پاکستان امریکا تعلقات میں بہتری کا عندیہ
اگر مفادات پورے ہو رہے ہوں تو جمہوریت بہت اہم نہیں رہتی
امریکی انتظامیہ کی یہ روایتی پالیسی رہی ہے کہ ہر نو منتخب امریکی صدر دنیا کے بیشتر ممالک کے سربراہانِ حکومت کو فون کر کے اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ دونوں ممالک مل کر کام کرتے ہوئے باہمی مفادات کو آگے بڑھائیں گے۔کبھی کبھی فون نہیں کیا جاتا اور محض خط لکھنے پر اکتفا کر لیا جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ صاحب جب صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے حلف اٹھانے کا بھی انتظار نہیں کیا اور رابطے شروع کر دئے۔اس وقت پاکستان میں جناب نواز شریف صاحب کی حکومت تھی۔جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے سے بہت پہلے نواز شریف صاحب کو فون کر کے امریکا اور پاکستان کے مابین تعلقات کو کندھا دیا۔
جب جو بائیڈن امریکا کے صدر بنے تو انھوں نے روایت سے پہلو تہی کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ اعظم جناب عمران خان صاحب سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔جو بائیڈن کا یہ رویہ افسوس ناک اوربظاہر ناقابلِ فہم تھا۔جب ایک خاصے عرصے تک جو بائیڈن کا فون یا خط نہیں آیا تو پاکستانی انتظامیہ ایکٹو ہوئی۔
اس وقت کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جناب معید یوسف جو اپنے تئیں واشنگٹن میں بہت اثر و رسوخ رکھتے تھے،امریکا گئے اور فون یا خط کے لیے کوشاں رہے لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ شہباز شریف صاحب وزیرِ اعظم کے منصب پر آ گئے ، تب بھی امریکی صدر جو بائیڈن نے شہباز شریف سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ امریکی صدر کی جانب سے اس سرد مہری کے پیچھے کئی عوامل کارفرما تھے۔
جناب عمران خان صاحب نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکا کو فوجی مراعات دینے کے بارے میں سوال پر Absolutely Not کہا۔کسی بھی سربراہِ حکومت کی طرف سے اور خاص کر پاکستان جیسے معاشی طور پر بہت کمزور ملک کے سربراہِ حکومت کی جانب سے یہ ایک غیر محتاط اور غیر ضروری اظہار تھا۔سربراہانِ حکومت ہر لفظ سوچ سمجھ کر نپے تلے انداز میں بولتے ہیں۔اگر کسی منفی ردِ عمل کا اظہار بہت ضروری بھی ہو تو سخت الفاظ سے اجتناب کیا جاتا ہے یا پھر چپ رہا جاتا ہے۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے موقع پر جناب عمران خاں صاحب نے جب یہ بیان دیا کہ افغان طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں تو یہ بیان بھی غیر ضروری اور جذباتی تھا۔طالبان کے کابل میں داخلے اور امریکی افواج کے غیر ضروری عجلت میں انخلا کی تصاویر امریکی عوام کو پسند نہیں آئیں۔اس سے امریکی طاقت و قوت کی ساکھ خراب ہوئی۔
امریکا میں صدر بائیڈن کی اپروول بہت گری۔امریکیوں کے اندر اس حوالے سے بہت غصہ ہے۔اس ماحول میں غیر ضروری اور غیر محتاط بیانات کی کاٹ امریکیوں کو بہت محسوس ہوئی۔وہ اور تو کچھ کر نہیں سکے البتہ پاکستان کی جانب سرد مہری اختیار کر لی۔
پاکستان میں انتخابات کے نتیجے میں ایک نئی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ن لیگی حکومت کو عرب ممالک،چین،بھارت اور روس جیسے اہم ممالک سے فوراً مبارک باد کے پیغامات موصول ہوئے لیکن امریکا اور یورپین یونین نے ایسا نہیں کیا۔امریکا افغانستان سے نکل چکا ہے۔امریکا کے لیے پاکستان پہلے جیسا اہم ملک نہیں رہا۔پاکستان اور چین کے تعلقات بہت اچھے اور مثالی ہیں۔امریکا اگر اس وقت کسی ملک سے مسابقت میں ہے تو وہ چین ہے۔
