امریکی انخلاء کے آغاز کے ساتھ ہی طالبان کی عملداری کا دائرہ پھیلنے لگا
ایک امریکی فوجی کے بدلے 5 اہم طالبان کی رہائی کس کی شکست کا اعلان کر رہی ہے ؟
ہوا میں گردش کرتے ہیلی کاپٹر نیچے اترتے ہیں، ایک امریکی فوجی بووی رابرٹ برگڈال ڈبل کیبن میں بیٹھا ہواہے۔وہ پانچ برس تک افغان طالبان کی قید میں رہا، آج اس کی آنکھوں میں آنسو جھلک رہے ہیں جنھیں وہ بار بار ہاتھوں سے صاف کرتا ہے، آج وہ رہا ہونے جارہا ہے، لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس کے بدلے میں طالبان نے گوانتانامو بے سے اپنے پانچ چوٹی کے رہنما رہاکرائے ہیں۔ پورے علاقے کو اٹھارہ کے قریب طالبان کمانڈوز نے گھیرا ہوا ہے۔
ہیلی کاپٹر اترتا ہے، طالبان کی طرف سے دو افراد امریکی فوجی کو لئے آگے بڑھے، دوسری جانب سے دو امریکی آگے بڑھے۔ امریکیوں کے سراپے سے گھبراہٹ پوری طرح عیاں ہے، اسی عالم میں دونوں گروہ ہاتھ ملاتے ہیں۔ ایک امریکی اس قدر خوفزدہ ہے کہ بس اپنا بایاں ہاتھ بڑھا کر طالبان کمانڈو کے ہاتھ کو ہلکا سا چھوتاہے ، پھر وہ دونوں اپنے ساتھی کو لے کر ہاتھ ہلاتے ہوئے واپس مڑ جاتے ہیں۔
امریکی قیدی کے تبادلے کے لیے محض محدود وقت کے لیے خوست کے محدود علاقے میں جنگ بندی ہوئی تاکہ امریکی ہیلی کاپٹر میں آ کر ایک قبائلی سردار کے مکان سے اپنے ساتھی کو لے جائیں۔ امریکی حکام نے تسلیم کیاکہ 28 سالہ امریکی سارجنٹ بووی رابرٹ برگڈال کو صحیح سلامت امریکی حکام کے حوالے کیا گیا۔ امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ واحد امریکی فوجی تھا جو طالبان کی قید میں تھا۔
تاہم طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس مزید امریکی قیدی موجود ہیں۔ اسے افغانستان کے صوبہ پکتیا میں تعینات کیاگیاتھا، تاہم اپنی تعیناتی کے محض پانچ ماہ بعد وہ اپنے ہی اڈے سے لاپتہ ہوگیاتھا۔ پانچ طالبان رہنماؤں اور امریکی فوجی کی رہائی میں قطر نے کردار ادا کیا۔ دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی کے لئے مذاکرات سال 2009ء سے چل رہے تھے، امسال فروری میں مذاکرات میں تعطل بھی آیا تاہم اس کے بعد مذاکرات کامیابی سے ہمکنارہوئے۔
یہ مذاکرات خفیہ ہرگزنہیں تھے بلکہ رواں سال جنوری میں امریکی کانگریس میں بھی اس پر بحث ہوئی تھی۔ اس کے بعد امریکی حکام نے طالبان کے سامنے شرط رکھی تھی کہ وہ امریکی سارجنٹ کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کریں۔ تب طالبان نے رابرٹ گڈل کی ایک ویڈیو تیارکرکے ریلیز کی۔ ویڈیو کو تازہ ترین ثابت کرنے کے لئے اس میں جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کے انتقال کا ذکر بھی کیا۔ رہائی کے بعد رابرٹ برگڈال کو افغانستان سے جرمنی میں قائم امریکی ملٹری ہسپتال میں منتقل کردیاگیا۔
برطانوی اخبار ''سنڈے ٹائمز'' نے دعویٰ کیا کہ سارجنٹ برگیڈال نے طالبان کی قید میں اسلام قبول کرلیاتھا اور اس کانام 'عبداللہ' رکھاگیاتھا۔ جبکہ ایک دوسری کہانی بھی زبان زدعام ہے کہ بووی برگڈال اپنی فوجی چوکی سے فرار ہوکر خود ہی طالبان سے جاملے تھے۔افغانستان کے ایک گاؤں کے باشندوں نے امریکی فوجی کی گمشدگی کے دن کے کچھ رازوں سے پردہ اٹھادیا ہے۔
