عشق حقیقی
محبت میں انسان محبوب کو مانتا ہے جبکہ عشق کے رموز ذرا مختلف ہوتے ہیں اس میں عاشق اپنی محبوب ہستی کی مانتا ہے
اللہ تعالیٰ کا نام اپنی زبان پر لاتے ہی اُس خداوند پاک سے عشق کرنے والی ہر ذات سکون کی جس کیفیت سے سرشار ہوتی ہے اُس کو الفاظ میں بیان کرنا اس دنیا کی کسی بھی زبان میں ممکن نہیں ہے۔
عشق ربِ کائنات سے ہو یا اُس کی تخلیق سے اچانک یا بیٹھے بیٹھائے کبھی بھی رونما نہیں ہوتا جب تک کہ عاشق آزمائشوں کی بھٹی میں جل جل کر تپ تپ کر ایک معمولی دھات سے کندن میں تبدیل نہیں ہوجاتا ہے۔خدا تعالیٰ کو ماننے والا ہر انسان اس عظیم ہستی سے محبت کرنے کا دعویدار ہے پر محبت اور عشق میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
محبت میں انسان محبوب کو مانتا ہے جبکہ عشق کے رموز ذرا مختلف ہوتے ہیں اس میں عاشق اپنی محبوب ہستی کی مانتا ہے۔ عشق اگر سمندر ہے تو محبت ایک دریا ہے جس کا پانی کئی مراحل طے کرکے گرتا آخر میں سمندر کے اندر ہی ہے۔ اپنے خالق کی خلق سے محبت درحقیقت عشقِ حقیقی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔
ہم انسان اس جہان فانی میں پیدا ہوتے ہیں۔ اپنی منشا کے مطابق یہاں زندگی گزارتے ہیں، دنیا کی چکاچوند کا مزا لیتے ہیں۔ اپنے لیے مسرت کا سامان اکٹھا کرتے ہیں۔ لڑکپن میں ہی بڑھاپے تک کی منصوبہ بندی کرلیتے ہیں اور اُس پر عملی جامہ پہنانے کے لیے محنت بھی شروع کردیتے ہیں۔
ہماری زندگی کی گاڑی خوشیوں کی ڈگر پر اپنی پوری آن، بان اور شان کے ساتھ رواں ہوتی ہے کہ اچانک کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے جو ہمارے وجود اور اُس کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ ہم عرش سے سیدھا فرش پر گر پڑتے ہیں اُس کے بعد ہم پہلے جیسے رہتے ہیں نہ ہماری زندگی۔عشق حقیقی پر صوفی شعراکا کلام بھی دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔
الف اللہ چنبے دی بوٹی' مرشد من وچ لاندا ہوا
جس گت اتے سوہنا راضی' اوہ گت سدا سکھاندا ہو
ہر دم یاد رکھے ہر ویلے' سوہنا اٹھدا بہاندا ہو
آپ سمجھ سمجھیندا باہو' آپے آپ ہو جاندا ہو
الف اللہ چنبے دی بو ٹی مرشد من وچ لائی ہوئی
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہر جائی ہوئی
اندر بوٹی مشک مچایا جان پھلن تے آئی ہو
جیوے مرشد کامل باہو رح حیں ایہ بوٹی لائی ہو
یہیں سے ہمارے عشق ِ حقیقی کے سفر کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ یہ سفر مشکل سہی پر لطف ہوتا ہے۔ اس راستے کے تمام قاعدے قانون نرالے ہیں۔ یہاں سکون خوشی پاکر نہیں اذیت سہہ کر ملتا ہے۔ انسان ان راہوں پر خود چل کر نہیں آتا بلکہ ہاتھ پکڑ کر لایا جاتا ہے۔ قرآنِ پاک میں سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۵۵۱ میں اللہ ربالعزت ارشاد فرماتے ہیں ''اور ضرور ہم تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور خوشخبری سنادو صبر کرنے والوں کو۔''
