لاہور میں خواتین رائیڈرز بھی فوڈ ڈلیوری کا کام سر انجام دینے لگیں
خاص طور پر خواتین کسٹمرز ان کو شاباش دیتیں اور ان کا حوصلہ بڑھاتی ہیں، فی میل فوڈ ڈلیوری رائیڈرز
فوڈ ڈلیوری کا کام زیادہ تر لڑکے ہی کرتے نظر آتے ہیں تاہم اب لاہور اور اس جیسے بڑے شہروں میں بعض خواتین رائیڈر بھی یہ کام سرانجام دے رہی ہیں۔
فی میل فوڈ ڈلیوری رائیڈرز کا کہنا ہے کہ انہیں کسٹمرز کی طرف سے اکثر مثبت اور اچھے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کسٹمرز ان کو شاباش دیتیں اور ان کا حوصلہ بڑھاتی ہیں۔ فیلڈ میں مختلف ذہنیت اور مزاج رکھنے والے افراد سے وابستہ پڑتا ہے لیکن وہ گھر سے ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کی تیاری کے ساتھ نکلتی ہیں۔
خاتون رائیڈر نے بتایا کہ میرے والد کو جب معلوم ہوا کہ میں نوکری کرنا چاہتی ہوں اور فوڈ ڈلیوری کا کام کروں گی تو وہ بہت ناراض ہوئے تھے لیکن تھوڑی لڑائی جھگڑے کے بعد میں نے انہیں منا لیا تھا، اب میری فیملی مجھ پر فخر کرتی ہے۔
میکڈونلڈ گلبرگ میں بطور فوڈ ڈلیوری رائیڈر کا کام کرنے والی مزمل حاجی کا تعلق لاہور کے علاقے شملہ پہاڑی سے ہے اور گریجوایشن کے بعد اب ماسٹرز کی تیاری کر رہی ہیں۔
مزمل نے بتایا کہ میری نو بہنیں اور ایک بھائی ہے، والدین میں علیحدگی کے بعد وہ اپنی والدہ اور بھائی، بہنوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے اور گھر کا چولہا جلانے کے لیے وہ پارٹ ٹائم یہ کام کرتی ہیں۔ مزمل حاجی کے مطابق انہوں نے بائیک چلانا اپنے والد سے ہی سیکھی تھی، شروع میں کافی چوٹیں بھی لگتی تھیں لیکن اب وہ بلاخوف و خطر بائیک چلا لیتی ہیں، اسی وجہ سے فوڈ ڈلیوری کے کام کا انتخاب کیا ہے۔
مزمل حاجی کی طرح کشف ندیم بھی فوڈ ڈلیوری رائیڈ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ کشف ندیم، اعوان ٹاؤن کی رہائشی ہیں، وہ صبح کالج جاتیں اور شام کو پارٹ ٹائم فوڈ ڈلیوری کا کام کرتی ہیں۔ کشف ندیم کے مطابق وہ اپنی والدہ اور بھائی کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان سے بڑی دو بہنیں ہیں جن کی شادیاں ہوچکی ہیں۔
خواتین کو اکثر سڑکوں پر رائیڈ کرتے ہوئے بعض لوگ گھور کر دیکھتے اور جملے کستے ہیں جبکہ فوڈ ڈلیوری کرنے والوں کو تو ڈلیوری میں تاخیر یا آرڈر میں کوئی چیز مس ہونے پر سخت رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کشف اور مزمل کہتی ہیں ان کا تجربہ کافی مختلف رہا ہے۔
کشف کہتی ہیں کہ ہم لوگوں کا ڈلیوری پہنچانے کا وقت 30 منٹ تک ہوتا ہے، اگر ٹریفک، موسم کی خرابی یا کسی بھی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو ہم کسٹمر کو کال کرکے صورتحال سے آگاہ کرتے اور انہیں مطمئن کرتے ہیں۔ تین سالوں میں ان کے ساتھ کسی نے بدتمیزی کی اور نہ ہی کسی کسٹمر نے غصے سے بات کی ہے۔
مزمل کہتی ہیں کہ اکثر خواتین کسٹمرز کو جب معلوم ہوتا ہے کہ ایک لڑکی ان کی ڈلیوری لیکر آئی ہیں تو وہ ناصرف خوش ہوتیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں۔ اس سے ان کی ہمت اور جذبہ بڑھتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق لاہور میں اس وقت 50 سے زائد فی میل فوڈ ڈلیوری رائیڈرز ہیں ۔ تاہم تمام فی میل فوڈ ڈلیوری رائیڈرز کا تجربہ ایک جیسا نہیں ہے۔ ایک معروف فوڈ ڈلیوری کمپنی فوڈ پانڈا کے ساتھ منسلک فوڈ ڈلیوری رائیڈر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں کئی مرتبہ رائیڈنگ کے دوران اور کسٹمرز کی طرف سے ناپسندیدہ جملوں اور سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک بار وہ فیصل ٹاؤن میں ایک گھر پیزا ڈلیوری کے لیے گئی جہاں موجود لڑکوں نے اسے بھاری رقم دینے اور غلط کام کرنے کی پیشکش کی، ایک لڑکے نے تو ان کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ان کی زندگی کا ایک بھیانک دن تھا لیکن پھر اس نے ہمت کی اور ان لڑکوں کو سختی سے جواب دیا، اس سے پہلے کہ میں 15 پر کال کرتی ان لڑکوں نے معافی مانگنا شروع کر دی تھی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بعض کسٹمر ان سے فون نمبر مانگتے ہیں اور اگر کسی کسٹمر سے لوکیشن معلوم کرنے کے لیے فون پر رابطہ کیا جائے تو وہ کسٹمر نمبر سیو کرکے بعد میں میسج بھیجتے یا پھر کال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح پیمنٹ کرنے اور ٹپ دینے کے بہانے ہاتھ پکڑنے، چھونے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اور خاتون رائیڈر نازیہ شفیق نے بتایا کہ رائیڈنگ کرتے وقت جب کبھی ٹریفک سگنل پر رکنا پڑتا ہے تو کئی نوجوان اور بزرگ بڑے غور سے ان کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، انہیں یہ سب بہت برا لگتا ہے۔ ان لوگوں کی نظریں جسم میں چھبتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالانکہ وہ اس طرح کا لباس پہنتی ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا کافی مشکل ہوتا ہے کہ وہ لڑکا ہیں یا لڑکی لیکن پھر بھی کچھ لوگ گھور کر دیکھتے ہیں۔
فوڈ ڈلیوری سروس فراہم کرنے والی کمپنیاں اپنے رائیڈرز کو فیلڈ میں بھیجنے سے قبل ٹریننگ بھی دیتی ہیں۔ میکڈونلڈ گلبرگ برانچ کے مینیجر عمر عزیز نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ''ہم اپنے رائیڈرز کو ٹریننگ دیتے ہیں کہ فیلڈ میں انہیں مختلف رویوں اور مزاج کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑے گا، کسٹمرز سے کیسے بات کرنی ہے اور کس طرح خود کو محفوظ رکھنا ہے اس بارے بتایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج تک انہیں اپنے کسی کسٹمر اور نہ ہی اپنے کسی رائیڈر کی طرف سے کوئی شکایت ملی ہے۔
عمرعزیز کہتے ہیں کہ خواتین رائیڈرز کی سروس کو زیادہ پذیرائی ملتی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین بھی اتنی ہی باصلاحیت ہیں جتنا کہ کوئی مرد ہوتا ہے۔ ہم کسی جینڈر تقسیم کے بغیر سب کو مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ٹریننگ دیتے ہیں، یہ پھر ان کی اپنی صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس سے کیا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
فی میل فوڈ ڈلیوری رائیڈرز کہتی ہیں کہ جب تک کسی لڑکی کو اس کے گھر والے سپورٹ نہ کریں اس کے لئے باہر نکل کر کام کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب لوگوں کو شعور آرہا ہے اور وہ اپنی بیٹیوں کو بھی بیٹوں کی طرح زندگی کے میدان میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔
صنفی امتیاز پر کام کرنے والی راشدہ قریشی کہتی ہیں کہ مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ سمجھا جاتا ہے جہاں صدیوں سے خواتین کو صرف گھروں کے کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہی دیکھا گیا ہے۔ اب جب خواتین تعلیم اور آگاہی کی وجہ سے باہر نکلی ہیں، گاڑی چلانا شروع کیں اور اب بائیک چلا رہی ہیں تو سوسائٹی نے اس تبدیلی کو قبول کرنا شروع کیا ہے لیکن اب بھی بعض افراد خواتین کو کمزور اور آسان ہدف سمجھتے ہوئے ان پر طنز کرتے نظر آتے ہیں۔
انہوں نے مثال دی کہ جس طرح کچھ عرصہ پہلے ٹریفک پولیس نے خواتین اہلکاروں کو فیلڈ میں تعینات کیا تھا لیکن شہریوں کے ردعمل اور رویوں کی وجہ سے خواتین کو دفتروں تک محدود کر دیا گیا تھا لیکن اب خواتین ہمت کر رہی ہیں جو ناصرف بائیک چلانا سیکھ رہی بلکہ فوڈ ڈلیوری میں نظر آتی ہیں، ایسی خواتین یقیناً دوسری خواتین کے لیے مثال بنیں گی۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق اگر قوانین پر عمل میں سختی لائی جائے تو فیلڈ میں آنے والی ان خواتین کو مزید حوصلہ ملے گا۔