یہ فوجی جہاں تعینات تھا وہاں سے تقریباً آدھے میل کے فاصلے پر یوسف خیل کا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے باشندوں سے مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایک نمائندے نے بات چیت کی ہے جس میں دلچسپ انکشافات ہوئے۔ جمال نامی ایک افغان نے بتایا کہ گاؤں والے یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک امریکی فوجی پریشان حال سا ہوکر گاؤں کی طرف آرہا ہے۔ گاؤں کے لوگوں نے اسے خبردار کیا کہ وہ مزید آگے نہ بڑھے کیونکہ یہ علاقہ طالبان کی موجودگی کی وجہ سے خطرناک تھا۔
لوگوں نے اسے کھانا اور پانی دینے کی بھی کوشش کی لیکن یہ فوجی اپنی دھن میں مست آگے ہی بڑھتا گیا گویا کہ وہ خود بھی طالبان کی تلاش میں ہو۔ کچھ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ امریکی فوجی زیادہ نشہ بازی کی وجہ سے نیم مدہوش تھا۔ افغان گاؤں کے لوگوں کے بیانات سے برگڈال پر غداری کے الزامات کو تقویت مل سکتی ہے۔
گوانتانامو بے سے رہا کیے جانے والے قیدیوں میں محمد فضل، خیراللہ خیرخواہ، عبدالحق واثق، ملا نوراللہ نوری، اور محمد نبی قمری شامل ہیں۔ مغربی میڈیا نے بھی اعتراف کیاکہ امریکہ نے گوانتانامو بے سے انتہائی اہم طالبان رہنما رہا کئے ہیں۔ معاہدے کے مطابق یہ طالبان رہنما ایک سال تک قطر میں ہی مقیم رہیں گے۔
محمدفضل 2001ء میں گرفتاری کے وقت طالبان کے نائب وزیردفاع تھے، ان پر امریکی حکام نے جنگی جرائم کا الزام عائدکیا تھا۔ خیراللہ خیرخواہ نے وزیرداخلہ اور گورنرہرات کے طورپر خدمات انجام دیں، امریکیوں کے خیال میں ان کا القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سے براہ راست تعلق تھا۔ عبدالحق واثق نائب وزیربرائے انٹیلی جنس تھے، ان پر اتحادی افواج کے خلاف جہاد کے لئے سابق جہادی گروہوں کے ساتھ روابط کا الزام تھا۔ ملانوراللہ نوری سینئر طالبان فوجی کمانڈر تھے اور ان پر شیعہ اقلیت کے خلاف اقدامات کا الزام تھا۔ محمد نبی عمری طالبان حکومت میں چیف آف سیکورٹی سمیت مختلف اہم ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔
افغان طالبان کے سربراہ ملامحمد عمر نے ایک بیان میں امریکی فوجی کے بدلے پانچ طالبان رہنماؤں کی رہائی کو' بڑی فتح' قرار دیا۔ انھوں نے گوانتانامو جیل سے طالبان کے پانچ اہم رہنماؤں کی رہائی پر افغان مسلمانوں، طالبان اور قیدیوں کے رشتہ داروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا'' الحمدللہ! ثم الحمدللہ!! کہ مجاہدین کی بے دریغ قربانیوں کی برکت اور امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کی مدبرانہ جدوجہد کے نتیجے میں امارت اسلامیہ کے پانچ رہنماء گوانتانامو جیل سے اللہ تعالی کی نصرت سے تندرست حالت میں رہا ہوئے۔
اس عظیم کامیابی اور واضح فتح سے تمام مجاہدین رب منان کی بارگاہ میں سربسجود ہوں جنہوں نے اپنی قدرت سے ہمارے مجاہد عوام کی قربانیوں میں تاثیر پیدا فرمائی اور دشمن کے چنگل سے ہمارے مجاہدین کو نجات دلائی''۔ انھوں نے کہاکہ ان اہم رہنماؤں کی رہائی پر تمام مجاہدین، رہبری شوری امارت اسلامیہ، امریکی فوجی بوی رابرٹ برگڈل کو گرفتار اور نگرانی کرنے والے مجاہدین اور رہنماؤں اور امت مسلمہ اور اس عظیم کامرانی میں شریک اشخاص کی جدوجہد قابل ستائش ہے۔
