جاتا ہے۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق 5 سے 14 سال کا 9 میں سے ایک بچہ خاندان پالنے کیلئے کام پر جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ بچے جوتے پالش کرتے ہیں، گلیوں میں کچھ نہ کچھ بیچتے ہیں یا پھر ریڑھیاں کھینچتے ہیں۔
اتحادیوں کے حملے سے قبل 30% بچے سکول جا رہے تھے اور حاضری تقریباً 100% تھی۔ حملے کے بعد3.7% بچوں کے نام سکولوں میں رجسٹرڈ کئے گئے جبکہ اب حاضری کی شرح 75% ہے۔ اسی طرح75% لڑکیوں نے سکول جانا ہی چھوڑدیا اور کئی لڑکیوں کو طوائف بننے پر مجبور کردیا گیا۔ 11 سے 12 سال کی بچیوں کو 30 ہزار ڈالر میں فروخت کردیا جاتا ہے۔ امریکی عملے کی عیاشی کا سامان بھی یہی لڑکیاں ہیں جن کو مخصوص قحبہ خانوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
ان میں سے کچھ بچیوں کے اعضاء بھی نکال کر فروخت کر دیئے جاتے ہیں۔ سکیورٹی رسک کی وجہ سے بیس لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ عراق میں بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر اغوا یا گرفتار کیا جاتا ہے۔ جنگ نے ہزاروں بچوں کو گھر کے ماحول سے محروم کردیا ہے اور یتیموں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ 5لاکھ بچے گلیوں میں اپنے خاندانوں کے بغیر رہنے پر مجبور ہیں۔6 میں سے ایک بچہ یتیمی کی زندگی گزار رہا ہے۔
وہاں بچوں کو اغوا کرکے بھکاری بنا دیا جاتا ہے اور ان میں سے کچھ انسانی سمگلروں، شدت پسندوں اور مجرموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ دنیا کے لیے اہم سوال یہ ہے کہ کیا تشدد کے عادی یہ بچے تشدد کو ترک کر سکیں گے؟
اگر معصوم چہرے سے معصومیت چھن جائے تو یہ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے پھولوں کی خوشبو ان سے جدا کر دی گئی ہو ۔ یہ معصومیت اس وقت چھن جاتی ہے جب قحط سالی کا دور دورہ ہو، جنگیں لڑی جا رہی ہوں یا جب بچوں کو اپنے گھناؤنے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جا رہا ہو۔ اپنے مفادات کی جنگیں لڑنے والے معصوم جانوں سے کھلواڑ کرتے ہوئے ذرا سا بھی نہیں ہچکچاتے۔ عراق اور افغانستان میں امریکی جنگوں کی وجہ سے بچے یتیم اور لاوارث تو ہوئے ہی لیکن اس کے ساتھ ان کو بھوک اور بیماریوں کے کنویں میں بھی دھکیل دیا گیا ۔
جہاں پر وہ موت کی خوراک بن جاتے ہیں۔ حال ہی میں شام سے ہجرت کرنے والی ماؤں کے دکھ بھی اپنے بچوں کے بارے میں دل دہلا دینے والے ہیں۔ حتیٰ کہ گھر کا تصور بھی ان بچوںکی یادداشت سے جاتا رہا ہے جو پناہ گزین کیمپ کو اپنا مسکن سمجھنے لگ گئے ہیں۔کیا یہ اس دور سے کم ظلم ہے جب بچوں کو دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا؟ کیا یہ وہی دور جہالت نہیں جہاں بچوں کو جنگوں میں قربان کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ جنگیں بھی اپنے دیوتاؤں ( حکمرانوں ) کو خوش کرنے کیلئے نہیں لڑی جاتیں؟ آج بھی بچوں کے اسی طرح چڑھاوے چڑھائے جا رہے ہیں جیسے زمانہ جاہلیت میں چڑھائے جاتے تھے۔
افغانستان اور عراق میں بھوک بچوں کو آج بھی ویسے ہڑپ کر رہی ہے جیسے سفنکس (sphinx ) یعنی میمون یا نرسنگھ جو پہیلی نہ بتا پانے پر یونانی لوگوں کو ماردیتا تھا۔ کیا یہ بچوں کیلئے اسی طرح کی پہیلی نہیں ہے کہ اسامہ بن لادن کو پکڑنا ہے یا پھر صدام حسین کو پکڑنا ہے؟ افغانستان کے خوست ہسپتال میں بچوں کے انتہائی غذائی قلت والے وارڈ میں ایسے بچے موجود ہیں جہاں ڈیرھ سے دو سال کے بچوں کا وزن صرف ساڑھے چار کلو ہے۔