چین کی معیشت ایک لحاظ سے امریکی معیشت سے آگے نکل چکی ہے۔تیزی سے ترقی کرتے چین سے امریکا خطرہ محسوس کرتا ہے۔ ایسے میں امریکا اس خطے میں ایک ایسے ملک کی تلاش میں تھا جو چین کے آگے بند باندھ سکے۔پاکستان چونکہ چین کا اچھا اور با اعتماد دوست ملک ہے اس لیے امریکا کے کام نہیں آ سکتا۔بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعہ ہے۔بھارت ایک بڑا اور قوت کا خواہاں ملک ہے۔اس کی معیشت بھی بڑی ہے۔بھارت نے بخوشی امریکا کا ہاتھ بٹانا شروع کیا یوں بھارت امریکا کے لیے اہم جب کہ پاکستان غیر اہم ہو گیا۔
30مارچ کو امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر رابطہ بحال کیا۔بائیڈن نے کہا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے،دونوں ممالک کے درمیان ریلیشن شپ بہت پائیدار ہے۔انھوں نے اپنے خط میں مزید کہا کہ دونوں اقوام کے درمیان پارٹنر شپ کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات کریں گے۔ صدر بائیڈن نے پاکستانی معیشت کی بحالی میں معاونت کا بھی عندیہ دیا اور کلائیمیٹ چینج کے پاکستان پر اثرات کم کرنے میں مدد دینے کی پیش کش کی۔
بائیڈن کا یہ خط تعلقات کو اسٹریٹیجک سطح پر تو لے جانے کا عندیہ نہیں دیتا لیکن یہ ایک بہت مثبت پیش رفت ہے۔یہ خط اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس سے دس دن پہلے امریکی کانگریس کی ایک ذیلی فارن ریلیشن کمیٹی میں پاکستان کے حوالے سے سماعت ہوئی۔پاکستان میں کچھ حلقے یہ تاثر دے رہے تھے کہ امریکا پاکستان کی موجودہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لے گا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
واشنگٹن میں سفارتی ذرائع بتاتے ہیں کہ امریکا پاکستان کے ساتھ بہت سے شعبوں میں اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔پاکستان میں موجودہ انتخابات میں بے قاعدگیوں پر امریکا کی نظر ہے لیکن اس کے لیے یہ بڑا ایشو نہیں۔اصل میں امریکا پاکستان کی ہر حکومت کے ساتھ اپنے مفادات کے حصول کے لیے کام کرنے کو تیار رہتا ہے البتہ امریکا پاکستان آرمی چیف کو انگیج رکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔
اسی طرح امریکا کو پاکستان میں ایک ایسا وزیرِ خزانہ پسندہے جو پاکستانی معیشت کو سیدھی سمت گامزن کرے۔وزیرِ خزانہ جناب اورنگ زیب شاید ایک ایسے ہی وزیرِ خزانہ ہیں۔ محترمہ شمشاد نے بھی اچھا تاثر چھوڑا تھا،اسی لیے دونوں کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے بہت آسانی رہی۔
پاکستان سے کچھ حلقوں اور امریکا میں مقیم کچھ اوورسیز پاکستانیوں نے کوشش کی کہ امریکا 8فروری کے انتخابات کو نہ مانے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر نتائج تبدیل کروائے۔یہ کوشش بھی ہوئی کہ آئی ایم ایف قسط جاری کرنے سے پہلے انتخابی نتائج پر بات کرے۔ان کوششوں کے نتیجے میں اگر قسط معطل ہوتی تو شہباز حکومت کی مشکلات میں بہت اضافہ ہوتا۔اس بات کو نظر میں رکھنا چاہیے کہ امریکا ایک بڑی فوجی اور معاشی قوت تو ہے لیکن اس کی ہر گزرتے لمحے ساکھ گررہی ہے۔
بنگلہ دیشی حالیہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی تو امریکا نے شدید ردِ عمل دیا اور بہت دباؤ ڈالا لیکن محترمہ حسینہ واجد کی حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔اسی طرح میانمار میں انگ سانگ سوچی کو جیل میں ڈالنے پر امریکا چیخ اٹھا۔بہت دباؤ ڈالا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔مصر میں سی سی حکومت کو بھی پسند نہیںکیا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی اربوں ڈالر کی امداد بھی دی جاتی ہے۔ہم پاکستانی بھول جاتے ہیں کہ ہر ملک کے مفادات ہوتے ہیں۔
