نالہ متاثرین بحالی کیسسپریم کورٹ کا پی ای سی سے تعمیراتی لاگت کا تخمینہ لگوانے کا حکم
80 گز کے پلاٹ کی تعمیراتی لاگت 10 لاکھ ہے، چیف سیکریٹری، ہمارے حساب سے 25 لاکھ بنتی ہے، وکیل متاثرین
سپریم کورٹ نے اورنگی نالہ، محمود آباد نالہ اور گجر نالہ متاثرین کی بحالی و وزیر اعلی سندھ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر پاکستان انجینئرنگ کونسل سے 80 گز کے پلاٹ کی کنسٹرکشن کا تخمینہ لگوانے اور چیف سیکریٹری سندھ کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیدیا۔
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اورنگی نالہ ، محمود آباد نالہ اور گجر نالہ متاثرین کی بحالی و وزیر اعلی سندھ کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے متاثرین کے وکلا سے استفسار کیا کہ رجسٹری کے باہر احتجاج، یہ نعرے اور شور کیوں۔ سمری منظور ہوئی چیک تقسیم ہوگئے۔ ہم تو ترجیحات پر کیس سن رہے ہیں۔ وکلا نے موقف دیا کہ چیک تقسیم ہو گئے ہیں بس پلاٹ کا معاملہ رہ گیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلی جانے سے قبل سمری منظور کر کے گئے تھے۔ سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ عدالتی فیصلے پر عمل در آمد کیا جا رہا ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل سندھ کی عدم موجودگی پر عدالت برہم ہوگئی اور ریمارکس دیے کہ اتنا اہم مسئلہ ہے آپ کے ایڈوکیٹ جنرل سندھ کہاں ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تو کیا ہم بلائیں چیف منسٹر کو ابھی۔ چیف سیکریٹری اور ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو 11 بجے تک بلائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالتی حکم پر کتنا عمل درآمد ہوا؟
وکیل سندھ حکومت نے موقف دیا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل نے ابھی تک اپنی رپورٹ جمع نہیں کرائی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سختی سے ریمارکس دیے کہ اگر معاملے پر اطمینان بخش جواب نہ دیا تو وزیر اعلی کو بھی ابھی بلالیں گے۔ میئر کراچی کیوں غیر حاضر ہیں۔
سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ میئر کراچی کی موجودگی کی ضروت نہیں تھی، متعلقہ شعبے کے فرد یہاں موجود ہیں۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کی بحالی کے لیےیہ مئیر کراچی کا بھی کام ہے۔
سندھ حکومت نے عمل درآمد سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 6 ہزار 930 متاثرین کو 80 گز کے گھر فراہم کرنے کا منصوبہ بنانے کا ارادہ کیا ہے اور متاثرین کو فی کس 10 لاکھ روپے کا چیک دیا جائے گا۔
عدالتی حکم پر چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، ایڈوکیٹ جنرل سندھ اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اس میں صرف ایک مسئلہ ہے، تعمیراتی تخمینہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے منظورشدہ نہیں۔ چیف سیکریٹری نے کہا کہ ہمارے تخمینے کے مطابق 80 گز کے پلاٹ کی تعمیراتی لاگت 10 لاکھ ہے۔
متاثرین کے وکیل نے موقف دیا کہ سندھ حکومت نے اپنے کنسلٹنٹ سے کنسٹرکشن کا تخمینہ لگوایا ہے۔ عدالت نے کنسٹرکشن کا تخمینہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے لگوانے کا کہا تھا۔ ہمارے حساب سے 25 لاکھ روپے کنسٹرکشن کی رقم بنتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اسی لیے پاکستان انجینئرنگ کونسل سے کنسٹرکشن کا تخمینہ لگوانے کا کہا تھا۔ متاثرین کے وکیل نے موقف دیا کہ ہم نے پاکستان انجینئرنگ کونسل سے کنسٹرکشن کا تخمینہ لگوایا ہے جو 37 لاکھ روپے ہے۔