کیا ایسے بچے کے چہرے پر معصومیت ہوگی؟ کیا کوئی ایسے بچے کے ساتھ بیٹھی ماں کے جذبات سمجھ سکتا ہے؟ اسی ہسپتال میں صرف 9 ماہ کی بچیوں کے دل کام کرنا چھوڑ رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق ایسے بچوں کی سرجری ضروری ہے اور والدین کے پاس پیسہ نہیں ہے ۔
جس کی وجہ سے بچے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ایسے بچوں کے چہرے پر ابدی خوف کے سائے منڈلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ ایک لمحے کیلئے بھی رونا بند نہیں کرتے۔ وارڈ میں ایسے بچوں کے رونے کی وجہ سے ہر وقت ایک شور سا بپا رہتا ہے۔ صوبہ ہلمند میں بھی ایسے سیکڑوں بچے رجسٹر کئے گئے ہیں جو انتہائی غذائی قلت کا شکار ہیں اور تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایسے بچوں میں 50% تک اضافہ ہو چکا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق قندھار، فرح، کنڑ، پکتیا اور پکتیا صوبوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ افغانستان میں تعینات ملکی اور غیرملکی ڈاکٹرز اس بات سے متفق ہیں کہ بچوں میں خوراک کی قلت کی بڑی وجوہات جنگ اور اپنے علاقے سے ہجرت ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسا نیٹو ممالک کی مداخلت کی وجہ سے ہوا ۔ یہاں پر نہ صرف بچوں کی صحت کا مسئلہ ہے بلکہ یہ صورتحال بدتر ہوتی جا رہی ہے اور ڈاکٹرز جو ان حالات میں کام کر رہے ہیں وہ انتہائی پریشان ہیں۔ جنگ کی وجہ سے زرعی نظام تباہ ہونے سے وہاں خوراک کی انتہائی قلت ہو گئی ہے۔ سیاسی تناؤ اور تشدد کی وجہ سے ٹرانسپورٹ ذرائع تباہ ہونے سے امداد میں رکاوٹیں کھڑی ہوگئی ہیں۔
خوست ہسپتال میں ایک مہینے میں دو سو ایسے بچے داخل ہوئے جو شدید غذائی قلت کا شکار تھے۔ دو ماہ کے اندر یہ تعداد دگنی ہوگئی۔ ایسے علاقوں میں جہاں جنگی جنون عروج پر ہے وہاں بچوں کو ہڈیوں اور مسلز کی دیگر بیماریاں بھی ہو جاتی ہیں جیسا کہ کواشیر کور اور میراسمس کی بیماری ۔ میراسمس ایک ایسی خطرناک بیماری ہے جو غذائی قلت کی وجہ سے ہوتی ہے جس سے بچے کی جلد ڈھیلی ہوکر لٹکنے لگ جاتی ہے اور وہ بوڑھا لگتا ہے۔
خوست ہسپتال میں روزانہ ایسے 40 سے 50بچوں کا علاج کیا جا تا ہے۔ اور بستر اتنے کم ہوتے ہیں کہ ایک بستر پر دو دو بچوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد پریشان کن حد تک زیادہ ہے اور اس وجہ سے ہر ماہ 7 سے 8 بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔
لوگوں کے پاس نہ کھانے کے پیسے ہیں اور نہ ادویات خریدنے کی سکت ۔ یہ تو صرف وہ بچے ہیں جن کے والدین ہسپتال تک پہنچ پاتے ہیں اور جو ہسپتالوں تک نہیں پہنچ پاتے ان کیلئے کوئی وسیلہ موجود نہیں ہے۔
غذائی قلت کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک وجہ تو کھیتوں میں چھپائی گئی بارودی سرنگیں ہیں جس سے وہ فصلیں کاشت نہیں کر پاتے۔ دوسرا ٹرانسپورٹ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے والدین ہسپتال تک یا تو دیر سے پہنچتے ہیں یا کچھ پہنچ ہی نہیں پاتے جس سے صورت حال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ مائیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں، وہ اشتہارات میں بچوں کی خوبصورت تصویریں دیکھتی ہیں اور وہی اشتہاری غذا شروع کرادیتی ہیں ۔ چوتھے نمبر پر صاف پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو ڈائریا کی صورت میں خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مزیدبرآں بچوں میں ایک سال کا وقفہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی تعداد زیادہ اور خوراک کم پڑجاتی ہے جس کی وجہ سے بچے غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں ، جبکہ ایک ماں اوسطاً نو سے دس بچوں کو جنم دیتی ہے۔ عسکریت پسندی کی وجہ سے خوراک کی چین سپلائی میں بھی رکاوٹیں موجود ہیں اور یہ خوراک ناروے جیسے دور دراز کے ممالک سے لانا پڑتی ہے۔ یہی وہ اسباب ہیں جس سے غذائی قلت کا شکار 100 بچوں میں سے 5 سے 10 بچوں کو موت گھسیٹ لے جاتی ہے۔
عراق میں صورت حال اس سے بھی بد تر ہے۔ امریکی حملے میں شیر خوار، ننھے منے اور سکول جانے والے ہزاروں بچوں کو جنگ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے بچے حیران و پریشان ہیں اور وہ ایسے دیکھتے ہیں جیسے نابینا ہوں۔ ان کے اعداد و شمار تیار کرتے ہوئے انسان کف افسوس ملتا رہ جاتا ہے۔ بچوں کے حقوق کے حوالے سے مشرق وسطیٰ کو بدترین خطے میں تبدیل کردیا گیا۔
شمالی افریقہ کے اس خطے میں 3.5 ملین لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، پانچ سال سے کم عمر کے 1.5 ملین بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور ہر روز 100 بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ 2003ء سے اب تک عراقی حکومت بچوں کے بنیادی فرائض پورے کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔ بچے اپنی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی ترقی سے خالی ہیں اور اس کی تمام تر ذمہ داری حملہ کرنے والے ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے ملک کا سماجی ڈھانچہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اخلاقیات کے معیار کو توڑ پھوڑ دیا ہے اور صاف پانی کے نظام کو تباہ کردیا ہے۔ کچھ بے سہارا بچوں کو انسانی سمگلر مختلف مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔
عراق میں کل اموات کا 70-95% بچے ہیں جبکہ ایک اور اعداد وشمار کے مطابق 1455590بچے جنگ کی نذر ہوگئے۔ ان میں سے 39% بچے ہوائی حملوں میں مارے گئے۔42% بچوں کی جان گولوں نے لے لی۔ 8.54% بچے تشدد میں مارے گئے جن کی عمر 18 سال سے کم تھی۔ امریکا اور اتحادیوں کی طرف سے بلا واسطہ بچوں کی اموات 29% ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ بچے بیماریوں اور خوراک کی قلت کا شکار ہوگئے یا پھر بھوک سے مر گئے۔ یورینیم اور دوسرے جنگی کیمیکلز سے پھیلنے والی آلودگی سے بچے کسی نہ کسی جسمانی نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ دریائے فرات اور دجلہ کا پانی آلودہ ہونے سے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی مہلک بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں جبکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کیلئے یہ محض تجربات ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق وقت سے قبل بچوں کی پیدائش اور کینسر کے کیسز میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ بمباری کے ایک سال بعد شروع ہوگیا تھا جبکہ عصبی نظام کے نقائص 33 گنا بڑھ گئے ہیں۔ امریکی بمباری سے نیوکلیائی شعاعوں کی وجہ سے پیدائشی نقائص کی شرح 14.7 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور جاپان سے یہ شرح 14 گنا زیادہ ہے۔ اسی بمباری کی وجہ سے 15 سالوں میں بچوں میں لیوکیمیا کی شرح دوگنا ہو گئی ہے اور عراقی شہر نصرہ میں اس کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ کلسٹر بموں اور بارودی سرنگوں اور دھماکہ خیز مواد سے 25 فیصد بچے موت کے منہ میں چلے گئے۔
15 سال کے 45.7% بچے ناکارہ نہ ہوسکنے والے بموں کا شکار ہو گئے، ان میں 23.9% بچوں کی عمر 14 سال سے کم تھی۔ بارود کا شکار ہونے والے متعدد بچوں کے اعضاء بھی کاٹنے پڑتے ہیں۔ تابکار شعاعوں کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کی رپورٹ کے مطابق اتحادی حملے کے بعد خوراک کی کمی کا شکار بچوں کی تعداد 19 فیصد سے بڑھ کر 28 فیصد تک جا پہنچی ہے جبکہ پانچ سال کے تین بچوں میں سے صرف ایک بچے کو صاف پانی تک رسائی حاصل ہے اور چار میں سے ایک بچہ خوراک کی قلت کا شکار ہے۔ آلودگی اور صحت و صفائی کے ناقص انتظام کی وجہ سے پانچویں سالگرہ سے پہلے آٹھ میں سے ایک بچہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
بچوں کی اموات زیادہ تر پیچش، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور یرقان سے ہوتی ہیں اور یہ تمام بیماریاں آلودہ خوراک اور آلودہ پانی کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔ آدھے عراقی بچے آلودہ ماحول میں رہنے پر مجبور ہیں حتیٰ کہ آدھے سکول بچوں کو صاف پانی فراہم نہیں کر پاتے اور 63% بچوں کو صاف پانی دستیاب ہی نہیں۔
علاوہ ازیں معاشی بحران اور بدعنوانی بھی عراقی بچوں میں خوراک کی قلت کی ایک وجہ ہے۔ عراق میں بچوں کو خاندان کے اخراجات چلانے کیلئے سکول بھیجنے کی بجائے کام پر بھیج دیا جاتا ہے۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق 5 سے 14 سال کا 9 میں سے ایک بچہ خاندان پالنے کیلئے کام پر جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ بچے جوتے پالش کرتے ہیں، گلیوں میں کچھ نہ کچھ بیچتے ہیں یا پھر ریڑھیاں کھینچتے ہیں۔
اتحادیوں کے حملے سے قبل 30% بچے سکول جا رہے تھے اور حاضری تقریباً 100% تھی۔ حملے کے بعد3.7% بچوں کے نام سکولوں میں رجسٹرڈ کئے گئے جبکہ اب حاضری کی شرح 75% ہے۔ اسی طرح75% لڑکیوں نے سکول جانا ہی چھوڑدیا اور کئی لڑکیوں کو طوائف بننے پر مجبور کردیا گیا۔ 11 سے 12 سال کی بچیوں کو 30 ہزار ڈالر میں فروخت کردیا جاتا ہے۔ امریکی عملے کی عیاشی کا سامان بھی یہی لڑکیاں ہیں جن کو مخصوص قحبہ خانوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
ان میں سے کچھ بچیوں کے اعضاء بھی نکال کر فروخت کر دیئے جاتے ہیں۔ سکیورٹی رسک کی وجہ سے بیس لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ عراق میں بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر اغوا یا گرفتار کیا جاتا ہے۔ جنگ نے ہزاروں بچوں کو گھر کے ماحول سے محروم کردیا ہے اور یتیموں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ 5لاکھ بچے گلیوں میں اپنے خاندانوں کے بغیر رہنے پر مجبور ہیں۔6 میں سے ایک بچہ یتیمی کی زندگی گزار رہا ہے۔
وہاں بچوں کو اغوا کرکے بھکاری بنا دیا جاتا ہے اور ان میں سے کچھ انسانی سمگلروں، شدت پسندوں اور مجرموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ دنیا کے لیے اہم سوال یہ ہے کہ کیا تشدد کے عادی یہ بچے تشدد کو ترک کر سکیں گے؟