اگر مفادات پورے ہو رہے ہوں تو جمہوریت بہت اہم نہیں رہتی۔ پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں سے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔اسی تعاون سے ہماری انتہائی خراب معیشت کو وقتی سہارا مل سکتا ہے۔تمام مالیاتی اداروں پر امریکا کا خاصا اثرو رسوخ ہے۔امریکا کی مخالفت ہمارے لیے فی الحال اچھی نہیں جب کہ امریکی حمایت سے ہمیں ایک Breathing Space مل جاتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ صاحب جب صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے حلف اٹھانے کا بھی انتظار نہیں کیا اور رابطے شروع کر دئے۔اس وقت پاکستان میں جناب نواز شریف صاحب کی حکومت تھی۔جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے سے بہت پہلے نواز شریف صاحب کو فون کر کے امریکا اور پاکستان کے مابین تعلقات کو کندھا دیا۔
جب جو بائیڈن امریکا کے صدر بنے تو انھوں نے روایت سے پہلو تہی کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ اعظم جناب عمران خان صاحب سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔جو بائیڈن کا یہ رویہ افسوس ناک اوربظاہر ناقابلِ فہم تھا۔جب ایک خاصے عرصے تک جو بائیڈن کا فون یا خط نہیں آیا تو پاکستانی انتظامیہ ایکٹو ہوئی۔
اس وقت کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جناب معید یوسف جو اپنے تئیں واشنگٹن میں بہت اثر و رسوخ رکھتے تھے،امریکا گئے اور فون یا خط کے لیے کوشاں رہے لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ شہباز شریف صاحب وزیرِ اعظم کے منصب پر آ گئے ، تب بھی امریکی صدر جو بائیڈن نے شہباز شریف سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ امریکی صدر کی جانب سے اس سرد مہری کے پیچھے کئی عوامل کارفرما تھے۔
جناب عمران خان صاحب نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکا کو فوجی مراعات دینے کے بارے میں سوال پر Absolutely Not کہا۔کسی بھی سربراہِ حکومت کی طرف سے اور خاص کر پاکستان جیسے معاشی طور پر بہت کمزور ملک کے سربراہِ حکومت کی جانب سے یہ ایک غیر محتاط اور غیر ضروری اظہار تھا۔سربراہانِ حکومت ہر لفظ سوچ سمجھ کر نپے تلے انداز میں بولتے ہیں۔اگر کسی منفی ردِ عمل کا اظہار بہت ضروری بھی ہو تو سخت الفاظ سے اجتناب کیا جاتا ہے یا پھر چپ رہا جاتا ہے۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے موقع پر جناب عمران خاں صاحب نے جب یہ بیان دیا کہ افغان طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں تو یہ بیان بھی غیر ضروری اور جذباتی تھا۔طالبان کے کابل میں داخلے اور امریکی افواج کے غیر ضروری عجلت میں انخلا کی تصاویر امریکی عوام کو پسند نہیں آئیں۔اس سے امریکی طاقت و قوت کی ساکھ خراب ہوئی۔
امریکا میں صدر بائیڈن کی اپروول بہت گری۔امریکیوں کے اندر اس حوالے سے بہت غصہ ہے۔اس ماحول میں غیر ضروری اور غیر محتاط بیانات کی کاٹ امریکیوں کو بہت محسوس ہوئی۔وہ اور تو کچھ کر نہیں سکے البتہ پاکستان کی جانب سرد مہری اختیار کر لی۔
پاکستان میں انتخابات کے نتیجے میں ایک نئی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ن لیگی حکومت کو عرب ممالک،چین،بھارت اور روس جیسے اہم ممالک سے فوراً مبارک باد کے پیغامات موصول ہوئے لیکن امریکا اور یورپین یونین نے ایسا نہیں کیا۔امریکا افغانستان سے نکل چکا ہے۔امریکا کے لیے پاکستان پہلے جیسا اہم ملک نہیں رہا۔پاکستان اور چین کے تعلقات بہت اچھے اور مثالی ہیں۔امریکا اگر اس وقت کسی ملک سے مسابقت میں ہے تو وہ چین ہے۔
چین کی معیشت ایک لحاظ سے امریکی معیشت سے آگے نکل چکی ہے۔تیزی سے ترقی کرتے چین سے امریکا خطرہ محسوس کرتا ہے۔ ایسے میں امریکا اس خطے میں ایک ایسے ملک کی تلاش میں تھا جو چین کے آگے بند باندھ سکے۔پاکستان چونکہ چین کا اچھا اور با اعتماد دوست ملک ہے اس لیے امریکا کے کام نہیں آ سکتا۔بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعہ ہے۔بھارت ایک بڑا اور قوت کا خواہاں ملک ہے۔اس کی معیشت بھی بڑی ہے۔بھارت نے بخوشی امریکا کا ہاتھ بٹانا شروع کیا یوں بھارت امریکا کے لیے اہم جب کہ پاکستان غیر اہم ہو گیا۔