انھوں نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد بن خلیفہ آل ثانی کا بھی شکریہ اداکیا، جنہوں نے مذکورہ رہنماؤں کی رہائی میں مخلصانہ جدوجہد، ثالثی اور میزبان کا کردار ادا کیا۔ انھوں نے کہاکہ یہ عظیم کامیابی ہمیں تمام ملک کی آزادی کی نوید سناتی ہے اور ہمیں مزید تسلی دیتی ہے، کہ ان شاء اللہ افغان مجاہد عوام کی آرزوؤں سے بھری کشتی ساحل کی جانب قریب ہوچکی ہے''۔
کرزئی حکومت نے امریکہ کے طالبان سے قیدیوں کی تبادلے کے سمجھوتے پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ یادرہے کہ افغانستان کو قیدیوں کے تبادلے کے بعد اس سمجھوتے کے بارے میں آگاہ کیا گیاتھا۔قطر میں مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولوی نیک محمد نے بھی ایک انٹرویو میں واضح طور پر کہا ہے کہ مذاکرات کے دوران نہ تو پاکستان اور نہ ہی افغانستان کو اس کا علم تھا: 'جب قیدیوں کا تبادلہ ہوگیا تو پھر یہ خبر عام کی گئی۔' افغانستان کا کہنا ہے کہ قیدی کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
امریکہ میں اپوزیشن ری پبلیکن پارٹی نے بھی اوبامہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیااور کہا کہ اس اقدام سے امریکی فوجیوں کو اغوا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چئیرمین مائیک راجر نے کہاہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرنا امریکہ کی بنیادی پالیسی میں تبدیلی کے مترادف ہے۔
طالبان رہنما نذر محمد مطمئن کہتے ہیں کہ اس کامیابی کے بعد امریکہ طالبان کے ساتھ اس مذاکراتی عمل کو شاید مزید آگے وسیع بنیادوں پر لے جانا چاہے گا۔ ان کے بقول ''اس بابت امریکی اعلان کہ وہ سنہ 2016 تک تمام فوجی افغانستان سے نکال دے گا، طالبان کو اس بات پر راضی کرنے میں مدد دے گا کہ وہ اسے اپنا دشمن تصور کرنے کا درجہ تبدیل کر دے۔
اس کے بعد افغان حکومت کا یہ جواز بھی ختم ہو جائے گا کہ طالبان مغرب کے دشمن ہیں اور بالآخر افغان حکومت سے بھی مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔''امریکی وزیردفاع چک ہیگل کا بھی کہناہے کہ جنگی قیدیوں کا تبادلہ وسیع ترامن عمل کا راستہ کھولے گا۔ طالبان مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان ڈاکٹرنعیم کے مطابق اگربات چیت کامیاب ہوگئی توبگرام میں قید 131طالبان رہنماؤں کے بدلے باقی امریکیوں کو بھی رہاکردیاجائے گا۔
افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد ڈھائی ہزار کے لگ بھگ ہوچکی ہے ۔ برطانوی فوجی 453، دیگرممالک سے تعلق رکھنے والے 666 ہیں۔ مجموعی طورپر ان کی تعداد ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ ہے۔
