’’نور نہایا رستہ‘‘ کا شاعر… جلیل عالی
جلیل عالی کے یہاں موضوعاتی تجربات کاکینوس ایساوسیع اورمنفردہے کہ ان کے کلام کوپڑھنے والے کی زبان کاذائقہ کڑوانہیں ہوتا
جلیل عالی شعروادب کی ایک ہمہ جہت ،پر خلوص، خوش خصال اور فعال ومتحرک شخصیت ہیں۔ ان کی ادبی خدمات نصف صدی کے لگ بھگ ہیں۔ وہ اپنے مخصوص لب ولہجے اور خوبصورت انداز گفتگو کے سبب مشاعروں کی دنیا میںہر دل عزیز مانے جاتے ہیں۔
ان کا شمار بھی عہدِ موجود کے مقبول ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کا شعری وادبی سفر بڑی خوش اسلوبی کیساتھ مسلسل جاری وساری ہے۔ اُردو کی مروجہ بیش تر اصناف سخن میں وہ کامیابی کیساتھ طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ حمد ونعت، مناجات ومناقب، سلام ودعا، قصیدہ، غزل، آزاد نظم اور دیگر اصناف میں بھی ان کا کلام موجود ہے۔
عالی صاحب کا ذہن وفکر جس انداز سے دنیائے شعروادب کو اپنی گراں قدر شعری وادبی خدمات سے منور کر رہا ہے وہ ان کو تا دیر زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اردو زبان وادب کی معتبر شخصیات نے ان کے فن کو بڑی فراخ دلی کے ساتھ سراہا ہے جو ان کی مقبولیت کی دلیل ہے۔
خواب دریچہ(غزلیات)، شوق ستارہ(نظم وغزل)، عرضِ ہنر سے آگے(نظم وغزل)ان کتب کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اسے 2005 اور 2007 ء میں رائٹرز گلڈ ایواڈ اور احمد ندیم قاسمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کے کلام پر مبنی انتخاب خاور اعجاز کا ''لفظ مختصر سے مرے'' اور ایک لہر سی بھی(غزلیات)، دن بدلتے نہیں(نظمیں)، عشق دے ہور حساب(پنجابی کلام)، شعری دانش کی دُھن میں(تنقیدی مضامین) اور ''نور نہایا رستہ'' جیسی شعری تصانیف اشاعت پذیر ہوکرکائناتِ ادب پر اپنی کرنیں بکھیر رہی ہیں۔
جلیل عالی کے یہاں موضوعاتی تجربات کا کینوس ایسا وسیع اور منفرد ہے کہ ان کے کلام کو پڑھنے والے کی زبان کا ذائقہ کڑوا نہیں ہوتا جو ان کے شعری امتیاز کی علامت ہے۔ان کی حمدونعت، منقبت وسلام پر مبنی شعری تصنیف ''نور نہایا رستہ'' میرے نزدیک ہے یہ کتاب اُردو ادب کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے جس میں انہوں نے اللہ رب العزت اور اُسکے محبوب ِ سبحانیؐ کی وحدانیت کی صفات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس کتاب کے دیباچہ میں محمد شاہد حمید لکھتے ہیں کہ''جلیل عالی جس راستے کی دھول ہیں اور رہنا چاہتے ہیں وہ نور نہایا راستہ ہے اور مجھے آخر میں دہرالینے دیجئے کہ اُنہوں نے اپنے دل کی لوح پر انتہائی دیانت داری اور سچائی سے ایک روشن اسم سجا رکھا ہے، یہی وہ مبارک اسم ہے جس نے ان کے تخلیقی مزاج کو الگ چھب اور شناخت عطا کی ہے، نعت کہتے ہوئے وہ یوں مختلف ہو جاتے ہیں کہ یہی بنیادی اور مرکزی حوالہ معنوی سطح پر کچھ زیادہ روشن اور شفاف ہو کر اپنی جالیات بھی متشکل کر لیتا ہے یوں کہ پڑھتے ہوئے قاری کا دل، شاعر ہی کے لفظوں میں سینے کے بکسے میں نہیں رہتا بلکہ آنکھوں میں دھرکنے لگتا ہے۔''
چند حرفوں کی سعادت بھی بہت ہے عالی
حق ادا نعت نبیؐ کا نہیں ہونے والا
