میں نہ مانوں کی رٹ اب چھوڑنا ہوگی
ہم اپنے فروعی اختلاف اور سیاسی وابستگیوں کے سبب اتنے تقسیم درتقسیم ہوچکے ہیں کہ اب اپنی اصلاح کرنا ہی نہیں چاہتے
بحیثیت مجموعی ہماری قوم میں کبھی اپنی غلطیوں پرندامت اور احساس زیاں باقی ہواکرتاتھا،لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی اب ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ ذاتی مفادات اور اجتماعی خودغرضی نے ہم میں سے یہ احساس بھی چھین لیا ہے۔
ہم اپنے فروعی اختلاف اور سیاسی وابستگیوں کے سبب اتنے تقسیم درتقسیم ہوچکے ہیں کہ اب اپنی اصلاح کرنا ہی نہیں چاہتے۔ہرگزرتے دن کے ساتھ ہمارے اندر کی خود غرضی ہمیں کسی اچھی سوچ اور اچھے کام کی طرف راغب ہی ہونے نہیں دیتیں، بلکہ انفرادی طور پر کوئی اگر یہ کام کرنا بھی چاہے تو ہم سب مل کر اس کے سخت مخالف اورجانی دشمن بن جاتے ہیں۔
قیام پاکستان سے لے کرآج تک ہماری عدلیہ نے ایسے ایسے متنازع فیصلے کیے کہ جن کے مضر اثرات نے اس قوم کو سنورنے ہی نہیں دیا۔ نظریہ ضرورت کی غیرمنطقی اصطلاح اختراع کرکے غیر جمہوری اورغیر آئینی کارروائیوں کو جائز اور قانونی قرار دے دیاگیا۔نوے دنوں کے ناجائز اقتدار کو دوام بخشنے کی نہ صرف اجازت مرحمت فرمادی بلکہ ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکانے کے فیصلے پر بھی دستخط کردیے۔ یہ فیصلہ گرچہ آج45برس بعد متفقہ طور پرمسترد بھی کردیا گیا ہے لیکن اس فیصلے کے نتیجے میںجان سے چلاجانے والا شخص واپس نہیں لایا جاسکا۔
گیارہ سال تک ایک آمر کے ہر فیصلے کو قبولیت کا درجہ دیکرنئے آمروں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور بعدازاں آئین و دستورمیں ترامیم کی بھی اجازت دیدی گئی۔چلتے پھرتے ترقی کرتے پاکستان کی بیخ کنی کرکے انحطاط وزوال کے گہرے اندھیروں میں غرق کردیا گیا۔ستر سالوں سے یہ تماشہ جاری رہا اور آج بھی جاری ہے۔
جمہوریت پر شپ خون کے سچ ہوجانے کے خوف کودل سے نکال باہر کرنے کی جستجو میں ہماری ہرجمہوری حکومت بہتر فیصلوں کے آزادانہ اختیارات اور صلاحیتوں سے محروم نظر آتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ نادیدہ قوتوں کی ناراضی کا ڈراُسے ہروقت لگا رہتا ہے اوروہ کابینہ کی تشکیل بھی اپنی مرضی ومنشاء کے مطابق نہیں کرسکتی ۔
ابھی حالیہ دنوں میں اسلام آباد کے چھ نامورمعزز ججوں نے ایک مشترکہ درخواست چیف جسٹس کے نام تحریرکرکے دلیری اورہمت دکھائی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے فوراً ہی ایک فل کورٹ اجلاس بلواکرچوبیس گھنٹوں میں یہ فیصلہ کردیا کہ حکومت وقت اس معاملے کی تفتیش کرنے کے لیے ایک آزادانہ اورخود مختار تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے اورجس پروزیراعظم صاحب نے بھی فوری طور پرعملدرآمد کرتے ہوئے ایک سابق ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیدیا تو اب اعتراض کرنے والوں کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہاتو وہ اس کمیشن پراپنے اعتراضات کرنے لگے۔
