معیشت سے جڑی سفارت کاری کا چیلنج
اگر واقعی معیشت کی سفارت کاری میں آگے بڑھنا ہے تو ایک علاج داخلی سیاست اور معیشت کی مضبوطی سے جڑا ہوا ہے
آج کی دنیا میں سفارت کاری ہو یا علاقائی و خارجہ پالیسی کا بنیادی نقطہ ایک مضبوط اور مستحکم معیشت کے گرد ہی گھومتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک معیشت کی مضبوطی کے لیے سفارت کاری یا ڈپلومیسی کو ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے اور کوشش کرتے ہیں کہ سفارت کاری کی بنیاد پر اپنے لیے نئے معاشی امکانات اور مواقع کو تلاش کرکے معیشت کے میدان میں ترقی کریں ۔
اسی بنیاد پر دنیا کے کئی ممالک نے اپنی خارجہ پالیسی کے فریم ورک میں بنیادی نوعیت کو بنیاد بنا کر تبدیلیاں کیں اور پرانے روائتی خیالات سے باہر نکل کر نئے حالات میں نئی سوچ اور فکر کے ساتھ خود کو جوڑا ہے تاکہ وہ معیشت سے جڑی نئی دنیا میں اپنی معاشی ساکھ کو بہتر انداز میں قائم کرسکیں ۔
پاکستان کی '' قومی سیکیورٹی پالیسی '' کو دیکھیں تو اس میں بھی ہمیں چند بنیادی نکات سمجھنے کو ملتے ہیں ۔ اول، ہماری معیشت کی بنیاد علاقائی سطح پر جیو معیشت اور جیوا سٹرٹیجک کی بنیاد پر آگے بڑھے گی ۔ دوئم، ہمیں جنگوں اور تنازعات سے باہر نکل کر اپنے داخلی اور خارجی تعلقات کو دوستی اور معاشی تعلقات کے ساتھ جوڑنا ہوگا ۔ ہمیں دوسروں کے تنازعات اور جنگوں میں الجھنے کی سیاست سے گریز کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی ۔
سوئم ، ہمیں علاقائی تعلقات میں بہتری بشمول بھارت سے بہتر تعلقات کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے عمل کو فروغ دینا ہوگا ۔چہارم، ہم انسانی ترقی کو بنیاد بنائیں گے اور زیادہ سے زیادہ وسائل انسانی ترقی اور ان کی عملی مشکلات کے خاتمہ پر خرچ کریں گے تاکہ عام آدمی کے مفادات کو بنیاد بنا کرہم اپنی حکمرانی کے بحران سے نجات حاصل کرسکیں ۔اگر ہم ان چاروں نکات کو دیکھیں اور پاکستان کی عملی طور پر موجود سیاست اور معیشت یا سیکیورٹی سے جڑے معاملات کو دیکھیں تو اس میں ہمیں کئی حوالوں سے طے شدہ پالیسی اور عملی پالیسی کے درمیان تضادات کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمیں '' معیشت سے جڑی سفارت کاری یا ڈپلومیسی '' کو اپنی اہم ترجیحات کا حصہ بنانا چاہیے ۔ اسی نقطہ کو بنیاد بنا کر ہم اپنی داخلی معیشت کے معاملات کو درست بھی کرسکتے اور اس میں بہتری بھی پیدا کی جاسکتی ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم محض کسی سیاسی تنہائی میں معیشت کی درستگی کا علاج تلاش کرسکتے ہیں تو جواب نفی میں ہوگا ۔ معیشت کی درستگی اور اس میں بہتری کے امکانات کا براہ راست تعلق مجموعی سیاسی ، سماجی ، معاشی ، قانونی اور انتظامی نوعیت کے اقدامات اور ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کی بنیاد سے جڑا ہوا ہے ۔مگر ہم معیشت کی درستگی کا علاج سیاسی تنہائی میں کرنا چاہتے ہیں ۔
سیاسی افراتفری یا غیر یقینی صورتحال اور محاذ آرائی کی بنیاد پر معیشت کو تن تنہا درست نہیں کیا جاسکے گا ۔ یہ جو سوچ ہے کہ ہم نیم سیاسی ، نیم جمہوری ، نیم آئینی و قانونی یا ہابئرڈ یا کنٹرولڈ بنیادوں پر نظام قائم کرکے اپنے مسائل کا علاج تلاش کرسکیں گے ، ممکن نہیں۔کیونکہ اس طرز کی پالیسیاں عمومی طور پر تضادات پر مبنی ہوتی ہیں اور اس کا نتیجہ سیاسی اور معاشی استحکام کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ معیشت کی درستگی کا علاج کسی سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچر کی بنیاد پر ممکن نہیں ۔