پیغمبر اسلامﷺ کا بھی فرمان ہے ''جب اللہ کسی بندے کو پسند کرتا ہے تو اُس پر آزمائش ڈالتا ہے۔'' ہم مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ سزا، جزا، خوشی، غم اور آزمائش اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں۔ وہی پاک ذات اپنے بندوں کو آزمانے اور اُن کے ایمان کو جانچنے کے لیے اُنھیں مشکل راستوں پر ڈال کر دُور بیٹھے اُن کے حوصلے، ہمت اور صبر کا امتحان لیتی ہے پر وہ اپنی مخلوق کو اُس مشکل راستے پر تن تنہا نہیں چھوڑتی بلکہ وقتاً فوقتاً اُسے اپنے اشارے دیتی رہتی ہے جو اُس سخت راہوں کو آسان بنانے میں اُن کو مدد فراہم کرتے ہیں۔
جس طرح ایک بچہ کورا اس دنیا میں آتا ہے بالکل اُسی طرح عشقِ حقیقی کی ڈگر پر بھی ہم اپنا پہلا قدم خواہ عمر کے جس بھی حصے میں رکھیں ہمارے دماغ کی سلیٹ ایک دم صاف اور کوری ہوتی ہے۔ دنیا انجان لگتی ہے، دنیا والے اجنبی اور اپنا آپ اس جہان کی سب سے بیکار شے۔ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات پر بھروسہ تو پورا ہوتا ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ آپ بے یقینی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ آپ کے چاروں جانب تاریکی پھیلی ہوئی ہوتی ہے اور آپ ڈرے سہمے بدلے ہوئے حالات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
عشق حقیقی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے قبل انسان کو کچھ سجھائی دیتا ہے نہ آگے کا کچھ دیکھاء بس اپنا وجود ایک غار میں پھنسا محسوس ہوتا ہے۔ جب جب وہ اُس غار سے باہر آنے کے لیے قدم بڑھاتا ہے لڑکھڑا کر گر پڑتا ہے۔ ایک بار، دو بار، تین بار اور لاتعداد بار پر ہر بار گِرنے پر کوئی غیبی طاقت اُس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کر دیتی ہے اور وہ اُس وقت سمجھ نہیں پارہا ہوتا ہے کہ ان سب کے پیچھے کون کارفرما ہے۔ دماغ مکمل طور پر سن ہوجاتا ہے اور زندگی پہاڑ جیسی طویل معلوم ہو رہی ہوتی ہے۔
خالق کی جانب سے عشق حقیقی کے لیے منتخب کردہ تخلیق افضل کو اُس وقت اپنی ہر سانس کے بعد دوسری سانس لینا بھاری لگ رہا ہوتا ہے۔ تب وہ اپنے خالق سے سوال کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اُس ذاتِ کبریائی کے سامنے روتی ہے گِڑگڑاتی ہے اور اپنی بے بسی کا اظہار کرتی ہے۔ زندگی کے اُس وہشت ناک موڑ سے آگے بڑھنے کو بے چین رہتی ہے اور اپنے حصے کی روشن صبح حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوتی ہے تب ہی اللہ تعالیٰ اُس کے لاشعور میں اپنے اشارے بھیجنا شروع کر دیتا ہے۔
اُس کے ساتھ ہی اُن اشاروں کو سمجھنے اور اُن کو ڈی-کوڈ کرنے کی عقل بھی عطا کرتا ہے۔ یہ اشارے انسان کی زندگی پر چھائی دھنددھلاہٹ کو ختم کرتے ہیں۔ جب وہ اپنے لاشعور میں خداوند کریم کے اُن اشاروں کے نزول کو محسوس کرنے لگ جاتا ہے اور اُن کی تشریح کرنا سیکھ جاتا ہے تو اُس کی اُن مشکل مسافتوں کی ساری تھکن منٹوں میں ختم ہو جاتی ہے، سر سجدہ شکر میں جھک جاتا ہے اور زبان سے صرف اور صرف الحمد اللہ ادا ہورہا ہوتا ہے۔
انسان کو اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا ہوتا ہے کہ اُس ربِ کائنات نے پورے عالم میں مجھ ناچیز کو عشقِ حقیقی کے قابل سمجھا اور جب بالآخر اُس کا یقین سے سامنا ہوتا ہے تو وہ راستہ جو آغاز میں اُسے کنکروں اور کانٹوں سے لیس معلوم ہورہا تھا اچانک روئی کی طرح نرم و ملائم لگنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اُس کا رشتہ عروج کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں اُسے ماضی کی سختیاں یاد رہتی ہیں نہ ہی اپنی بے بسی بس جو یاد رہتا ہے وہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے رشتے کی معراج اور عشقِ حقیقی میں ڈوبا ہوا اپنا پورا وجود۔