یادرہے کہ یہ اعدادوشمار ناٹو کے بیان کردہ ہیں۔ آزاد ذرائع اور طالبان کے دعووں پر دھیان دیاجائے تو افغانستان میں کام آنے والے غیرملکی قابض فوجیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ افغانستان میں ہونے والے نقصان سے گھبرا کر اب امریکی حکام کسی بھی قیمت پر واپس بھاگنے کی کوششوں میں ہیں۔ انھیں واپسی کا محفوظ راستہ چاہئے لیکن طالبان کے ارادے کچھ اور ہی ہیں۔ وہ فرارہوتے امریکیوں پر حملے نہ کرنے کی ضمانت دینے کو تیار نہیں۔
اوباما کی جانب سے افغان پالیسی کے اعلان کے بعد افغانستان کے دوردراز علاقوں سے امریکیوں نے قندھار، بگرام اور کابل کی طرف منتقلی شروع کردی ہے۔ذرائع کے مطابق امریکی انخلا میں سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان کے طول وعرض میں پھیلا اس کا 430ارب ڈالر کا وہ فوجی سکریپ ہے جو گزشتہ بارہ برسوں میں مختلف امریکی اڈوں پر پڑاہے۔ اس میں ہیلی کاپٹرز، طیاروں سمیت دیگرفوجی گاڑیاں ہیں۔ امریکہ اپنے 9800 فوجیوں کو 2014ء کے بعد اسی سکریپ کی حفاظت کے لئے رکھناچاہتاہے تاہم انخلا کے بعد ان اڈوں کی حفاظت کے لئے یہ فوجی کم رہیں گے۔
دوسری طرف افغان طالبان نے مشرقی افغانستان میں پیش قدمی شروع کردی ہے۔ انھوں نے صوبہ بدخشاں سمیت ملک کے جن علاقوں پر اپنی عمل داری قائم کرلی ہے، وہاں ان تمام پولیس اہلکاروں کو گھروں کو جانے کی اجازت دیدی جو طالبان کے ساتھ کام نہیں کرناچاہتے تھے جبکہ باقی اہلکاروں کو اپنے نظام تربیت سے گزارکر ان کی ذمہ داریوں پر برقرار رکھا گیا ہے۔
طالبان امریکیوں کے جانے کے بعد نئی سوچ کے ساتھ افغانستان میں رہنے کا فیصلہ کئے ہوئے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ وہ امریکیوں کے جانے کے بعد معاشرے کے تمام گروہوں بشمول حزب اسلامی سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ ہم افغانستان میں خانہ جنگی نہیں ہونے دیں گے اور اس کے لئے ہم ضمانت دینے کے لئے بھی تیار ہیں۔
ان کاکہناہے کہ امریکی صدر نے جب اعتراف شکست کرلیاہے تو افغانستان میں امریکیوں کے رہنے کا کوئی جوازنہیں بنتا۔ امریکی جریدہ 'یو ایس ٹوڈے ' نے واضح طورپر لکھا کہ امریکہ افغانستان کی جنگ سے بری طرح تھک چکاہے۔ چندہفتے قبل امریکی صدراوباما نے کہاتھا کہ امریکہ نے افغانستان میں امن قائم کرنے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ پوری دنیا کو وہ دن بخوبی یاد ہے ، جب افغانستان پر قبضہ کرتے ہوئے اس وقت کے صدربش خوب اچھل اچھل کرنعرے لگارہے تھے کہ وہ افغان قوم کو آزادی دلائیں گے لیکن آج ان کی مہم جوئی خود امریکہ کے لئے وبال جان بن چکی ہے۔
جس روز رابرٹ گیڈل کے بدلے میں چوٹی کے پانچ طالبان رہنما رہاکئے جارہے تھے، عین اسی روزامریکی ذرائع ابلاغ نے اس سوال کا خوب جواب تلاش کیاکہ کیا اسی دن کے لئے انھوں نے افغانستان پر قبضہ کیاتھا؟نائن الیون سے پہلے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن نے معروف مغربی صحافی اور دانشور رابرٹ فسک سے ایک انٹرویو میں کہاتھا ''امریکہ کا جس دن حرمین کے بیٹوں سے پالا پڑے گا ، وہ ویت نام بھول جائے گا''۔
