سوشل میڈیا کی اہمیت
سوشل اور ڈیجٹل میڈیا نے خبر کی رفتار اور رسائی کے لیے لوگوں کو نئے مواقع فراہم کیے ہیں
دنیا کی جدید ترقی او رابلاغ کے تناظر میں سوشل میڈیا یا ڈیجیٹل میڈیا ایک نئی حقیقت تسلیم کی جانی چاہیے ۔ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا نے کئی پہلووں کی بنیاد پر رسمی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔
سوشل اور ڈیجٹل میڈیا نے خبر کی رفتار اور رسائی کے لیے لوگوں کو نئے مواقع فراہم کیے ہیں ۔ رائے عامہ کی تشکیل میں روائتی میڈیا کی گرفت کمزور ہوگئی ہے ۔ اب ان کے مقابلے میں ایک نئی طاقت سوشل میڈیا کے طور پر سامنے آئی ہے اور اس کا ادراک ہر سطح پر ہونا چاہیے ۔
ہمارے یہاں سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا کے بارے میں دو رائے موجود ہیں ۔ اول سوشل میڈیا جدید میڈیا کی ایک نئی شکل ہے او راس نے اظہار رائے کے لیے نئے ٹرینڈ اور نئی ٹیکنالوجی فراہم کی ہے اور یہ رائے عامہ کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اسی طبقہ کے بقول سوشل میڈیا کے استعمال پر ہونے والی تنقید کی کوئی اہمیت نہیں اور جو لوگ تنقید کرتے ہیں وہ خود بھی نہ صرف اس کی اہمیت سے آگاہ ہیں بلکہ وہ خود بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔
دوئم ایک طبقہ بڑی شدت سے اس پر زور دیتا ہے کہ سوشل میڈیا کی کوئی اہمیت نہیں او ریہ صرف ایک مخالفانہ مہم یا کسی کی کردار کشی کو یقینی بنانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال ہوتا ہے اور بہت سے لوگ اسے سماج دشمن، شیطانی ایجنڈا، ریاستی ٹکراو یا ریاستی دشمنی یا مادر پدر آزادی، لوگوں کی ذاتیات پر کردار کشی ، تضحیک کرنا یا کسی کے بارے میں جھوٹ کی بنیاد پر مخالفانہ مہم چلانے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ایک عمومی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس کے استعمال نے معاشرے کو نہ صرف تقسیم کیا ہے بلکہ لوگوں میں ایک دوسرے کے بارے میں احترام ، رواداری ، برادشت او رایک دوسرے کی قبولیت کے مقابلے میں تعصب ، نفرت اور دشمنی کو فروغ دیا ہے ۔
سوشل میڈیا یا ڈیجیٹل میڈیا کے بارے میں منفی رائے محض عام افراد تک محدود نہیں بلکہ ریاستی ، حکومتی ، ادارہ جاتی تک میں موجود ہے ۔یہ رائے بھی موجود ہے کہ اس میڈیانے پاکستان کو جوڑا کم اور تقسیم زیادہ کردیا ہے ۔اسی کو بنیاد بنا کر یہاں لوگ سوشل میڈیا پر پابندی کے حق میں دلائل بھی دیتے ہیں کہ اگر اس کو بند نہیں کرنا تو کم ازکم اس میں اصلاحات یا قانون سازی کی مدد سے ریاستی یا حکومتی نظام اپنے کنٹرول میں کرے یا اس کے بارے میں سخت گیر پالیسیاں ، قانون سازی اور عملدرآمد کے نظام کو موثر بنائے ۔لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس کا اصل مقصد اصلاح سے زیادہ اظہار رائے کو کنٹرول کرنا مقصود ہے۔
ہمیں اپنی تعلیم و تربیت کی بنیاد پر تعلیمی اداروں بشمول دینی مدارس کی سطح پر نئی نسل کو آگاہ کریں کہ وہ کیسے خود مکالمہ کو اس نئی طاقت کی بنیاد پر فروغ دے سکتے ہیں او رکس طرح سے دوسروں کو مکالمہ اور شائشتگی کے عمل میں پیدا کیا جائے ۔ تنقید و تضحیک کے درمیان فرق اوپر سے لے کر نیچے تک سب کو سمجھنا چاہیے ۔یہ جو ریاست کو لگتا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا کی مدد سے ریاستی نظام کو کمزور کیا جارہا ہے وہ اس نقطہ پر بھی غور کریں کہ ہم عام آدمی کے تناظر میں ریاستی نظام کو کیسے چلارہے ہیں اور اس کا فائدہ کس بڑے طاقت ور طبقہ کو ہورہا ہے۔
اس لیے اگر لوگ تنقید کررہے ہیں یا آواز اٹھارہے ہیں تو ان کے تحفظات کو بھی سنا جائے ۔یہ ردعمل کی سیاست ہے ۔ یہ بیانیہ ردعمل یا طاقت کے استعمال کے بجائے علمی اور فکری بنیادو ں پر ہونا چاہیے۔ اس نئے ابلاغ کو روکنا اب ممکن نہیں اورآپ اس پر جتنی پابندیاں لگائیں گے تو اس کا نتیجہ داخلی و خارجی دونوں محاذوں پر ہماری منفی طور پر سامنے آئے گا۔ تعلیمی ادارے ہی بیانیہ کی جنگ میں لیڈ لیتے ہیں او راس وقت جو ہمیں سوشل میڈیا کی سطح پر مشکلات یا بحران نظر آتا ہے اس کا علاج بھی تعلیمی نظام یا تعلیمی اداروں کی سطح سے ہی تلاش کرنا ہوگا، طاقت کا انداز یا منفی سوچ کے ساتھ سوشل میڈیا کا مقابلہ ممکن نہیں ہوگا۔
سوشل اور ڈیجٹل میڈیا نے خبر کی رفتار اور رسائی کے لیے لوگوں کو نئے مواقع فراہم کیے ہیں ۔ رائے عامہ کی تشکیل میں روائتی میڈیا کی گرفت کمزور ہوگئی ہے ۔ اب ان کے مقابلے میں ایک نئی طاقت سوشل میڈیا کے طور پر سامنے آئی ہے اور اس کا ادراک ہر سطح پر ہونا چاہیے ۔
ہمارے یہاں سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا کے بارے میں دو رائے موجود ہیں ۔ اول سوشل میڈیا جدید میڈیا کی ایک نئی شکل ہے او راس نے اظہار رائے کے لیے نئے ٹرینڈ اور نئی ٹیکنالوجی فراہم کی ہے اور یہ رائے عامہ کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اسی طبقہ کے بقول سوشل میڈیا کے استعمال پر ہونے والی تنقید کی کوئی اہمیت نہیں اور جو لوگ تنقید کرتے ہیں وہ خود بھی نہ صرف اس کی اہمیت سے آگاہ ہیں بلکہ وہ خود بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔
دوئم ایک طبقہ بڑی شدت سے اس پر زور دیتا ہے کہ سوشل میڈیا کی کوئی اہمیت نہیں او ریہ صرف ایک مخالفانہ مہم یا کسی کی کردار کشی کو یقینی بنانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال ہوتا ہے اور بہت سے لوگ اسے سماج دشمن، شیطانی ایجنڈا، ریاستی ٹکراو یا ریاستی دشمنی یا مادر پدر آزادی، لوگوں کی ذاتیات پر کردار کشی ، تضحیک کرنا یا کسی کے بارے میں جھوٹ کی بنیاد پر مخالفانہ مہم چلانے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ایک عمومی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس کے استعمال نے معاشرے کو نہ صرف تقسیم کیا ہے بلکہ لوگوں میں ایک دوسرے کے بارے میں احترام ، رواداری ، برادشت او رایک دوسرے کی قبولیت کے مقابلے میں تعصب ، نفرت اور دشمنی کو فروغ دیا ہے ۔
سوشل میڈیا یا ڈیجیٹل میڈیا کے بارے میں منفی رائے محض عام افراد تک محدود نہیں بلکہ ریاستی ، حکومتی ، ادارہ جاتی تک میں موجود ہے ۔یہ رائے بھی موجود ہے کہ اس میڈیانے پاکستان کو جوڑا کم اور تقسیم زیادہ کردیا ہے ۔اسی کو بنیاد بنا کر یہاں لوگ سوشل میڈیا پر پابندی کے حق میں دلائل بھی دیتے ہیں کہ اگر اس کو بند نہیں کرنا تو کم ازکم اس میں اصلاحات یا قانون سازی کی مدد سے ریاستی یا حکومتی نظام اپنے کنٹرول میں کرے یا اس کے بارے میں سخت گیر پالیسیاں ، قانون سازی اور عملدرآمد کے نظام کو موثر بنائے ۔لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس کا اصل مقصد اصلاح سے زیادہ اظہار رائے کو کنٹرول کرنا مقصود ہے۔
ہمیں اپنی تعلیم و تربیت کی بنیاد پر تعلیمی اداروں بشمول دینی مدارس کی سطح پر نئی نسل کو آگاہ کریں کہ وہ کیسے خود مکالمہ کو اس نئی طاقت کی بنیاد پر فروغ دے سکتے ہیں او رکس طرح سے دوسروں کو مکالمہ اور شائشتگی کے عمل میں پیدا کیا جائے ۔ تنقید و تضحیک کے درمیان فرق اوپر سے لے کر نیچے تک سب کو سمجھنا چاہیے ۔یہ جو ریاست کو لگتا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا کی مدد سے ریاستی نظام کو کمزور کیا جارہا ہے وہ اس نقطہ پر بھی غور کریں کہ ہم عام آدمی کے تناظر میں ریاستی نظام کو کیسے چلارہے ہیں اور اس کا فائدہ کس بڑے طاقت ور طبقہ کو ہورہا ہے۔
اس لیے اگر لوگ تنقید کررہے ہیں یا آواز اٹھارہے ہیں تو ان کے تحفظات کو بھی سنا جائے ۔یہ ردعمل کی سیاست ہے ۔ یہ بیانیہ ردعمل یا طاقت کے استعمال کے بجائے علمی اور فکری بنیادو ں پر ہونا چاہیے۔ اس نئے ابلاغ کو روکنا اب ممکن نہیں اورآپ اس پر جتنی پابندیاں لگائیں گے تو اس کا نتیجہ داخلی و خارجی دونوں محاذوں پر ہماری منفی طور پر سامنے آئے گا۔ تعلیمی ادارے ہی بیانیہ کی جنگ میں لیڈ لیتے ہیں او راس وقت جو ہمیں سوشل میڈیا کی سطح پر مشکلات یا بحران نظر آتا ہے اس کا علاج بھی تعلیمی نظام یا تعلیمی اداروں کی سطح سے ہی تلاش کرنا ہوگا، طاقت کا انداز یا منفی سوچ کے ساتھ سوشل میڈیا کا مقابلہ ممکن نہیں ہوگا۔