پاکستان کا افغانستان میں چھپے دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کا انتباہ
کنڑ اور نورستان میں طالبان ٹھکانوں کے خاتمے کیلیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں، پاکستانی حکام
پاکستان نے افغان حکام کو خبردار کیا گیا ہے کہ سرحد پار سے دہشت گرد حملے روکنے کیلیے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ لینے والے شدت پسندوں کا تعاقب کرکے ان کے ٹھکانوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام اس وقت شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ شدت پسندوں سے نمٹنے کیلیے فوجی آپریشن سمیت مختلف آپشنز پر غور کررہی ہے جن میں سے ایک آپشن فضائی حملوں کا سلسلہ وسیع کرنے اوران میں تیزی لانا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس آپشن کا ہی انتخاب کیاجاسکتا ہے تاہم پاکستانی سویلین اور عسکری حکام کوا س بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ افغانستان کے کنڑ اور نورستان جیسے سرحدی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کی موجودہ قیادت بشمول مولوی فضل اللہ کی موجودگی اور خفیہ پناہ گاہوں کا وجود بھی پاکستان کی سلامتی کیلیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
اس مسئلے کی سنجیدہ نوعیت کے باعث نہ صرف افغان حکام بلکہ نیٹو اور امریکا کے اعلیٰ اہلکاروں سے بھی بار بار اس پر بات کی گئی اور شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خاتمے کیلیے کارروائی کے مطالبے کیے جاتے رہے تاہم یہ ٹھکانے نہ صرف وہاں موجود ہیں بلکہ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق درپردہ افغانستان کے کچھ اداروں کی جانب سے ان شدت پسندوں کی مفاہمت بھی کی جارہی ہے۔ یہ ساری صورت حال پاکستانی حکام کیلیے انتہائی پریشان کن ہے ۔
پاکستانی سفارتی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہترکرنا چاہتا ہے اور وہ پڑوسی ملک میں دیرپا امن اور استحکام کیلیے کی جانیوالی کوششوں کی معاونت بھی کرتاآرہا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسری طرف سے بھی ان کوششوں کا مثبت جواب آئے ۔ ذرائع نے بتایا کہ افغان حکام سے کہاگیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ شدت پسندوں اور ان کے ٹھکانوں کا خاتمہ یقینی بنایاجائے۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز ملک کا دفاع کرنا جانتی ہیں اس لیے سرحد پار دہشت گرد حملے نہ رکنے کی صورت میں شدت پسندوں کا پیچھا اور تعاقب کرکے ان کے ٹھکانوں کے خاتمے کیلیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں ۔
باخبر ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام اس وقت شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ شدت پسندوں سے نمٹنے کیلیے فوجی آپریشن سمیت مختلف آپشنز پر غور کررہی ہے جن میں سے ایک آپشن فضائی حملوں کا سلسلہ وسیع کرنے اوران میں تیزی لانا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس آپشن کا ہی انتخاب کیاجاسکتا ہے تاہم پاکستانی سویلین اور عسکری حکام کوا س بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ افغانستان کے کنڑ اور نورستان جیسے سرحدی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کی موجودہ قیادت بشمول مولوی فضل اللہ کی موجودگی اور خفیہ پناہ گاہوں کا وجود بھی پاکستان کی سلامتی کیلیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
اس مسئلے کی سنجیدہ نوعیت کے باعث نہ صرف افغان حکام بلکہ نیٹو اور امریکا کے اعلیٰ اہلکاروں سے بھی بار بار اس پر بات کی گئی اور شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خاتمے کیلیے کارروائی کے مطالبے کیے جاتے رہے تاہم یہ ٹھکانے نہ صرف وہاں موجود ہیں بلکہ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق درپردہ افغانستان کے کچھ اداروں کی جانب سے ان شدت پسندوں کی مفاہمت بھی کی جارہی ہے۔ یہ ساری صورت حال پاکستانی حکام کیلیے انتہائی پریشان کن ہے ۔
پاکستانی سفارتی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہترکرنا چاہتا ہے اور وہ پڑوسی ملک میں دیرپا امن اور استحکام کیلیے کی جانیوالی کوششوں کی معاونت بھی کرتاآرہا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسری طرف سے بھی ان کوششوں کا مثبت جواب آئے ۔ ذرائع نے بتایا کہ افغان حکام سے کہاگیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ شدت پسندوں اور ان کے ٹھکانوں کا خاتمہ یقینی بنایاجائے۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز ملک کا دفاع کرنا جانتی ہیں اس لیے سرحد پار دہشت گرد حملے نہ رکنے کی صورت میں شدت پسندوں کا پیچھا اور تعاقب کرکے ان کے ٹھکانوں کے خاتمے کیلیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں ۔