جبکہ انہی دنوں طالبان سربراہ مْلا محمد عمر نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہاتھا''اس جنگ کا اختتام امریکہ کی رسوائی پہ ہوگا، امریکہ افغانستان کی خاک چاٹ کر نکلے گا۔'' آخر میں سابق فرانسیسی صدر اور امریکی نفسیات کو خوب سمجھنے والے مدبر رہنما چارلس ڈیگال کے الفاظ بھی پڑھ لیجئے:'' آپ کو یقین ہوناچاہئے کہ امریکی وہ تمام حماقتیں کریں گے جو آپ سوچ سکتے ہیں، لیکن ان میں سے بعض ایسی ہوں گی جن کا آپ تصوربھی نہیں کرسکتے۔''
ہیلی کاپٹر اترتا ہے، طالبان کی طرف سے دو افراد امریکی فوجی کو لئے آگے بڑھے، دوسری جانب سے دو امریکی آگے بڑھے۔ امریکیوں کے سراپے سے گھبراہٹ پوری طرح عیاں ہے، اسی عالم میں دونوں گروہ ہاتھ ملاتے ہیں۔ ایک امریکی اس قدر خوفزدہ ہے کہ بس اپنا بایاں ہاتھ بڑھا کر طالبان کمانڈو کے ہاتھ کو ہلکا سا چھوتاہے ، پھر وہ دونوں اپنے ساتھی کو لے کر ہاتھ ہلاتے ہوئے واپس مڑ جاتے ہیں۔
امریکی قیدی کے تبادلے کے لیے محض محدود وقت کے لیے خوست کے محدود علاقے میں جنگ بندی ہوئی تاکہ امریکی ہیلی کاپٹر میں آ کر ایک قبائلی سردار کے مکان سے اپنے ساتھی کو لے جائیں۔ امریکی حکام نے تسلیم کیاکہ 28 سالہ امریکی سارجنٹ بووی رابرٹ برگڈال کو صحیح سلامت امریکی حکام کے حوالے کیا گیا۔ امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ واحد امریکی فوجی تھا جو طالبان کی قید میں تھا۔
تاہم طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس مزید امریکی قیدی موجود ہیں۔ اسے افغانستان کے صوبہ پکتیا میں تعینات کیاگیاتھا، تاہم اپنی تعیناتی کے محض پانچ ماہ بعد وہ اپنے ہی اڈے سے لاپتہ ہوگیاتھا۔ پانچ طالبان رہنماؤں اور امریکی فوجی کی رہائی میں قطر نے کردار ادا کیا۔ دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی کے لئے مذاکرات سال 2009ء سے چل رہے تھے، امسال فروری میں مذاکرات میں تعطل بھی آیا تاہم اس کے بعد مذاکرات کامیابی سے ہمکنارہوئے۔
یہ مذاکرات خفیہ ہرگزنہیں تھے بلکہ رواں سال جنوری میں امریکی کانگریس میں بھی اس پر بحث ہوئی تھی۔ اس کے بعد امریکی حکام نے طالبان کے سامنے شرط رکھی تھی کہ وہ امریکی سارجنٹ کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کریں۔ تب طالبان نے رابرٹ گڈل کی ایک ویڈیو تیارکرکے ریلیز کی۔ ویڈیو کو تازہ ترین ثابت کرنے کے لئے اس میں جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کے انتقال کا ذکر بھی کیا۔ رہائی کے بعد رابرٹ برگڈال کو افغانستان سے جرمنی میں قائم امریکی ملٹری ہسپتال میں منتقل کردیاگیا۔
برطانوی اخبار ''سنڈے ٹائمز'' نے دعویٰ کیا کہ سارجنٹ برگیڈال نے طالبان کی قید میں اسلام قبول کرلیاتھا اور اس کانام 'عبداللہ' رکھاگیاتھا۔ جبکہ ایک دوسری کہانی بھی زبان زدعام ہے کہ بووی برگڈال اپنی فوجی چوکی سے فرار ہوکر خود ہی طالبان سے جاملے تھے۔افغانستان کے ایک گاؤں کے باشندوں نے امریکی فوجی کی گمشدگی کے دن کے کچھ رازوں سے پردہ اٹھادیا ہے۔
