پارشل مارشل لاء‘ سب کا بھلا
کیا ہمیں عقلِ سلیم(Common Sense)سکھانے کے لیے بھی فرشتے آسمانوں سے اتریںگے
کیا ہمیں عقلِ سلیم(Common Sense)سکھانے کے لیے بھی فرشتے آسمانوں سے اتریںگے اور جب تک فرشتے نہیں اترتے تب تک ہم اسی طرح حماقتوںکے بھنور میںچکر کھاتے رہیں گے؟ ہمارے دانشوروں کی دانش کس مصرف کی جب وہ 2+2=4والی منطق کو بھی کام میں نہیں لاسکتے ۔
وطن کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ کس قدر آسانی کے ساتھ کراچی جیسے کثیر آبادی والے MegaCityکا کاروبار حیات ایک منٹ میں بند کرادیا جاتا ہے ۔ شہر میں ہوکا عالم، بازار بند ، ٹرانسپورٹ بند، اسکول کالج بند، مزدوروںکی روزی بند، دوا دارو بند ،گاڑیاںاور بسیں نذر آتش ،معصوم نوجوان قتل ،دہشت وحشت کا راج، پوری قوم بے بس، یہ ہے ایٹمی بحری طاقت اور بیس اٹھارہ کروڑ کی آبادی والے ملک کی تصویر۔
ادھر دوسری طرف یہ حال ہے کہ وطن عزیزکا خاصہ بڑا شمالی حصہ پتہ نہیں کن قوموں اور کن قوتوں کے تسلط میں ہے ۔کون سی مخلوق وہاںآباد ہے اورکیا چاہتی ہے؟ وہاں قدم رکھتے ہوئے فرشتوںکے بھی پر جلتے ہیں۔ پاکستانی شہری اور فوجی درجنوں کے حساب سے مارے جاتے ہیں ۔ مذاکرات کی خیرات کشکول میں ڈالی جاتی ہے ۔ نئے وزرا بھرتی کیے جاتے ہیں ۔ ٹی وی پر لمبے چوڑے لوگوں کی ملاقاتیں دکھائی جاتی ہیں مگر نتیجہ صفر سے بد تر ۔ دہشت گرد تقدس کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں ۔ بڑے مزے سے اسکول، خاص کر لڑکیوں کے اسکول تباہ کیے جاتے ہیں۔ کوئی انھیں چھو بھی نہیں سکتا ۔ ان کی دہشت گردی کا ''جواز'' پیش کیا جاتا ہے ۔ وضاحتوں کے انبار لگائے جاتے ہیں کہ ''عورتوںکو قتل کرنا تو ہماری روایت ہے۔''
کرپشن کا لفظ تو بہت چھوٹا پڑگیا ہے۔ بھتہ خوری کا نشانہ صرف تاجر ہی نہیں ' ڈاکٹروں اور اسکولوں سے بھی بھتے وصول کیے جاتے ہیں ۔ پرچیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔سنگین نتائج سے ڈرایا جاتا ہے ۔ اغوا برائے تاوان کی داستانوں سے اخبار چھلک رہے ہیں ۔ ونی، سوارا جیسی ظالمانہ رسمیں ہم پر سوار ہیں۔
با اثر لوگوں کے نجی جیل بھی قائم ہیں مگر ان سے کوئی باز پرس نہیں ہوتی کہ تم نے اپنے ایوانوں میں یہ اذیت خانے کیوں قائم کیے ہیں؟ یہاں درجنوں معصوم مردوں عورتوں' بوڑھوں اور بچوں کو کیوں قید رکھا جا رہا ہے ؟ قبائلی نظام اور جاگیرداری کے اس ماحول میں ہماری جمہوریت بھی ایک بھیانک مذاق ہے جہاں سرداروں، خانوں اور وڈیروں کا حکم چلتا ہے، جہاں ہر پولیس تھانہ''بااثر'' لوگوں کی جیب میں ہوتا ہے جہاں کرپشن میں نہائے ہوئے سرکاری عہدہ دار بادشاہ ہوتے ہیں ۔