فی میل فوڈ ڈلیوری رائیڈرز کا کہنا ہے کہ انہیں کسٹمرز کی طرف سے اکثر مثبت اور اچھے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کسٹمرز ان کو شاباش دیتیں اور ان کا حوصلہ بڑھاتی ہیں۔ فیلڈ میں مختلف ذہنیت اور مزاج رکھنے والے افراد سے وابستہ پڑتا ہے لیکن وہ گھر سے ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کی تیاری کے ساتھ نکلتی ہیں۔
خاتون رائیڈر نے بتایا کہ میرے والد کو جب معلوم ہوا کہ میں نوکری کرنا چاہتی ہوں اور فوڈ ڈلیوری کا کام کروں گی تو وہ بہت ناراض ہوئے تھے لیکن تھوڑی لڑائی جھگڑے کے بعد میں نے انہیں منا لیا تھا، اب میری فیملی مجھ پر فخر کرتی ہے۔
میکڈونلڈ گلبرگ میں بطور فوڈ ڈلیوری رائیڈر کا کام کرنے والی مزمل حاجی کا تعلق لاہور کے علاقے شملہ پہاڑی سے ہے اور گریجوایشن کے بعد اب ماسٹرز کی تیاری کر رہی ہیں۔
مزمل نے بتایا کہ میری نو بہنیں اور ایک بھائی ہے، والدین میں علیحدگی کے بعد وہ اپنی والدہ اور بھائی، بہنوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے اور گھر کا چولہا جلانے کے لیے وہ پارٹ ٹائم یہ کام کرتی ہیں۔ مزمل حاجی کے مطابق انہوں نے بائیک چلانا اپنے والد سے ہی سیکھی تھی، شروع میں کافی چوٹیں بھی لگتی تھیں لیکن اب وہ بلاخوف و خطر بائیک چلا لیتی ہیں، اسی وجہ سے فوڈ ڈلیوری کے کام کا انتخاب کیا ہے۔
مزمل حاجی کی طرح کشف ندیم بھی فوڈ ڈلیوری رائیڈ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ کشف ندیم، اعوان ٹاؤن کی رہائشی ہیں، وہ صبح کالج جاتیں اور شام کو پارٹ ٹائم فوڈ ڈلیوری کا کام کرتی ہیں۔ کشف ندیم کے مطابق وہ اپنی والدہ اور بھائی کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان سے بڑی دو بہنیں ہیں جن کی شادیاں ہوچکی ہیں۔
خواتین کو اکثر سڑکوں پر رائیڈ کرتے ہوئے بعض لوگ گھور کر دیکھتے اور جملے کستے ہیں جبکہ فوڈ ڈلیوری کرنے والوں کو تو ڈلیوری میں تاخیر یا آرڈر میں کوئی چیز مس ہونے پر سخت رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کشف اور مزمل کہتی ہیں ان کا تجربہ کافی مختلف رہا ہے۔
کشف کہتی ہیں کہ ہم لوگوں کا ڈلیوری پہنچانے کا وقت 30 منٹ تک ہوتا ہے، اگر ٹریفک، موسم کی خرابی یا کسی بھی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو ہم کسٹمر کو کال کرکے صورتحال سے آگاہ کرتے اور انہیں مطمئن کرتے ہیں۔ تین سالوں میں ان کے ساتھ کسی نے بدتمیزی کی اور نہ ہی کسی کسٹمر نے غصے سے بات کی ہے۔
مزمل کہتی ہیں کہ اکثر خواتین کسٹمرز کو جب معلوم ہوتا ہے کہ ایک لڑکی ان کی ڈلیوری لیکر آئی ہیں تو وہ ناصرف خوش ہوتیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں۔ اس سے ان کی ہمت اور جذبہ بڑھتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق لاہور میں اس وقت 50 سے زائد فی میل فوڈ ڈلیوری رائیڈرز ہیں ۔ تاہم تمام فی میل فوڈ ڈلیوری رائیڈرز کا تجربہ ایک جیسا نہیں ہے۔ ایک معروف فوڈ ڈلیوری کمپنی فوڈ پانڈا کے ساتھ منسلک فوڈ ڈلیوری رائیڈر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں کئی مرتبہ رائیڈنگ کے دوران اور کسٹمرز کی طرف سے ناپسندیدہ جملوں اور سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک بار وہ فیصل ٹاؤن میں ایک گھر پیزا ڈلیوری کے لیے گئی جہاں موجود لڑکوں نے اسے بھاری رقم دینے اور غلط کام کرنے کی پیشکش کی، ایک لڑکے نے تو ان کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ان کی زندگی کا ایک بھیانک دن تھا لیکن پھر اس نے ہمت کی اور ان لڑکوں