یہ فوجی جہاں تعینات تھا وہاں سے تقریباً آدھے میل کے فاصلے پر یوسف خیل کا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے باشندوں سے مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایک نمائندے نے بات چیت کی ہے جس میں دلچسپ انکشافات ہوئے۔ جمال نامی ایک افغان نے بتایا کہ گاؤں والے یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک امریکی فوجی پریشان حال سا ہوکر گاؤں کی طرف آرہا ہے۔ گاؤں کے لوگوں نے اسے خبردار کیا کہ وہ مزید آگے نہ بڑھے کیونکہ یہ علاقہ طالبان کی موجودگی کی وجہ سے خطرناک تھا۔
لوگوں نے اسے کھانا اور پانی دینے کی بھی کوشش کی لیکن یہ فوجی اپنی دھن میں مست آگے ہی بڑھتا گیا گویا کہ وہ خود بھی طالبان کی تلاش میں ہو۔ کچھ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ امریکی فوجی زیادہ نشہ بازی کی وجہ سے نیم مدہوش تھا۔ افغان گاؤں کے لوگوں کے بیانات سے برگڈال پر غداری کے الزامات کو تقویت مل سکتی ہے۔
گوانتانامو بے سے رہا کیے جانے والے قیدیوں میں محمد فضل، خیراللہ خیرخواہ، عبدالحق واثق، ملا نوراللہ نوری، اور محمد نبی قمری شامل ہیں۔ مغربی میڈیا نے بھی اعتراف کیاکہ امریکہ نے گوانتانامو بے سے انتہائی اہم طالبان رہنما رہا کئے ہیں۔ معاہدے کے مطابق یہ طالبان رہنما ایک سال تک قطر میں ہی مقیم رہیں گے۔
محمدفضل 2001ء میں گرفتاری کے وقت طالبان کے نائب وزیردفاع تھے، ان پر امریکی حکام نے جنگی جرائم کا الزام عائدکیا تھا۔ خیراللہ خیرخواہ نے وزیرداخلہ اور گورنرہرات کے طورپر خدمات انجام دیں، امریکیوں کے خیال میں ان کا القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سے براہ راست تعلق تھا۔ عبدالحق واثق نائب وزیربرائے انٹیلی جنس تھے، ان پر اتحادی افواج کے خلاف جہاد کے لئے سابق جہادی گروہوں کے ساتھ روابط کا الزام تھا۔ ملانوراللہ نوری سینئر طالبان فوجی کمانڈر تھے اور ان پر شیعہ اقلیت کے خلاف اقدامات کا الزام تھا۔ محمد نبی عمری طالبان حکومت میں چیف آف سیکورٹی سمیت مختلف اہم ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔
افغان طالبان کے سربراہ ملامحمد عمر نے ایک بیان میں امریکی فوجی کے بدلے پانچ طالبان رہنماؤں کی رہائی کو' بڑی فتح' قرار دیا۔ انھوں نے گوانتانامو جیل سے طالبان کے پانچ اہم رہنماؤں کی رہائی پر افغان مسلمانوں، طالبان اور قیدیوں کے رشتہ داروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا'' الحمدللہ! ثم الحمدللہ!! کہ مجاہدین کی بے دریغ قربانیوں کی برکت اور امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کی مدبرانہ جدوجہد کے نتیجے میں امارت اسلامیہ کے پانچ رہنماء گوانتانامو جیل سے اللہ تعالی کی نصرت سے تندرست حالت میں رہا ہوئے۔
اس عظیم کامیابی اور واضح فتح سے تمام مجاہدین رب منان کی بارگاہ میں سربسجود ہوں جنہوں نے اپنی قدرت سے ہمارے مجاہد عوام کی قربانیوں میں تاثیر پیدا فرمائی اور دشمن کے چنگل سے ہمارے مجاہدین کو نجات دلائی''۔ انھوں نے کہاکہ ان اہم رہنماؤں کی رہائی پر تمام مجاہدین، رہبری شوری امارت اسلامیہ، امریکی فوجی بوی رابرٹ برگڈل کو گرفتار اور نگرانی کرنے والے مجاہدین اور رہنماؤں اور امت مسلمہ اور اس عظیم کامرانی میں شریک اشخاص کی جدوجہد قابل ستائش ہے۔
انھوں نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد بن خلیفہ آل ثانی کا بھی شکریہ اداکیا، جنہوں نے مذکورہ رہنماؤں کی رہائی میں مخلصانہ جدوجہد، ثالثی اور میزبان کا کردار ادا کیا۔ انھوں نے کہاکہ یہ عظیم کامیابی ہمیں تمام ملک کی آزادی کی نوید سناتی ہے اور ہمیں مزید تسلی دیتی ہے، کہ ان شاء اللہ افغان مجاہد عوام کی آرزوؤں سے بھری کشتی ساحل کی جانب قریب ہوچکی ہے''۔
کرزئی حکومت نے امریکہ کے طالبان سے قیدیوں کی تبادلے کے سمجھوتے پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ یادرہے کہ افغانستان کو قیدیوں کے تبادلے کے بعد اس سمجھوتے کے بارے میں آگاہ کیا گیاتھا۔قطر میں مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولوی نیک محمد نے بھی ایک انٹرویو میں واضح طور پر کہا ہے کہ مذاکرات کے دوران نہ تو پاکستان اور نہ ہی افغانستان کو اس کا علم تھا: 'جب قیدیوں کا تبادلہ ہوگیا تو پھر یہ خبر عام کی گئی۔' افغانستان کا کہنا ہے کہ قیدی کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
امریکہ میں اپوزیشن ری پبلیکن پارٹی نے بھی اوبامہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیااور کہا کہ اس اقدام سے امریکی فوجیوں کو اغوا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چئیرمین مائیک راجر نے کہاہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرنا امریکہ کی بنیادی پالیسی میں تبدیلی کے مترادف ہے۔
طالبان رہنما نذر محمد مطمئن کہتے ہیں کہ اس کامیابی کے بعد امریکہ طالبان کے ساتھ اس مذاکراتی عمل کو شاید مزید آگے وسیع بنیادوں پر لے جانا چاہے گا۔ ان کے بقول ''اس بابت امریکی اعلان کہ وہ سنہ 2016 تک تمام فوجی افغانستان سے نکال دے گا، طالبان کو اس بات پر راضی کرنے میں مدد دے گا کہ وہ اسے اپنا دشمن تصور کرنے کا درجہ تبدیل کر دے۔
اس کے بعد افغان حکومت کا یہ جواز بھی ختم ہو جائے گا کہ طالبان مغرب کے دشمن ہیں اور بالآخر افغان حکومت سے بھی مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔''امریکی وزیردفاع چک ہیگل کا بھی کہناہے کہ جنگی قیدیوں کا تبادلہ وسیع ترامن عمل کا راستہ کھولے گا۔ طالبان مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان ڈاکٹرنعیم کے مطابق اگربات چیت کامیاب ہوگئی توبگرام میں قید 131طالبان رہنماؤں کے بدلے باقی امریکیوں کو بھی رہاکردیاجائے گا۔
افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد ڈھائی ہزار کے لگ بھگ ہوچکی ہے ۔ برطانوی فوجی 453، دیگرممالک سے تعلق رکھنے والے 666 ہیں۔ مجموعی طورپر ان کی تعداد ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ ہے۔
یادرہے کہ یہ اعدادوشمار ناٹو کے بیان کردہ ہیں۔ آزاد ذرائع اور طالبان کے دعووں پر دھیان دیاجائے تو افغانستان میں کام آنے والے غیرملکی قابض فوجیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ افغانستان میں ہونے والے نقصان سے گھبرا کر اب امریکی حکام کسی بھی قیمت پر واپس بھاگنے کی کوششوں میں ہیں۔ انھیں واپسی کا محفوظ راستہ چاہئے لیکن طالبان کے ارادے کچھ اور ہی ہیں۔ وہ فرارہوتے امریکیوں پر حملے نہ کرنے کی ضمانت دینے کو تیار نہیں۔
