بیرونی مارکیٹ میں پاکستانی آم کی ساکھ بھی خطرے میں

اگر کوئی پاکستانی تاجر بھارتی آم برآمد کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ہم بھی یورپی یونین کی پابندیوں کی زد میں آجائیں گے


آم اپنے ذائقے، تاثیر، رنگ اور صحت بخش اثرات کے لحاظ سے تمام پھلوں سے منفرد ہے فوٹو : فائل

آم کا شمار دنیا کے پسندیدہ ترین پھلوں میں کیا جاتا ہے اسے ملک کے بیشتر ممالک میں پھلوں کا بادشاہ بھی پکارا جاتا ہے۔اس کا آبائی وطن جنوبی ایشیاء اور جنوب مشرقی ایشیاء ہے۔ لیکن یہ دنیا کے تمام استوائی علاقوں میں پیدا ہوتا ہے۔ برصغیر میں اس پھل کی پیداوار کافی ہے، لہذا بھارت اور پاکستان کا قومی پھل مانا جاتا ہے۔

سندھڑی، چونسہ، لنگڑا، انور رٹول، الفانسو، بنگن پلی، الماس اور لال پری آم کی مشہور اقسام ہیں ۔ ماہرین کے مطابق آم انسانی صحت کے لئے انتہائی مفید ہے اور یہ دل اور معدے کے امراض کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔آم کے استعمال سے خون بننے میں مدد ملتی ہے اور اس سے پیٹ کی بیماریاں بھی ختم ہوتی ہیں ۔

آم اپنے ذائقے، تاثیر، رنگ اور صحت بخش اثرات کے لحاظ سے تمام پھلوں سے منفرد ہے اور چونکہ خوب کاشت ہوتا ہے، اس لیے سستا اور سہل الحصول بھی ہے۔ فرانسیسی مورخ ڈی کنڈوے کے مطابق برصغیر میں آم 4 ہزار سال قبل بھی کاشت کیا جاتا تھا۔ آج کل جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر اِسے کاشت کیا جاتا ہے۔

ماہرین طب کی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ آم تمام پھلوں میں سے زیادہ خصوصیات کا حامِل ہے اور اس میں حیاتین ''الف''' اور حیاتین ''ج'' تمام پھلوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ کچا آم بھی اپنے اندر بے شمار غذائی و دوائی اثرات رکھتا ہے، اس کے استعمال سے بھوک لگتی ہے اور صفرا کم ہوتا ہے۔



پاکستان میں آم رقبے اور پیداوار کے لحاظ سے ترشاوہ پھلوں کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ پاکستان میں آم کے باغات کا کل زیر کاشت رقبہ 4.2 لاکھ ایکڑ اور پیداوار17 لاکھ ٹن ہے جبکہ پنجاب میں آم کا زیر کاشت رقبہ 2.75 لاکھ ایکڑ اور پیداوار 13 لاکھ ٹن ہے۔ 2012-13 کے دوران پنجاب میں آم کی پیداوار13لاکھ میٹرک ٹن سے زائد رہی اور بہترین معیار کی بدولت گزشتہ چند سال کے دوران پاکستان نے امریکا، جاپان، اردن، موریشیس اور جنوبی کوریا کی منڈیوں تک کامیابی کے ساتھ رسائی حاصل کی ہے جبکہ اس سے قبل پاکستان سے آم کی زیادہ تر برآمد متحدہ عرب امارات کو کی جاتی رہی ہے جو قریباً 60 سے 70ہزارمیٹرک ٹن تھی۔

محکمہ زراعت پنجاب نے آم کی برآمد کے حوالے سے یورپی یونین کی پابندی کے خدشہ کے پیش نظر جنگی بنیادوں پر آم کے باغات سے فروٹ فلائی کے خاتمہ کی مہم شروع کر دی ہے کیونکہ اس سے ناصرف آم کی پیداوار متاثر ہوتی ہے بلکہ اس کی کوالٹی میں بھی فرق پڑتا ہے۔ اس مہم کے تحت صوبہ کے آم پیدا کرنے والے بڑے اضلاع جن میں ملتان، رحیم یار خان، مظفرگڑھ، خانیوال اور بہاولپور شامل ہیں ان اضلاع میں آم کے پھل کی مکھی کے مربوط طریقہ انسداد کے لئے بھرپور مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ملک میں16 لاکھ ٹن آم کی پیداوار ہوئی جس میں سے ایک لاکھ 25 ہزار ٹن برآمد کردیا گیا جس کی مالیت 50 کروڑ ڈالر تھی، امسال ملک میں 18 لاکھ ٹن کی ریکارڈ پیداوار متوقع ہے جبکہ آم کی برآمدات کا ہدف 1 لاکھ 50 ہزار ٹن رکھا گیا ہے۔ پاکستانی 7 اقسام کے آم امریکا، آسٹریلیا، عرب ممالک سمیت15 ممالک کو برآمد کئے جاتے رہے ہیں، اس سال نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ کی نئی مارکیٹیں بھی دریافت کی گئی ہیں ۔ بھارتی آم کی یورپی منڈیوں میں پابندی کا فائدہ بھی براہ راست پاکستان کو ملنے کا امکان ہے۔رواں سال آم کا برآمدی ہدف ایک لاکھ 75 ہزار ٹن مقرر کیا گیا ہے جس سے 6 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ کمایا جائے گا۔

آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے مطابق آم کے برآمدی ہدف کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے جامع اقدامات کئے جائیں گے۔ آم کا برآمدی سیزن شروع ہو چکا ہے جو اکتوبر کے آخر تک جاری رہے گا ۔ رواں سال کے لئے آم کا برآمدی حجم گزشتہ سال والا ہی رکھا گیا ہے، تاہم مالیت میں 50 لاکھ ڈالر کے اضافہ کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ایسوسی ایشن برآمدی ہدف میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گی بلکہ معیاری آم کی برآمدات کے ذریعے ہدف کے حصول کو یقینی بنایا جائے گا۔

وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے حکام کا کہنا ہے کہ ایکسپورٹ میں کمی ہوجائے لیکن یورپی یونین کو پاکستانی آم پر پابندی لگانے کا موقع نہیں دیں گے، یورپی یونین کو فروٹ فلائی سے پاک آم کی برآمد کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کر رہے ہیں، یورپ کو ایکسپورٹ کرنے کے خواہش مند سخت ترین جانچ کے لیے تیار رہیں، ملک میں نیشنل سیڈز اتھارٹی قائم کی جائے گی، پاکستان میں بیج تیار کرنے والی عالمی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کرنے اور عالمی معیار کے بیج مہیا کرنے کے لیے ترمیمی بل جلد قومی اسمبلی سے منظور کرایا جائے گا۔

اس سال یورپی یونین کو ایکسپورٹ کی کنسائنمنٹ کی سختی سے جانچ کی جائے گی، پی ایف وی اے کے شریک چیئرمین وحید احمد نے فروٹ فلائی سے پاک یورپی یونین کے معیار پر پورا اترنے والے آم کو مارکیٹ سے20 فیصد زائد پریمیم پر خریدنے کی پیشکش کی جسے کاشت کاروں نے سراہا ۔

حکومت پاکستان کی کوششوں سے پاکستان دنیا بھر میں آم پید اکرنے والے ممالک میں پانچویں اور برآمد کرنے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔ پاکستان مینگو گروئرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان نے بتایاکہ رواں سال برطانیہ کو بھی بھاری مقدار میں آم برآمد کیا جا رہا ہے ۔ڈائریکٹر مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان ڈاکٹر حمیداللہ کا کہنا ہے کہ آم کے باغات سے پیداوار چاہے کتنی ہی زیادہ حاصل کر لی جائے جب تک اس کے پھل کے معیار کو قائم نہیں رکھا جائے گا اس سے اچھی آمدنی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ڈاکٹر حمیداللہ کے مطابق ہمارے باغبان اکثر لاعلمی اور فنی تعلیم کی کمی کی وجہ سے پھل کو بروقت اور صحیح برداشت نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے اوسطاً 35 تا 40 فیصد انتہائی قیمتی سرمایہ ضائع ہو جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آم کا پودا ہر سال مختلف ناگزیر مراحل سے گزرنے کے بعد پھل دینے کے قابل ہوتا ہے۔ ان میں سے کسی بھی ایک مرحلہ کی ناکامی براہ راست پیداوار پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

دوسری طرف یورپ کی جانب سے فروٹ فلائی کے باعث بھارتی آموں کے درآمد پر پابندی کے باوجود پاکستان میں بھارتی آموں کی فروخت زوروشور سے جاری ہے جبکہ معائنے کے بغیر پاکستان میں فروخت ہونے والے بھارتی آموں کے باعث مختلف بیماریوں کے پھیلنے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔



ملک میں آم کی برآمد سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے بھارتی آموں کی درآمد پر پابندی کے بعد پاکستان میں واہگہ کے راستے پنجاب میں بھارتی آموں کی آمد اور فروخت کا سلسلہ جاری ہے جبکہ بھارتی آموںمیں فروٹ فلائی اور دیگر بیماریاں پیدا ہونے کے امکانات کے باعث انہیں استعمال کرنے والوں کی صحت کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں ۔

انڈسٹری ذرائع کے مطابق چونکہ پنجاب میں آم کا سیزن دیر سے شروع ہوتا ہے اسی لئے اس وقت پنجاب میں بھارتی آموں کی فروخت عروج پر ہے۔ تاہم عوام یہ نہیں جانتے کہ وہ جو آم کھا رہے ہیں انہیں یورپی عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ انڈسٹری ذرائع نے اس ضمن میں وزارت تجارت اور وزارت فوڈ سکیورٹی کی چشم پوشی کو بھی نا اہلی اور سست روی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک جانب تو پاکستان میں فروٹ فلائی کے خاتمے کے لئے مہم کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب ملک میں بھارتی آموں کی بلا روک ٹوک فروخت بھی جاری ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ ادارے حرکت میں آئیں اور پاکستان سے بیماریوں سے پاک پھل بیرون ممالک بھجوانے کے لئے اقدامات کئے جائیں اور بھارت سے آنے والے پھل کے معیار کا بھی جائزہ لیا جائے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی ایکسپورٹرز کی ملی بھگت سے چند پاکستانی ایکسپورٹرز بھارت سے آم منگوا کر پاکستانی ناموں سے باہر بھجوانے کے درپے ہیں جس کا براہ راست نقصان پاکستان سے پھل ایکسپورٹ کرنے والوں کو اٹھانا پڑے گا اور پاکستان سے بھجوائے گئے بھارتی آموں میں سے پھل مکھی برآمد ہونے پر ملکی پھلوں پر بھی پابندی عائد ہو سکتی ہے۔

پھل مکھی کیا ہے؟
محکمہ زراعت کے مطابق پھل کی مکھی(Fruit Fly) کے حملہ کے باعث آم کا معیار ُبری طرح متاثر ہوتا ہے۔ پھل کی مکھی گھریلو مکھی سے جسامت میں ذرا بڑی ہوتی ہے۔ بالغ مکھی کی رنگت سرخی مائل بھوری، پر شفاف، ٹانگوں کا رنگ زرد اور دھڑ پر پیلے رنگ کی لمبی دھاریاں ہوتی ہیں جبکہ مادہ مکھی پھل کے اندر ڈنگ کے ذریعے انڈے دیتی ہے جن سے نکلنے والی چھوٹی سنڈیاں پھل کو اندر سے کھا کر نقصان پہنچاتی ہیں جس سے پھل کا معیار برُی طرح متاثر ہوتا ہے۔

پھل کی مکھی کے انسداد کے لئے متاثرہ گرے ہوئے پھل کو ہفتہ میں دو بار اکٹھا کرکے زمین میں ڈیڑھ تا دو فٹ گہرا دبا دیں یا باغ سے باہر صاف پختہ جگہ پر دھوپ میں پھیلا دیں تاکہ پھل میں موجود سنڈیاں تلف ہوجائیں اور پھل کی مکھی کی افزائش نسل کو روکا جا سکے۔



متاثرہ درختوں کے نیچے ہلکی گوڈی کریں تاکہ مکھی کا پیوپا سورج کی روشنی یا طفیلی / شکاری کیڑوں کے ذریعے تلف ہو جائے ۔

مادہ مکھی کے تدا رک کے لئے پروٹین ہائیڈرولائیزیٹ کا استعمال محکمہ زراعت کے مقامی زرعی ماہرین کے مشورہ سے کیا جاتا ہے ۔ آم کے باغبان پٹ سن کی بوریوں کو شیرے میں بھگو کر ان کے اوپر تھوڑی مقدار میں ٹرائی کلورفان کا چھڑکاؤ کریں اور ان کو باغ میں سایہ دار جگہوں پر رکھیں تاکہ پھل کی مکھی کا تدارک ہو سکے۔ آم کے باغات میں پھل کی مکھی پر مکمل کنٹرول کے لئے اس کے دیگر میزبان پودوں مثلاً ترشاوہ پھلوں، امرود، بیر، پپیتا، بینگن ، بیل والی سبزیوں اور جڑی بوٹیوں کو بھی بچاؤ اور تلف کرنے کی تدابیر کے ذریعے محفوظ بنانا ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں