ذیابیطس کے مریض ماہ رمضان کیسے گزاریں
معالج کی رہنمائی سے ٹائپ ٹو میں مبتلا افراد دوائی کے اوقات میں تبدیلی کر سکتے ہیں
شاعر مشرق نے کہا تھا کہ سلسلہ روز وشب انسان کو پرکھتا رہتا ہے۔ یہ وہ صراف ہے جو کھوٹے کو کھرے سے الگ کر دیتا ہے۔
زمانہ ایک مسلسل رو کا دوسرا نام ہے۔ جس میں دن رات کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ تقویم کی اصل حقیقت یہی ہے کہ اس کے ذریعے ذات اور کائنات کا تجزیہ ہوتا ہے۔ اس تجزیئے سے ایک عالمگیر صداقت سامنے آتی ہے کہ ہر وجود کا انجام فنا ہے۔
اول و آخر فنا باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو منزلِ آخر فنا
اس دنیا میں ہر وجود یقیناً فنا ہو جائے گا مگر بالآخر وہ دن آئے گا جب ہر انسان کا دوبارہ جنم ہو گا۔ وہ کائنات کے خالق کے سامنے پیش ہو گا اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہو گا۔ اس فانی زندگی میں ہماری کارکردگی کی بنیاد پر نہ ختم ہونے والی زندگی میں ہمارے مقام اور مرتبے کا تعین ہو گا۔ ہماری جانی بوجھی تقویم میں ایک مہینہ ایسا آتا ہے جس میں ہماری تربیت ہوتی ہے اور رب العالمین کے سامنے پیش ہونے کے لیے ہمیں تیار کیا جاتا ہے۔
''اس دن جبکہ سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے'' (المطففین)
خوش قسمت ہیں وہ نفوس جنہیں تقویمِ اسلامی کا اہم ترین اور انتہائی برکت والا مہینہ نصیب ہوا۔ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں اللہ کا آخری کلام نازل ہوا۔ جس میں ہزار مہینوں سے افضل رات یعنی لیلۃ القدر پائی جاتی ہے۔ یہ وہ رات ہے جو ہمیں عشق کی تقویم کا احساس دلاتی ہے جہاں امروزو فردا کے پیمانے بے معنی قرار پاتے ہیں۔ اس مہینے کے تمام دنوں میں روزے رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے مگر رحیم و کریم مالک نے ان لوگوں کے لیے استثنا بیان کر دیا جو کسی وجہ سے روزہ رکھنے کے قابل نہیں ہوتے۔
''اور جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے'' (البقرہ 185)
سفر اور مرض عموماً عارضی ہوتے ہیں۔ مگر کچھ امراض ایسے ہوتے ہیں جو پوری زندگی انسان کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ ذیابیطس بھی ایسا ہی مرض ہے مگر اچھی منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی اپنا کر ذیابیطس یا شوگر کے مرض کے ساتھ عمومی زندگی گزاری جا سکتی ہے اور معالج کی ہدایات کی روشنی میں روزہ بھی رکھا جا سکتا ہے۔
ذیابیطس کے مریض ماہِ رمضان کیسے گزاریں اس بارے میں گفتگو سے قبل ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ذیابیطس کا مرض ہوتا کیا ہے اور اس کی وجہ سے انسان کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ذیابیطس ایک دائمی نوعیت کا مرض ہوتا ہے جس میں خون کے اندر شکر یا گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ذیابیطس کا مرض جسم کے دوسرے حصوں کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتا ہے جن میں دل، خون کی نالیاں، آنکھیں، گردے اور اعصاب شامل ہیں۔
ہمارے وجود کی بقاء کے لیے گلوکوز کی موجودگی لازمی ہے۔ اس سے ہمارے جسم کی نشوونما ہوتی ہے۔ ہمیں ضرورت کے مطابق توانائی حاصل ہوتی ہے اور زندگی کا سفر آگے بڑھتا ہے۔ ذیابیطس کے مرض میں انسان کو بہت سی شکایات اور علامات لاحق ہو سکتی ہیں مثلاً (پیشاب کی زیادتی) خصوصاً رات کے وقت، پیاس کی شدت، وزن میں کمی، نظر کے مسائل، بھوک کی زیادتی، شدید تھکاوٹ، زخموں کا ٹھیک نہ ہونا، خشک جلد، ہاتھ اور پاؤں کا سْن ہو جانا یا ان میں سوئیاں چبھنے کا احساس ہونا، بار بار جراثیم کا حملہ اور قوت مدافعت میں کمی۔