اوباما کی جانب سے افغان پالیسی کے اعلان کے بعد افغانستان کے دوردراز علاقوں سے امریکیوں نے قندھار، بگرام اور کابل کی طرف منتقلی شروع کردی ہے۔ذرائع کے مطابق امریکی انخلا میں سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان کے طول وعرض میں پھیلا اس کا 430ارب ڈالر کا وہ فوجی سکریپ ہے جو گزشتہ بارہ برسوں میں مختلف امریکی اڈوں پر پڑاہے۔ اس میں ہیلی کاپٹرز، طیاروں سمیت دیگرفوجی گاڑیاں ہیں۔ امریکہ اپنے 9800 فوجیوں کو 2014ء کے بعد اسی سکریپ کی حفاظت کے لئے رکھناچاہتاہے تاہم انخلا کے بعد ان اڈوں کی حفاظت کے لئے یہ فوجی کم رہیں گے۔
دوسری طرف افغان طالبان نے مشرقی افغانستان میں پیش قدمی شروع کردی ہے۔ انھوں نے صوبہ بدخشاں سمیت ملک کے جن علاقوں پر اپنی عمل داری قائم کرلی ہے، وہاں ان تمام پولیس اہلکاروں کو گھروں کو جانے کی اجازت دیدی جو طالبان کے ساتھ کام نہیں کرناچاہتے تھے جبکہ باقی اہلکاروں کو اپنے نظام تربیت سے گزارکر ان کی ذمہ داریوں پر برقرار رکھا گیا ہے۔
طالبان امریکیوں کے جانے کے بعد نئی سوچ کے ساتھ افغانستان میں رہنے کا فیصلہ کئے ہوئے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ وہ امریکیوں کے جانے کے بعد معاشرے کے تمام گروہوں بشمول حزب اسلامی سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ ہم افغانستان میں خانہ جنگی نہیں ہونے دیں گے اور اس کے لئے ہم ضمانت دینے کے لئے بھی تیار ہیں۔
ان کاکہناہے کہ امریکی صدر نے جب اعتراف شکست کرلیاہے تو افغانستان میں امریکیوں کے رہنے کا کوئی جوازنہیں بنتا۔ امریکی جریدہ 'یو ایس ٹوڈے ' نے واضح طورپر لکھا کہ امریکہ افغانستان کی جنگ سے بری طرح تھک چکاہے۔ چندہفتے قبل امریکی صدراوباما نے کہاتھا کہ امریکہ نے افغانستان میں امن قائم کرنے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ پوری دنیا کو وہ دن بخوبی یاد ہے ، جب افغانستان پر قبضہ کرتے ہوئے اس وقت کے صدربش خوب اچھل اچھل کرنعرے لگارہے تھے کہ وہ افغان قوم کو آزادی دلائیں گے لیکن آج ان کی مہم جوئی خود امریکہ کے لئے وبال جان بن چکی ہے۔
جس روز رابرٹ گیڈل کے بدلے میں چوٹی کے پانچ طالبان رہنما رہاکئے جارہے تھے، عین اسی روزامریکی ذرائع ابلاغ نے اس سوال کا خوب جواب تلاش کیاکہ کیا اسی دن کے لئے انھوں نے افغانستان پر قبضہ کیاتھا؟نائن الیون سے پہلے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن نے معروف مغربی صحافی اور دانشور رابرٹ فسک سے ایک انٹرویو میں کہاتھا ''امریکہ کا جس دن حرمین کے بیٹوں سے پالا پڑے گا ، وہ ویت نام بھول جائے گا''۔
جبکہ انہی دنوں طالبان سربراہ مْلا محمد عمر نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہاتھا''اس جنگ کا اختتام امریکہ کی رسوائی پہ ہوگا، امریکہ افغانستان کی خاک چاٹ کر نکلے گا۔'' آخر میں سابق فرانسیسی صدر اور امریکی نفسیات کو خوب سمجھنے والے مدبر رہنما چارلس ڈیگال کے الفاظ بھی پڑھ لیجئے:'' آپ کو یقین ہوناچاہئے کہ امریکی وہ تمام حماقتیں کریں گے جو آپ سوچ سکتے ہیں، لیکن ان میں سے بعض ایسی ہوں گی جن کا آپ تصوربھی نہیں کرسکتے۔''