چیف سیکریٹری نے کہا کہ سیلاب متاثرین جن گھروں میں رہ رہے ہیں وہاں 3 لاکھ میں 2 کمروں کا گھر بن رہا ہے۔ سندھ کابینہ کا آج اجلاس ہے کنسٹرکشن کے پیسوں کا مسئلہ وہاں رکھیں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم نے فیصلے میں اسی لیے پاکستان انجینئرنگ کونسل کا کہا تھا، کنسلٹنٹ رکھنے کی ضرورت نہیں تھی، پاکستان انجینئرنگ کونسل کو بھیجنا چاہیے تھا۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل پر سب کو اعتماد ہے۔ یہ آپ کا شہر ہے آپ نے ہی کو بسانا ہے۔
چیف سیکریٹری نے کہا کہ یہ کابینہ کا فیصلہ تھا۔ آج کابینہ کا اجلاس ہے میں یہ معاملہ وہاں لے جاؤں گا۔ جسٹس محمد علی مطہر نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ مسئلہ ہے تو ہم وزیر اعلی سندھ سمیت سب کوسمن کر تے ہیں۔
اس پر ایڈوکیٹ جنرل سندھ حسن اکبر نے موقف دیا کہ ہم یہ معاملہ کابینہ میں لے جاتے ہیں اور پیر کو عدالت کو رپورٹ پیش کرتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں ٹائم لائن دیں گے کہ پلاٹ کہاں دیں گے۔ آپ الاٹمنٹ آرڈر سمیت دیگر تفصیلات بھی دیں گے۔ ہم آپ کے لیے یہ کر سکتے ہیں کہ ہم اسے قسطوں پر کر دیں۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے منظوری کے بعد تعمیراتی تخمینہ پیش کریں۔ ہو سکتا ہے انجینئرنگ کونسل 9 لاکھ کا تخمینہ دے۔
چیف سیکریٹری نے کہا کہ ہمارے تخمینے کے مطابق 80 گز کے پلاٹ کی تعمیراتی لاگت 10 لاکھ روپے ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے کنسٹرکشن کا تخمینہ لگوا کر 8 اپریل کو رپورٹ پیش کی جائے۔
عدالت نے پاکستان انجینئرنگ کونسل سے 80 گز کے پلاٹ کی کنسٹرکشن کا تخمینہ لگوانے اور چیف سیکرٹری سندھ آصف حیدر شاہ کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیدیا۔
سپریم کورٹ کے باہر نالہ متاثرین کا احتجاج
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے باہر گجر، محمود آباد اور اورنگی نالہ کے متاثرین نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے۔ متاثرین نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ 4 سال قبل گھر کے بدلے گھر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ وعدوں اور دعوؤں کے باوجود ہمیں ابھی تک گھر فراہم نہیں کیا گیا۔
متاثرین نے ہمارا وعدہ وفا کرو، ہمارا حق ادا کرو، ہمارا گھر ہماری چھت، لے کر رہیں گے اپنا گھر کے نعرے لگائے۔ اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اورنگی نالہ ، محمود آباد نالہ اور گجر نالہ متاثرین کی بحالی و وزیر اعلی سندھ کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے متاثرین کے وکلا سے استفسار کیا کہ رجسٹری کے باہر احتجاج، یہ نعرے اور شور کیوں۔ سمری منظور ہوئی چیک تقسیم ہوگئے۔ ہم تو ترجیحات پر کیس سن رہے ہیں۔ وکلا نے موقف دیا کہ چیک تقسیم ہو گئے ہیں بس پلاٹ کا معاملہ رہ گیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلی جانے سے قبل سمری منظور کر کے گئے تھے۔ سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ عدالتی فیصلے پر عمل در آمد کیا جا رہا ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل سندھ کی عدم موجودگی پر عدالت برہم ہوگئی اور ریمارکس دیے کہ اتنا اہم مسئلہ ہے آپ کے ایڈوکیٹ جنرل سندھ کہاں ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تو کیا ہم بلائیں چیف منسٹر کو ابھی۔ چیف سیکریٹری اور ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو 11 بجے تک بلائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالتی حکم پر کتنا عمل درآمد ہوا؟
وکیل سندھ حکومت نے موقف دیا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل نے ابھی تک اپنی رپورٹ جمع نہیں کرائی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سختی سے ریمارکس دیے کہ اگر معاملے پر اطمینان بخش جواب نہ دیا تو وزیر اعلی کو بھی ابھی بلالیں گے۔ میئر کراچی کیوں غیر حاضر ہیں۔
سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ میئر کراچی کی موجودگی کی ضروت نہیں تھی، متعلقہ شعبے کے فرد یہاں موجود ہیں۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کی بحالی کے لیےیہ مئیر کراچی کا بھی کام ہے۔
سندھ حکومت نے عمل درآمد سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 6 ہزار 930 متاثرین کو 80 گز کے گھر فراہم کرنے کا منصوبہ بنانے کا ارادہ کیا ہے اور متاثرین کو فی کس 10 لاکھ روپے کا چیک دیا جائے گا۔
عدالتی حکم پر چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، ایڈوکیٹ جنرل سندھ اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اس میں صرف ایک مسئلہ ہے، تعمیراتی تخمینہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے منظورشدہ نہیں۔ چیف سیکریٹری نے کہا کہ ہمارے تخمینے کے مطابق 80 گز کے پلاٹ کی تعمیراتی لاگت 10 لاکھ ہے۔
متاثرین کے وکیل نے موقف دیا کہ سندھ حکومت نے اپنے کنسلٹنٹ سے کنسٹرکشن کا تخمینہ لگوایا ہے۔ عدالت نے کنسٹرکشن کا تخمینہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے لگوانے کا کہا تھا۔ ہمارے حساب سے 25 لاکھ روپے کنسٹرکشن کی رقم بنتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اسی لیے پاکستان انجینئرنگ کونسل سے کنسٹرکشن کا تخمینہ لگوانے کا کہا تھا۔ متاثرین کے وکیل نے موقف دیا کہ ہم نے پاکستان انجینئرنگ کونسل سے کنسٹرکشن کا تخمینہ لگوایا ہے جو 37 لاکھ روپے ہے۔
چیف سیکریٹری نے کہا کہ سیلاب متاثرین جن گھروں میں رہ رہے ہیں وہاں 3 لاکھ میں 2 کمروں کا گھر بن رہا ہے۔ سندھ کابینہ کا آج اجلاس ہے کنسٹرکشن کے پیسوں کا مسئلہ وہاں رکھیں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم نے فیصلے میں اسی لیے پاکستان انجینئرنگ کونسل کا کہا تھا، کنسلٹنٹ رکھنے کی ضرورت نہیں تھی، پاکستان انجینئرنگ کونسل کو بھیجنا چاہیے تھا۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل پر سب کو اعتماد ہے۔ یہ آپ کا شہر ہے آپ نے ہی کو بسانا ہے۔
چیف سیکریٹری نے کہا کہ یہ کابینہ کا فیصلہ تھا۔ آج کابینہ کا اجلاس ہے میں یہ معاملہ وہاں لے جاؤں گا۔ جسٹس محمد علی مطہر نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ مسئلہ ہے تو ہم وزیر اعلی سندھ سمیت سب کوسمن کر تے ہیں۔
اس پر ایڈوکیٹ جنرل سندھ حسن اکبر نے موقف دیا کہ ہم یہ معاملہ کابینہ میں لے جاتے ہیں اور پیر کو عدالت کو رپورٹ پیش کرتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں ٹائم لائن دیں گے کہ پلاٹ کہاں دیں گے۔ آپ الاٹمنٹ آرڈر سمیت دیگر تفصیلات بھی دیں گے۔ ہم آپ کے لیے یہ کر سکتے ہیں کہ ہم اسے قسطوں پر کر دیں۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے منظوری کے بعد تعمیراتی تخمینہ پیش کریں۔ ہو سکتا ہے انجینئرنگ کونسل 9 لاکھ کا تخمینہ دے۔
چیف سیکریٹری نے کہا کہ ہمارے تخمینے کے مطابق 80 گز کے پلاٹ کی تعمیراتی لاگت 10 لاکھ روپے ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے کنسٹرکشن کا تخمینہ لگوا کر 8 اپریل کو رپورٹ پیش کی جائے۔
عدالت نے پاکستان انجینئرنگ کونسل سے 80 گز کے پلاٹ کی کنسٹرکشن کا تخمینہ لگوانے اور چیف سیکرٹری سندھ آصف حیدر شاہ کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیدیا۔
سپریم کورٹ کے باہر نالہ متاثرین کا احتجاج
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے باہر گجر، محمود آباد اور اورنگی نالہ کے متاثرین نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے۔ متاثرین نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ 4 سال قبل گھر کے بدلے گھر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ وعدوں اور دعوؤں کے باوجود ہمیں ابھی تک گھر فراہم نہیں کیا گیا۔
متاثرین نے ہمارا وعدہ وفا کرو، ہمارا حق ادا کرو، ہمارا گھر ہماری چھت، لے کر رہیں گے اپنا گھر کے نعرے لگائے۔ اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