ذیابیطس کا مرض اس وقت ایک عالمگیر مسئلہ بن چکا ہے اور اس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس مرض کا ہدف دنیا کے تمام ممالک ہیں۔ اس حوالے سے غریب اور امیر کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اس وقت دنیا میں ذیابیطس کے 550 ملین کے قریب مریض پائے جاتے ہیں۔ اب سے 20 سال بعد یہ تعداد بڑھ کر 780 ملین تک پہنچ جائے گی۔
ذیابیطس کے سب سے زیادہ مریض چین میں موجود ہیں۔ ان کی تعداد 140 ملین کے لگ بھگ ہے۔ بھارت میں یہ تعداد تقریبا 74.2 ملین ہے۔ پاکستان اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں 33 ملین سے زیادہ لوگ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان کی 31 فیصد آبادی ذیابیطس کا شکار ہے۔ تناسب کے اعتبار سے پوری دنیا میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے جہاں ہر تیسرا فرد ذیابیطس کا مریض ہے۔
عمومی طور پر ذیابیطس کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ٹائپ 1 ذیابیطس اور ٹائپ 2 ذیابیطس۔ ان دونوں اقسام کا فرق ہمیں معلوم ہونا چاہیے کیونکہ اسی بنیاد پر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ ذیابیطس کے مریض کو روزہ رکھنا چاہیے یا نہیں۔
ٹائپ 2 ذیابیطس میں لبلبہ یا Pancreas انسولین بنانا ترک کر دیتا ہے یا بہت کم انسولین بناتا ہے۔ انسولین ایک ہارمون کا نام ہے جس کی پیداوار لبلبے کے مخصوص خلیات (Beta Cells) میں ہوتی ہے۔ انسولین کے ذریعے خوراک میں گلوکوز کی مقدار کو قابو میں رکھا جاتا ہے۔ انسولین کے زیراثر گلوکوز جسم کے مختلف خلیات میں داخل ہو کر توانائی فراہم کرنے کا کام کرتا ہے۔
ٹائپ 2 ذیابیطس میں لبلبہ انسولین بناتا ہے مگر کم مقدار میں۔ دوسری طرف انسانی جسم کے خلیات میں مدافعت پیدا ہو جاتی ہے اور ان پر انسولین کے اثرات ختم ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں خون کے اندر گلوکوز کی مقدار مسلسل بڑھتی رہتی ہے۔ ٹائپ 1 ذیابیطس کا علاج صرف انسولین کے ذریعے ہوتا ہے اور انسولین انجکشن یا پمپ کے ذریعے زیرِ جلد فراہم کی جاتی ہے۔
ٹائپ 2 ذیابیطس کا علاج منہ کے راستے دی جانے والی ادویہ سے کیا جاتا ہے جبکہ ورزش اور غذا کی طرف خصوصی توجہ درکار ہوتی ہے۔ بعض صورتوں میں ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریضوں کو دیگر ادویہ کے ساتھ انجکشن کے ذریعے انسولین بھی فراہم کی جاتی ہے۔
ٹائپ 1 ذیابیطس کے مریضوں کو ڈاکٹر حضرات روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان مریضوں کو کئی مرتبہ انسولین کے انجکشن دیئے جاتے ہیں اور عموماً کھانے سے قبل دیئے جاتے ہیں۔ یہ مریض انجکشن کے بعد کچھ نہیں کھائیں گے تو شدید نقاہت اور کمزوری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور فدیہ دے دینا چاہیے۔
ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریض ڈاکٹر کے مشورے سے روزہ رکھ سکتے ہیں مگر دواؤں کی مقدار اور اوقات میں تبدیلی کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ذیابیطس کے صرف ان مریضوں کو روزہ رکھنا چاہیے جن کا مرض قابو میں ہو اور خون میں گلوکوز کی مقدار غیر متوازن نہ ہو۔ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران خون میں گلوکوز کی شدید کمی تو واقع نہیں ہوئی ہے۔
گلوکوز کی اچانک کمی کا معاملہ بے حد اہم ہوتا ہے اور اس کی علامات سے مریضوں کو واقف ہونا چاہیے۔ یہ علامات ہیں (1) غیر معمولی نقاہت اور کمزوری (2) بھوک کا شدید احساس اور میٹھا کھانے کی خواہش (3) دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا (4) ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جانا (5) ٹھنڈے پسینے آنا (6) ذہنی کیفیت میں تبدیلی (7) غشی طاری ہونا۔ ان علامات والے مریضوں کو روزہ توڑ دینا چاہیے اور فوری طور پر کوئی میٹھی چیز کھا کر قریبی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