عمومی طور پر جب ہم معیشت سے جڑی سفارت کاری کی بات کرتے ہیں تو ہماری توجہ داخلی معاملات کی درستگی یا داخلی معیشت کی مضبوطی یا سخت گیر اصلاحات پر نہیں ہوتی بلکہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ عالمی دنیا میں موجود بڑے ممالک امریکا ، چین ، برطانیہ کی حمایت یا مالی مدد یا عالمی مالیاتی اداروں کے تعاون سے ہم اپنی معیشت سے جڑے معاملات کو سنبھال سکیں ۔جو بھی ملک اپنی معیشت کی بنیاد محض باہر کی دنیا سے ملنے والی امداد تک محدود رکھے گا اور یہ کوشش کرے گا کہ اس کے معاملات محض عالمی مدد کی بنیاد پر چلتے رہیں تو اس سے معاشی ترقی بہت پیچھے رہ جاتی ہے ۔
کیونکہ جو بھی ملک آ پ کی مالی مدد کرے گا تو اس کے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات ہونگے اور وہ مالی امداد کی بنیاد پر نہ صرف ہم کو عملًا ڈکٹیٹ کرے گا بلکہ ہماری فیصلہ سازی پر بھی اثرانداز ہوکر ہمیں اپنے مفادات تک محدود رکھے گا ۔ یہ عمل ہمارے بارے میں یہ تصور بھی پیدا کرتا ہے کہ ہم کشکول اٹھائے پھرتے ہیں اور ہماری حیثیت ان ممالک کی طرح ہے جو خود کچھ نہیں کرنا چاہتے اور نہ بدلنا چاہتے ہیں ، مگر زندہ رہنے کے لیے دنیا کی طرف بھکاری کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ہماری سیاسی یا غیر سیاسی حکومتوں نے داخلی معیشت سے جڑے جو بڑے فیصلے ہیں ان کو نہ کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے ۔ معیشت سے جڑی داخلی اصلاحات ، چھوٹی صنعتوں کا فروغ ، کرپشن اور بدعنوانی ، حکومت نظام میں شامل بڑے عہدوں پر موجود افراد کے اپنے مالی سطح کے مفادات ، سیاسی بنیادوں پر قرضوں کی معافی ،غیر ترقیاتی اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ اور غیر ضروری ترقیاتی میگا منصوبوں پر وسائل کی تقسیم پر ہم کچھ بھی تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں اور دعوی یہ کرتے ہیں کہ ہم معیشت کی درستگی میں سنجیدہ ہیں ۔
معیشت کی درستگی کے لیے ہم نے قومی سطح پرا سپیشل انویسٹمنٹ سہولت کاری کونسل (ایس آئی ایف سی (بھی تشکیل دی ہے جس میں سیاسی اور غیر سیاسی قیادت مل بیٹھ کر معیشت کی ترقی ، تسلسل کو جاری رکھے گی ۔ عالمی مالیاتی فورمز جب ہمیں سخت گیر معاشی اصلاحات پر زور دیتے ہیں تو ہم ان کو نہ صرف گمراہ کرتے ہیں بلکہ سیاسی سمجھوتوں کی سیاست سے وہی کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ریاستی طبقات کے اپنے ذاتی مفادات سے جڑے ہوتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری ایک مجموعی تصویر جو دنیا میں بن رہی ہے وہ سیاسی سمجھوتوں کی بنیاد پر قائم ہے ۔
پاکستان نے اگر واقعی معیشت کی سفارت کاری میں آگے بڑھنا ہے تو ایک علاج داخلی سیاست اور معیشت کی مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔ اس کو نظرانداز کرکے کچھ نہیں ہوسکے گا۔ دوسری طرف ہماری سفارتی کوششوں میں چین اور امریکا سے بہتر تعلقات اور موثر سفارت کاری کی بنیاد پر معاشی رشتوں میں مضبوطی ، بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات اور تجارت سمیت دو طرفہ تعاون اور کام کا آغاز، امریکا اور چین سے ہم کو ایک ایسی متواز ن پالیسی درکار ہے جو دونوں کے ساتھ ہمیں جوڑے رکھے اور یہ تاثر نہ ہوکہ ہم کسی کی قیمت پر ایک سے بہتر تعلقات اور کسی سے بگاڑ پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔
بھارت سے تعلقات کی بحالی میں ہمیں کئی چیلنجز کا سامنا ہے اور خود بھارت بھی لچک دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتا ایسے میں بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی مشکل مرحلہ لگتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنا ہے اور یہ ہی ہمارے مفاد میں بھی ہے۔ہم معیشت کے تناظر میں غیر معمولی سنگین حالات کا شکار ہیں تو ایسے میں ہمیں اس سے باہر نکلنے کے لیے جہاں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں وہیں مسائل کا حل روائتی یا فرسودہ سوچ کے ساتھ نہیں بلکہ مسائل کا حل آؤٹ آف باکس جاکر تلاش کرنا ہوگا ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک معیشت کی مضبوطی کے لیے سفارت کاری یا ڈپلومیسی کو ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے اور کوشش کرتے ہیں کہ سفارت کاری کی بنیاد پر اپنے لیے نئے معاشی امکانات اور مواقع کو تلاش کرکے معیشت کے میدان میں ترقی کریں ۔