عشق ربِ کائنات سے ہو یا اُس کی تخلیق سے اچانک یا بیٹھے بیٹھائے کبھی بھی رونما نہیں ہوتا جب تک کہ عاشق آزمائشوں کی بھٹی میں جل جل کر تپ تپ کر ایک معمولی دھات سے کندن میں تبدیل نہیں ہوجاتا ہے۔خدا تعالیٰ کو ماننے والا ہر انسان اس عظیم ہستی سے محبت کرنے کا دعویدار ہے پر محبت اور عشق میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
محبت میں انسان محبوب کو مانتا ہے جبکہ عشق کے رموز ذرا مختلف ہوتے ہیں اس میں عاشق اپنی محبوب ہستی کی مانتا ہے۔ عشق اگر سمندر ہے تو محبت ایک دریا ہے جس کا پانی کئی مراحل طے کرکے گرتا آخر میں سمندر کے اندر ہی ہے۔ اپنے خالق کی خلق سے محبت درحقیقت عشقِ حقیقی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔
ہم انسان اس جہان فانی میں پیدا ہوتے ہیں۔ اپنی منشا کے مطابق یہاں زندگی گزارتے ہیں، دنیا کی چکاچوند کا مزا لیتے ہیں۔ اپنے لیے مسرت کا سامان اکٹھا کرتے ہیں۔ لڑکپن میں ہی بڑھاپے تک کی منصوبہ بندی کرلیتے ہیں اور اُس پر عملی جامہ پہنانے کے لیے محنت بھی شروع کردیتے ہیں۔
ہماری زندگی کی گاڑی خوشیوں کی ڈگر پر اپنی پوری آن، بان اور شان کے ساتھ رواں ہوتی ہے کہ اچانک کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے جو ہمارے وجود اور اُس کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ ہم عرش سے سیدھا فرش پر گر پڑتے ہیں اُس کے بعد ہم پہلے جیسے رہتے ہیں نہ ہماری زندگی۔عشق حقیقی پر صوفی شعراکا کلام بھی دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔
الف اللہ چنبے دی بوٹی' مرشد من وچ لاندا ہوا
جس گت اتے سوہنا راضی' اوہ گت سدا سکھاندا ہو
ہر دم یاد رکھے ہر ویلے' سوہنا اٹھدا بہاندا ہو
آپ سمجھ سمجھیندا باہو' آپے آپ ہو جاندا ہو
الف اللہ چنبے دی بو ٹی مرشد من وچ لائی ہوئی
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہر جائی ہوئی
اندر بوٹی مشک مچایا جان پھلن تے آئی ہو
جیوے مرشد کامل باہو رح حیں ایہ بوٹی لائی ہو
یہیں سے ہمارے عشق ِ حقیقی کے سفر کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ یہ سفر مشکل سہی پر لطف ہوتا ہے۔ اس راستے کے تمام قاعدے قانون نرالے ہیں۔ یہاں سکون خوشی پاکر نہیں اذیت سہہ کر ملتا ہے۔ انسان ان راہوں پر خود چل کر نہیں آتا بلکہ ہاتھ پکڑ کر لایا جاتا ہے۔ قرآنِ پاک میں سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۵۵۱ میں اللہ ربالعزت ارشاد فرماتے ہیں ''اور ضرور ہم تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور خوشخبری سنادو صبر کرنے والوں کو۔''
پیغمبر اسلامﷺ کا بھی فرمان ہے ''جب اللہ کسی بندے کو پسند کرتا ہے تو اُس پر آزمائش ڈالتا ہے۔'' ہم مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ سزا، جزا، خوشی، غم اور آزمائش اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں۔ وہی پاک ذات اپنے بندوں کو آزمانے اور اُن کے ایمان کو جانچنے کے لیے اُنھیں مشکل راستوں پر ڈال کر دُور بیٹھے اُن کے حوصلے، ہمت اور صبر کا امتحان لیتی ہے پر وہ اپنی مخلوق کو اُس مشکل راستے پر تن تنہا نہیں چھوڑتی بلکہ وقتاً فوقتاً اُسے اپنے اشارے دیتی رہتی ہے جو اُس سخت راہوں کو آسان بنانے میں اُن کو مدد فراہم کرتے ہیں۔
جس طرح ایک بچہ کورا اس دنیا میں آتا ہے بالکل اُسی طرح عشقِ حقیقی کی ڈگر پر بھی ہم اپنا پہلا قدم خواہ عمر کے جس بھی حصے میں رکھیں ہمارے دماغ کی سلیٹ ایک دم صاف اور کوری ہوتی ہے۔ دنیا انجان لگتی ہے، دنیا والے اجنبی اور اپنا آپ اس جہان کی سب سے بیکار شے۔ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات پر بھروسہ تو پورا ہوتا ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ آپ بے یقینی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ آپ کے چاروں جانب تاریکی پھیلی ہوئی ہوتی ہے اور آپ ڈرے سہمے بدلے ہوئے حالات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
عشق حقیقی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے قبل انسان کو کچھ سجھائی دیتا ہے نہ آگے کا کچھ دیکھاء بس اپنا وجود ایک غار میں پھنسا محسوس ہوتا ہے۔ جب جب وہ اُس غار سے باہر آنے کے لیے قدم بڑھاتا ہے لڑکھڑا کر گر پڑتا ہے۔ ایک بار، دو بار، تین بار اور لاتعداد بار پر ہر بار گِرنے پر کوئی غیبی طاقت اُس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کر دیتی ہے اور وہ اُس وقت سمجھ نہیں پارہا ہوتا ہے کہ ان سب کے پیچھے کون کارفرما ہے۔ دماغ مکمل طور پر سن ہوجاتا ہے اور زندگی پہاڑ جیسی طویل معلوم ہو رہی ہوتی ہے۔
خالق کی جانب سے عشق حقیقی کے لیے منتخب کردہ تخلیق افضل کو اُس وقت اپنی ہر سانس کے بعد دوسری سانس لینا بھاری لگ رہا ہوتا ہے۔ تب وہ اپنے خالق سے سوال کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اُس ذاتِ کبریائی کے سامنے روتی ہے گِڑگڑاتی ہے اور اپنی بے بسی کا اظہار کرتی ہے۔ زندگی کے اُس وہشت ناک موڑ سے آگے بڑھنے کو بے چین رہتی ہے اور اپنے حصے کی روشن صبح حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوتی ہے تب ہی اللہ تعالیٰ اُس کے لاشعور میں اپنے اشارے بھیجنا شروع کر دیتا ہے۔
اُس کے ساتھ ہی اُن اشاروں کو سمجھنے اور اُن کو ڈی-کوڈ کرنے کی عقل بھی عطا کرتا ہے۔ یہ اشارے انسان کی زندگی پر چھائی دھنددھلاہٹ کو ختم کرتے ہیں۔ جب وہ اپنے لاشعور میں خداوند کریم کے اُن اشاروں کے نزول کو محسوس کرنے لگ جاتا ہے اور اُن کی تشریح کرنا سیکھ جاتا ہے تو اُس کی اُن مشکل مسافتوں کی ساری تھکن منٹوں میں ختم ہو جاتی ہے، سر سجدہ شکر میں جھک جاتا ہے اور زبان سے صرف اور صرف الحمد اللہ ادا ہورہا ہوتا ہے۔
انسان کو اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا ہوتا ہے کہ اُس ربِ کائنات نے پورے عالم میں مجھ ناچیز کو عشقِ حقیقی کے قابل سمجھا اور جب بالآخر اُس کا یقین سے سامنا ہوتا ہے تو وہ راستہ جو آغاز میں اُسے کنکروں اور کانٹوں سے لیس معلوم ہورہا تھا اچانک روئی کی طرح نرم و ملائم لگنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اُس کا رشتہ عروج کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں اُسے ماضی کی سختیاں یاد رہتی ہیں نہ ہی اپنی بے بسی بس جو یاد رہتا ہے وہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے رشتے کی معراج اور عشقِ حقیقی میں ڈوبا ہوا اپنا پورا وجود۔