عالی صاحب کے نعتیہ کلام میں جمالیات کاجہاں انوکھا پن موجود ہے وہیں ان کے کلام میں تصوف کا رنگ بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ کیونکہ وہ میاں محمد بخشؒ کے سیف الملوک والے لہجے سے خاص رغبت رکھتے ہیں ،جبکہ ان کی نعت نگاری میں ''شدت'' کا پہلو ایک تڑپ بن کر اُٹھتاہے تو آنکھیں اشکوں سے باوضو ہونا چاہتی ہے، قلم سونے کے ورق پر الفاظ کو آسمانی ستاروں سے پرونا چاہتا ہے اور زبان درودِ احمدؐ کا ورد کرتے ہوئے اسمِ محمدؐ کے اُجالے سے دل کو شاد کرنے والا وسیلہ ڈھونڈتی ہے۔
دل شاد ہیں ہر درد کی شدت سے زیادہ
کیا چاہیے اور اس کی محبت سے زیادہ
عالی صاحب نے اپنی تمام نعتوں میں محاسن کلام کا خاص خیال رکھا ہے اس لیے معانی سے قطع نظر ،فنی پہلو سے بھی ان کی نعتیں اُردو ادب کا ایک قیمتی خزینہ ہیں۔ پھر انہوں نے نعت میں بعض نہایت سحر آفریں تجربے بھی کیے ہیں۔ جس سے نعت کے صوتی حسن اور موسیقیت میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔ جس سے ایک ایسا ادبی اور شعری سرمایہ وجود میں آیا ہے جس سے فکر کو شگفتگی اور تحقیق وتجسس کو بال وپر ملے ہیں،کیونکہ نعت وہ واحد صنف سخن ہے جو زمین کی وسعتوں کے ساتھ ساتھ آسمان کی رفعتوں کو بھی سمیٹ لیتی ہے۔
حضرت احسان دانش نے اس حوالے سے کہاہے کہ''نعت کا ایک سرا زمین پر شاعر کے سینے میں ہوتا ہے اور دوسرا سرا عرشِ اعظم کی چوٹی میں گندھا ہوا ہوتا ہے۔'' یقینا ایسا ہی معاملہ عالی صاحب کے ساتھ بھی ہے۔ جنہوں نے اپنے نعتیہ کلام کو عقیدت بھری آنکھوں سے آنسوئوں کی روانی، روح سے بالیدگی اور قلم سے پرِ ہُما کی جنبش سے کام لیتے ہوئے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ نعت لکھوانے کے لیے اصرار اس لیے بھی نہیں کرنا چاہیے کہ اگر مخاطب کے دل میں انکار کی بغاوت آ جائے تو اسکے گنہگار ہونے میں خود مخاطب بھی شریک ہو جاتا ہے۔''
مگر عالی صاحب کی نعت نگاری کے حوالے سے امین راحت چغتائی لکھتے ہیں کہ''میں صدق وصفا اُگانا، ریگ زارِ حیات کو پھول پھول کرتا تبسم، دیے جلاتی شفیق پلکیں، خبر خساروں کے جنگلوں میں خیر خوشبو، فصل صبح آشنائی، لا مکاں کا آنکھ پتلی میں کِھلنا اور نور نہایا رستہ ایسی دلآویز اور رعایت لفظی سے آراستہ تراکیب فکر وفن دونوں کو ایسا سرور بخشتی ہیں کہ قاری بے اختیار پکار اٹھتا ہے، ''نگا ہے! یارسولؐ اللہ نگا ہے!''ایسے میں وہ اپنے خوبصورت خیالات کو الفاظ میں ڈھالتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
کب نعت قرینوں سے واقف ہے قلم عالیؔ
بس حسرتِ مدحت کو الفاظ میں ڈھالا ہے
''نور نہایا رستہ'' عالی صاحب کا پہلا نعتیہ مجموعہ ہے۔ اس شعری مجموعہ میں ان کی سب سے طویل نظم ''نور نہایا رستہ'' ہے جو ایک سو اشعار پر مشتمل ہیں۔اس کتاب کو ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی ہے۔ جبکہ اس کا سرورق دور حاضر کے معروف شاعر، ادیب اور لیجنڈ مصور اسلم کمال نے بڑی خوبصورتی اور مہارت سے بنایا ہے۔ جس کا انتساب انہوں نے تمام زمانوں اور کل جہاں کے نام کیا ہے۔ جبکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں بھی جہاں ہر چیز کی قیمت ڈبل سے ڈبل ہو رہی ہے وہاں عالی صاحب کی کتاب کی قیمت ایک روپیہ بھی نہیں ہے۔ جو ان کی بے نیازی کا بہت بڑا ثبوت ہے۔
بہرحال عالی صاحب بھٹکنے کی بجائے ''نور نہایا رستہ'' کی ڈگر پر چل نکلے ہیں۔ جہاں انہیں کوئی بھی مشکل یا آفت ان کا رستہ نہیں روک سکتی ،کیونکہ ان کی نعت نگاری اپنے متنوع اور جمیل رنگوں اور خوشبوئوں سے مسلسل ہمارے دل و دماغ کو معطر اور منور کر رہی ہے،جو یقینا ہمارے لیے اورعالی صاحب کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