اسی بنیاد پر دنیا کے کئی ممالک نے اپنی خارجہ پالیسی کے فریم ورک میں بنیادی نوعیت کو بنیاد بنا کر تبدیلیاں کیں اور پرانے روائتی خیالات سے باہر نکل کر نئے حالات میں نئی سوچ اور فکر کے ساتھ خود کو جوڑا ہے تاکہ وہ معیشت سے جڑی نئی دنیا میں اپنی معاشی ساکھ کو بہتر انداز میں قائم کرسکیں ۔
پاکستان کی '' قومی سیکیورٹی پالیسی '' کو دیکھیں تو اس میں بھی ہمیں چند بنیادی نکات سمجھنے کو ملتے ہیں ۔ اول، ہماری معیشت کی بنیاد علاقائی سطح پر جیو معیشت اور جیوا سٹرٹیجک کی بنیاد پر آگے بڑھے گی ۔ دوئم، ہمیں جنگوں اور تنازعات سے باہر نکل کر اپنے داخلی اور خارجی تعلقات کو دوستی اور معاشی تعلقات کے ساتھ جوڑنا ہوگا ۔ ہمیں دوسروں کے تنازعات اور جنگوں میں الجھنے کی سیاست سے گریز کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی ۔
سوئم ، ہمیں علاقائی تعلقات میں بہتری بشمول بھارت سے بہتر تعلقات کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے عمل کو فروغ دینا ہوگا ۔چہارم، ہم انسانی ترقی کو بنیاد بنائیں گے اور زیادہ سے زیادہ وسائل انسانی ترقی اور ان کی عملی مشکلات کے خاتمہ پر خرچ کریں گے تاکہ عام آدمی کے مفادات کو بنیاد بنا کرہم اپنی حکمرانی کے بحران سے نجات حاصل کرسکیں ۔اگر ہم ان چاروں نکات کو دیکھیں اور پاکستان کی عملی طور پر موجود سیاست اور معیشت یا سیکیورٹی سے جڑے معاملات کو دیکھیں تو اس میں ہمیں کئی حوالوں سے طے شدہ پالیسی اور عملی پالیسی کے درمیان تضادات کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمیں '' معیشت سے جڑی سفارت کاری یا ڈپلومیسی '' کو اپنی اہم ترجیحات کا حصہ بنانا چاہیے ۔ اسی نقطہ کو بنیاد بنا کر ہم اپنی داخلی معیشت کے معاملات کو درست بھی کرسکتے اور اس میں بہتری بھی پیدا کی جاسکتی ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم محض کسی سیاسی تنہائی میں معیشت کی درستگی کا علاج تلاش کرسکتے ہیں تو جواب نفی میں ہوگا ۔ معیشت کی درستگی اور اس میں بہتری کے امکانات کا براہ راست تعلق مجموعی سیاسی ، سماجی ، معاشی ، قانونی اور انتظامی نوعیت کے اقدامات اور ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کی بنیاد سے جڑا ہوا ہے ۔مگر ہم معیشت کی درستگی کا علاج سیاسی تنہائی میں کرنا چاہتے ہیں ۔
سیاسی افراتفری یا غیر یقینی صورتحال اور محاذ آرائی کی بنیاد پر معیشت کو تن تنہا درست نہیں کیا جاسکے گا ۔ یہ جو سوچ ہے کہ ہم نیم سیاسی ، نیم جمہوری ، نیم آئینی و قانونی یا ہابئرڈ یا کنٹرولڈ بنیادوں پر نظام قائم کرکے اپنے مسائل کا علاج تلاش کرسکیں گے ، ممکن نہیں۔کیونکہ اس طرز کی پالیسیاں عمومی طور پر تضادات پر مبنی ہوتی ہیں اور اس کا نتیجہ سیاسی اور معاشی استحکام کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ معیشت کی درستگی کا علاج کسی سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچر کی بنیاد پر ممکن نہیں ۔
عمومی طور پر جب ہم معیشت سے جڑی سفارت کاری کی بات کرتے ہیں تو ہماری توجہ داخلی معاملات کی درستگی یا داخلی معیشت کی مضبوطی یا سخت گیر اصلاحات پر نہیں ہوتی بلکہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ عالمی دنیا میں موجود بڑے ممالک امریکا ، چین ، برطانیہ کی حمایت یا مالی مدد یا عالمی مالیاتی اداروں کے تعاون سے ہم اپنی معیشت سے جڑے معاملات کو سنبھال سکیں ۔جو بھی ملک اپنی معیشت کی بنیاد محض باہر کی دنیا سے ملنے والی امداد تک محدود رکھے گا اور یہ کوشش کرے گا کہ اس کے معاملات محض عالمی مدد کی بنیاد پر چلتے رہیں تو اس سے معاشی ترقی بہت پیچھے رہ جاتی ہے ۔
کیونکہ جو بھی ملک آ پ کی مالی مدد کرے گا تو اس کے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات ہونگے اور وہ مالی امداد کی بنیاد پر نہ صرف ہم کو عملًا ڈکٹیٹ کرے گا بلکہ ہماری فیصلہ سازی پر بھی اثرانداز ہوکر ہمیں اپنے مفادات تک محدود رکھے گا ۔ یہ عمل ہمارے بارے میں یہ تصور بھی پیدا کرتا ہے کہ ہم کشکول اٹھائے پھرتے ہیں اور ہماری حیثیت ان ممالک کی طرح ہے جو خود کچھ نہیں کرنا چاہتے اور نہ بدلنا چاہتے ہیں ، مگر زندہ رہنے کے لیے دنیا کی طرف بھکاری کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ہماری سیاسی یا غیر سیاسی حکومتوں نے داخلی معیشت سے جڑے جو بڑے فیصلے ہیں ان کو نہ کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے ۔ معیشت سے جڑی داخلی اصلاحات ، چھوٹی صنعتوں کا فروغ ، کرپشن اور بدعنوانی ، حکومت نظام میں شامل بڑے عہدوں پر موجود افراد کے اپنے مالی سطح کے مفادات ، سیاسی بنیادوں پر قرضوں کی معافی ،غیر ترقیاتی اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ اور غیر ضروری ترقیاتی میگا منصوبوں پر وسائل کی تقسیم پر ہم کچھ بھی تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں اور دعوی یہ کرتے ہیں کہ ہم معیشت کی درستگی میں سنجیدہ ہیں ۔
معیشت کی درستگی کے لیے ہم نے قومی سطح پرا سپیشل انویسٹمنٹ سہولت کاری کونسل (ایس آئی ایف سی (بھی تشکیل دی ہے جس میں سیاسی اور غیر سیاسی قیادت مل بیٹھ کر معیشت کی ترقی ، تسلسل کو جاری رکھے گی ۔ عالمی مالیاتی فورمز جب ہمیں سخت گیر معاشی اصلاحات پر زور دیتے ہیں تو ہم ان کو نہ صرف گمراہ کرتے ہیں بلکہ سیاسی سمجھوتوں کی سیاست سے وہی کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ریاستی طبقات کے اپنے ذاتی مفادات سے جڑے ہوتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری ایک مجموعی تصویر جو دنیا میں بن رہی ہے وہ سیاسی سمجھوتوں کی بنیاد پر قائم ہے ۔
پاکستان نے اگر واقعی معیشت کی سفارت کاری میں آگے بڑھنا ہے تو ایک علاج داخلی سیاست اور معیشت کی مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔ اس کو نظرانداز کرکے کچھ نہیں ہوسکے گا۔ دوسری طرف ہماری سفارتی کوششوں میں چین اور امریکا سے بہتر تعلقات اور موثر سفارت کاری کی بنیاد پر معاشی رشتوں میں مضبوطی ، بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات اور تجارت سمیت دو طرفہ تعاون اور کام کا آغاز، امریکا اور چین سے ہم کو ایک ایسی متواز ن پالیسی درکار ہے جو دونوں کے ساتھ ہمیں جوڑے رکھے اور یہ تاثر نہ ہوکہ ہم کسی کی قیمت پر ایک سے بہتر تعلقات اور کسی سے بگاڑ پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔
بھارت سے تعلقات کی بحالی میں ہمیں کئی چیلنجز کا سامنا ہے اور خود بھارت بھی لچک دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتا ایسے میں بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی مشکل مرحلہ لگتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنا ہے اور یہ ہی ہمارے مفاد میں بھی ہے۔ہم معیشت کے تناظر میں غیر معمولی سنگین حالات کا شکار ہیں تو ایسے میں ہمیں اس سے باہر نکلنے کے لیے جہاں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں وہیں مسائل کا حل روائتی یا فرسودہ سوچ کے ساتھ نہیں بلکہ مسائل کا حل آؤٹ آف باکس جاکر تلاش کرنا ہوگا ۔