کمیشن جب تحقیقات شروع کریگاتو اس کے سامنے درخواست گزاروں کو اپنی شکایت سے متعلق شواہد اورثبوت پیش کرنا پڑیں گے۔ اب کسی کو محترم تصدق جیلانی کی غیرجانبداری پراعتراض ہے تو کوئی اس کمیشن کی تشکیل کے ہی سراسر خلاف ہے۔
اعتراض کرنے والوں کا خیال تھا کہ چیف جسٹس خود اس معاملے کو دیکھتے اوراُن کے حق میں فیصلہ صادر کرتے، یوںمعاملات ان کی خواہشات کے برعکس چل رہے ہیں۔ آج وہ عدالتی فیصلوں کو متنازع بنانے کی کوششوں میں کیوں سرگرداں ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر کے مہینے سے اب تک چھ ماہ کے عرصے میں اعلیٰ عدلیہ کا کوئی ایک فیصلہ بھی دکھادیا جائے جس میں کسی خفیہ ادارے کی مداخلت یا دباؤ کے اثرات دکھائی دے رہے ہوں۔
چلیں اب جب یہ مسئلہ چھیڑا ہی گیا ہے تو اسے منطقی انجام تک پہنچانا بھی انھی کی ذمے داری ہے جنھوں نے یہ مسئلہ قوم کے سامنے رکھا ہے۔ اس سے فرار کی کوششیں اس کے مستقل حل کی راہ میں رکاوٹوں کاباعث بنیں گی۔قوم خلوص دل سے چاہتی ہے کہ ہماری عدالتیں مکمل آزاد اورخود مختار ہوں۔یہاں کوئی مطلق العنان شخص بزورشمشیر منصفانہ فیصلوں پراثر انداز نہ ہو۔جوغلطیاں ماضی سے لے کر اب تک ہوتی رہی ہیں اُن کاسدباب ہونا چاہیے۔
یہ صرف چند لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایسے فیصلوں کاخمیازہ ساری قوم بھگتتی رہی ہے، یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے ۔ اس لیے جو درخواست ہمارے معزز چھ ججوں نے قوم کے سامنے رکھی ہے اسے یوں ادھورا نہیں چھوڑنا چاہیے۔اس مقصد سے بنائے گئے کمیشن سے تعاون کرتے ہوئے وہاں اپنے دلائل اورمعروضات ضرور پیش کرنا چاہیے۔ہرچیز کی مخالفت اورمیں نہ مانوں کی رٹ کو چھوڑکرملک وملت کی تعمیر اورترقی میں اس قوم کے ہرشخص کواب اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔اسی میں ملک کی بہتری ہے۔
ہم اپنے فروعی اختلاف اور سیاسی وابستگیوں کے سبب اتنے تقسیم درتقسیم ہوچکے ہیں کہ اب اپنی اصلاح کرنا ہی نہیں چاہتے۔ہرگزرتے دن کے ساتھ ہمارے اندر کی خود غرضی ہمیں کسی اچھی سوچ اور اچھے کام کی طرف راغب ہی ہونے نہیں دیتیں، بلکہ انفرادی طور پر کوئی اگر یہ کام کرنا بھی چاہے تو ہم سب مل کر اس کے سخت مخالف اورجانی دشمن بن جاتے ہیں۔
قیام پاکستان سے لے کرآج تک ہماری عدلیہ نے ایسے ایسے متنازع فیصلے کیے کہ جن کے مضر اثرات نے اس قوم کو سنورنے ہی نہیں دیا۔ نظریہ ضرورت کی غیرمنطقی اصطلاح اختراع کرکے غیر جمہوری اورغیر آئینی کارروائیوں کو جائز اور قانونی قرار دے دیاگیا۔نوے دنوں کے ناجائز اقتدار کو دوام بخشنے کی نہ صرف اجازت مرحمت فرمادی بلکہ ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکانے کے فیصلے پر بھی دستخط کردیے۔ یہ فیصلہ گرچہ آج45برس بعد متفقہ طور پرمسترد بھی کردیا گیا ہے لیکن اس فیصلے کے نتیجے میںجان سے چلاجانے والا شخص واپس نہیں لایا جاسکا۔
گیارہ سال تک ایک آمر کے ہر فیصلے کو قبولیت کا درجہ دیکرنئے آمروں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور بعدازاں آئین و دستورمیں ترامیم کی بھی اجازت دیدی گئی۔چلتے پھرتے ترقی کرتے پاکستان کی بیخ کنی کرکے انحطاط وزوال کے گہرے اندھیروں میں غرق کردیا گیا۔ستر سالوں سے یہ تماشہ جاری رہا اور آج بھی جاری ہے۔