دھونس دھاندلی کی بنیاد پر ''کامیاب'' ہونے والے ''عوامی نمایندے'' گدی سنبھالتے ہی کمائی میں لگ جاتے ہیں ۔سارے خاندان اور منظور نظر احباب کے گھروں میں ہن برسنے لگتا ہے ۔ رعب و دبدبہ الگ۔ستم یہ کہ منتخب ہونے والے برسراقتدار اصحاب بڑے فخر کے ساتھ کہتے پھرتے ہیں کہ قوم نے ان کو پانچ سال کے لیے چنا ہے۔ لہذا پانچ سال تک دونوں ہاتھوں سے قومی خزانہ لوٹنا اب ان کا جمہوری حق بن گیا ہے ۔ اس تصور کی زندہ مثال پچھلا دور حکومت تھا جس کو بڑا شاندار موقع ملا تھا مگر اوپر سے نیچے تک ہر وزارت اور ہر محکمہ بڑے دھڑلے کے ساتھ قومی دولت لوٹتا رہا ۔
مگر ہم کب تک اندھیروںکی بات کریں گے ۔ کراچی میں جناح ٹرمینل پر حملے اور تفتان کے اندوہناک واقعے کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ ان سیاہ پردوںکوگرا دیا جائے تاکہ نگار وطن کا حسن سحر تاب ہماری زندگیوں میں اجالے بھرے گا ۔ مگر یہ کام کون کرے گا اور کیوں کر ہوگا ؟ یقیناً یہ کام ہمارے موجودہ سیاست دانوں کے بس کا نہیں ہے اور فرینکلن روز ویلٹ بھی سیاستدان تھے ۔ طویل عرصہ تک قوم کی خدمت کرتے رہے ۔انھیں قوم کا اعتماد حاصل تھا اور وہ ایسے بنیادی کام کرگئے جو لمبی مدت اور سخت محنت کے طلبگار ہوتے ہیں۔
اب یہ کام کس طرح ہوگا ؟صر ف ایک ہی راستہ ہے۔ ''پارشل مارشل لا PARTIAL MARTIAL LAW - GOOD FOR ALL!
1۔ امن وامان پورے ملک میں مکمل طور پر پارشل مارشل لا کے کنٹرول میں ہوگا ۔ شہروں میں کسی ہڑتال کی اجازت نہیں ہوگی۔کاروبار زندگی کوکوئی روک نہیں سکے گا ۔ اسلحے کے زور پر دوکانیں بند کرانا، اسکول کالج بند کرانا،گاڑیاںاوردکانیں جلانا سنگین ترین جرائم ہوں گے ۔ تمام ''نوگو ایریا '' کلیئر کرائے جائیں گے تاکہ زندگی رواں دواں رہے۔
2۔ اسکولوںاور کالجوں میں صرف پڑھائی ہوگی کسی قسم کی غنڈہ گردی کی اجازت ہرگز نہیں ہوگی۔
3۔ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کو کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا تاکہ تاجر سکون کے ساتھ کاروبار کرسکیں۔
4۔ ایک بے حد اہم کام یہ ہوگا کہ مذہب کو سیاسی و ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے اور نہ ہی مذہبی دہشت پھیلائی جائے :
اسلام سر کا تاج ہے زنجیرِ پا نہیں
گلزارِ ارتقا سے مسلماں جدا نہیں
(تشنہؔ)
5۔ عورتوں اور لڑکیوںکو بے خوف وخطر پاکستانی معاشرے میں آگے بڑھنے کے لیے مکمل مواقعے فراہم کیے جائیں۔ عورتوں کے خلاف ہونیوالے جبر کے دوسری گھنائونی رسموں کے ساتھ فوری ختم کرائے جائیں ۔ قبائلی نظام اور وڈیرہ شاہی کے اختتام کے لیے بھی زمین تیار کی جائے گی۔
6۔ قوم کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی جن سیاسی رہنمائوں وزیروں وغیرہ نے قوم کو کھوکھلا کیا ہے۔ ان سب سے ''پارشل مارشل لا'' کے تحت فوراً رابطہ کیا جائے ۔ کسی جبر 'کسی سختی کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک'' فوجی مسکراہٹ'' ہی کافی ہوگی ۔ سوئس بینکوں کے خفیہ اکائونٹ کھولنے کے لیے اس طرح حاصل ہونے والی اربوں کھربوں کی دولت کو ملک سے بیروزگاری (اور لوڈ شیڈنگ) دور کرنے کے لیے استعمال کیا جائے :
دوستو یہ تو بتائو غور کب فرمائو گے
کتنے دھوکے اور کھاکر ہوش میں تم آئو گے
(تشنہؔ)