روزہ رکھنے والے ذیابیطس کے مریضوں کو خون میں گلوکوز کی مقدار پر نظر رکھنی چاہیے۔ اگر گلوکوز کی مقدار 70mg/100ml سے کم ہو تو روزہ توڑ دینا چاہیے۔
گلوکوز کی مقدار 70 اور 90 ملی گرام کے درمیان ہونے کی صورت میں ایک گھنٹے کے اندر دوبارہ معائنے کی ضرورت ہے۔ اگر خون میں گلوکوز کی مقدار 300 ملی گرام سے بڑھ جائے تو روزہ توڑ دینا چاہیے۔ ہمارے جسم کا نظام کچھ اس طرح ہے کہ سحری کے اٹھ گھنٹے بعد گلوکوز کی مقدار کو حدود میں رکھنے کے لیے ذخیرہ شدہ توانائی کا استعمال شروع ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں گلوکوز کی کمی یا زیادتی واقع ہو سکتی ہے۔ اسی طرح پانی کی شدید کمی بھی ہو سکتی ہے خصوصاً گرمیوں کے روزوں میں۔
ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ سحر اور افطار کے اوقات میں پانی کا زیادہ استعمال کریں مگر میٹھے مشروبات سے گریز فرمائیں۔ اگر تراویح کی نماز میں شرکت کرنی ہو تو نماز سے قبل، نماز کے دوران اور اختتام پر مناسب مقدار میں پانی پیں۔
ذیابیطس کے مریضوں کو پورے سال ہی غذا کا خیال رکھنا ہوتا ہے مگر روزوں کے دوران خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ ضرورت سے زائد یا غیر صحت بخش غذائیں کھانے سے وزن بڑھنے اور خون میں گلوکوز کی مقدار غیر متوازن ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ انہیں ایسے کاربوہائیڈریٹس یا نشاستے استعمال کرنے چاہئیں جن میں فائبر (ریشہ) زیادہ ہو مثلا چکی کے موٹے آٹے کی روٹی اور گہرے رنگ والی ڈبل روٹی، جو کا دلیہ بھی صحت بخش ہوتا ہے۔
دالیں، پھلیاں، سبزیاں اور پھل بھی زیادہ استعمال کرنے چاہئیں۔ لحمیات یا پروٹین کے لیے مچھلی، مرغی اور انڈے کھانے چاہئیں۔ افطار کے وقت زیادہ میٹھی اور چکنائی والی اشیاء سے گریز کرنا چاہیے جن میں پکوڑے، سموسے، کچوریاں اور مٹھائیاں شامل ہیں۔ ہم سب کی خواہش ہوتی ہے کہ کھجور سے روزہ افطار کیا جائے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کھجور میں مٹھاس زیادہ ہوتی ہے اس لیے دو تین کھجوروں پر قناعت کرنی چاہیے۔
ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ہم کچھ اہم ہدایات یہاں درج کرنا چاہتے ہیں جو اس ماہ مبارک میں پیشِ نظر رہنی چاہئیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو رمضان المبارک کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے اندر متقین کی وہ صفات پیدا ہو جائیں جو پورے سال برقرار رہیں۔ (آمین)
(ڈاکٹر افتخار برنی، ماہرِ صحتِ عامہ اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ اسلام آباد میں پریکٹس کرتے ہیں۔)
زمانہ ایک مسلسل رو کا دوسرا نام ہے۔ جس میں دن رات کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ تقویم کی اصل حقیقت یہی ہے کہ اس کے ذریعے ذات اور کائنات کا تجزیہ ہوتا ہے۔ اس تجزیئے سے ایک عالمگیر صداقت سامنے آتی ہے کہ ہر وجود کا انجام فنا ہے۔
اول و آخر فنا باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو منزلِ آخر فنا
اس دنیا میں ہر وجود یقیناً فنا ہو جائے گا مگر بالآخر وہ دن آئے گا جب ہر انسان کا دوبارہ جنم ہو گا۔ وہ کائنات کے خالق کے سامنے پیش ہو گا اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہو گا۔ اس فانی زندگی میں ہماری کارکردگی کی بنیاد پر نہ ختم ہونے والی زندگی میں ہمارے مقام اور مرتبے کا تعین ہو گا۔ ہماری جانی بوجھی تقویم میں ایک مہینہ ایسا آتا ہے جس میں ہماری تربیت ہوتی ہے اور رب العالمین کے سامنے پیش ہونے کے لیے ہمیں تیار کیا جاتا ہے۔
