شمالی وزیرستان میں آپریشن احمد زئی وزیر اور دیگر قبائل کے 6 ہزار سے زائد افراد خوست منتقل

مزیدافرادکی نقل مکانی روکنے کیلیے میرانشاہ غلام خان روڈکوبند کردیا گیا

صوبائی حکومت نے پناہ گزینوںکے لیے گرباز، نادرشاہ کوٹ، مندوزئی اوراسماعیل خیل ودیگراضلاع میں جگہ فراہم کردی. فوٹو؛ فائل

FAISALABAD:
شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسزکی کارروائیوں کی وجہ سے احمد زئی وزیر اور دوسرے قبائل کے 6642افرادنے افغانستان کے صوبے خوست میں پناہ لے لی جب کہ مزید افراد کی نقل مکانی روکنے کیلیے سیکیورٹی فورسز نے میرانشاہ غلام خان روڈ کوبند کر دیا۔

قبائلی خاندانوں نے سرحد پار کرنے کیلیے سنسان راستوں کا استعمال شروع کر دیا، افغان وزارتِ صحت کی ہدایت پر پاکستانی قبائلیوں کیلیے پولیو ویکسینیشن کاپروگرام شروع کردیا گیا، سیدگئی،گرباز اورشیرخیل قبائل افغانستان کواپنے لیے زیادہ محفوظ خیال کرتے ہیں۔ دوسری طرف ریاستوں اور سرحدی امورکی وزارت کے حکام نے شمالی وزیرستان کے لوگوں کی افغانستان میں پناہ لینے کی رپورٹس کومسترد کر دیا، ڈیورنڈ لائن معاہدے کی شق کے مطابق جن قبائلیوں کی افغانستان میں جائیدادیں ہیں وہ وہاں بغیر کسی روک ٹوک کے آ جاسکتے ہیں۔

افغان صوبے خوست کے گورنرکے ترجمان مبارض زادران نے کہاہے کہ صوبائی حکومت نے ان پناہ گزینوں کیلیے خوست کے اضلاع گرباز، نادرشاہ کوٹ، مندوزئی اور اسماعیل خیل میں جگہ فراہم کردی ہے،صوبائی درالحکومت میں بھی ان کیلیے جگہ مخصوص کی گئی ہے۔نجی ٹی وی، افغانی اورعالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق شمالی وزیرستان میں حکومت کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان کیخلاف ٹارگٹڈ کارروائیوں کے آغازکے ساتھ ہی لوگوں نے افغانستان کی طرف نقل مکانی شروع کردی ہے۔


میرانشاہ سے تعلق رکھنے والے قبائلی سردار نے کہا ''فاٹا کے ہزاروں بے گھرافرادکی کیمپوں کے اندراور باہر حالتِ زار طویل قیام کے خدشے کے پیش نظر میں نے ضلع بنوں کے ملحقہ علاقوں میں آلودہ خیموں میں رکھنے کے بجائے اپنے خاندان کوافغانستان لے جانے کا ارادہ کیا ہے،بہت سے خاندان پہلے ہی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے سرحد پار کرکے افغانستان جاچکے ہیں۔ شمالی وزیرستان، اورکزئی، کرم اورخیبر ایجنسیوں سمیت دیگر قبائلی ایجنسیوں کے بے گھر افرادپچھلے7سالوں سے کیمپوں کے اندر اورباہر کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، اب تک خیبر پختونخوا میں فاٹاسے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ 60ہزار سے زائدکی تعداد میں خاندانوں کورجسٹرڈ کیا گیا ہے۔

حافظ گل بہادر کی سربراہی میں طالبان شوریٰ نے پہلے ہی مقامی باشندوں سے یہ کہہ دیاہے کہ وہ خیبرپختونخوا کے امدادی کیمپوں کی طرف بڑھنے کے بجائے افغان سرحدسے قریب علاقے میں منتقل ہوجائیں۔جب افغان حکومت کے ایک اہلکارسے رابطہ کیا گیا توانھوں نے تصدیق کی کہ شمالی وزیرستان ایجنسی سے 6642افرادجن میں 1492بچے بھی شامل ہیں صوبہ خوست پہنچے ہیں،یہاں انھیں بنیادی سہولیات فراہم کردی گئی ہیں، ان خاندانوں نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی کا آغاز ہونے کے بعدخوست کے علاقے میں سرحد پار کی تھی۔

نجی ٹی وی کے مطابق پاکستانی حکام نے بتایا کہ اس سرحد پرکوئی باڑ نہیں ہے لہٰذا شمالی وزیرستان کے باشندے جن کی جائیدادیں افغانستان میں ہیں، وہ آجا سکتے ہیں،یہ معمول کی نقل و حرکت ہے،خانہ بدوش خاندان خاص طور پر سیدگئی، گرباز اور شیرخیل قبیلوں سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد جو افغانستان کو زیادہ محفوظ خیال کرتے ہیں، وہ باقاعدگی کے ساتھ افغانستان آتے جاتے رہتے ہیں،افغان حکومت اس مسئلے کاناجائز فائدہ اْٹھا سکتی ہے،سہولت کاحق ڈیورنڈ لائن معاہدے کی ایک منفرد شق ہے۔
Load Next Story