30مارچ کو امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر رابطہ بحال کیا۔بائیڈن نے کہا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے،دونوں ممالک کے درمیان ریلیشن شپ بہت پائیدار ہے۔انھوں نے اپنے خط میں مزید کہا کہ دونوں اقوام کے درمیان پارٹنر شپ کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات کریں گے۔ صدر بائیڈن نے پاکستانی معیشت کی بحالی میں معاونت کا بھی عندیہ دیا اور کلائیمیٹ چینج کے پاکستان پر اثرات کم کرنے میں مدد دینے کی پیش کش کی۔
بائیڈن کا یہ خط تعلقات کو اسٹریٹیجک سطح پر تو لے جانے کا عندیہ نہیں دیتا لیکن یہ ایک بہت مثبت پیش رفت ہے۔یہ خط اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس سے دس دن پہلے امریکی کانگریس کی ایک ذیلی فارن ریلیشن کمیٹی میں پاکستان کے حوالے سے سماعت ہوئی۔پاکستان میں کچھ حلقے یہ تاثر دے رہے تھے کہ امریکا پاکستان کی موجودہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لے گا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
واشنگٹن میں سفارتی ذرائع بتاتے ہیں کہ امریکا پاکستان کے ساتھ بہت سے شعبوں میں اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔پاکستان میں موجودہ انتخابات میں بے قاعدگیوں پر امریکا کی نظر ہے لیکن اس کے لیے یہ بڑا ایشو نہیں۔اصل میں امریکا پاکستان کی ہر حکومت کے ساتھ اپنے مفادات کے حصول کے لیے کام کرنے کو تیار رہتا ہے البتہ امریکا پاکستان آرمی چیف کو انگیج رکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔
اسی طرح امریکا کو پاکستان میں ایک ایسا وزیرِ خزانہ پسندہے جو پاکستانی معیشت کو سیدھی سمت گامزن کرے۔وزیرِ خزانہ جناب اورنگ زیب شاید ایک ایسے ہی وزیرِ خزانہ ہیں۔ محترمہ شمشاد نے بھی اچھا تاثر چھوڑا تھا،اسی لیے دونوں کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے بہت آسانی رہی۔
پاکستان سے کچھ حلقوں اور امریکا میں مقیم کچھ اوورسیز پاکستانیوں نے کوشش کی کہ امریکا 8فروری کے انتخابات کو نہ مانے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر نتائج تبدیل کروائے۔یہ کوشش بھی ہوئی کہ آئی ایم ایف قسط جاری کرنے سے پہلے انتخابی نتائج پر بات کرے۔ان کوششوں کے نتیجے میں اگر قسط معطل ہوتی تو شہباز حکومت کی مشکلات میں بہت اضافہ ہوتا۔اس بات کو نظر میں رکھنا چاہیے کہ امریکا ایک بڑی فوجی اور معاشی قوت تو ہے لیکن اس کی ہر گزرتے لمحے ساکھ گررہی ہے۔
بنگلہ دیشی حالیہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی تو امریکا نے شدید ردِ عمل دیا اور بہت دباؤ ڈالا لیکن محترمہ حسینہ واجد کی حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔اسی طرح میانمار میں انگ سانگ سوچی کو جیل میں ڈالنے پر امریکا چیخ اٹھا۔بہت دباؤ ڈالا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔مصر میں سی سی حکومت کو بھی پسند نہیںکیا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی اربوں ڈالر کی امداد بھی دی جاتی ہے۔ہم پاکستانی بھول جاتے ہیں کہ ہر ملک کے مفادات ہوتے ہیں۔
اگر مفادات پورے ہو رہے ہوں تو جمہوریت بہت اہم نہیں رہتی۔ پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں سے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔اسی تعاون سے ہماری انتہائی خراب معیشت کو وقتی سہارا مل سکتا ہے۔تمام مالیاتی اداروں پر امریکا کا خاصا اثرو رسوخ ہے۔امریکا کی مخالفت ہمارے لیے فی الحال اچھی نہیں جب کہ امریکی حمایت سے ہمیں ایک Breathing Space مل جاتی ہے۔