''اس دن جبکہ سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے'' (المطففین)
خوش قسمت ہیں وہ نفوس جنہیں تقویمِ اسلامی کا اہم ترین اور انتہائی برکت والا مہینہ نصیب ہوا۔ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں اللہ کا آخری کلام نازل ہوا۔ جس میں ہزار مہینوں سے افضل رات یعنی لیلۃ القدر پائی جاتی ہے۔ یہ وہ رات ہے جو ہمیں عشق کی تقویم کا احساس دلاتی ہے جہاں امروزو فردا کے پیمانے بے معنی قرار پاتے ہیں۔ اس مہینے کے تمام دنوں میں روزے رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے مگر رحیم و کریم مالک نے ان لوگوں کے لیے استثنا بیان کر دیا جو کسی وجہ سے روزہ رکھنے کے قابل نہیں ہوتے۔
''اور جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے'' (البقرہ 185)
سفر اور مرض عموماً عارضی ہوتے ہیں۔ مگر کچھ امراض ایسے ہوتے ہیں جو پوری زندگی انسان کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ ذیابیطس بھی ایسا ہی مرض ہے مگر اچھی منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی اپنا کر ذیابیطس یا شوگر کے مرض کے ساتھ عمومی زندگی گزاری جا سکتی ہے اور معالج کی ہدایات کی روشنی میں روزہ بھی رکھا جا سکتا ہے۔
ذیابیطس کے مریض ماہِ رمضان کیسے گزاریں اس بارے میں گفتگو سے قبل ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ذیابیطس کا مرض ہوتا کیا ہے اور اس کی وجہ سے انسان کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ذیابیطس ایک دائمی نوعیت کا مرض ہوتا ہے جس میں خون کے اندر شکر یا گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ذیابیطس کا مرض جسم کے دوسرے حصوں کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتا ہے جن میں دل، خون کی نالیاں، آنکھیں، گردے اور اعصاب شامل ہیں۔
ہمارے وجود کی بقاء کے لیے گلوکوز کی موجودگی لازمی ہے۔ اس سے ہمارے جسم کی نشوونما ہوتی ہے۔ ہمیں ضرورت کے مطابق توانائی حاصل ہوتی ہے اور زندگی کا سفر آگے بڑھتا ہے۔ ذیابیطس کے مرض میں انسان کو بہت سی شکایات اور علامات لاحق ہو سکتی ہیں مثلاً (پیشاب کی زیادتی) خصوصاً رات کے وقت، پیاس کی شدت، وزن میں کمی، نظر کے مسائل، بھوک کی زیادتی، شدید تھکاوٹ، زخموں کا ٹھیک نہ ہونا، خشک جلد، ہاتھ اور پاؤں کا سْن ہو جانا یا ان میں سوئیاں چبھنے کا احساس ہونا، بار بار جراثیم کا حملہ اور قوت مدافعت میں کمی۔
ذیابیطس کا مرض اس وقت ایک عالمگیر مسئلہ بن چکا ہے اور اس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس مرض کا ہدف دنیا کے تمام ممالک ہیں۔ اس حوالے سے غریب اور امیر کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اس وقت دنیا میں ذیابیطس کے 550 ملین کے قریب مریض پائے جاتے ہیں۔ اب سے 20 سال بعد یہ تعداد بڑھ کر 780 ملین تک پہنچ جائے گی۔
ذیابیطس کے سب سے زیادہ مریض چین میں موجود ہیں۔ ان کی تعداد 140 ملین کے لگ بھگ ہے۔ بھارت میں یہ تعداد تقریبا 74.2 ملین ہے۔ پاکستان اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں 33 ملین سے زیادہ لوگ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان کی 31 فیصد آبادی ذیابیطس کا شکار ہے۔ تناسب کے اعتبار سے پوری دنیا میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے جہاں ہر تیسرا فرد ذیابیطس کا مریض ہے۔