کو سختی سے جواب دیا، اس سے پہلے کہ میں 15 پر کال کرتی ان لڑکوں نے معافی مانگنا شروع کر دی تھی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بعض کسٹمر ان سے فون نمبر مانگتے ہیں اور اگر کسی کسٹمر سے لوکیشن معلوم کرنے کے لیے فون پر رابطہ کیا جائے تو وہ کسٹمر نمبر سیو کرکے بعد میں میسج بھیجتے یا پھر کال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح پیمنٹ کرنے اور ٹپ دینے کے بہانے ہاتھ پکڑنے، چھونے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اور خاتون رائیڈر نازیہ شفیق نے بتایا کہ رائیڈنگ کرتے وقت جب کبھی ٹریفک سگنل پر رکنا پڑتا ہے تو کئی نوجوان اور بزرگ بڑے غور سے ان کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، انہیں یہ سب بہت برا لگتا ہے۔ ان لوگوں کی نظریں جسم میں چھبتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالانکہ وہ اس طرح کا لباس پہنتی ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا کافی مشکل ہوتا ہے کہ وہ لڑکا ہیں یا لڑکی لیکن پھر بھی کچھ لوگ گھور کر دیکھتے ہیں۔
فوڈ ڈلیوری سروس فراہم کرنے والی کمپنیاں اپنے رائیڈرز کو فیلڈ میں بھیجنے سے قبل ٹریننگ بھی دیتی ہیں۔ میکڈونلڈ گلبرگ برانچ کے مینیجر عمر عزیز نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ''ہم اپنے رائیڈرز کو ٹریننگ دیتے ہیں کہ فیلڈ میں انہیں مختلف رویوں اور مزاج کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑے گا، کسٹمرز سے کیسے بات کرنی ہے اور کس طرح خود کو محفوظ رکھنا ہے اس بارے بتایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج تک انہیں اپنے کسی کسٹمر اور نہ ہی اپنے کسی رائیڈر کی طرف سے کوئی شکایت ملی ہے۔
عمرعزیز کہتے ہیں کہ خواتین رائیڈرز کی سروس کو زیادہ پذیرائی ملتی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین بھی اتنی ہی باصلاحیت ہیں جتنا کہ کوئی مرد ہوتا ہے۔ ہم کسی جینڈر تقسیم کے بغیر سب کو مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ٹریننگ دیتے ہیں، یہ پھر ان کی اپنی صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس سے کیا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
فی میل فوڈ ڈلیوری رائیڈرز کہتی ہیں کہ جب تک کسی لڑکی کو اس کے گھر والے سپورٹ نہ کریں اس کے لئے باہر نکل کر کام کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب لوگوں کو شعور آرہا ہے اور وہ اپنی بیٹیوں کو بھی بیٹوں کی طرح زندگی کے میدان میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔
صنفی امتیاز پر کام کرنے والی راشدہ قریشی کہتی ہیں کہ مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ سمجھا جاتا ہے جہاں صدیوں سے خواتین کو صرف گھروں کے کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہی دیکھا گیا ہے۔ اب جب خواتین تعلیم اور آگاہی کی وجہ سے باہر نکلی ہیں، گاڑی چلانا شروع کیں اور اب بائیک چلا رہی ہیں تو سوسائٹی نے اس تبدیلی کو قبول کرنا شروع کیا ہے لیکن اب بھی بعض افراد خواتین کو کمزور اور آسان ہدف سمجھتے ہوئے ان پر طنز کرتے نظر آتے ہیں۔
انہوں نے مثال دی کہ جس طرح کچھ عرصہ پہلے ٹریفک پولیس نے خواتین اہلکاروں کو فیلڈ میں تعینات کیا تھا لیکن شہریوں کے ردعمل اور رویوں کی وجہ سے خواتین کو دفتروں تک محدود کر دیا گیا تھا لیکن اب خواتین ہمت کر رہی ہیں جو ناصرف بائیک چلانا سیکھ رہی بلکہ فوڈ ڈلیوری میں نظر آتی ہیں، ایسی خواتین یقیناً دوسری خواتین کے لیے مثال بنیں گی۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق اگر قوانین پر عمل میں سختی لائی جائے تو فیلڈ میں آنے والی ان خواتین کو مزید حوصلہ ملے گا۔