جمہوریت پر شپ خون کے سچ ہوجانے کے خوف کودل سے نکال باہر کرنے کی جستجو میں ہماری ہرجمہوری حکومت بہتر فیصلوں کے آزادانہ اختیارات اور صلاحیتوں سے محروم نظر آتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ نادیدہ قوتوں کی ناراضی کا ڈراُسے ہروقت لگا رہتا ہے اوروہ کابینہ کی تشکیل بھی اپنی مرضی ومنشاء کے مطابق نہیں کرسکتی ۔
ابھی حالیہ دنوں میں اسلام آباد کے چھ نامورمعزز ججوں نے ایک مشترکہ درخواست چیف جسٹس کے نام تحریرکرکے دلیری اورہمت دکھائی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے فوراً ہی ایک فل کورٹ اجلاس بلواکرچوبیس گھنٹوں میں یہ فیصلہ کردیا کہ حکومت وقت اس معاملے کی تفتیش کرنے کے لیے ایک آزادانہ اورخود مختار تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے اورجس پروزیراعظم صاحب نے بھی فوری طور پرعملدرآمد کرتے ہوئے ایک سابق ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیدیا تو اب اعتراض کرنے والوں کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہاتو وہ اس کمیشن پراپنے اعتراضات کرنے لگے۔
کمیشن جب تحقیقات شروع کریگاتو اس کے سامنے درخواست گزاروں کو اپنی شکایت سے متعلق شواہد اورثبوت پیش کرنا پڑیں گے۔ اب کسی کو محترم تصدق جیلانی کی غیرجانبداری پراعتراض ہے تو کوئی اس کمیشن کی تشکیل کے ہی سراسر خلاف ہے۔
اعتراض کرنے والوں کا خیال تھا کہ چیف جسٹس خود اس معاملے کو دیکھتے اوراُن کے حق میں فیصلہ صادر کرتے، یوںمعاملات ان کی خواہشات کے برعکس چل رہے ہیں۔ آج وہ عدالتی فیصلوں کو متنازع بنانے کی کوششوں میں کیوں سرگرداں ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر کے مہینے سے اب تک چھ ماہ کے عرصے میں اعلیٰ عدلیہ کا کوئی ایک فیصلہ بھی دکھادیا جائے جس میں کسی خفیہ ادارے کی مداخلت یا دباؤ کے اثرات دکھائی دے رہے ہوں۔
چلیں اب جب یہ مسئلہ چھیڑا ہی گیا ہے تو اسے منطقی انجام تک پہنچانا بھی انھی کی ذمے داری ہے جنھوں نے یہ مسئلہ قوم کے سامنے رکھا ہے۔ اس سے فرار کی کوششیں اس کے مستقل حل کی راہ میں رکاوٹوں کاباعث بنیں گی۔قوم خلوص دل سے چاہتی ہے کہ ہماری عدالتیں مکمل آزاد اورخود مختار ہوں۔یہاں کوئی مطلق العنان شخص بزورشمشیر منصفانہ فیصلوں پراثر انداز نہ ہو۔جوغلطیاں ماضی سے لے کر اب تک ہوتی رہی ہیں اُن کاسدباب ہونا چاہیے۔
یہ صرف چند لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایسے فیصلوں کاخمیازہ ساری قوم بھگتتی رہی ہے، یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے ۔ اس لیے جو درخواست ہمارے معزز چھ ججوں نے قوم کے سامنے رکھی ہے اسے یوں ادھورا نہیں چھوڑنا چاہیے۔اس مقصد سے بنائے گئے کمیشن سے تعاون کرتے ہوئے وہاں اپنے دلائل اورمعروضات ضرور پیش کرنا چاہیے۔ہرچیز کی مخالفت اورمیں نہ مانوں کی رٹ کو چھوڑکرملک وملت کی تعمیر اورترقی میں اس قوم کے ہرشخص کواب اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔اسی میں ملک کی بہتری ہے۔