عمومی طور پر ذیابیطس کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ٹائپ 1 ذیابیطس اور ٹائپ 2 ذیابیطس۔ ان دونوں اقسام کا فرق ہمیں معلوم ہونا چاہیے کیونکہ اسی بنیاد پر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ ذیابیطس کے مریض کو روزہ رکھنا چاہیے یا نہیں۔
ٹائپ 2 ذیابیطس میں لبلبہ یا Pancreas انسولین بنانا ترک کر دیتا ہے یا بہت کم انسولین بناتا ہے۔ انسولین ایک ہارمون کا نام ہے جس کی پیداوار لبلبے کے مخصوص خلیات (Beta Cells) میں ہوتی ہے۔ انسولین کے ذریعے خوراک میں گلوکوز کی مقدار کو قابو میں رکھا جاتا ہے۔ انسولین کے زیراثر گلوکوز جسم کے مختلف خلیات میں داخل ہو کر توانائی فراہم کرنے کا کام کرتا ہے۔
ٹائپ 2 ذیابیطس میں لبلبہ انسولین بناتا ہے مگر کم مقدار میں۔ دوسری طرف انسانی جسم کے خلیات میں مدافعت پیدا ہو جاتی ہے اور ان پر انسولین کے اثرات ختم ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں خون کے اندر گلوکوز کی مقدار مسلسل بڑھتی رہتی ہے۔ ٹائپ 1 ذیابیطس کا علاج صرف انسولین کے ذریعے ہوتا ہے اور انسولین انجکشن یا پمپ کے ذریعے زیرِ جلد فراہم کی جاتی ہے۔
ٹائپ 2 ذیابیطس کا علاج منہ کے راستے دی جانے والی ادویہ سے کیا جاتا ہے جبکہ ورزش اور غذا کی طرف خصوصی توجہ درکار ہوتی ہے۔ بعض صورتوں میں ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریضوں کو دیگر ادویہ کے ساتھ انجکشن کے ذریعے انسولین بھی فراہم کی جاتی ہے۔
ٹائپ 1 ذیابیطس کے مریضوں کو ڈاکٹر حضرات روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان مریضوں کو کئی مرتبہ انسولین کے انجکشن دیئے جاتے ہیں اور عموماً کھانے سے قبل دیئے جاتے ہیں۔ یہ مریض انجکشن کے بعد کچھ نہیں کھائیں گے تو شدید نقاہت اور کمزوری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور فدیہ دے دینا چاہیے۔
ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریض ڈاکٹر کے مشورے سے روزہ رکھ سکتے ہیں مگر دواؤں کی مقدار اور اوقات میں تبدیلی کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ذیابیطس کے صرف ان مریضوں کو روزہ رکھنا چاہیے جن کا مرض قابو میں ہو اور خون میں گلوکوز کی مقدار غیر متوازن نہ ہو۔ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران خون میں گلوکوز کی شدید کمی تو واقع نہیں ہوئی ہے۔
گلوکوز کی اچانک کمی کا معاملہ بے حد اہم ہوتا ہے اور اس کی علامات سے مریضوں کو واقف ہونا چاہیے۔ یہ علامات ہیں (1) غیر معمولی نقاہت اور کمزوری (2) بھوک کا شدید احساس اور میٹھا کھانے کی خواہش (3) دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا (4) ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جانا (5) ٹھنڈے پسینے آنا (6) ذہنی کیفیت میں تبدیلی (7) غشی طاری ہونا۔ ان علامات والے مریضوں کو روزہ توڑ دینا چاہیے اور فوری طور پر کوئی میٹھی چیز کھا کر قریبی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
روزہ رکھنے والے ذیابیطس کے مریضوں کو خون میں گلوکوز کی مقدار پر نظر رکھنی چاہیے۔ اگر گلوکوز کی مقدار 70mg/100ml سے کم ہو تو روزہ توڑ دینا چاہیے۔
گلوکوز کی مقدار 70 اور 90 ملی گرام کے درمیان ہونے کی صورت میں ایک گھنٹے کے اندر دوبارہ معائنے کی ضرورت ہے۔ اگر خون میں گلوکوز کی مقدار 300 ملی گرام سے بڑھ جائے تو روزہ توڑ دینا چاہیے۔ ہمارے جسم کا نظام کچھ اس طرح ہے کہ سحری کے اٹھ گھنٹے بعد گلوکوز کی مقدار کو حدود میں رکھنے کے لیے ذخیرہ شدہ توانائی کا استعمال شروع ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں گلوکوز کی کمی یا زیادتی واقع ہو سکتی ہے۔ اسی طرح پانی کی شدید کمی بھی ہو سکتی ہے خصوصاً گرمیوں کے روزوں میں۔
ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ سحر اور افطار کے اوقات میں پانی کا زیادہ استعمال کریں مگر میٹھے مشروبات سے گریز فرمائیں۔ اگر تراویح کی نماز میں شرکت کرنی ہو تو نماز سے قبل، نماز کے دوران اور اختتام پر مناسب مقدار میں پانی پیں۔
ذیابیطس کے مریضوں کو پورے سال ہی غذا کا خیال رکھنا ہوتا ہے مگر روزوں کے دوران خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ ضرورت سے زائد یا غیر صحت بخش غذائیں کھانے سے وزن بڑھنے اور خون میں گلوکوز کی مقدار غیر متوازن ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ انہیں ایسے کاربوہائیڈریٹس یا نشاستے استعمال کرنے چاہئیں جن میں فائبر (ریشہ) زیادہ ہو مثلا چکی کے موٹے آٹے کی روٹی اور گہرے رنگ والی ڈبل روٹی، جو کا دلیہ بھی صحت بخش ہوتا ہے۔
دالیں، پھلیاں، سبزیاں اور پھل بھی زیادہ استعمال کرنے چاہئیں۔ لحمیات یا پروٹین کے لیے مچھلی، مرغی اور انڈے کھانے چاہئیں۔ افطار کے وقت زیادہ میٹھی اور چکنائی والی اشیاء سے گریز کرنا چاہیے جن میں پکوڑے، سموسے، کچوریاں اور مٹھائیاں شامل ہیں۔ ہم سب کی خواہش ہوتی ہے کہ کھجور سے روزہ افطار کیا جائے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کھجور میں مٹھاس زیادہ ہوتی ہے اس لیے دو تین کھجوروں پر قناعت کرنی چاہیے۔
ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ہم کچھ اہم ہدایات یہاں درج کرنا چاہتے ہیں جو اس ماہ مبارک میں پیشِ نظر رہنی چاہئیں۔
- روزے کے دوران خون میں گلوکوز کی مقدار کا معائنہ کرتے رہیں خصوصاً ان اوقات میں: سورج نکلنے سے قبل، سورج نکلنے کے دو گھنٹے بعد، ظہر کے وقت، سورج ڈوبنے سے قبل اور رات کے وقت سونے سے قبل۔
- ٹائپ 1 ذیابیطس کے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ وہ مریض جو روزہ رکھنے کے شدید خواہش مند ہوں انہیں ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ اگر ان کی انسولین کے اوقات اس طرح متعین کیے جا سکتے ہوں کہ روزے کے دوران خون میں گلوکوز کی مقدار غیر متوازن نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ترجیحِ اول یہی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں اور فدیے کی ادائیگی کر دیں۔
- چینی کی ڈلی یا کوئی اور میٹھی چیز اپنے پاس رکھنی چاہیے تاکہ بوقتِ ضرورت فوری طور پر استعمال کی جا سکے۔
- ماہِ مبارک میں مناسب آرام بھی ضروری ہے۔ رات کی نیند کم ہونے سے خون میں گلوکوز کی مقدار غیر متوازن ہو سکتی ہے۔
- اگر جسم میں پانی کی شدید کمی یا Dehydration ہو تو روزہ توڑ دینا چاہیے۔
- ٹائپ 2 ذیابیطس کے بہت سے مریض انسولین استعمال کرتے ہیں۔ انہیں اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کر کے انسولین کی مقدار اور اوقات کا دوبارہ تعین کرنا چاہیے۔
- شدید جسمانی مشقت کرنے والے ذیابیطس کے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔
- ذیابیطس کی مریضہ اگر حاملہ ہو تو اسے روزہ رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔
- ذیابیطس کے کئی مریض دیگر جسمانی عوارض میں مبتلا ہوتے ہیں مثلاً دل، خون کی نالیوں اور گردے کے امراض۔ ایسے مریضوں کے لیے روزہ رکھنا مناسب نہیں ہوگا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو رمضان المبارک کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے اندر متقین کی وہ صفات پیدا ہو جائیں جو پورے سال برقرار رہیں۔ (آمین)
(ڈاکٹر افتخار برنی، ماہرِ صحتِ عامہ اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ اسلام آباد میں پریکٹس کرتے ہیں۔)